نیب آرڈیننس اور صدر کا کردار
قانون کا مسودہ تیار کرنے والے ماہرین نے کابینہ، اہم وزارتوں اور خودمختار اداروں کو نیب کے دائرہ کار سے خارج کیا ہے۔
وفاقی حکومت نے پارلیمانی نظام کی حرمت کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ قومی احتساب بیورو کے ترمیمی آرڈیننس میں اب وزیر اعظم کے بجائے صدر پاکستان حزب اختلاف کے قائد سے نیب کے نئے چیئرمین کے تقرر کے بارے میں مشاورت کریں گے۔
اس متنازعہ آرڈیننس کے نافذ ہونے کے بعد نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اس وقت اپنی آئینی مدت ختم ہونے کے باوجود اس وقت تک اس عہدہ پر تعینات رہیں گے جب تک نئے چیئرمین کا تقرر نہیں ہو جاتا۔
اس مسودہ قانون کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر اور قائد حزب اختلاف میں کسی نام پر اتفاق نہ ہوا تو یہ معاملہ پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی میں جائے گا۔ اس آرڈیننس کے تحت پراسیکیوٹر جنرل کے اختیارات میں خاصا اضافہ کیا گیا ہے۔ اب نیب کے سب سے بڑے وکیل کا کردار خاصا اہم ہوگیاہے۔
بدعنوانی کے کسی ریفرنس کو واپس لینے کے مسئلہ پر پروسیکیوٹر جنرل کی رائے انتہائی اہم ہوگی۔ اس قانون کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی جس میں حزب اختلاف کی آدھی نمائندگی ہوگی یہ کمیٹی صدر اور قائد حزب اختلاف کو چیئرمین کے تقرر کے لیے مشاورت میں اہم کردار ادا کریں گے، اب احتساب عدالتیں ملزمان کی ضمانتیں منظور کرسکیں گی۔
ایڈیشنل سیشن جج کے علاوہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو بھی احتساب عدالتوں کا جج مقرر کیا جاسکے گا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اہم وزارتوں اور وفاقی کابینہ کو نیب کے دائرہ سے خارج کردیا ہے۔
احتساب کے قانون کے تحت چیئرمین کے عہدہ کی میعاد ختم ہونے کے بعد وہ اپنے عہدہ پر فائز نہیں رہ سکتے تھے مگر اب اس کا فائدہ موجودہ چیئرمین کو ہوگا۔ وفاقی حکومت اور ان کا انتخاب کرنے والی مقتدرہ موجودہ چیئرمین کی کارکردگی سے خاصے مطمئن ہیں۔
گزشتہ تین برسوں میں جب بھی نیب نے کسی مسلم لیگی رہنما کے خلاف ریفرنس کی تیاری شروع کی تو بعض وفاقی وزراء جن میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اور فواد چوہدری وغیرہ شامل ہیں ۔حزب اختلاف کے مختلف رہنماؤں جن میں مریم نواز، شہباز شریف اور شہباز شریف وغیرہ شامل ہیں کی متوقع گرفتاریوں کے بارے میں بیان جاری کر دیتے تھے اور چند دنوں بعد یہ رہنما گرفتار ہوجاتے۔ مسلم لیگ ن کے جس رہنما نے حکومت کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا نیب نے چند دنوں بعد اسے گرفتار کرلیا۔ اسی طرح تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں کو نیب نے بدعنوانی کے کیس میں گرفتار کیا مگر نیب نے انھیں جلد کلین چٹ دیدی۔
وزیر اعظم عمران خان نے شوگر مافیا کے خلاف کارروائی کے احکامات دیے۔ یہ خبریں عام ہوئیں کہ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین اور ان کے صاحبزادہ علی ترین جلد گرفتار ہونے والے ہیں مگر ان کے خلاف کچھ نہ ہوا۔ وزیراعظم عمران خان ہر تیسرے دن شوگر مافیا کو کوستے رہے مگر کوئی کارروائی نہ ہوئی۔
گزشتہ ہفتہ پنڈورا اسکینڈل افشا ہوا۔ 700 پاکستانی شہریوں کی آف شور کمپنیوں کی فہرستیں شائع ہوئیں، جن کے بارے میں تحقیق کرنے والے صحافیوں نے لکھا کہ ان میں سے بیشتر افراد اپنی آف شور کمپنیوں کے بارے میں تسلی بخش وضاحت نہیں دے سکے، مگر نیب اتنے اہم اسکینڈل پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔ نیب نے ایسا ہی کردار پاناما اسکینڈل میں ملوث لوگوں کے خلاف ادا کیا۔ صرف نواز شریف اور ان کے خاندان کو رگڑا دیا گیا۔
اس آرڈیننس کی ایک بہت بڑی خامی یہ ہے کہ وزیر اعظم نامعلوم وجوہات کی بناء پر نیب کے چیئرمین کے تقرر کے لیے قائد حزب اختلاف سے مشاورت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وزیر قانون کی یہ دلیل ہے کہ قائد حزب اختلاف کے خلاف نیب کئی مقدمات میں تحقیقات کررہا ہے۔
اس لیے ان سے اس معاملہ پر مشاورت نہیں ہوسکتی مگر قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو کسی عدالت نے سزا نہیں دی ، وہ بدستور قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ بعض وکلاء کہتے ہیں کہ اس دور میں جس طرح حکومت اور نیب کے تعلقات نظر آتے ہیں تو اگر شہباز شریف مشاورت کے حق سے دستبردار ہوجائیں تو پھر حکومت کو یہ پوشیدہ ہتھیار مل جائے گا کہ قائد حزب اختلاف کے خلاف بدعنوانی کے الزامات لگائے جائیں۔ نیب میں ریفرنس بھیجا جائے تو وہ عملی طور پر نااہل ہوجائیں گے۔
پارلیمانی نظام میں چیف ایگزیکٹو وزیر اعظم ہوتا ہے، صدر کا کردار محض نمائشی ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف نے آئین میں ترمیم کر کے صدر کو اسمبلیاں توڑنے کے اختیارات دیدیے تھے جس کی بناء پر کوئی منتخب حکومت اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکی تھی، 18ویں ترمیم میں صدر کا یہ اختیار ختم ہوا تھا۔
اب جب وزیر اعظم صدر کے اختیارات میں اضافہ کررہے ہیں تو مستقبل میں یہ صورتحال خطرناک صورت اختیار کرے گی۔ جب پارلیمانی نظام میں کوئی فرد صدر منتخب ہوتا ہے تو فوری طور پر اپنی سیاسی جماعت سے مستعفی ہوجاتا ہے، یوں وہ بظاہر غیر جانبدار ہوجاتا ہے اور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ صدر پاکستان کسی سیاسی جماعت کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ حتیٰ کہ وفاقی کابینہ کی روداد صدر کے سامنے پیش کی جاتی ہے تو وہ علامتی طور پر اس کی توثیق کرتے ہیں مگر اس روداد کو واپس نہیں کرتے، اس ترمیم سے یہ روایت ختم ہوجائے گی۔
اس قانون کا مسودہ تیار کرنے والے ماہرین نے کابینہ، اہم وزارتوں اور خودمختار اداروں کو نیب کے دائرہ کار سے خارج کیا ہے جس کا فائدہ حزب اختلاف کی دونوںجماعتوں کے اہم اراکین کو ہوگا۔ قانون کے مشیر بابر اعوان نے حزب اختلاف کے لیے اس شق کے لیے کشش کا ایک بیان میں ذکر کیا ہے۔ شاید اس مسودہ کی یہ بھی کشش ہے کہ حزب اختلاف نے فوری طور پر عدالت میں جانے کے بجائے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے عرضداشت اسپیکر کو دی ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے بھی توجہ دلائی ہے مگر ان کا واضح مؤقف ہے کہ یہ قانون انصاف کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ حزب اختلاف کی کسی جماعت نے محض اپنے چند رہنماؤں کو مقدمات سے بچانے کے لیے اس قانون کو قبول کیا تو چند ہی مہینوں بعد یہ ان کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔
حکومت نے اس شق کو شامل کرکے اپنے بیانیہ سے انحراف کیا ہے۔ اس ترمیم سے تحریک انصاف کا کرپشن کے خلاف بیانیہ تاریخ کے صفحات میں کھوگیا ہے اور اس قانون کے نفاذ کے بعد عوام کا احتساب پر اعتماد مزید کمزور ہوجائے گا۔
اس متنازعہ آرڈیننس کے نافذ ہونے کے بعد نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اس وقت اپنی آئینی مدت ختم ہونے کے باوجود اس وقت تک اس عہدہ پر تعینات رہیں گے جب تک نئے چیئرمین کا تقرر نہیں ہو جاتا۔
اس مسودہ قانون کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر اور قائد حزب اختلاف میں کسی نام پر اتفاق نہ ہوا تو یہ معاملہ پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی میں جائے گا۔ اس آرڈیننس کے تحت پراسیکیوٹر جنرل کے اختیارات میں خاصا اضافہ کیا گیا ہے۔ اب نیب کے سب سے بڑے وکیل کا کردار خاصا اہم ہوگیاہے۔
بدعنوانی کے کسی ریفرنس کو واپس لینے کے مسئلہ پر پروسیکیوٹر جنرل کی رائے انتہائی اہم ہوگی۔ اس قانون کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی جس میں حزب اختلاف کی آدھی نمائندگی ہوگی یہ کمیٹی صدر اور قائد حزب اختلاف کو چیئرمین کے تقرر کے لیے مشاورت میں اہم کردار ادا کریں گے، اب احتساب عدالتیں ملزمان کی ضمانتیں منظور کرسکیں گی۔
ایڈیشنل سیشن جج کے علاوہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو بھی احتساب عدالتوں کا جج مقرر کیا جاسکے گا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اہم وزارتوں اور وفاقی کابینہ کو نیب کے دائرہ سے خارج کردیا ہے۔
احتساب کے قانون کے تحت چیئرمین کے عہدہ کی میعاد ختم ہونے کے بعد وہ اپنے عہدہ پر فائز نہیں رہ سکتے تھے مگر اب اس کا فائدہ موجودہ چیئرمین کو ہوگا۔ وفاقی حکومت اور ان کا انتخاب کرنے والی مقتدرہ موجودہ چیئرمین کی کارکردگی سے خاصے مطمئن ہیں۔
گزشتہ تین برسوں میں جب بھی نیب نے کسی مسلم لیگی رہنما کے خلاف ریفرنس کی تیاری شروع کی تو بعض وفاقی وزراء جن میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اور فواد چوہدری وغیرہ شامل ہیں ۔حزب اختلاف کے مختلف رہنماؤں جن میں مریم نواز، شہباز شریف اور شہباز شریف وغیرہ شامل ہیں کی متوقع گرفتاریوں کے بارے میں بیان جاری کر دیتے تھے اور چند دنوں بعد یہ رہنما گرفتار ہوجاتے۔ مسلم لیگ ن کے جس رہنما نے حکومت کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا نیب نے چند دنوں بعد اسے گرفتار کرلیا۔ اسی طرح تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں کو نیب نے بدعنوانی کے کیس میں گرفتار کیا مگر نیب نے انھیں جلد کلین چٹ دیدی۔
وزیر اعظم عمران خان نے شوگر مافیا کے خلاف کارروائی کے احکامات دیے۔ یہ خبریں عام ہوئیں کہ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین اور ان کے صاحبزادہ علی ترین جلد گرفتار ہونے والے ہیں مگر ان کے خلاف کچھ نہ ہوا۔ وزیراعظم عمران خان ہر تیسرے دن شوگر مافیا کو کوستے رہے مگر کوئی کارروائی نہ ہوئی۔
گزشتہ ہفتہ پنڈورا اسکینڈل افشا ہوا۔ 700 پاکستانی شہریوں کی آف شور کمپنیوں کی فہرستیں شائع ہوئیں، جن کے بارے میں تحقیق کرنے والے صحافیوں نے لکھا کہ ان میں سے بیشتر افراد اپنی آف شور کمپنیوں کے بارے میں تسلی بخش وضاحت نہیں دے سکے، مگر نیب اتنے اہم اسکینڈل پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔ نیب نے ایسا ہی کردار پاناما اسکینڈل میں ملوث لوگوں کے خلاف ادا کیا۔ صرف نواز شریف اور ان کے خاندان کو رگڑا دیا گیا۔
اس آرڈیننس کی ایک بہت بڑی خامی یہ ہے کہ وزیر اعظم نامعلوم وجوہات کی بناء پر نیب کے چیئرمین کے تقرر کے لیے قائد حزب اختلاف سے مشاورت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وزیر قانون کی یہ دلیل ہے کہ قائد حزب اختلاف کے خلاف نیب کئی مقدمات میں تحقیقات کررہا ہے۔
اس لیے ان سے اس معاملہ پر مشاورت نہیں ہوسکتی مگر قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو کسی عدالت نے سزا نہیں دی ، وہ بدستور قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ بعض وکلاء کہتے ہیں کہ اس دور میں جس طرح حکومت اور نیب کے تعلقات نظر آتے ہیں تو اگر شہباز شریف مشاورت کے حق سے دستبردار ہوجائیں تو پھر حکومت کو یہ پوشیدہ ہتھیار مل جائے گا کہ قائد حزب اختلاف کے خلاف بدعنوانی کے الزامات لگائے جائیں۔ نیب میں ریفرنس بھیجا جائے تو وہ عملی طور پر نااہل ہوجائیں گے۔
پارلیمانی نظام میں چیف ایگزیکٹو وزیر اعظم ہوتا ہے، صدر کا کردار محض نمائشی ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف نے آئین میں ترمیم کر کے صدر کو اسمبلیاں توڑنے کے اختیارات دیدیے تھے جس کی بناء پر کوئی منتخب حکومت اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکی تھی، 18ویں ترمیم میں صدر کا یہ اختیار ختم ہوا تھا۔
اب جب وزیر اعظم صدر کے اختیارات میں اضافہ کررہے ہیں تو مستقبل میں یہ صورتحال خطرناک صورت اختیار کرے گی۔ جب پارلیمانی نظام میں کوئی فرد صدر منتخب ہوتا ہے تو فوری طور پر اپنی سیاسی جماعت سے مستعفی ہوجاتا ہے، یوں وہ بظاہر غیر جانبدار ہوجاتا ہے اور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ صدر پاکستان کسی سیاسی جماعت کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ حتیٰ کہ وفاقی کابینہ کی روداد صدر کے سامنے پیش کی جاتی ہے تو وہ علامتی طور پر اس کی توثیق کرتے ہیں مگر اس روداد کو واپس نہیں کرتے، اس ترمیم سے یہ روایت ختم ہوجائے گی۔
اس قانون کا مسودہ تیار کرنے والے ماہرین نے کابینہ، اہم وزارتوں اور خودمختار اداروں کو نیب کے دائرہ کار سے خارج کیا ہے جس کا فائدہ حزب اختلاف کی دونوںجماعتوں کے اہم اراکین کو ہوگا۔ قانون کے مشیر بابر اعوان نے حزب اختلاف کے لیے اس شق کے لیے کشش کا ایک بیان میں ذکر کیا ہے۔ شاید اس مسودہ کی یہ بھی کشش ہے کہ حزب اختلاف نے فوری طور پر عدالت میں جانے کے بجائے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے عرضداشت اسپیکر کو دی ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے بھی توجہ دلائی ہے مگر ان کا واضح مؤقف ہے کہ یہ قانون انصاف کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ حزب اختلاف کی کسی جماعت نے محض اپنے چند رہنماؤں کو مقدمات سے بچانے کے لیے اس قانون کو قبول کیا تو چند ہی مہینوں بعد یہ ان کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔
حکومت نے اس شق کو شامل کرکے اپنے بیانیہ سے انحراف کیا ہے۔ اس ترمیم سے تحریک انصاف کا کرپشن کے خلاف بیانیہ تاریخ کے صفحات میں کھوگیا ہے اور اس قانون کے نفاذ کے بعد عوام کا احتساب پر اعتماد مزید کمزور ہوجائے گا۔