پنجاب میں بچوں پر جنسی اور جسمانی تشدد کے واقعات میں اضافہ
رواں سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران پنجاب میں 1100 سے زائد بچوں پر جنسی اور جسمانی تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں
پنجاب میں بچوں پرجنسی اورجسمانی تشددکے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، رواں سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران پنجاب میں 1100 سے زائد بچوں کو جنسی اورجسمانی تشددکانشانہ بنائے جانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
جسمانی تشدد کا شکار بننے والے بچوں میں زیادہ تر گھریلو ملازم بچے ہیں، ماہرین کے مطابق کمسن بچوں سے گھریلو ملازمت کروانے کی بڑی وجوہات غربت اوربچوں کی کثیرتعدادہے، انصاف کاحصول مشکل اورمہنگاہونے کی وجہ سے ملزمان رہاہوجاتے ہیں، جنسی تشددکاشکارہونیوالے بچے احساس کمتری کاشکارہوجاتے ہیں،مناسب کونسلنگ نہ کی جائے توایسے بچے جرائم کی طرف راغب ہوسکتےہیں۔
لاہور کے علاقہ ٹھوکرنیازبیگ میں چندروزقبل حقیقی والدنے اپنے کمسن بچے کو بھوکا پیاسا گھر میں باندھے رکھا اور اس پرتشدد بھی کیا۔ بچے کی سوتیلی ماں اسے رسیوں سے باندھ کر کراچی چلی گئی تھی۔ محلے داروں کی اطلاع پر چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے اس بچے کو تحویل میں لے لیا ہے۔
پنجاب میں اس طرح کے واقعات معمول بن چکے ہیں ، بچوں کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ساحل کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران ملک بھرمیں 1896 بچوں کوجنسی اورجسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔بچوں پر تشدد کے 60 فیصد واقعات پنجاب میں سامنے آئے ہیں۔ پنجاب میں 1141 بچوں پرجنسی اورجسمانی تشددکے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ملک بھرمیں مجموعی طورپرجنوری سے جون 2021 کے دوران بچوں پرجنسی،جسمانی تشدد، بچوں کی گمشدگی اور چائلڈ میرج کے 1896 واقعات سامنے آئے ہیں۔ 2020 کے پہلے 6 ماہ کے دوران 1489 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ 1018 بچوں کوجنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 523 بچے جسمانی تشدد کا شکار ہوئے، 238 بچے لاپتہ جبکہ 51 بچوں کی شادی کی واقعات سامنے آئے ہیں۔ متاثرہ بچوں میں 53 فیصد یعنی 1013 لڑکیاں ہیں جبکہ 47 فیصد 883 لڑکے ہیں۔ متاثرہ بچوں کی عمریں6 سے 15 سال کے درمیان ہیں۔
ماہرقانون اوربچوں کے حقوق کی کارکن ایڈووکیٹ راشدہ قریشی کاکہنا ہے بچوں پرجنسی اور جسمانی تشددکی کئی ایک وجوہات ہیں،کمسن بچوں سے کام کروانااوران پر تشدد کرنا غیرقانونی ہے، ڈومیسٹک لیبرایکٹ کے تحت 15 سال سے کم عمربچوں سے مشقت نہیں لی جاسکتی ہے۔ بچوں پرتشدد یا ان سے جبری مشقت لینے والوں کے خلاف رپورٹ کہاں کرنی ہے، کون سا ادارہ کارروائی کرے گا؟۔ بچوں سے جبری مشقت لینے والے والدین کے خلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے اس سے متعلق عوام کوآگاہی نہیں ہے، ان واقعات کی روک تھام کے لئے معاشرے کو ساتھ ملانے اور عوامی شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں ہے۔ اسی طرح پولیس، چائلڈ پروٹیکشن بیورو، لیبر ڈیپارٹمنٹ سمیت دیگر اداروں میں باہمی رابطہ ہونا ضروری ہے۔
راشدہ قریشی نے کہا کہ بچوں پر تشدد کرنے والوں سے متعلق قوانین مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے، انصاف کے حصول کا طریقہ کارآسان بنایاجائے،سب سے پہلے یہ کیاجائے کہ بچے پرتشددکرنے والی ضمانت نہیں ہونی چاہیے دوسراقدم یہ اٹھایاجائے کہ ایسے واقعات میں بچے کے ورثا اور ملزم آپس میں صلح نہ کرسکے۔ کیونکہ زیادہ تر واقعات میں بچے کے ورثا ملزمان سے پیسے لے کر یا کسی دباؤ کے تحت صلح کرلیتے ہیں۔ آج تک اسلام آباد کے طیبہ کیس کے علاوہ بچوں پرتشددکے کسی مقدمے میں ملزم کوسزانہیں ہوسکی ہے۔
بچوں کی نفسیات کی ماہر رابعہ یوسف کا کہنا ہے جب کسی بچے پرجنسی یا جسمانی تشدد ہوتا ہے تو ایسے بچے ٹراما میں چلے جاتے ہیں، ان کا دوسروں پراعتماد ختم ہوجاتا ہے۔ ایسے بچوں کو واپس نارمل زندگی میں لانا خاصا مشکل کام ہوتا ہے لیکن یہ ناممکن نہیں ہے۔ ہم لوگ ایسے بچوں کی دوبارہ سے ذہن سازی کرتے ہیں، مختلف تھراپیز کے ذریعے اس کے دل و دماغ ناخوشگوار واقعے کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے، کھیل اور آرٹ تھراپی کے ذریعے بچے کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا وہ حادثہ تھا، اب زندگی میں آگے بڑھنا ہے۔ اس کام میں اس کے دوست ، قریبی رشتہ دار اور والدین اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر بچہ اپنے والدین اور رشتہ داروں کے تشدد کا شکار ہوتا ہے، اس کا پھر ان رشتوں پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ہمارا معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہے، یہاں کسی ایک کا غصہ کسی دوسرے پر نکالا جاتا ہے، اس کے علاوہ قوانین سے متعلق آگاہی نہیں ہے۔
جسمانی تشدد کا شکار بننے والے بچوں میں زیادہ تر گھریلو ملازم بچے ہیں، ماہرین کے مطابق کمسن بچوں سے گھریلو ملازمت کروانے کی بڑی وجوہات غربت اوربچوں کی کثیرتعدادہے، انصاف کاحصول مشکل اورمہنگاہونے کی وجہ سے ملزمان رہاہوجاتے ہیں، جنسی تشددکاشکارہونیوالے بچے احساس کمتری کاشکارہوجاتے ہیں،مناسب کونسلنگ نہ کی جائے توایسے بچے جرائم کی طرف راغب ہوسکتےہیں۔
لاہور کے علاقہ ٹھوکرنیازبیگ میں چندروزقبل حقیقی والدنے اپنے کمسن بچے کو بھوکا پیاسا گھر میں باندھے رکھا اور اس پرتشدد بھی کیا۔ بچے کی سوتیلی ماں اسے رسیوں سے باندھ کر کراچی چلی گئی تھی۔ محلے داروں کی اطلاع پر چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے اس بچے کو تحویل میں لے لیا ہے۔
پنجاب میں اس طرح کے واقعات معمول بن چکے ہیں ، بچوں کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ساحل کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران ملک بھرمیں 1896 بچوں کوجنسی اورجسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔بچوں پر تشدد کے 60 فیصد واقعات پنجاب میں سامنے آئے ہیں۔ پنجاب میں 1141 بچوں پرجنسی اورجسمانی تشددکے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ملک بھرمیں مجموعی طورپرجنوری سے جون 2021 کے دوران بچوں پرجنسی،جسمانی تشدد، بچوں کی گمشدگی اور چائلڈ میرج کے 1896 واقعات سامنے آئے ہیں۔ 2020 کے پہلے 6 ماہ کے دوران 1489 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ 1018 بچوں کوجنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 523 بچے جسمانی تشدد کا شکار ہوئے، 238 بچے لاپتہ جبکہ 51 بچوں کی شادی کی واقعات سامنے آئے ہیں۔ متاثرہ بچوں میں 53 فیصد یعنی 1013 لڑکیاں ہیں جبکہ 47 فیصد 883 لڑکے ہیں۔ متاثرہ بچوں کی عمریں6 سے 15 سال کے درمیان ہیں۔
ماہرقانون اوربچوں کے حقوق کی کارکن ایڈووکیٹ راشدہ قریشی کاکہنا ہے بچوں پرجنسی اور جسمانی تشددکی کئی ایک وجوہات ہیں،کمسن بچوں سے کام کروانااوران پر تشدد کرنا غیرقانونی ہے، ڈومیسٹک لیبرایکٹ کے تحت 15 سال سے کم عمربچوں سے مشقت نہیں لی جاسکتی ہے۔ بچوں پرتشدد یا ان سے جبری مشقت لینے والوں کے خلاف رپورٹ کہاں کرنی ہے، کون سا ادارہ کارروائی کرے گا؟۔ بچوں سے جبری مشقت لینے والے والدین کے خلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے اس سے متعلق عوام کوآگاہی نہیں ہے، ان واقعات کی روک تھام کے لئے معاشرے کو ساتھ ملانے اور عوامی شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں ہے۔ اسی طرح پولیس، چائلڈ پروٹیکشن بیورو، لیبر ڈیپارٹمنٹ سمیت دیگر اداروں میں باہمی رابطہ ہونا ضروری ہے۔
راشدہ قریشی نے کہا کہ بچوں پر تشدد کرنے والوں سے متعلق قوانین مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے، انصاف کے حصول کا طریقہ کارآسان بنایاجائے،سب سے پہلے یہ کیاجائے کہ بچے پرتشددکرنے والی ضمانت نہیں ہونی چاہیے دوسراقدم یہ اٹھایاجائے کہ ایسے واقعات میں بچے کے ورثا اور ملزم آپس میں صلح نہ کرسکے۔ کیونکہ زیادہ تر واقعات میں بچے کے ورثا ملزمان سے پیسے لے کر یا کسی دباؤ کے تحت صلح کرلیتے ہیں۔ آج تک اسلام آباد کے طیبہ کیس کے علاوہ بچوں پرتشددکے کسی مقدمے میں ملزم کوسزانہیں ہوسکی ہے۔
بچوں کی نفسیات کی ماہر رابعہ یوسف کا کہنا ہے جب کسی بچے پرجنسی یا جسمانی تشدد ہوتا ہے تو ایسے بچے ٹراما میں چلے جاتے ہیں، ان کا دوسروں پراعتماد ختم ہوجاتا ہے۔ ایسے بچوں کو واپس نارمل زندگی میں لانا خاصا مشکل کام ہوتا ہے لیکن یہ ناممکن نہیں ہے۔ ہم لوگ ایسے بچوں کی دوبارہ سے ذہن سازی کرتے ہیں، مختلف تھراپیز کے ذریعے اس کے دل و دماغ ناخوشگوار واقعے کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے، کھیل اور آرٹ تھراپی کے ذریعے بچے کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا وہ حادثہ تھا، اب زندگی میں آگے بڑھنا ہے۔ اس کام میں اس کے دوست ، قریبی رشتہ دار اور والدین اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر بچہ اپنے والدین اور رشتہ داروں کے تشدد کا شکار ہوتا ہے، اس کا پھر ان رشتوں پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ہمارا معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہے، یہاں کسی ایک کا غصہ کسی دوسرے پر نکالا جاتا ہے، اس کے علاوہ قوانین سے متعلق آگاہی نہیں ہے۔