پیسہ یا کرکٹ

اگر کرکٹ کو کھیل کے بجائے پیسہ کمانے کا زریعہ ہی بنانا ہے تو کیا اس کے لئے فلم انڈسٹری کافی نہ تھی؟


کاشف اعوان February 03, 2014
یہ دنیا کا اصول رہا ہے کہ بڑوں کی جانب سے کئے جانے والے مظالم چھوٹے ہمیشہ خاموشی سے سہتے رہتے ہیں.

کرکٹ میں سیاست اور پیسے کی ریل پیل نے ہمیشہ کھیل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، ماضی میں کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے ملک ایک دوسرے کے سیاسی مسائل حل کرتے رہے ہیں لیکن پیسے کی چمک نے کرکٹ کا اصل چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک صدی پرانے اس کھیل پر ایک مرتبہ پھر یلغار ہونے جارہی ہے، آسٹریلیا ، بھارت اور انگلینڈ کے کرکٹ بورڈز کے ٹرائیکا نے بگ تھری کے نام سے گروپ بنا کر آئی سی سی پر قبضے کا منصوبہ بنالیا ہے جس کے مطابق انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے مالی معاملات، کرکٹ شیڈول اور اس کے علاوہ دیگر اہم معاملات صرف ان تین بڑوں کی رضا مندی سے چلیں گے جبکہ چھوٹے کرکٹ بورڈز صرف بڑوں کا منہ ہی تکتے رہیں گے۔

یہ دنیا کا اصول رہا ہے کہ بڑوں کی جانب سے کئے جانے والے مظالم چھوٹے ہمیشہ خاموشی سے سہتے رہتے ہیں اور اگر کوئی چھوٹا مزاحمت کی جرات کرے تو اسے لالچ دے کر خاموش کرادیا جاتا ہے لیکن پھر بھی بات نہ بنے تو مزاحمت کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کرکے انہیں خاموشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایسا ہی ان دنوں دنیائے کرکٹ میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے، آئی سی سی پر قبضے کا منصوبہ ناکام بنانے کے لئے پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے بہت واضح اور مدلل موقف اپنایا گیا جس کی تائید میں سری لنکا، جنوبی افریقہ، بنگلا دیش اور ویسٹ انڈیز بورڈز کھڑے ہوگئے لیکن آخر ہوا وہی جس کا گمان تھا۔

28 جنوری کو آئی سی سی ہیڈ کوارٹر دبئی میں ہونے والے اجلاس میں چار چھوٹے کرکٹ بورڈز کی مخالفت کی وجہ سے بگ تھری منصوبہ کامیاب تو نہ ہوسکا البتہ بگ تھری بورڈ کو لابنگ کرنے اور مزاحمت کرنے والے ارکان کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کچھ وقت ضرور مل گیا، بگ تھری بورڈز کو معلوم تھا کہ بنگلادیش اور ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈز ان دنوں شدید مالی بحران کا شکار ہیں،اگر مالی طور پر ان ممالک کے مسائل حل کر لئے جائیں تو انہیں بھی اپنے ساتھ ملایا جاسکتا ہے، بنگلا دیش میں چونکہ آئندہ ماہ سے 2 بڑے ایونٹ ہونے جارہے ہیں اس سے قبل وہ کسی بورڈ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا خاص طور پر اپنے ہمسایہ بھارت کو، اس لئے بنگلادیش کرکٹ بورڈ کے چیرمین مصطفی کمال نے موقع کو غنیمت جان کر ٹیسٹ کرکٹ میں بنگلادیش کا اسٹیٹس برقرار رکھنے، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اور ایشیا کپ کے کامیاب انعقاد اور ان جیسے دیگر معاملات پر یقین دہانیاں حاصل کرنے کے بعد خاموش ہوگئے ہیں۔

اسی طرح ویسٹ انڈیز بھی اپنے خطے میں واحد ٹیم ہے جو ان دنوں مالی طور پر شدید پریشان ہے لہذا ویسٹ انڈیز بورڈ نے بھی بگ تھری کی حمایت کو ہی غنیمت جانا۔ نیوزی لینڈ اور زمبابوے بورڈ کی خاموشی درحقیقت بگ تھری کی خاموش حمایت ہے۔

جہاں تک سری لنکن کرکٹ بورڈ کا تعلق ہے تو وہ زیادہ دیر تک مخالفت کی سولی پر نہیں لٹک سکتا، امکان ہے کہ 8 فروری کو بگ تھری منصوبے کے اعلان میں بگ تھری بورڈ کو بنگلادیش کے علاوہ سری لنکا کی حمایت بھی حاصل ہوگی البتہ پاکستان اور جنوبی افریقا اس منصوبے سے ناخوش ہیں، چیرمین پی سی بی چوہدری ذکا اشرف تو صاف کہہ چکے ہیں کہ یہ صرف پیسے کی خاطر کیا جارہا ہےجو کرکٹ کے ساتھ ایک کھیل ہے، شائقین کرکٹ اور ماہرین کرکٹ بھی اس منصوبے کو کرکٹ کا قتل سمجھتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں جس کی لاٹھی اسکی بھینس، ان دنوں انگلینڈ ، آسٹریلیا اور بھارت کے ہاتھوں میں لاٹھی ہے اور وہ دیگر بورڈز کو ہانکتے جارہے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بگ تھری کی مخالفت یا حمایت سے پی سی بی کو کیا حاصل ہوگا، ہمارے گراؤنڈز تو پہلے ہی ویران پڑے ہیں اور گرین شرٹس ہوم سیریز بھی متحدہ عرب امارات میں جاکر کھیلتی ہے، اس صورتحال میں پی سی بی کی مخالفت صرف اپنے فوائد کے لئے نہیں بلکہ کرکٹ کی بقا کے لئے ہے، ممکن ہے بگ تھری منصوبہ تیار کرنے اور اس کی حمایت کرنے والے عارضی مالی فوائد تو حاصل کرلیں لیکن انہیں کرکٹ میں کامیابی نہیں مل سکے گی اس کی مثال حالیہ ایک سال کے دوران ہونے والی کرکٹ سیریز ہیں، جیسا کہ سال 2013 کے دوران بگ تھری کو عبرتناک شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انگلینڈ کو دبئی میں پاکستان کے ہاتھوں شکست ہوئی جبکہ آسٹریلیا کو بھارت میں تاریخی ناکامی کا سامنا رہا اور عالمی چیمپئن بھارت نیوزی لینڈ کے سامنے بھیگی بلی بنی رہی، تاہم نیوزی لینڈ نے باآسانی عالمی چیمپئن کو پانچ میچز کی سیریز میں وائٹ واش کیا۔

اگر کرکٹ کو کھیل کے بجائے پیسہ کمانے کا زریعہ ہی بنانا ہے تو کیا اس کے لئے فلم انڈسٹری کافی نہ تھی؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔