حشر میں پھر ملیں گے
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا میں عوام سے معافی مانگوں، میں نے پرویز مشرف کی بات کو تسلیم کیا۔
عبدالقدیر خان ، یکم اپریل 1937 میں بھوپال میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عبدالغفور خان ناگ پور یونیورسٹی میں پروفیسر تھے، کچھ عرصہ برٹش انڈیا میں وزیر تعلیم کے فرائض بھی انجام دیے۔ تقسیم ہند کے بعد آپ کا خاندان کراچی آگیا۔ کراچی آمد کے بعد ڈی جے سائنس کالج میں داخلہ لیا۔ 1956 تک اسی کالج میں زیر تعلیم رہے۔
بعدازاں کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ 1960 میں انھوں نے فزکس میں ڈگری حاصل کی، ڈگری حاصل کرنے کے بعد تھوڑا عرصہ سرکاری ملازم رہے، چونکہ وہ مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لہٰذا وہ ایک سال بعد ملازمت چھوڑ کر 1961 میں برلن، جرمنی چلے گئے۔
وہاں انھوں نے ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن میں داخلہ لیا۔ اس یونیورسٹی میں چار سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1965 کو نیدرلینڈ جاکر یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی نیدر لینڈ میں دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد ٹیکنالوجی میں ڈگری حاصل کی۔ 1967 میں انھوں نے ڈاکٹریٹ کی تعلیم کے لیے کیتھولک یونیورسٹی آف لیونین میں داخلہ لیا۔ یہاں سے وہ ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی سند لے کر نکلے۔ تقریباً پندرہ برس یورپ میں رہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان 31 مئی 1976 کو پاکستان آگئے اور انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری جوکہ پاکستانی ایٹمی پروگرام تھا اس کا چارج سنبھال لیا۔ بعدازاں اس لیبارٹری کا نام جنرل محمد ضیا الحق نے تبدیل کرکے اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری رکھ دیا۔ یہ وہی ادارہ ہے جس نے پاکستان کو ناقابل تسخیر ملک بنایا۔ نومبر 2000 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے قیس نامی ادارے کی بنیاد رکھی جوکہ فلاحی اور تعلیمی کام کرتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کے وہ مایہ ناز سائنس دان ہیں جنھوں نے تقریباً 8 سال کے نہایت قلیل عرصے میں اپنی محنت، لگن، جانفشانی کے ساتھ ایٹمی پلانٹ لگا کر دنیا کے بڑے بڑے نوبل انعام یافتہ سائنس دانوںکو حیران، پریشان اور ششدرکردیا۔
مئی 1998 کو آپ نے چاغی کے مقام پر چھ کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکے کیے۔ پاکستان اس سے قبل اپنا ایٹمی پلانٹ لگا چکا تھا چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر ابھی تک تجربات نہیں کیے گئے تھے اس وقت مغربی دنیا کی اسلام کے خلاف تنقید و تبصروں کو دیکھتے ہوئے اس بم کو اسلامی کا نام دیا۔
اس موقع پر سعودی مفتی اعظم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اسلامی دنیا کا ہیرو قرار دیا اور پاکستان کو مفت تیل فراہم کرنے کا حکم بھی جاری کیا، چونکہ ڈاکٹر صاحب کو پوری دنیا میں شہرت حاصل ہوئی اسی وجہ سے ان کے کچھ دشمنوں نے ان کے خلاف سازشیں کرتے ہوئے ہالینڈ کی حکومت نے ان پر اہم معلومات چرانے کا مقدمہ دائر کروا دیا۔
بعد میں ہالینڈ، بیلجیم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسروں نے ان پر لگے الزامات کا جائزہ لیا تو انھوں نے ڈاکٹر صاحب کو باعزت بری کرنے کو کہا۔ چونکہ جن معلومات کو چرانے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا وہ تو عام کتابوں میں بھی موجود تھیں۔ بعدازاں ہالینڈ کی حکومت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے معافی مانگتے ہوئے ان کو باعزت بری کردیا۔ اس سے ان کی شہرت و مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ اس دوران ڈاکٹر صاحب کو بڑی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
1989 کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہلال امتیاز سے نوازا گیا، 1993 میں کراچی یونیورسٹی نے ان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ 14 اگست 1994 کو صدر پاکستان نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان امتیاز دیا۔
میڈیا میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بارے میں جھوٹی زیادہ، سچی کم باتیں دکھائی جا رہی تھیں یہ معاملہ ریاست پاکستان سے جوڑا جا رہا تھا، اس مبینہ نیٹ ورک میں انڈین بھی شامل تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ون ٹو ون میٹنگ کی، جیسا امریکا نے کہا ڈاکٹر کو ہمارے حوالے کردو، میں کبھی ایسا نہیں کروں گا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا میں عوام سے معافی مانگوں، میں نے پرویز مشرف کی بات کو تسلیم کیا۔
پرویز مشرف نے کہا وہ ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ کچھ نہیں ہونے دیں گے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے متعدد انٹرویوز میں کہا دنیا کے بڑے ممالک نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کسی دوسرے سے چوری کی ہے جرمن سے امریکا پھر روس اس لیے پاکستانی یا کسی ملک کو الزام دینا ٹھیک نہیں۔
اتوار 3 ربیع الاول 1443 بمطابق 10 اکتوبر 2021 کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان کی تاریخ میں بڑا اہم مقام حاصل رہا، عزت و عظمت، قدر و منزلت پائی، موجودہ اور آنے والی قوم انھیں یاد رکھے گی۔
بعدازاں کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ 1960 میں انھوں نے فزکس میں ڈگری حاصل کی، ڈگری حاصل کرنے کے بعد تھوڑا عرصہ سرکاری ملازم رہے، چونکہ وہ مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لہٰذا وہ ایک سال بعد ملازمت چھوڑ کر 1961 میں برلن، جرمنی چلے گئے۔
وہاں انھوں نے ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن میں داخلہ لیا۔ اس یونیورسٹی میں چار سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1965 کو نیدرلینڈ جاکر یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی نیدر لینڈ میں دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد ٹیکنالوجی میں ڈگری حاصل کی۔ 1967 میں انھوں نے ڈاکٹریٹ کی تعلیم کے لیے کیتھولک یونیورسٹی آف لیونین میں داخلہ لیا۔ یہاں سے وہ ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی سند لے کر نکلے۔ تقریباً پندرہ برس یورپ میں رہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان 31 مئی 1976 کو پاکستان آگئے اور انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری جوکہ پاکستانی ایٹمی پروگرام تھا اس کا چارج سنبھال لیا۔ بعدازاں اس لیبارٹری کا نام جنرل محمد ضیا الحق نے تبدیل کرکے اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری رکھ دیا۔ یہ وہی ادارہ ہے جس نے پاکستان کو ناقابل تسخیر ملک بنایا۔ نومبر 2000 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے قیس نامی ادارے کی بنیاد رکھی جوکہ فلاحی اور تعلیمی کام کرتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کے وہ مایہ ناز سائنس دان ہیں جنھوں نے تقریباً 8 سال کے نہایت قلیل عرصے میں اپنی محنت، لگن، جانفشانی کے ساتھ ایٹمی پلانٹ لگا کر دنیا کے بڑے بڑے نوبل انعام یافتہ سائنس دانوںکو حیران، پریشان اور ششدرکردیا۔
مئی 1998 کو آپ نے چاغی کے مقام پر چھ کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکے کیے۔ پاکستان اس سے قبل اپنا ایٹمی پلانٹ لگا چکا تھا چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر ابھی تک تجربات نہیں کیے گئے تھے اس وقت مغربی دنیا کی اسلام کے خلاف تنقید و تبصروں کو دیکھتے ہوئے اس بم کو اسلامی کا نام دیا۔
اس موقع پر سعودی مفتی اعظم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اسلامی دنیا کا ہیرو قرار دیا اور پاکستان کو مفت تیل فراہم کرنے کا حکم بھی جاری کیا، چونکہ ڈاکٹر صاحب کو پوری دنیا میں شہرت حاصل ہوئی اسی وجہ سے ان کے کچھ دشمنوں نے ان کے خلاف سازشیں کرتے ہوئے ہالینڈ کی حکومت نے ان پر اہم معلومات چرانے کا مقدمہ دائر کروا دیا۔
بعد میں ہالینڈ، بیلجیم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسروں نے ان پر لگے الزامات کا جائزہ لیا تو انھوں نے ڈاکٹر صاحب کو باعزت بری کرنے کو کہا۔ چونکہ جن معلومات کو چرانے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا وہ تو عام کتابوں میں بھی موجود تھیں۔ بعدازاں ہالینڈ کی حکومت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے معافی مانگتے ہوئے ان کو باعزت بری کردیا۔ اس سے ان کی شہرت و مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ اس دوران ڈاکٹر صاحب کو بڑی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
1989 کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہلال امتیاز سے نوازا گیا، 1993 میں کراچی یونیورسٹی نے ان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ 14 اگست 1994 کو صدر پاکستان نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان امتیاز دیا۔
میڈیا میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بارے میں جھوٹی زیادہ، سچی کم باتیں دکھائی جا رہی تھیں یہ معاملہ ریاست پاکستان سے جوڑا جا رہا تھا، اس مبینہ نیٹ ورک میں انڈین بھی شامل تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ون ٹو ون میٹنگ کی، جیسا امریکا نے کہا ڈاکٹر کو ہمارے حوالے کردو، میں کبھی ایسا نہیں کروں گا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا میں عوام سے معافی مانگوں، میں نے پرویز مشرف کی بات کو تسلیم کیا۔
پرویز مشرف نے کہا وہ ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ کچھ نہیں ہونے دیں گے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے متعدد انٹرویوز میں کہا دنیا کے بڑے ممالک نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کسی دوسرے سے چوری کی ہے جرمن سے امریکا پھر روس اس لیے پاکستانی یا کسی ملک کو الزام دینا ٹھیک نہیں۔
اتوار 3 ربیع الاول 1443 بمطابق 10 اکتوبر 2021 کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان کی تاریخ میں بڑا اہم مقام حاصل رہا، عزت و عظمت، قدر و منزلت پائی، موجودہ اور آنے والی قوم انھیں یاد رکھے گی۔