سیاسی کھیل
بلاول بھٹو جس کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں اس نے اپوزیشن ہی نہیں بلکہ اپنے لانے والوں کو بھی کٹھ پتلی بنا رکھا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے امریکا سے واپسی پر کوٹلی میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے آمروں کا مقابلہ کیا ہے ، کٹھ پتلی کیا چیز ہے۔ کشمیر میں جیالے عمران خان کی کٹھ پتلیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ کٹھ پتلی حکومت سازشوں میں لگی ہوئی ہے۔
شفاف الیکشن ہو تو وفاق اور صوبوں میں ہماری حکومت ہوگی اور ہم ہی ملک کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔ پی پی کے چیئرمین وزیر اعظم عمران خان کو شروع سے ہی کٹھ پتلی قرار دیتے آئے ہیں اورکشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت کو کٹھ پتلیوں کی حکومت قرار دے رہے ہیں۔
بلاول زرداری نے گلگت بلتستان اور پھر آزاد کشمیر میں انتخابی جلسوں میں بلند و بانگ دعوے کیے تھے کہ وہاں ہماری حکومت ہوگی مگر دونوں جگہ پی ٹی آئی کی حکومت بنی یا بنوائی گئی اور (ن) لیگ سے زائد نشستیں لے کر آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کو اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ ضرور ملا۔ پی پی رہنما نبیل گبول نے بھانڈا پھوڑ دیا تھا کہ ہمیں آزاد کشمیر میں زیادہ نشستیں دینے کا کہا گیا تھا جو نہیں دی گئیں اور ہم وہاں حکومت نہ بنا سکے۔
آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی نے تین لاکھ سے زائد ووٹ لیے تھے اور انھیں مسلم لیگ (ن) سے زیادہ نشستیں ملیں جب کہ تقریباً پانچ لاکھ ووٹ لینے والی مسلم لیگ (ن) کو پیپلز پارٹی سے نصف نشستیں ملی تھیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بڑے بڑے جلسوں میں مریم نواز نے بھی کامیابی کے دعوے اور دھاندلی کے خلاف دھرنے کا اعلان کیا تھا مگر حکومت پی ٹی آئی کی بنی اور دھرنا بھی دھرا رہ گیا تھا اور ن لیگ انتخابی فیصلہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئی تھیں۔
بلاول بھٹو جس کو کٹھ پتلی قرار دیتے نہیں تھکتے اس نے اپوزیشن کو تقسیم کرا کر اپنی حکومت مستحکم کرا رکھی ہے۔ تین سال سے زیادہ گزر گئے مگر اپوزیشن دھرنا دے سکی نہ اسمبلیاں چھوڑ سکتی ہے کیونکہ وزیر اعظم نے اسمبلیوں میں رہنا اپوزیشن کی مجبوری بنا دیا ہے اور مسلم لیگ (ن) بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ اگر ہم نے اسمبلیاں چھوڑیں تو پھر حکومت باآسانی اپنی مرضی کی قانون سازی کرا لے گی۔
قومی اسمبلی میں حکومت کو معمولی برتری جب کہ سینیٹ میں اپوزیشن کی واضح برتری ہے مگر حکومت اپنے اسپیکر کے ذریعے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی اپوزیشن کو ہاتھ دکھا جاتی ہے اور سینیٹ میں اپوزیشن کی واضح اکثریت منہ دیکھتی رہ جاتی ہے اور حکومتی قانون منظور کرا لیے جاتے ہیں بے بس اپوزیشن کچھ نہیں کر پاتی اور یہ بھی اپوزیشن کی طرف سے سلیکٹڈ قرار دیے جانے والے کا کمال ہے اور وہ تین سالوں سے اپوزیشن کو بھی تگنی کا ناچ نچائے ہوئے ہیں۔
بلاول بھٹو نے جس کو کٹھ پتلی قرار دے رکھا ہے اس نے اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کو کٹھ پتلی بنا رکھا ہے اور مسلم لیگ (ن) کے مطابق پیپلز پارٹی خود کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی جنھیں سلیکٹر قرار دیتی ہے خود بھی اسی سلیکٹرکو خوش کرنے کی کوشش پر پی ڈی ایم سے جدا ہوئی تھی مگر دال نہیں گلی جس کا ثبوت آزاد کشمیر اور جی بی اسمبلیوں کے نتائج تھے جہاں انھیں آسرے میں رکھ کر اکثریت پی ٹی آئی کو دلائی گئی تھی مگر بلاول بھٹو اب بھی خواب دیکھ رہے ہیں کہ اگر شفاف الیکشن ہوئے تو پیپلز پارٹی وفاق اور صوبوں میں حکومت بنا سکتی ہے۔
پنجاب میں پی پی کی سیاسی پوزیشن اور کنٹونمنٹس کے انتخابات کے بعد بلاول زرداری کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ وہ خود کسی کے اشاروں پر کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں اور تنہا حکومت کا کچھ بگاڑنے کی پوزیشن میں قطعی نہیں ہیں اور جسے وہ کچھ نہیں سمجھ کر کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے آمروں کا مقابلہ کیا تو کٹھ پتلی کیا چیز ہے۔ بلاول زرداری کو اب یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ کٹھ پتلی واقعی بڑی چیز ہے۔
پی پی ہی نہیں سب جماعتوں نے ماضی میں مل کر آمروں کا مقابلہ کیا تھا اور ماضی میں اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے بنائے گئے اتحاد اے آر ڈی اور ایم آر ڈی اس کے واضح ثبوت ہیں۔ پیپلز پارٹی نے تنہا کبھی آمروں کا مقابلہ نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کبھی چاروں صوبوں کی اہم جماعت تھی مگر وہ اب صرف سندھ تک محدود ہے اور سندھ میں اپنی حکومت برقرار رکھنے کی جدوجہد کر رہی ہے اور اسے خواب میں سلیکٹرکی مدد سے ملک کا اقتدار ملنے کی توقع ہے۔
بلاول بھٹو جس کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں اس نے اپوزیشن ہی نہیں بلکہ اپنے لانے والوں کو بھی کٹھ پتلی بنا رکھا ہے اور انھیں یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ اگر انھوں نے غیر جانبدار بننے کی کوشش کی تو مسلم لیگ (ن) آیندہ اقتدار میں آکر آئین پر عمل کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ اس خوف نے عمران خان کو لانے والوں پر خاموشی طاری کر رکھی ہے اور وہ مریم نواز کے الزامات کی تردید بھی نہیں کر رہے۔
وزیر اعظم اقتدار میں آ کرکٹھ پتلی ہوتے تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کب کے تبدیل ہوچکے ہوتے اور شہباز شریف کو باہر جانے کا موقعہ مل چکا ہوتا۔ حکومت کو سلیکٹرز کی فکر ہے نہ عوام کی اور عوام کا غصہ حکومت نہیں سلیکٹرز پر اتر رہا ہے جس سے حکومت من مانیوں پر اتر آئی ہے اور اسے پتا ہے کہ دو سال باقی ہیں وہ کر لیا جائے جو کرنا باقی ہے بدنام تو کوئی اور ہو رہا ہے۔