آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
بلاشبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان قوم اور وطن کا قیمتی سرمایہ تھے۔
پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنانے والے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ڈاکٹر قدیرکو پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ قائم مقام صدر صادق سنجرانی سمیت اعلیٰ سول و فوجی حکام ، سیاسی شخصیات اور عوام کی بڑی تعداد نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔
اس موقع پر باران رحمت بھی آسمان سے برستا رہا۔ ڈاکٹر صاحب کافی عرصے سے علیل تھے۔ ان کی وفات سے پوری قوم سوگ میں ڈوب گئی ، قومی پرچم سرنگوں کردیا گیا۔ صدر ، وزیر اعظم ، تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور اپوزیشن رہنماؤں نے ڈاکٹر قدیر کی وفات پر اپنے تعزیتی پیغامات میں انھیں زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انھیں قوم کا محسن قرار دیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے ڈاکٹر قدیر کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا اور بجا طور پر درست کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے ہمیں اپنے سے کئی گنا بڑے ہمسائے اور ایٹمی ریاست (یعنی بھارت) کی جارحیت سے تحفظ فراہم کیا ، ملک کو ایٹمی ریاست بنانے کے حوالے سے ان کے اہم ترین کردار کے لیے پوری قوم ڈاکٹر قدیر سے محبت کرتی ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ڈاکٹر قدیر کی وفات پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کا دفاع مضبوط بنانے کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انھوں نے مرحوم کے درجات کی بلندی کے لیے بھی دعا کی۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے کہا کہ جوہری پروگرام کے معمارکی وفات قومی صدمہ ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی مرحوم سائنس دان کے لیے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ مولانا فضل الرحمن کے بقول قوم عظیم سائنس دان سے محروم ہوگئی۔ مرحوم نے آمر کے جبر اور ناروا سلوک کا سامنا کیا اور امت مسلمہ ایک طویل عرصے تک ان کی خدمات کو یاد رکھے گی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات پر پوری قوم انھیں اپنے اپنے انداز سے خراج عقیدت پیش کر رہی ہے۔ زندہ قومیں اپنے ہیروز اور محسنوں کو ان کی زندگی ہی میں ان کی خدمات کے اعتراف میں عزت ، احترام ، تکریم اور وہ بلند مقام عطا کردیتی ہیں جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر کی خدمات پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ انھوں نے وطن عزیز کی محبت ، پاکستانیوں سے وفاداری اور ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے اور مسلم دنیا میں اس کے وقار اور تحفظ کو یقینی بنانے میں اپنی ذاتی زندگی کی آسانیوں ، آرام و سکون اور عیش و عشرت کی زندگی کو ازخود خیر باد کہہ کر رات و دن قومی خدمت اور ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے مشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب بھوپال میں جنم لینے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان ہجرت کی ، یہاں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی گئے، انجینئرنگ کی ڈگری نیدر لینڈ کی یونیورسٹی سے لی پھر میٹلرجیکل انجینئرنگ میں بیلجیم کی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا اور ہالینڈ میں ایک ریسرچ لیبارٹری میں اعلیٰ عہدے کی نوکری حاصل کرکے پرسکون زندگی گزارنے لگے۔
1971 کے سانحہ سقوط بنگال کے بعد بھارت نے 1974 میں پوکھران (راجستھان) میں ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کے دفاع پر سوالیہ نشان لگا دیا تو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سمیت محب وطن اور سنجیدہ حلقے ملک کے دفاع اور بھارت کی امکانی جارحیت کے حوالے سے سنجیدہ و فکر مند ہوگئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ملک کے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے ایٹم بم بنانے کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کا بیڑا اٹھایا۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر وہ ہالینڈ سے وطن واپس آگئے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے منسلک ہوگئے۔ ڈاکٹر قدیر نے شبانہ روز محنت شاقہ سے ایک عشرے سے بھی کم عرصے میں پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کا حامل بنا دیا تھا۔ بقول ڈاکٹر قدیر مرحوم کے ''ہم نے 1984 میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی تھی۔''
پھر 28 مئی 1998 کو چاغی کے مقام پر پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے پہلی مسلم ایٹمی ریاست بننے اور ایٹمی کلب کا رکن بننے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان قومی ہیرو بن گئے، نہ صرف بھارت ہکا بکا رہ گیا بلکہ نوبل انعام یافتہ سائنس دان بھی انگشت بدنداں تھے کہ کیسے اورکیونکر پاکستان ایٹمی قوت بن گیا۔
بجا کہ ڈاکٹر صاحب کو ان کی خدمات کے صلے میں پوری قوم نے اپنا عظیم ہیرو قرار دیا انھیں ''محسن پاکستان'' کے خطاب سے نوازا گیا۔ وہ پہلے پاکستانی ہیں جنھیں تین سرکاری اعزاز دو مرتبہ نشان امتیاز اور ایک مرتبہ ہلال امتیاز دیا گیا۔
بلاشبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان قوم اور وطن کا قیمتی سرمایہ تھے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ زندہ قومیں اپنے ہیروز اور محسنوں کو ان کی زندگی میں ہی ان کی خدمات کے اعتراف میں عزت و احترام اور وہ بلند مقام عطا کردیتی ہیں جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں ، لیکن دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان قوتوں نے جنھیں پاکستان کا ایٹمی قوت بننا کسی صورت قبول نہ تھا ایسی سازشیں کیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسا محب وطن، مخلص اور دیانت دار سائنس دان الزامات کی زد میں آگیا۔ ان پر ایٹمی راز بیرون وطن یعنی ہالینڈ سے چوری کرنے کا الزام تھا۔
پھر قومی جوہری راز اور حساس معلومات دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے مبینہ الزامات عائد کرکے ان کے شفاف کردارکو داغ دارکیا گیا۔ بات صرف یہاں تک محدود نہ رہی بلکہ انھیں '' قید تنہائی'' کی سزا بھی بھگتنا پڑی۔ وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند کر دیے گئے، جنھیں آنکھوں پر بٹھانا تھا انھیں ہی آنکھوں سے اوجھل کردیا گیا۔ اس تنازعے کے باعث ڈاکٹر صاحب کے ساتھ حکومتوں کا سلوک ناروا رہا ، اور وہ بجا طور پر اس کے شاکی رہے۔
انتقال سے چند روز قبل وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے انھیں گلدستہ بھیجا جس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے وزیر اعلیٰ سندھ کو شکریہ کا خط لکھا اور ساتھ ہی یہ شکوہ بھی کیا کہ وزیر اعظم اور دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو میری یاد تک نہ آئی وہ لوگ منتظر ہیں کہ کب میرے انتقال کی خبر آئے ، قومی ہیرو کے ساتھ یہ بے حسی کا رویہ افسوس ناک ہے۔ بہرحال ڈاکٹر قدیر اب ہم میں نہیں رہے خدا ان کی مغفرت کرے۔( آمین)
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
اس موقع پر باران رحمت بھی آسمان سے برستا رہا۔ ڈاکٹر صاحب کافی عرصے سے علیل تھے۔ ان کی وفات سے پوری قوم سوگ میں ڈوب گئی ، قومی پرچم سرنگوں کردیا گیا۔ صدر ، وزیر اعظم ، تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور اپوزیشن رہنماؤں نے ڈاکٹر قدیر کی وفات پر اپنے تعزیتی پیغامات میں انھیں زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انھیں قوم کا محسن قرار دیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے ڈاکٹر قدیر کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا اور بجا طور پر درست کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے ہمیں اپنے سے کئی گنا بڑے ہمسائے اور ایٹمی ریاست (یعنی بھارت) کی جارحیت سے تحفظ فراہم کیا ، ملک کو ایٹمی ریاست بنانے کے حوالے سے ان کے اہم ترین کردار کے لیے پوری قوم ڈاکٹر قدیر سے محبت کرتی ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ڈاکٹر قدیر کی وفات پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کا دفاع مضبوط بنانے کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انھوں نے مرحوم کے درجات کی بلندی کے لیے بھی دعا کی۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے کہا کہ جوہری پروگرام کے معمارکی وفات قومی صدمہ ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی مرحوم سائنس دان کے لیے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ مولانا فضل الرحمن کے بقول قوم عظیم سائنس دان سے محروم ہوگئی۔ مرحوم نے آمر کے جبر اور ناروا سلوک کا سامنا کیا اور امت مسلمہ ایک طویل عرصے تک ان کی خدمات کو یاد رکھے گی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات پر پوری قوم انھیں اپنے اپنے انداز سے خراج عقیدت پیش کر رہی ہے۔ زندہ قومیں اپنے ہیروز اور محسنوں کو ان کی زندگی ہی میں ان کی خدمات کے اعتراف میں عزت ، احترام ، تکریم اور وہ بلند مقام عطا کردیتی ہیں جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر کی خدمات پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ انھوں نے وطن عزیز کی محبت ، پاکستانیوں سے وفاداری اور ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے اور مسلم دنیا میں اس کے وقار اور تحفظ کو یقینی بنانے میں اپنی ذاتی زندگی کی آسانیوں ، آرام و سکون اور عیش و عشرت کی زندگی کو ازخود خیر باد کہہ کر رات و دن قومی خدمت اور ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے مشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب بھوپال میں جنم لینے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان ہجرت کی ، یہاں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی گئے، انجینئرنگ کی ڈگری نیدر لینڈ کی یونیورسٹی سے لی پھر میٹلرجیکل انجینئرنگ میں بیلجیم کی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا اور ہالینڈ میں ایک ریسرچ لیبارٹری میں اعلیٰ عہدے کی نوکری حاصل کرکے پرسکون زندگی گزارنے لگے۔
1971 کے سانحہ سقوط بنگال کے بعد بھارت نے 1974 میں پوکھران (راجستھان) میں ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کے دفاع پر سوالیہ نشان لگا دیا تو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سمیت محب وطن اور سنجیدہ حلقے ملک کے دفاع اور بھارت کی امکانی جارحیت کے حوالے سے سنجیدہ و فکر مند ہوگئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ملک کے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے ایٹم بم بنانے کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کا بیڑا اٹھایا۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر وہ ہالینڈ سے وطن واپس آگئے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے منسلک ہوگئے۔ ڈاکٹر قدیر نے شبانہ روز محنت شاقہ سے ایک عشرے سے بھی کم عرصے میں پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کا حامل بنا دیا تھا۔ بقول ڈاکٹر قدیر مرحوم کے ''ہم نے 1984 میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی تھی۔''
پھر 28 مئی 1998 کو چاغی کے مقام پر پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے پہلی مسلم ایٹمی ریاست بننے اور ایٹمی کلب کا رکن بننے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان قومی ہیرو بن گئے، نہ صرف بھارت ہکا بکا رہ گیا بلکہ نوبل انعام یافتہ سائنس دان بھی انگشت بدنداں تھے کہ کیسے اورکیونکر پاکستان ایٹمی قوت بن گیا۔
بجا کہ ڈاکٹر صاحب کو ان کی خدمات کے صلے میں پوری قوم نے اپنا عظیم ہیرو قرار دیا انھیں ''محسن پاکستان'' کے خطاب سے نوازا گیا۔ وہ پہلے پاکستانی ہیں جنھیں تین سرکاری اعزاز دو مرتبہ نشان امتیاز اور ایک مرتبہ ہلال امتیاز دیا گیا۔
بلاشبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان قوم اور وطن کا قیمتی سرمایہ تھے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ زندہ قومیں اپنے ہیروز اور محسنوں کو ان کی زندگی میں ہی ان کی خدمات کے اعتراف میں عزت و احترام اور وہ بلند مقام عطا کردیتی ہیں جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں ، لیکن دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان قوتوں نے جنھیں پاکستان کا ایٹمی قوت بننا کسی صورت قبول نہ تھا ایسی سازشیں کیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسا محب وطن، مخلص اور دیانت دار سائنس دان الزامات کی زد میں آگیا۔ ان پر ایٹمی راز بیرون وطن یعنی ہالینڈ سے چوری کرنے کا الزام تھا۔
پھر قومی جوہری راز اور حساس معلومات دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے مبینہ الزامات عائد کرکے ان کے شفاف کردارکو داغ دارکیا گیا۔ بات صرف یہاں تک محدود نہ رہی بلکہ انھیں '' قید تنہائی'' کی سزا بھی بھگتنا پڑی۔ وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند کر دیے گئے، جنھیں آنکھوں پر بٹھانا تھا انھیں ہی آنکھوں سے اوجھل کردیا گیا۔ اس تنازعے کے باعث ڈاکٹر صاحب کے ساتھ حکومتوں کا سلوک ناروا رہا ، اور وہ بجا طور پر اس کے شاکی رہے۔
انتقال سے چند روز قبل وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے انھیں گلدستہ بھیجا جس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے وزیر اعلیٰ سندھ کو شکریہ کا خط لکھا اور ساتھ ہی یہ شکوہ بھی کیا کہ وزیر اعظم اور دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو میری یاد تک نہ آئی وہ لوگ منتظر ہیں کہ کب میرے انتقال کی خبر آئے ، قومی ہیرو کے ساتھ یہ بے حسی کا رویہ افسوس ناک ہے۔ بہرحال ڈاکٹر قدیر اب ہم میں نہیں رہے خدا ان کی مغفرت کرے۔( آمین)
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے