مجاہد ایٹمی سائنسدان کا سانحہ ارتحال
آج کے اسلحوں کا سردار ایٹم بم ہے تو جس نے یہ بنایا وہ امت کا محسن ہوا۔
قرآن کریم فرقان حمید کی سورۃ النساء آیت نمبر 95 میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے ''اے مسلمانو! اگر تم دنیاوی زندگی کی محبت میں محو ہو کر جہاد کے لیے نہ نکلو گے تو اللہ تمہیں ایک دردناک سزا دے گا اور تمہارے بدلے کوئی اور قوم پیدا کر دے گا اور تم اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گے۔'' جہاد کیوں کیا جاتا ہے؟ اس لیے کیا جاتا ہے کہ کفار کا زور ٹوٹ جائے اور وہ اسلامی ممالک پر چڑھ دوڑنے کی ہمت نہ کر پائیں۔
پاکستان کو دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں شامل کرانے کا سہرا بلا شک و شبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سر ہے، آج پاکستان اگر اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے اور اس مملکت خداداد کا دفاع ناقابل تسخیر ہے تو یہ اسی مرد قلندر کے مرہون منت ہے۔ اس مجاہد سائنسدان کی گود سے گور تک کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان 27 اپریل 1936 کو بھوپال کے ایک پشتون گھرانے کے یوسفزئی قبیلے میں پیدا ہوئے، میرے سمیت ہر یوسفزئی کو فخر ہے کہ ہمارے ہم قبیلہ تھے۔ انھوں نے وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
جب 1947 میں پاکستان معرض وجود میں آیا تو ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا اور کراچی میں بسیرا کیا۔ کراچی یونیورسٹی ان کی مادر علمی ٹھہری جہاں سے انھوں نے فزکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اپنا رخت سفر باندھ کر یورپ چلے گئے۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان نے ہالینڈ کی یونیورسٹی سے ماسٹرز آف سائنس بعد ازاں بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے کم و بیش 15برس یورپ کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھایا۔
1976میں انھیں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پاکستان لائے، بھٹو صاحب انھیں ایک عظیم مشن کے لیے پاکستان لائے تھے کیونکہ 1971 میں دشمن کے بزدلانہ وار نے پاکستان کو دو لخت کردیا تھا اور سقوط ڈھاکہ کو ابھی چند برس ہی گزرے تھے مگر اس کے زخم ابھی تک تر و تازہ تھے۔ اسی لیے بھٹو صاحب باقی ماندہ ملک کو مستقبل میں دشمن کے کسی بھی وار سے محفوظ بنانا چاہتے تھے اسی مقصد کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان لایا گیا تھا۔
ڈاکٹر خان یورپ کی چکا چوند زندگی کو چھوڑ کر محض وطن کی محبت میں پاکستان پیشہ ورانہ جہاد کے لیے آگئے، یہ اپنے وطن کے لیے ان کی عظیم و بے مثال قربانی تھی اور مجاہدانہ کردار تھا۔ پاکستان واپسی پر انھوں نے ایٹمی پروگرام پر کام شروع کیا۔
یکم مئی 1981کو صدر جنرل ضیاء الحق نے انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کا نام تبدیل کرکے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا۔ یہ ایک مجاہد سائنسدان کو ان کی زندگی میں ملنے والا بہت بڑا اعزاز تھا۔ اس ادارے نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت میں یورینیم افزودگی میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ انھوں نے جس عظیم مشن کی ذمے داری سنبھالی اس کے بعد انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا جس کا ذکر پھر کبھی کریں گے۔
ڈاکٹر خان نے اپنی تمام تر توانائیاں ایٹمی پروگرام پر لگائیں اور محض آٹھ سال کی قلیل مدت میں ایٹمی پلانٹ نصب کرکے نامور نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ مبینہ طور پر انھوں نے ضیاء دور میں ہی ایٹم بم بنا لیا تھا اور یہ ایٹم بم اتنا جدید تھا کہ اسے کسی تجربے کی ضرورت نہیں تھی تاہم بھارت پاکستان کے حوالے سے گھات لگائے بیٹھا تھا، وہ 1971 کی طرح ایک بار پر پاکستان پر وار کرنے کی تیاری میں مصروف تھا۔11 مئی 1998کو جب انڈیا نے پوکھران میں تین ایٹمی دھماکے کیے تو اس کے فوراً بعد دباؤ پاکستانی حکومت اورفیصلہ سازوں پر آگیا۔
یہ دو طرفہ دباؤ تھا، اندرونی اور بیرونی۔ عوام تھے کہ انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کا فوری جواب چاہتے تھے، اور دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کو کسی بھی قیمت پرایسا کرنے سے باز رکھنا چاہتی تھیں۔ پاکستانی حکمران ابھی اسی شش و پنج میں تھے کہ انڈیا نے 13 مئی کو دو مزید دھماکے کر دیے۔
اب پاکستان پوری طرح بھارت کے دباؤ میں تھا اور اس بات کا امکان تھا کہ جواب میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے نہ کیے تو بھارت پاکستان پر حملہ کردے گا۔ اس دوران ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کو دھماکے کرنے کا مشورہ دیا، اور 28 مئی 1998 کو چاغی کے مقام پر تین بج کر 16 منٹ پر بٹن دبایا گیا جس کے بعد چھ مراحل میں دھماکوں کا خود کار عمل شروع ہوا۔ پاکستان اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔ ہمارے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارت اس قابل نہیں رہا کہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔
ڈاکٹر خان راسخ العقیدہ مسلمان اور محب وطن پاکستانی تھے لیکن بدقسمتی سے مشرف دور میں جب ایران کو سینٹری فیوجز دینے کا معاملہ سامنے آیا تو الزامات ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر لگے بلکہ ان سے اعتراف بھی کرایا گیا۔ انھیں الزامات کے باعث مشرف حکومت نے انھیں زیر عتاب رکھا اور نظر بند کیا جس پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان شدید نالاں تھے۔ وہ کہتے تھے مجھے بزور طاقت مجرم بنایا گیا، عوام جانتے ہیں کہ غدار کون اور محب وطن کون ہیں؟
میرے کزن سبزعلی خان پرائڈ آف پرفارمنس اٹامک انرجی کمیشن کی کور ٹیم کا حصہ رہے، ان کی وساطت سے میرا اٹامک انرجی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر انور علی صاحب سے تعلق بنا تو ان کی وساطت سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ایک ملاقات ہوئی، اس گفتگو کو بعد ازاں قلم بند کیا لیکن بدقسمتی سے مجھے میری وہ تحریر مل نہیں رہی۔
اس ملاقات میں ڈاکٹر خان کے دکھ اور رنج نے بحیثیت پاکستانی مجھے اس وقت بھی شرمندہ کیا اور شاید پوری زندگی یہ ملال رہے گا۔ کیونکہ جس بھونڈے اور توہین آمیز انداز میں پرویز مشرف نے ان کو ڈیل کیا تھا پوری قوم کا سر شرم سے جھکایا تھا اس ملک کے فوائد و ثمرات ہر دور میں حکمران سمیٹتے ہیں، دکھ درد اور اذیت عوام کے حصے میں آتی ہے، بعض اوقات باقاعدہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک صرف حکمرانوں کا ہے اور عوام تو بس دلہن کے ساتھ میکے سے آئے ہوئے خادمین ہیں۔
عبدالقدیر خان ان حکمرانوں کا حقیقی محسن تھا کیونکہ وہ نہ ہوتے تو شاید ایٹم بم بھی نہ ہوتا اور شاید پاکستان بھی نہ ہوتا یا شاید پورا نہیںہوتا تو یہ مملکت جس کو ہر حکمران باپ کی جاگیر سمجھتا ہے اس کے محسن کو ان کو اپنے سروں پر بٹھانا چاہیے تھا مگر جنرل ضیاء الحق شہید کے بعد کسی حکمران نے ان کو ان کا حقیقی مقام نہیں دیا اور پرویز مشرف نے تو تمام اخلاقی حدود پار کی تھیں، موجودہ حکمران تو ان کے زندگی میں ہی ان سے شراکت سے لاتعلق رہے جس کا شکوہ ڈاکٹر خان نے وائرل کلپ میں کیا ہے اور مرنے کے بعد صدر یا وزیر اعظم کو جنازے میں شرکت کی توفیق بھی نہیں ہوئی۔
مگر شکر الحمدللہ پاکستانی عوام نے ہمیشہ ڈاکٹر خان کو اپنا محسن مانا، کوئی حکمران مانے یا نہ مانے وہ تا روز قیامت صرف ہمارا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا محسن رہے گا کیونکہ نبی اکرمﷺ کی احادیث میں کی گئی پیشگوئیاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ غزوہ ہند ہو یا امام مہدی کی نصرت کے لیے خراسان سے نکلنے والا لشکر اس میں انشاء اللہ پاکستان شامل ہوگا اور اس میں فتح ہماری ہوگی۔
یہ اسباب کی دنیا ہے اور ہمیں جنگ کے گھوڑے (جنگی ساز و سامان ) تیار رکھنے کا حکم ہے اور آج کے اسلحوں کا سردار ایٹم بم ہے تو جس نے یہ بنایا وہ امت کا محسن ہوا اور انشاء اللہ یہی ایٹم بم ان کے لیے روز محشر سرخروئی کا باعث اور نبی اکرم کی شفاعت کا سبب بنے گا۔
گزشتہ دنوں محسن پاکستان مجاہد اعظم ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس دار فانی سے کوچ کر گئے، خیبر سے کراچی تک ہر گاؤں اور شہر کے مساجد و مدارس میں ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی ہو۔ اللہ تبارک وتعالی ان کے درجات بلند فرمائے اور ہماری افواج اور پوری قوم کو کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان پر مر مٹنے کے لیے تیار رکھے۔
پاکستان کو دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں شامل کرانے کا سہرا بلا شک و شبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سر ہے، آج پاکستان اگر اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے اور اس مملکت خداداد کا دفاع ناقابل تسخیر ہے تو یہ اسی مرد قلندر کے مرہون منت ہے۔ اس مجاہد سائنسدان کی گود سے گور تک کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان 27 اپریل 1936 کو بھوپال کے ایک پشتون گھرانے کے یوسفزئی قبیلے میں پیدا ہوئے، میرے سمیت ہر یوسفزئی کو فخر ہے کہ ہمارے ہم قبیلہ تھے۔ انھوں نے وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
جب 1947 میں پاکستان معرض وجود میں آیا تو ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا اور کراچی میں بسیرا کیا۔ کراچی یونیورسٹی ان کی مادر علمی ٹھہری جہاں سے انھوں نے فزکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اپنا رخت سفر باندھ کر یورپ چلے گئے۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان نے ہالینڈ کی یونیورسٹی سے ماسٹرز آف سائنس بعد ازاں بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے کم و بیش 15برس یورپ کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھایا۔
1976میں انھیں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پاکستان لائے، بھٹو صاحب انھیں ایک عظیم مشن کے لیے پاکستان لائے تھے کیونکہ 1971 میں دشمن کے بزدلانہ وار نے پاکستان کو دو لخت کردیا تھا اور سقوط ڈھاکہ کو ابھی چند برس ہی گزرے تھے مگر اس کے زخم ابھی تک تر و تازہ تھے۔ اسی لیے بھٹو صاحب باقی ماندہ ملک کو مستقبل میں دشمن کے کسی بھی وار سے محفوظ بنانا چاہتے تھے اسی مقصد کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان لایا گیا تھا۔
ڈاکٹر خان یورپ کی چکا چوند زندگی کو چھوڑ کر محض وطن کی محبت میں پاکستان پیشہ ورانہ جہاد کے لیے آگئے، یہ اپنے وطن کے لیے ان کی عظیم و بے مثال قربانی تھی اور مجاہدانہ کردار تھا۔ پاکستان واپسی پر انھوں نے ایٹمی پروگرام پر کام شروع کیا۔
یکم مئی 1981کو صدر جنرل ضیاء الحق نے انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کا نام تبدیل کرکے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا۔ یہ ایک مجاہد سائنسدان کو ان کی زندگی میں ملنے والا بہت بڑا اعزاز تھا۔ اس ادارے نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت میں یورینیم افزودگی میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ انھوں نے جس عظیم مشن کی ذمے داری سنبھالی اس کے بعد انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا جس کا ذکر پھر کبھی کریں گے۔
ڈاکٹر خان نے اپنی تمام تر توانائیاں ایٹمی پروگرام پر لگائیں اور محض آٹھ سال کی قلیل مدت میں ایٹمی پلانٹ نصب کرکے نامور نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ مبینہ طور پر انھوں نے ضیاء دور میں ہی ایٹم بم بنا لیا تھا اور یہ ایٹم بم اتنا جدید تھا کہ اسے کسی تجربے کی ضرورت نہیں تھی تاہم بھارت پاکستان کے حوالے سے گھات لگائے بیٹھا تھا، وہ 1971 کی طرح ایک بار پر پاکستان پر وار کرنے کی تیاری میں مصروف تھا۔11 مئی 1998کو جب انڈیا نے پوکھران میں تین ایٹمی دھماکے کیے تو اس کے فوراً بعد دباؤ پاکستانی حکومت اورفیصلہ سازوں پر آگیا۔
یہ دو طرفہ دباؤ تھا، اندرونی اور بیرونی۔ عوام تھے کہ انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کا فوری جواب چاہتے تھے، اور دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کو کسی بھی قیمت پرایسا کرنے سے باز رکھنا چاہتی تھیں۔ پاکستانی حکمران ابھی اسی شش و پنج میں تھے کہ انڈیا نے 13 مئی کو دو مزید دھماکے کر دیے۔
اب پاکستان پوری طرح بھارت کے دباؤ میں تھا اور اس بات کا امکان تھا کہ جواب میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے نہ کیے تو بھارت پاکستان پر حملہ کردے گا۔ اس دوران ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کو دھماکے کرنے کا مشورہ دیا، اور 28 مئی 1998 کو چاغی کے مقام پر تین بج کر 16 منٹ پر بٹن دبایا گیا جس کے بعد چھ مراحل میں دھماکوں کا خود کار عمل شروع ہوا۔ پاکستان اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔ ہمارے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارت اس قابل نہیں رہا کہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔
ڈاکٹر خان راسخ العقیدہ مسلمان اور محب وطن پاکستانی تھے لیکن بدقسمتی سے مشرف دور میں جب ایران کو سینٹری فیوجز دینے کا معاملہ سامنے آیا تو الزامات ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر لگے بلکہ ان سے اعتراف بھی کرایا گیا۔ انھیں الزامات کے باعث مشرف حکومت نے انھیں زیر عتاب رکھا اور نظر بند کیا جس پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان شدید نالاں تھے۔ وہ کہتے تھے مجھے بزور طاقت مجرم بنایا گیا، عوام جانتے ہیں کہ غدار کون اور محب وطن کون ہیں؟
میرے کزن سبزعلی خان پرائڈ آف پرفارمنس اٹامک انرجی کمیشن کی کور ٹیم کا حصہ رہے، ان کی وساطت سے میرا اٹامک انرجی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر انور علی صاحب سے تعلق بنا تو ان کی وساطت سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ایک ملاقات ہوئی، اس گفتگو کو بعد ازاں قلم بند کیا لیکن بدقسمتی سے مجھے میری وہ تحریر مل نہیں رہی۔
اس ملاقات میں ڈاکٹر خان کے دکھ اور رنج نے بحیثیت پاکستانی مجھے اس وقت بھی شرمندہ کیا اور شاید پوری زندگی یہ ملال رہے گا۔ کیونکہ جس بھونڈے اور توہین آمیز انداز میں پرویز مشرف نے ان کو ڈیل کیا تھا پوری قوم کا سر شرم سے جھکایا تھا اس ملک کے فوائد و ثمرات ہر دور میں حکمران سمیٹتے ہیں، دکھ درد اور اذیت عوام کے حصے میں آتی ہے، بعض اوقات باقاعدہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک صرف حکمرانوں کا ہے اور عوام تو بس دلہن کے ساتھ میکے سے آئے ہوئے خادمین ہیں۔
عبدالقدیر خان ان حکمرانوں کا حقیقی محسن تھا کیونکہ وہ نہ ہوتے تو شاید ایٹم بم بھی نہ ہوتا اور شاید پاکستان بھی نہ ہوتا یا شاید پورا نہیںہوتا تو یہ مملکت جس کو ہر حکمران باپ کی جاگیر سمجھتا ہے اس کے محسن کو ان کو اپنے سروں پر بٹھانا چاہیے تھا مگر جنرل ضیاء الحق شہید کے بعد کسی حکمران نے ان کو ان کا حقیقی مقام نہیں دیا اور پرویز مشرف نے تو تمام اخلاقی حدود پار کی تھیں، موجودہ حکمران تو ان کے زندگی میں ہی ان سے شراکت سے لاتعلق رہے جس کا شکوہ ڈاکٹر خان نے وائرل کلپ میں کیا ہے اور مرنے کے بعد صدر یا وزیر اعظم کو جنازے میں شرکت کی توفیق بھی نہیں ہوئی۔
مگر شکر الحمدللہ پاکستانی عوام نے ہمیشہ ڈاکٹر خان کو اپنا محسن مانا، کوئی حکمران مانے یا نہ مانے وہ تا روز قیامت صرف ہمارا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا محسن رہے گا کیونکہ نبی اکرمﷺ کی احادیث میں کی گئی پیشگوئیاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ غزوہ ہند ہو یا امام مہدی کی نصرت کے لیے خراسان سے نکلنے والا لشکر اس میں انشاء اللہ پاکستان شامل ہوگا اور اس میں فتح ہماری ہوگی۔
یہ اسباب کی دنیا ہے اور ہمیں جنگ کے گھوڑے (جنگی ساز و سامان ) تیار رکھنے کا حکم ہے اور آج کے اسلحوں کا سردار ایٹم بم ہے تو جس نے یہ بنایا وہ امت کا محسن ہوا اور انشاء اللہ یہی ایٹم بم ان کے لیے روز محشر سرخروئی کا باعث اور نبی اکرم کی شفاعت کا سبب بنے گا۔
گزشتہ دنوں محسن پاکستان مجاہد اعظم ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس دار فانی سے کوچ کر گئے، خیبر سے کراچی تک ہر گاؤں اور شہر کے مساجد و مدارس میں ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی ہو۔ اللہ تبارک وتعالی ان کے درجات بلند فرمائے اور ہماری افواج اور پوری قوم کو کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان پر مر مٹنے کے لیے تیار رکھے۔