شریفانہ موضوعات
سنا ہے کہ ہماری حکومت اور ادارے سی پیک منصوبوں پر کام کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں لیکن مجھے تو اس ناراضگی پر حیرت ہے۔
یعنی ایسے موضوعات جو اخلاقیات ، دین ، محبت ، اخوت ، بھائی چارہ وغیرہ پر مبنی ہوں قابلِ تحریر ہیں ، لائق ستائش ہیں ان پر لکھنا چاہیے ، لیکن یقین کیجیے عرصہ دراز سے طبیعت بغاوت پر آمادہ ہے۔
مجال ہے کہ نظام زندگی میں رتًیِ برابر بھی کوئی تبدیلی رونما ہوئی ہو، کہیں کچھ بدل گیا ہو، کوئی امید آنے والے دنوں کے کسی دریچے، روزن سے جھانکتی ہے۔ سب کچھ ویسا ہی ہے یا ویسا ہی رہنے والا ہے تو پھر کیا کیِا جائے؟ چلیے موضوعات کی سمت بدل کر دیکھتے ہیں۔
کراچی کے لیے منظور ہونے والی اربوں روپے کی گرانٹ تو پاکستان آزاد ہونے کے بعد سے حالتِ اعلان میں ہی ہے ، یعنی مسلسل سفر میں جوکبھی اس ساحلی شہر تک پہنچی ہی نہیں ، زندگی سسکتی رہی ، بھوک و افلاس کا رقص جاری رہا ، غریب نعرے لگاتا رہا ، مرتا رہا ، ریڑھی ، چھکڑا ، سکس سیٹر ، مزدا بسوں میں سفر کرتا رہا لیکن اعلان شدہ امداد کبھی نہیں آئی۔
لیجیے میرا لہجہ پھر تلخ ہوگیا میں پھر بغاوت پر اتر آیا ! شاید مجھ میں ہی کوئی خامی ہے کہ کسی اچھے موضوع پر مجھ سے بات ہوتی ہی نہیں، بہرحال کوشش تو ضرور کروں گا خواہ کچھ بھی ہوجائے۔ خیر طوفان پر آتے ہیں کہ وہ کیا کچھ بہترکرسکتا ہے ہمارے صوبے میں تو پانی کی صورت میں ، اور یہاں بھی صفائی کی شکل میں بارشوں سے ہی امید ہے ورنہ تو جو حال میونسپل کمیٹیزکا ہے اس سے تو بہتر تھا کہ یہ ادارے وجود ہی نہ رکھتے۔
ہر جگہ ایک برائی سر چڑھ کر بول رہی ہے کہ میرا بندہ رکھ لو ، پارٹی کوئی بھی ہو پارٹی عہدیداران کی فرمائش یہی ہوتی ہے اور ظاہر ہے جماعت کو وہ آفیسرز رکھنے پڑتے ہیں کیونکہ پارٹی بھی تو چلانی ہوتی ہے حتٰی کی ہرMNA,MPA بھی یہی چاہتا ہے اور اپنے بندے رکھوا لیتا ہے پھر وہ آفیسرز پبلک کا کام کیونکرکریں گے وہ تو انھی کا کام کرتے ہیں جو انھیں رکھواتے ہیں اور انھی کے کام آتے ہیں۔
پورے ملک کا حال یہی ہے جب کہ کچھ ادارے جو چوکیداری کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں وہ اس صورتحال پر بغور نظر رکھتے ہیں اور سب کچھ ہونے دیتے ہیں تاکہ ملک میں خرابی پیدا ہو حالات نا گفتہ بے ہوجائیں اور بالاخر عوام ایک آواز ہوکر انھیں آواز دیں کہ حضورِ والا اب آپ ہی تشریف لے آئیں تاکہ زندگی کی گاڑی تو چلے اور پھر وہ بڑے طمطراق سے آجاتے ہیں۔ پھرکیا ہوتا ہے یہ کسی اور تحریر میں بیان کروں گا اس وقت تو دل و ذہن پر شرافت کا بھوت سوار ہے سو وہیں تک رہتے ہیں۔
موسم کے بعد آتے ہیں محبت پر جو ایک عالمی سچائی ہے۔ عظیم ترین جذبہ ، قدرت کا خاص انعام ،کائنات کا عظیم سمندر جس کی گہرائی کوئی ناپ ہی نا سکا آج تک ، لیکن اللہ کا شکر ہے اپنے ملک میں یہ منوں ، ٹنوں کے حساب سے موجود ہے۔ جتنی چاہے لے لیں جس حساب سے کوئی مول تول نہیں ، بھاؤ تاؤ نہیں ہر دکان پر وافر مقدار میں دستیاب ، ہرکارخانہ manufactureکر رہا ہے۔
منرل واٹرکی بوتلوں سے لے کر کار ، اے سی ، فرج ،گھر ، زمین غرض کہ ہر جگہ ہر مقام پر آپ کو وافر ملے گی اور سیاست ، حکومت میں تو کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ، لیکن اتنا خیال آپ کو بھی رکھنا ہوگا کہ اسے اس کے حقیقی معنوں میں نا ڈھونڈنے بیٹھ جانا کہیں آپ سچی محبت تلاش کرنے لگیں تو وہ تو کہیں نہیں ملے گی۔ بقول وزیرِ اعظم قبر میں شاید مل جائے کیونکہ سکون کے لیے بھی انھوں نے وہیں کا مشورہ دیا ہے ۔ زمین پر تو عنقا ہے اور تمام اشکال میں دستیاب ہے اور محبت ہی ہے اگر کوئی اسے ریا کاری ، منافقت ، جھوٹ کا نام دے گا تو ہم پاکستانی اسے تسلیم نہیں کریں گے آخر پھل ، انسان ، جانور بھی تو ملک بدلنے سے اپنا رنگ روپ بدل لیتے ہیں تو یہی حال باقی چیزوں کا بھی ہے۔
ان دنوں ملک میں ایک چرچا پینڈورا پیپرزکا بھی ہے۔ اللہ کرے کہ ایک مثبت سمت ہو لیکن پچھلا پاناما اور سراج الحق تو نواز شریف تک ہی پہنچے تھے اس سے آگے پاناما لیکس کی گاڑی میں پیٹرول ختم ہوگیا تھا اور ایسا ختم ہوا کہ پھر اس گاڑی کو کسی پیٹرول پمپ نے پیٹرول دیا ہی نہیں ، اوردرخواست دہندہ ایک طویل نیند جا سوئے۔ انھوں نے بھی بس ایک ہی بارکالاکوٹ پہننا تھا۔ اس بار دیکھتے ہیں کہ پینڈورا پیپرزکا نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے۔
دوستو، میرا پچھلا کالم تو تھا ہی احتساب کی ناکامی پر اور وہی خدشات مجھے آج بھی ہیں کہ ہمارے ملک میں احتساب کی سمت صاف اور سیدھی نہیں بلکہ کچھ زک زیک سی ہوتی ہے مثلاً وہ کسی بھی مقام پر کسی صاحب ِ حیثیت یا صاحب ِ حکومت شخص کا پسندیدہ موڑکاٹ لیتا ہے۔ البتہ غرباء کے لیے وہی احتساب دو دھاری تلوار ہے ہمیشہ سیدھی اور تیز ، تو یہ پینڈورا بکس ایسا کیا کر لے گا زیادہ سے زیادہ کرپشن کی نشاندہی اور بس دو چار دن میڈیا ، سوشل میڈیا پر چڑیا طوطے خبر دیں گے واویلا مچ جائے گا حکومت اور اپوزیشن جھگڑالو عورتوں کی طرح کچھ دن ایک دوسرے پر ہاتھ نچا لیں گی ، آہنی ہاتھ پھر جیب سے نکل کر جیب میں چلے جائیں گے۔
پولیس وینز سائرن بجا کر خاموش ہوجائیں گی اور پھر سے ایک سکوت طاری ہوجائے گا جھیل پر بننے والے دائرے ختم ہوجائیں گے اور پتھر کہیں تہہ میں غائب ہوجائے گا۔ ہم نے تو یہی دیکھا ہے اب تک۔ اب کچھ ہوجائے تو اسے قسمت قدرت کا لکھا مان لیں گے ۔
سنا ہے کہ ہماری حکومت اور ادارے سی پیک منصوبوں پر کام کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں لیکن مجھے تو اس ناراضگی پر حیرت ہے۔کیا چین کو یہ علم نہیں تھا سی پیک شروع کرنے سے پہلے کہ ہماری جملہ جائیدادیں امریکا میں ہوتی ہیں جینا تو دورکی بات ہے ہم تو پاکستان میں مرنا تک پسند نہیں کرتے، تو پہلے سوچنا تھا بھائی ، اب کیوں ناراض ہوتے ہو ہم تو پیدا ہوتے ہی انکل سام کی گود میں چڑھ گئے تھے اور آج تک نہ اترے ۔ ہاں اگر الیکشن کمیشن یہ ایکشن لے لے یا ہماری عدالتیں کسی برس چپ کا روزہ کھول لیں کہ جس سیاستدان ، جس سرکاری آفیسر کی جائیداد ملک سے باہر ہوئی یا کسی سیاستدان کے پاس دہری شہریت ہوئی تو اسے ہر الیکشن اور ہر ملازمت کے لیے تاحیات نا اہل قرار دے دیا جائے گا۔
تب شاید یہ شہد کے چھتے سے رس نچوڑکر اڑنا چھوڑ دیں ! ملک کو اپنے باپ دادا کی میراث سمجھنا چھوڑ دیں اور اہلِ یورپ و امریکا کی گود سے اتر آئیں ، ورنہ تو بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ ہوتا رہے چین ناراض ،ایک اور فیشن بھی کچھ عجیب سا ہے کہ ہر اس شخص یا گروہ سے مذاکرات ممکن ہیں جس نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوں ، اسکول کے معصوم بچوں تک کے خون سے ہاتھ رنگے ہوں سیکڑوں اہلکار شہید کیے ہوں ملکی سلامتی اور سالمیت پر حملے کیے ہوں لیکن ملک کی اپوزیشن سے ملک کے وفادار لوگوں سے وہی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ وہ مجرم قرار پائے ، یہ کیسا قانون ہے یہ کیسی سیاست ہے اور یہ کیسی ریاست ہے؟
جیون کی پگڈنڈی یونہی تاریکی میں بل کھاتی ہے
کون ستارے چھو سکتا ہے راہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے
مجال ہے کہ نظام زندگی میں رتًیِ برابر بھی کوئی تبدیلی رونما ہوئی ہو، کہیں کچھ بدل گیا ہو، کوئی امید آنے والے دنوں کے کسی دریچے، روزن سے جھانکتی ہے۔ سب کچھ ویسا ہی ہے یا ویسا ہی رہنے والا ہے تو پھر کیا کیِا جائے؟ چلیے موضوعات کی سمت بدل کر دیکھتے ہیں۔
کراچی کے لیے منظور ہونے والی اربوں روپے کی گرانٹ تو پاکستان آزاد ہونے کے بعد سے حالتِ اعلان میں ہی ہے ، یعنی مسلسل سفر میں جوکبھی اس ساحلی شہر تک پہنچی ہی نہیں ، زندگی سسکتی رہی ، بھوک و افلاس کا رقص جاری رہا ، غریب نعرے لگاتا رہا ، مرتا رہا ، ریڑھی ، چھکڑا ، سکس سیٹر ، مزدا بسوں میں سفر کرتا رہا لیکن اعلان شدہ امداد کبھی نہیں آئی۔
لیجیے میرا لہجہ پھر تلخ ہوگیا میں پھر بغاوت پر اتر آیا ! شاید مجھ میں ہی کوئی خامی ہے کہ کسی اچھے موضوع پر مجھ سے بات ہوتی ہی نہیں، بہرحال کوشش تو ضرور کروں گا خواہ کچھ بھی ہوجائے۔ خیر طوفان پر آتے ہیں کہ وہ کیا کچھ بہترکرسکتا ہے ہمارے صوبے میں تو پانی کی صورت میں ، اور یہاں بھی صفائی کی شکل میں بارشوں سے ہی امید ہے ورنہ تو جو حال میونسپل کمیٹیزکا ہے اس سے تو بہتر تھا کہ یہ ادارے وجود ہی نہ رکھتے۔
ہر جگہ ایک برائی سر چڑھ کر بول رہی ہے کہ میرا بندہ رکھ لو ، پارٹی کوئی بھی ہو پارٹی عہدیداران کی فرمائش یہی ہوتی ہے اور ظاہر ہے جماعت کو وہ آفیسرز رکھنے پڑتے ہیں کیونکہ پارٹی بھی تو چلانی ہوتی ہے حتٰی کی ہرMNA,MPA بھی یہی چاہتا ہے اور اپنے بندے رکھوا لیتا ہے پھر وہ آفیسرز پبلک کا کام کیونکرکریں گے وہ تو انھی کا کام کرتے ہیں جو انھیں رکھواتے ہیں اور انھی کے کام آتے ہیں۔
پورے ملک کا حال یہی ہے جب کہ کچھ ادارے جو چوکیداری کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں وہ اس صورتحال پر بغور نظر رکھتے ہیں اور سب کچھ ہونے دیتے ہیں تاکہ ملک میں خرابی پیدا ہو حالات نا گفتہ بے ہوجائیں اور بالاخر عوام ایک آواز ہوکر انھیں آواز دیں کہ حضورِ والا اب آپ ہی تشریف لے آئیں تاکہ زندگی کی گاڑی تو چلے اور پھر وہ بڑے طمطراق سے آجاتے ہیں۔ پھرکیا ہوتا ہے یہ کسی اور تحریر میں بیان کروں گا اس وقت تو دل و ذہن پر شرافت کا بھوت سوار ہے سو وہیں تک رہتے ہیں۔
موسم کے بعد آتے ہیں محبت پر جو ایک عالمی سچائی ہے۔ عظیم ترین جذبہ ، قدرت کا خاص انعام ،کائنات کا عظیم سمندر جس کی گہرائی کوئی ناپ ہی نا سکا آج تک ، لیکن اللہ کا شکر ہے اپنے ملک میں یہ منوں ، ٹنوں کے حساب سے موجود ہے۔ جتنی چاہے لے لیں جس حساب سے کوئی مول تول نہیں ، بھاؤ تاؤ نہیں ہر دکان پر وافر مقدار میں دستیاب ، ہرکارخانہ manufactureکر رہا ہے۔
منرل واٹرکی بوتلوں سے لے کر کار ، اے سی ، فرج ،گھر ، زمین غرض کہ ہر جگہ ہر مقام پر آپ کو وافر ملے گی اور سیاست ، حکومت میں تو کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ، لیکن اتنا خیال آپ کو بھی رکھنا ہوگا کہ اسے اس کے حقیقی معنوں میں نا ڈھونڈنے بیٹھ جانا کہیں آپ سچی محبت تلاش کرنے لگیں تو وہ تو کہیں نہیں ملے گی۔ بقول وزیرِ اعظم قبر میں شاید مل جائے کیونکہ سکون کے لیے بھی انھوں نے وہیں کا مشورہ دیا ہے ۔ زمین پر تو عنقا ہے اور تمام اشکال میں دستیاب ہے اور محبت ہی ہے اگر کوئی اسے ریا کاری ، منافقت ، جھوٹ کا نام دے گا تو ہم پاکستانی اسے تسلیم نہیں کریں گے آخر پھل ، انسان ، جانور بھی تو ملک بدلنے سے اپنا رنگ روپ بدل لیتے ہیں تو یہی حال باقی چیزوں کا بھی ہے۔
ان دنوں ملک میں ایک چرچا پینڈورا پیپرزکا بھی ہے۔ اللہ کرے کہ ایک مثبت سمت ہو لیکن پچھلا پاناما اور سراج الحق تو نواز شریف تک ہی پہنچے تھے اس سے آگے پاناما لیکس کی گاڑی میں پیٹرول ختم ہوگیا تھا اور ایسا ختم ہوا کہ پھر اس گاڑی کو کسی پیٹرول پمپ نے پیٹرول دیا ہی نہیں ، اوردرخواست دہندہ ایک طویل نیند جا سوئے۔ انھوں نے بھی بس ایک ہی بارکالاکوٹ پہننا تھا۔ اس بار دیکھتے ہیں کہ پینڈورا پیپرزکا نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے۔
دوستو، میرا پچھلا کالم تو تھا ہی احتساب کی ناکامی پر اور وہی خدشات مجھے آج بھی ہیں کہ ہمارے ملک میں احتساب کی سمت صاف اور سیدھی نہیں بلکہ کچھ زک زیک سی ہوتی ہے مثلاً وہ کسی بھی مقام پر کسی صاحب ِ حیثیت یا صاحب ِ حکومت شخص کا پسندیدہ موڑکاٹ لیتا ہے۔ البتہ غرباء کے لیے وہی احتساب دو دھاری تلوار ہے ہمیشہ سیدھی اور تیز ، تو یہ پینڈورا بکس ایسا کیا کر لے گا زیادہ سے زیادہ کرپشن کی نشاندہی اور بس دو چار دن میڈیا ، سوشل میڈیا پر چڑیا طوطے خبر دیں گے واویلا مچ جائے گا حکومت اور اپوزیشن جھگڑالو عورتوں کی طرح کچھ دن ایک دوسرے پر ہاتھ نچا لیں گی ، آہنی ہاتھ پھر جیب سے نکل کر جیب میں چلے جائیں گے۔
پولیس وینز سائرن بجا کر خاموش ہوجائیں گی اور پھر سے ایک سکوت طاری ہوجائے گا جھیل پر بننے والے دائرے ختم ہوجائیں گے اور پتھر کہیں تہہ میں غائب ہوجائے گا۔ ہم نے تو یہی دیکھا ہے اب تک۔ اب کچھ ہوجائے تو اسے قسمت قدرت کا لکھا مان لیں گے ۔
سنا ہے کہ ہماری حکومت اور ادارے سی پیک منصوبوں پر کام کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں لیکن مجھے تو اس ناراضگی پر حیرت ہے۔کیا چین کو یہ علم نہیں تھا سی پیک شروع کرنے سے پہلے کہ ہماری جملہ جائیدادیں امریکا میں ہوتی ہیں جینا تو دورکی بات ہے ہم تو پاکستان میں مرنا تک پسند نہیں کرتے، تو پہلے سوچنا تھا بھائی ، اب کیوں ناراض ہوتے ہو ہم تو پیدا ہوتے ہی انکل سام کی گود میں چڑھ گئے تھے اور آج تک نہ اترے ۔ ہاں اگر الیکشن کمیشن یہ ایکشن لے لے یا ہماری عدالتیں کسی برس چپ کا روزہ کھول لیں کہ جس سیاستدان ، جس سرکاری آفیسر کی جائیداد ملک سے باہر ہوئی یا کسی سیاستدان کے پاس دہری شہریت ہوئی تو اسے ہر الیکشن اور ہر ملازمت کے لیے تاحیات نا اہل قرار دے دیا جائے گا۔
تب شاید یہ شہد کے چھتے سے رس نچوڑکر اڑنا چھوڑ دیں ! ملک کو اپنے باپ دادا کی میراث سمجھنا چھوڑ دیں اور اہلِ یورپ و امریکا کی گود سے اتر آئیں ، ورنہ تو بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ ہوتا رہے چین ناراض ،ایک اور فیشن بھی کچھ عجیب سا ہے کہ ہر اس شخص یا گروہ سے مذاکرات ممکن ہیں جس نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوں ، اسکول کے معصوم بچوں تک کے خون سے ہاتھ رنگے ہوں سیکڑوں اہلکار شہید کیے ہوں ملکی سلامتی اور سالمیت پر حملے کیے ہوں لیکن ملک کی اپوزیشن سے ملک کے وفادار لوگوں سے وہی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ وہ مجرم قرار پائے ، یہ کیسا قانون ہے یہ کیسی سیاست ہے اور یہ کیسی ریاست ہے؟
جیون کی پگڈنڈی یونہی تاریکی میں بل کھاتی ہے
کون ستارے چھو سکتا ہے راہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے