رحمتہ اللعالمین ﷺ

آپؐ کی تشریف آوری ایسی نعمت عظمیٰ ہے جسے خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں پر احسانِ عظیم سے تعبیر فرمایا۔

آپؐ کی تشریف آوری ایسی نعمت عظمیٰ ہے جسے خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں پر احسانِ عظیم سے تعبیر فرمایا۔ فوٹو: فائل

PARIS:
اﷲ تعالیٰ نے حضور اقدس ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔

رحمتہ للعالمین ﷺ کی آمد سے قبل پوری دنیا شرک و بدعت، ضلالت و گم راہی اور معصیت و نافرمانی کے عمیق گڑھے میں گری ہوئی تھی، انساینت نام کی کوئی چیز نہ تھی، لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، عورتوں اور غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا، مرد و عورتیں بیت اﷲ کا برہنہ طواف کرتے، ایک خدا کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ بُتوں کی پرستش کی جاتی، حتی کہ خانہ کعبہ میں اس مقصد کے لیے تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئے تھے۔

فسق و فجور اور بدکاریوں پر ندامت و شرمندگی کے بہ جائے اس پر فخر کیا جاتا تھا، شراب نوشی اور قمار بازی ان کا پسندیدہ و محبوب مشغلہ تھا، حسب و نسب پر فخر کیا جاتا، انتقام و کینہ وری کو وصف و خوبی سمجھا جاتا، بغض و عداوت میں کوئی عار نہ ہوتی، بُتوں کے نام پر جانور ذبح کیے جاتے اور چڑھاوے چڑھائے جاتے، زندہ جانور کا گوشت کاٹ کر کھا یا جاتا، ہر قبیلہ دوسرے قبیلے کو کمتر اور ذلیل سمجھتا، گھڑ دوڑ پر بازی لگائی جاتی، سودی لین دین عام تھا، معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے صدیوں چلتے، گویا کہ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔

ان حالات میں جب کہ ہر طرف انسانیت سسکتی اور دم توڑتی دکھائی دے رہی تھی حضور اقدس ﷺ دنیا میں رحمتہ للعالمین ﷺ بن کر تشریف لاتے ہیں اور اس آفتاب و ماہ تاب کی روشنی سے پوری دنیا فیض یاب ہونے لگی، آپ ﷺ کی آمد و تشریف آوری ایسی نعمت عظمیٰ ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں پر احسانِ عظیم سے تعبیر فرمایا ہے۔ آپ ﷺ سراپا رشد و ہدایت اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے کامل نمونہ ہیں اور آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ میں دنیا و آخرت کی فلاح و کام یابی کو مضمر کر دیا گیا ہے۔

آپ ﷺ ابر رحمت بن کر انسانیت پر برسے اور ان کو کفر و شرک اور ضلالت و گم راہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر توحید و رسالت کی روشنی سے منور کیا۔ آپ ﷺ نے انسانیت سے گری ہوئی ایک ایسی قوم میں مثالی پاکیزہ اور باکردار روشن زندگی گزاری کہ جن کی بداعمالیوں کی وجہ سے کوئی ان پر حکومت کرتا بھی اپنے لیے توہین و عیب سمجھتا تھا۔

اس کا نقشہ حضرت جعفر طیارؓ نے شاہِ جش نجاشی کے دربار میں ان الفاظ میں کھینچا، مفہوم: ''ہم بے دین اور کم علم تھے، بُتوں کی پرستش کرتے، مردار کھاتے، بے حیائی کے دلدادہ تھے، اپنے بھائیوں پر ظلم ڈھاتے، ہمسایوں کو تکلیف پہنچاتے تھے، ہم میں سے طاقت ور کم زور پر ستم کیا کرتا تھا، ہم میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی، مہمان داری کا نام و نشان نہ تھا، کوئی قاعدہ قانون نہ تھا کہ اچانک ہم میں سے ایک پاکیزہ انسان کو اﷲ رب العزت نے آخری پیغمبر ﷺ بنا کر مبعوث فرمایا جس کے حسب و نسب، سچائی، امانت و دیانت داری، پاک دامنی، تقویٰ و طہارت، ہم دردی و پاکیزگی کو ہم خوب جانتے تھے۔

اس در یتیمؐ نے ہم کو بتایا کہ ہم سب کا پروردگار ایک اﷲ ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور وہ ماں باپ اور اولاد سے پاک ہے، وہ اﷲ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، وہی سب کا خالق و مالک اور رازق ہے، نفع و نقصان اس کے ہاتھ میں ہے، یہ بُت کسی چیز کے مالک نہیں ہیں، ایک اﷲ تعالیٰ کی ذات ہی سب کی حاجت روا ہے، اس کے ساتھ حضور ﷺ نے ہمیں یہ بھی ہدایات فرمائی ہیں کہ ہمیشہ سچ بولا کرو، اپنا وعدہ پورا کیا کرو، حرام باتوں سے بچو! خون ریزی اور یتیم کا مال کھانے سے دور رہو، کسی کا ناحق مال نہ کھاؤ، اسی طرح پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا اور ساتھ ہی نماز پڑھنے کا حکم دیا، روزہ رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید فرمائی، مہمان نوازی کا درس دیا۔ ہم سب ان پر ایمان لائے اور ان کی اتباع کرتے ہوئے ان پر دل و جان سے فدا ہوئے۔''

رحمتہ للعالمین ﷺ اعلانِ نبوت سے قبل ہی صادق اور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ لوگ آپ ﷺ کے پاس امانتیں رکھواتے اور معاملات کے فیصلے کرواتے، لیکن جب رحمتہ للعالمین ﷺ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اعلانِ نبوت کرتے ہوئے ان کو بتوں کی پرستش ترک کرکے ایک خدا کی عبادت کرنے، اور آپ ﷺ کی رسالت کی گواہی دینے کے بارے میں کہا تو یہی قوم جو آپ ﷺ کی پاک دامنی اور صدق و امانت کی قسمیں کھانے والی تھی وہی آپ ﷺ کے خلاف ہوگئی۔ پھر آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے جانے لگے، آپ ﷺ کو ہر طرح تنگ کرتے ہوئے ستایا جاتا، طائف کے میدان میں آپ ﷺ کو توحید کی دعوت دینے کی پاداش میں پتھر مار کر لہولہان کر دیا جاتا ہے۔

ام المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ نے ایک مرتبہ رحمتہ للعالمین ﷺ سے سوال کیا:


کیا آپ ﷺ پر احد سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آیا۔؟ آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا: سب سے زیادہ مجھے اذیت و تکلیف (کافروں) سے طائف کی گھاٹی میں پہنچی جس دن میں نے عبدیالیل کے بیٹے پر (دعوت و تبلیغ کے لیے) اپنے آپ کو پیش کیا۔

دعوت توحید دینے کی پاداش میں آپ ﷺ پر گندگی پھینکی جاتی اور آپؐ کو (نعوذباﷲ) مجنون، دیوانہ اور جادوگر تک کہا گیا۔ آپؐ پر ایمان لانے کی وجہ سے صحابہ کرامؓ کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا دیا جاتا، شعب ابی طالب میں آپؐ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ کو تین سال تک قید و محصور کر دیا جاتا ہے، آپؐ کا مکمل سماجی مقاطعہ کر دیا جاتا ہے، کھانے پینے کی کوئی چیز بھی آپؐ تک اور آپؐ کے ساتھیوں تک نہیں پہنچنے دی جاتی تھی تاکہ یہ بھوک و پیاس سے تنگ آ کر حضور ﷺ کا ساتھ چھوڑ دیں۔

دودھ پیتے بچے بھوک سے روتے بلکتے تو کفار خوش ہوتے، ان مشکل ترین حالات میں بھی آپؐ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ نے اعلیٰ اور بے نظیر مثال قائم کرتے ہوئے درختوں کے پتّے چپا کر اور خشک چمڑے کو پانی میں بھگو کر نگل لیتے لیکن حضورؐ کا ساتھ اور ایمان کو نہیں چھوڑا۔ آپؐ کو احد کے میدان میں زخمی کیا گیا، آپؐ کے دندان مبارک شہید کیے گئے، آپ ﷺ پر ایمان لانے کی پاداش میں حضرت بلالؓ، حضرت خباب اور یاسر و عمار سمیت دیگر صحابہ کرام رضوان اﷲ عنہم اجمعین کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کفار ان کو گرم ریت اور دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیتے، لیکن اس سب کے باوجود رحمتہ للعالمین ﷺ نے کبھی ان ظالموں کے لیے بد دعا نہیں کی بل کہ ہدایت کی دعا کی۔

ان حالات میں بھی محسن انسانیت ﷺ اپنے مشن کو زندہ اور جاری رکھتے ہیں، مکہ کے لوگوں نے جب ظلم و تشدد کی انتہا کر دی تو آپؐ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں، مدینہ میں انصار نے حضور ﷺ اور ہجرت کر کے آنے والے صحابہ کرامؓ کے ساتھ اخوت و محبت کا وہ بے مثال مظاہرہ کیا کہ تاریخ انسانی اس کی نظیر و مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔

اور پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جب رحمتہ للعالمین ﷺ اپنے دس ہزار جاں نثار صحابہ کرامؓ کے لشکر کے ہم راہ اسی مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں جہاں سے آپؐ اور صحابہ کرام ؓ کو دس سال قبل ظلم و تشدد کر کے نکالا جاتا ہے۔ حضور ﷺ کے سر مبارک کی قیمت سو سرخ اونٹ مقرر کی گئی تھی لیکن یہ کیسا فاتح ہے اور کیسا انقلاب ہے نہ تو قتل عام کیا جا رہا ہے اور نہ ہی فتح کا جشن منایا جا رہا ہے، آج انتقام، فتح کا نشہ اور تکبر و غرور نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔

رحمتہ للعالمینؐ اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے عاجزی و انکساری کے ساتھ سواری پر اس قدر جھکے ہوئے ہیں کہ آپؐ کا چہرہ انور سواری کی پشت کے ساتھ ملا ہوا نظر آتا ہے، مکہ سے نکالنے والے خوف زدہ ہیں کہ حضور ﷺ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور انتقام کا کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جنھوں نے آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے تھے، وہ بھی تھے جو آپ ﷺ کے خون کے پیاسے تھے، وہ بھی تھے جنھوں نے پتھر مار کر آپ ﷺ کے جسم اطہر کو لہولہان کیا تھا، وہ بھی تھے کہ جنھوں نے آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اﷲ عنہم پر ایمان لانے کی پاداش میں ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑتے ہوئے تپتی ریت پر لٹا کر ان کے سینوں پر وزنی پتھر رکھے تھے، ان صحابہ کرامؓ کو دھکتے ہوئے کوئلوں پر لٹایا گیا اور ان کے جسموں کو گرم سلاخوں کے ساتھ داغا گیا۔

ان میں وہ بھی تھے جنھوں نے رحمتہ للعالمینؐ اور صحابہ کرامؓؓ کو شعب ابی طالب کی قید میں درختوں کی کھال اور پتّے چپانے پر مجبور کر دیا تھا۔ آج یہ سب بارگاہ رسالت ﷺ میں مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہیں، رحمتہ للعالمین ﷺ نے ان سب پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا کہ جانتے ہو آج میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ بے بسی اور ندامت کے عالم میں ہر طرف سے ایک ہی رحم طلب صدا گونجی: آپ ﷺ عالی ظرف اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔ رحمتہ للعالمین ﷺ نے سب کے لیے معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: ''آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے جاؤ تم سب آزاد ہو۔'' ہر کسی کو امان مل رہی ہے جو بھی آپ ﷺ کی بارگاہ میں آیا اس نے اپنے آپ کو مامون پایا۔

پھر رحمتہ للعالمین ﷺ کی بارگاہ میں بڑے بڑے دشمنِ اسلام اپنے کفر سے تائب ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہو کر اپنے آپ کو نورِ ایمان سے منور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو فتح مکہ کے موقع پر حضور ﷺ کے انتقام کے خوف سے بھاگ رہے تھے وہ بھی آپؐ کی شانِ رحیمی و کریمی اور معافی کے معاملے کو دیکھ اور سن کر اسلام کی دولت سے مالا مال ہو رہے ہیں۔ اور پھر رحمتہ للعالمین ﷺ بیت اﷲ میں داخل ہو کر بتوں کو توڑتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت کا کلمہ بلند کر کے حق کے آجانے اور باطل کے مٹ جانے کا اعلان فرماتے ہیں۔

چشم فلک نے پھر یہ منظر بھی دیکھا کہ جب مکہ کی گلیوں میں ایمان لانے کی پاداش میں ظلم و تشدد کا نشانہ بننے والے سیدنا حضرت بلالؓ، حضور ﷺ کے حکم سے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کے اذان دیتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت و کبریائی اور حضور ﷺ کی رسالت کا اعلان کرتے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں اسوہ حسنہؐ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Load Next Story