بلوچ نئی زندگی کی تلاش میں
صدیاں بیت جانے کے باوجود آج بھی بلوچ قوم نئی زندگی کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیتی ہیں۔
عیسیٰ خان بلوچ 8 مارچ 1952 میں کراچی کے قدیمی علاقے لیاری میں محنت کش خدا بخش کے گھر پیدا ہوئے۔ انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی نوجوانی ہی میں سماجی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔
لیاری کے علاقے نوا لین میں اپنے دیگر ہم خیال رفقاء کے باہمی تعاون سے غریب بچوں کے لیے اسٹریٹ اسکول کی داغ بیل ڈالی، تاکہ غریبوں کے بچے بھی تعلیم سے روشناس ہو سکیں اور جہالت کا اندھیر دور ہو جس نے ان لوگوں کی زندگی میں بے شمار مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔
اسی دوران اپنی ادبی سرگرمیوں کا آغاز بزم منشور سے کیا اور اپنی تحریروں میں مزدوروں اور کسانوں کے مسائل کو اجاگر کیا جس میں کاٹن جنینگ فیکٹریز کے مزدوروں کے مسائل بھی شامل تھے اسی طرح کسان تحریک کے بابت بھی مضامین لکھیں۔ ان کے دل میں مزدوروں اور غریبوں کا جو درد تھا اس کا اظہار ان کی تحریروں سے خوب ہوتا ہے۔
ان کے مضامین بلوچی ادب کے موقر جریدے ساچان اور لبزانک کی زینت بنتے رہے۔ عیسیٰ خان بلوچ بائیں بازوں کے علمی و تحقیقاتی جریدہ پاکستان فورم اور سوشلسٹ سے بھی وابستہ رہے جہاں انھوں نے علمی و تحقیقاتی ، گمشدہ افراد اور گوادر کے موضوعات پر قلم کاری کی اور پاکستان ٹیلی فون کارپوریشن لمیٹڈ سے 2008میں ریٹائرڈ ہوگئے۔
گزشتہ دنوں ان کی پہلی تحقیقاتی تصنیف کتاب '' بلوچ نئی زندگی کی تلاش میں'' کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی جس کی میزبانی رمضان بلوچ نے کی۔ اس موقع پر وحید نور ، واحد کامریڈ ، لطیف بلوچ ، جاوید ، گل ملیری ، عیسیٰ بلوچ ، مصنف عیسیٰ خان بلوچ ، اسحاق خاموش ، سلیم بلوچ ، اصغر لعل ، اورنگ زیب بلوچ ، زبیر زباد اور شریف شاد سربازی اور راقم الحروف کے علاوہ دیگر ادبی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔
اس موقع پر اہل قلم نے مصنف کی تصنیف پر سیر حاصل تبصرے کیے اور مصنف کی کاوش کو سراہا۔ اس کتاب میں عیسیٰ خان بلوچ نے بلوچ قوم کی مکران بلوچستان سے کراچی اور اندرون سندھ کے دوسرے علاقوں میں نقل مکانی ( ہجرت ) کا تذکرہ بڑی جانفشانی سے کیا ہے۔ نقل مکانی کے اہم اسباب میں جنگ ، قبائلی لڑائیاں ، خشک سالی ، وبائی امراض ، بھوک و افلاس ، بے روزگاری اور مذہبی انتہا پسندی شامل تھے۔
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ بلوچوں کی نقل مکانی کے تذکرے محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کے وقت سے ملتے ہیں۔ مکران سے 4 ہزار بلوچ اپنے اونٹوں کے ساتھ محمد بن قاسم کی فوج میں شامل تھے، بعد ازاں یہ سندھ میں ہی رہ گئے۔
مستاگ فاؤنڈیشن کراچی کے زیر اہتمام شایع کردہ کتاب '' بلوچ نئی زندگی کی تلاش میں'' کا سرورق خوب صورت ہے جو کہ بلوچ قوم کی ہجرت کا عکاس ہے۔ مصنف نے اس کتاب کو بلوچ دانشور و کالم نگار رحیم بخش آزاد کے نام سے منسوب کیا ہے کہ جنھوں نے نوجوانوں کو ذہنی جلا بخشی اور روشن خیالی کی راہ بتائی ۔200 صفحات پر مشتمل اس کتاب کے 4 ابواب ہیں جن میں نقل مکانی ،کراچی کی کشش ، سیاسی سماجی ثقافتی زندگی اور حاصل کلام شامل ہیں ، ہر باب تاریخی نوعیت کا حامل ہے۔
کتاب کا دیباچہ گل حسن کلمتی نے جب کہ پیش لفظ رمضان بلوچ نے لکھا ہے۔ کتاب پر تاثرات کا اظہار ڈاکٹر اصغر دشتی نے کیا ہے ۔ مصنف عیسیٰ خان بلوچ نے 1834سے 1975تک کے درمیانی عرصے میں رونما ہونے والے واقعات پر نظر دوڑائی ہے جوکہ قابل ستائش کاوش ہے۔ باب اول میں مصنف نے مختصر سیاسی ، سماجی ، تاریخ پر روشنی ڈالنے کی سعی کی ہے جس میں چار سیاسی گروہوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں فارس (ایران ) ، انگریز استعمار ، خانان قلات ، مقامی حاکم اور سردار شامل ہیں۔
باب دوئم میں نقل مکانی کے اسباب ، اس کی نوعیت ، دوران سفر پیش آنے والے حالات ، کراچی کے بعد سندھ کے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں بلوچوں کی معاشی ، سماجی حالات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ باب سوئم میں کراچی میں بلوچ قوم کی آمد ، بلوچ قوم کے کراچی میں عروج و زوال کا ذکر کیا گیا ہے۔ باب چہارم کے بارے میں مصنف نے دستاویزات دستیاب نہ ہونے کی صورت میں مختلف شخصیات کی مدد سے معلومات کی رسائی کے لیے سوالنامہ ، انٹرویوز ، بحث و مباحثہ ، شخصی مثالیں اور یاد داشتوں کا طریقہ اختیارکیا جس میں نقل مکانی کے متعلق بیش بہا معلومات موجود ہیں۔
کراچی اور اندرون سندھ میں آباد بلوچ قوم مکران سے نقل مکانی کرنے والے بلوچوں کی باقیات ہیں۔ سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں میں بڑی تعداد میں آباد ہیں، جہاں ان کی بستیاں جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ کتاب اس اعتبار سے منفرد ہے کہ ان میں ان واقعات کو اجاگرکیا گیا ہے جو تاریخ کے اوراق پر موجود نہیں ہیں لیکن سینہ بہ سینہ موجود ہیں جنھیں مصنف نے قلم بند کرکے ایک نئی تاریخ مرتب کی ہے۔ عیسیٰ خان بلوچ کی یہ تحقیقی کتاب مفید اور معلوماتی ہے خاص طور پر تاریخ کے طلبا وطالبات کے لیے یہ بہترین کتاب ثابت ہوگی۔
اگر عصر حاضرکی بلوچ قوم کی حالات زندگی پر نظر کی جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ صدیاں بیت جانے کے باوجود آج بھی بلوچ قوم نئی زندگی کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیتی ہیں۔ اندرون سندھ میں آباد بہت سے بلوچ قبائل سندھی ثقافت میں ضم ہوچکے ہیں اور بہت سوں نے آج بھی اپنی بلوچی ثقافت کو برقرار رکھا ہوا ہے جب کہ سندھ کے شہرکراچی میں آباد مختلف بلوچ قبائل اپنی ثقافت کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں جہاں ان کی حالت قابل رحم ہے اور اگر یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ وہ دو حصوں ( سندھ و بلوچستان) میں بٹ کر نہ ادھر کے رہے اور نہ ادھر کے۔
مثال کے طور پرکراچی میں صدیوں سے آباد ہونے کے باوجود سرکاری طور پر خاص کر سرکاری ملازمت و تعلیمی کوٹے اور فن و ثقافت کے لحاظ سے بلوچوں کو بلوچستان سے جوڑا جاتا ہے اس طرح ان کی حق تلفی کی جارہی ہے اور جب کراچی میں آباد بلوچ اس ضمن میں بلوچستان حکومت سے رابطہ کرتے ہیں تو انھیں کراچی (سندھ ) کا باسی تصورکر کے سرکاری نوکری، تعلیمی اداروں میں داخلے اور فن و ثقافت کے حوالے سے انکارکیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ کراچی میں آباد بلوچ ، بے منزل راہی ہیں اور نئی زندگی کی تلاش میں ہیں۔
لیاری کے علاقے نوا لین میں اپنے دیگر ہم خیال رفقاء کے باہمی تعاون سے غریب بچوں کے لیے اسٹریٹ اسکول کی داغ بیل ڈالی، تاکہ غریبوں کے بچے بھی تعلیم سے روشناس ہو سکیں اور جہالت کا اندھیر دور ہو جس نے ان لوگوں کی زندگی میں بے شمار مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔
اسی دوران اپنی ادبی سرگرمیوں کا آغاز بزم منشور سے کیا اور اپنی تحریروں میں مزدوروں اور کسانوں کے مسائل کو اجاگر کیا جس میں کاٹن جنینگ فیکٹریز کے مزدوروں کے مسائل بھی شامل تھے اسی طرح کسان تحریک کے بابت بھی مضامین لکھیں۔ ان کے دل میں مزدوروں اور غریبوں کا جو درد تھا اس کا اظہار ان کی تحریروں سے خوب ہوتا ہے۔
ان کے مضامین بلوچی ادب کے موقر جریدے ساچان اور لبزانک کی زینت بنتے رہے۔ عیسیٰ خان بلوچ بائیں بازوں کے علمی و تحقیقاتی جریدہ پاکستان فورم اور سوشلسٹ سے بھی وابستہ رہے جہاں انھوں نے علمی و تحقیقاتی ، گمشدہ افراد اور گوادر کے موضوعات پر قلم کاری کی اور پاکستان ٹیلی فون کارپوریشن لمیٹڈ سے 2008میں ریٹائرڈ ہوگئے۔
گزشتہ دنوں ان کی پہلی تحقیقاتی تصنیف کتاب '' بلوچ نئی زندگی کی تلاش میں'' کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی جس کی میزبانی رمضان بلوچ نے کی۔ اس موقع پر وحید نور ، واحد کامریڈ ، لطیف بلوچ ، جاوید ، گل ملیری ، عیسیٰ بلوچ ، مصنف عیسیٰ خان بلوچ ، اسحاق خاموش ، سلیم بلوچ ، اصغر لعل ، اورنگ زیب بلوچ ، زبیر زباد اور شریف شاد سربازی اور راقم الحروف کے علاوہ دیگر ادبی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔
اس موقع پر اہل قلم نے مصنف کی تصنیف پر سیر حاصل تبصرے کیے اور مصنف کی کاوش کو سراہا۔ اس کتاب میں عیسیٰ خان بلوچ نے بلوچ قوم کی مکران بلوچستان سے کراچی اور اندرون سندھ کے دوسرے علاقوں میں نقل مکانی ( ہجرت ) کا تذکرہ بڑی جانفشانی سے کیا ہے۔ نقل مکانی کے اہم اسباب میں جنگ ، قبائلی لڑائیاں ، خشک سالی ، وبائی امراض ، بھوک و افلاس ، بے روزگاری اور مذہبی انتہا پسندی شامل تھے۔
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ بلوچوں کی نقل مکانی کے تذکرے محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کے وقت سے ملتے ہیں۔ مکران سے 4 ہزار بلوچ اپنے اونٹوں کے ساتھ محمد بن قاسم کی فوج میں شامل تھے، بعد ازاں یہ سندھ میں ہی رہ گئے۔
مستاگ فاؤنڈیشن کراچی کے زیر اہتمام شایع کردہ کتاب '' بلوچ نئی زندگی کی تلاش میں'' کا سرورق خوب صورت ہے جو کہ بلوچ قوم کی ہجرت کا عکاس ہے۔ مصنف نے اس کتاب کو بلوچ دانشور و کالم نگار رحیم بخش آزاد کے نام سے منسوب کیا ہے کہ جنھوں نے نوجوانوں کو ذہنی جلا بخشی اور روشن خیالی کی راہ بتائی ۔200 صفحات پر مشتمل اس کتاب کے 4 ابواب ہیں جن میں نقل مکانی ،کراچی کی کشش ، سیاسی سماجی ثقافتی زندگی اور حاصل کلام شامل ہیں ، ہر باب تاریخی نوعیت کا حامل ہے۔
کتاب کا دیباچہ گل حسن کلمتی نے جب کہ پیش لفظ رمضان بلوچ نے لکھا ہے۔ کتاب پر تاثرات کا اظہار ڈاکٹر اصغر دشتی نے کیا ہے ۔ مصنف عیسیٰ خان بلوچ نے 1834سے 1975تک کے درمیانی عرصے میں رونما ہونے والے واقعات پر نظر دوڑائی ہے جوکہ قابل ستائش کاوش ہے۔ باب اول میں مصنف نے مختصر سیاسی ، سماجی ، تاریخ پر روشنی ڈالنے کی سعی کی ہے جس میں چار سیاسی گروہوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں فارس (ایران ) ، انگریز استعمار ، خانان قلات ، مقامی حاکم اور سردار شامل ہیں۔
باب دوئم میں نقل مکانی کے اسباب ، اس کی نوعیت ، دوران سفر پیش آنے والے حالات ، کراچی کے بعد سندھ کے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں بلوچوں کی معاشی ، سماجی حالات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ باب سوئم میں کراچی میں بلوچ قوم کی آمد ، بلوچ قوم کے کراچی میں عروج و زوال کا ذکر کیا گیا ہے۔ باب چہارم کے بارے میں مصنف نے دستاویزات دستیاب نہ ہونے کی صورت میں مختلف شخصیات کی مدد سے معلومات کی رسائی کے لیے سوالنامہ ، انٹرویوز ، بحث و مباحثہ ، شخصی مثالیں اور یاد داشتوں کا طریقہ اختیارکیا جس میں نقل مکانی کے متعلق بیش بہا معلومات موجود ہیں۔
کراچی اور اندرون سندھ میں آباد بلوچ قوم مکران سے نقل مکانی کرنے والے بلوچوں کی باقیات ہیں۔ سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں میں بڑی تعداد میں آباد ہیں، جہاں ان کی بستیاں جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ کتاب اس اعتبار سے منفرد ہے کہ ان میں ان واقعات کو اجاگرکیا گیا ہے جو تاریخ کے اوراق پر موجود نہیں ہیں لیکن سینہ بہ سینہ موجود ہیں جنھیں مصنف نے قلم بند کرکے ایک نئی تاریخ مرتب کی ہے۔ عیسیٰ خان بلوچ کی یہ تحقیقی کتاب مفید اور معلوماتی ہے خاص طور پر تاریخ کے طلبا وطالبات کے لیے یہ بہترین کتاب ثابت ہوگی۔
اگر عصر حاضرکی بلوچ قوم کی حالات زندگی پر نظر کی جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ صدیاں بیت جانے کے باوجود آج بھی بلوچ قوم نئی زندگی کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیتی ہیں۔ اندرون سندھ میں آباد بہت سے بلوچ قبائل سندھی ثقافت میں ضم ہوچکے ہیں اور بہت سوں نے آج بھی اپنی بلوچی ثقافت کو برقرار رکھا ہوا ہے جب کہ سندھ کے شہرکراچی میں آباد مختلف بلوچ قبائل اپنی ثقافت کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں جہاں ان کی حالت قابل رحم ہے اور اگر یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ وہ دو حصوں ( سندھ و بلوچستان) میں بٹ کر نہ ادھر کے رہے اور نہ ادھر کے۔
مثال کے طور پرکراچی میں صدیوں سے آباد ہونے کے باوجود سرکاری طور پر خاص کر سرکاری ملازمت و تعلیمی کوٹے اور فن و ثقافت کے لحاظ سے بلوچوں کو بلوچستان سے جوڑا جاتا ہے اس طرح ان کی حق تلفی کی جارہی ہے اور جب کراچی میں آباد بلوچ اس ضمن میں بلوچستان حکومت سے رابطہ کرتے ہیں تو انھیں کراچی (سندھ ) کا باسی تصورکر کے سرکاری نوکری، تعلیمی اداروں میں داخلے اور فن و ثقافت کے حوالے سے انکارکیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ کراچی میں آباد بلوچ ، بے منزل راہی ہیں اور نئی زندگی کی تلاش میں ہیں۔