’’گلاب‘‘ کیوں نہ آیا ہم سے سُنیے
کسی نے ہمارا شکریہ ادا نہ کیا کہ ہم نے کس طرح بھائی گلاب کو سمجھا بجھا کر کراچی آنے سے روکا۔
کچھ روز پہلے شور بلند ہوا کہ بحری طوفان ''گلاب'' کراچی کے ساحل سے ٹکرانے کو ہے، لیکن خیر ہوئی کہ وہ ''باروں بار'' گزر گیا۔
کراچی والے بہت خوش ہوئے کہ بچت ہوگئی، لیکن کسی نے ہمارا شکریہ ادا نہ کیا کہ ہم نے کس طرح بھائی گلاب کو سمجھا بجھا کر کراچی آنے سے روکا۔ یوں تو اس طوفان کے رک جانے کا سبب ہم نے فیس بک پر ایک پوسٹ کے ذریعے کچھ اور بیان کیا تھا کیوں کہ ہمیں ڈر تھا کہ حقیقت بتادی تو لوگ ہم سے فرمائش کرنے لگیں گے کہ ''کسی طرح مہنگائی کے طوفان کو بھی بہلا پھسلا کر واپس کردو'' اور اس فرمائش کو پورا کرنا ہمارے بس میں نہیں، کیوں کہ یہ کوئی عام طوفان نہیں بلکہ ''طوفان ترین'' ہے۔ ہماری مذکورہ پوسٹ تھی:
''سمندر: ''کیا ہوا طوفان بھیا، تم تو کراچی کو ڈبونے نکلے تھے؟''
طوفان: ''کیا کروں واپس آنا پڑا، وزیراعلیٰ سندھ نے روک دیا کہ اٹھارھویں ترمیم کے تحت کراچی کی تباہی صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔''
ہماری یہ مختصر تحریر بہت سے احباب نے اپنائیت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے نام سے خوب چلائی۔ اب ہم اس پوسٹ سے یوٹرن لیتے ہوئے حقیقت بتارہے ہیں کہ یہ وزیراعلیٰ سندھ کا ''قانونی اور آئینی'' نکتہ نہیں بلکہ گلاب صاحب سے ہمارا لبِ ساحل ہونے والا مکالمہ تھا جس کی وجہ سے وہ کراچی آتے آتے رہ گئے۔ یہاں ہم وہ مکالمہ درج کیے دیتے ہیں تاکہ شہری ہمارا احسان مانیں اور کل کا مورٔخ یہ جان سکے کہ کراچی میں گلاب طوفان کیوں نہ آیا۔
ہم: بھائی گلاب ب ب ب ب، گلابووووو، ارے گلاب بھیااااا۔
گلاب: کیوں چِلا رہے ہو، میں وہیں آرہا ہوں۔
ہم: ارے نہیں نہیں، یہاں مت آئیے، ہمیں جو کہنا ہے وہ وہیں کھڑے کھڑے سُن لیں۔
گلاب: عجیب بات کرتے ہو۔ میں تو اس لیے آرہا تھا کہ تمھیں بات کرنے میں آسانی ہو، چیخنا نہ پڑے، چلو تمھاری مرضی، وہیں سے چیخ چیخ کر کلام کرتے رہو۔
ہم: بھیا! آپ کی بات معقول ہے، لیکن ہم کراچی والوں کا تجربہ ہے کہ بہت دور سے کیا جانے والا ''خطاب'' چاہے سمجھ میں آئے نہ آئے لیکن قریب کی گفتگو سے زیادہ پُراثر ہوتا ہے۔
گلاب: کتنی دور سے؟
ہم: زیادہ سے زیادہ لندن۔۔۔کم سے کم راولپنڈی۔
گلاب: میری سمجھ میں تم کراچی والوں کی باتیں نہیں آتیں۔ خیر بکو۔
ہم: یہی تو مسئلہ ہے، ہم کراچی والے برسوں سمجھ میں نہ آنے والی باتوں پر بنا سمجھے ہی عمل کرتے رہے، اور ہماری سمجھ میں آنے والی باتیں بھی کوئی نہیں سمجھ پاتا۔
گلاب: اُف، بہت پکاتے ہو بھئی، اب جو کہنا ہے کہو، ورنہ میں آرہا ہوں۔
اس پر ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا ''نئیں بھائی نئیں''، پھر عرض کیا۔
ہم: دیکھیے بھائی گلاب! خدارا! کراچی مت آئیے۔
گلاب (بدتمیزی پر اترتے ہوئے) کیوں بے!
ہم: دیکھیے ایک تو جو فریضہ آپ انجام دینے یہاں آرہے ہیں وہ حکومت سندھ بہ خوبی ادا کر رہی ہے۔ ہم نے شہر کی تصویریں دکھائیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس شہر میں تباہی پھیلانے کی آپ کی ''مُراد'' بر آئی ہے، پھر آپ کو یہاں آنے کی کیا ضرورت؟
گلاب (سوچتے ہوئے): تمھاری بات دل کو لگتی ہے، چلو تباہی نہیں پھیلاتا، سمندر میں سفر کرتے کرتے تھک گیا ہوں، سوچ رہا ہوں اب سمندر چھوڑ کر کراچی میں بس جاؤں۔
ہم: گلاب بھیا! اس شہر میں رہنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، یہاں رہنے والے کو ہر دَم چوکَنّا رہنا پڑتا ہے۔
گلاب: اچھا، میں نے تو سنا تھا کہ کراچی میں رہنے کی بس ایک ہی شرط ہے کہ ''اس شہر میں رہنا ہے تو اوقات میں رہنا۔''
ہم (ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے): یہ پرانی بات ہوگئی، جو اوقات میں رکھتے تھے وہ ان دنوں مکافات میں، حوالات میں یا بیرون ملک مکانات میں ہیں۔ اب تو شہریوں کو کورونا کے بہانے اوقات میں نہ رہنے پر دھر لیا جاتا ہے۔
گلاب: اوہ اچھا، چلو خیر یہ بتاؤ اس شہر میں رہنے کے لیے مجھے کیا کرنا پڑے گا۔
ہم: سب سے پہلے تو آپ کو چنگچی میں یوں بچ بچاکر چڑھنا اور اترنا سیکھنا ہوگا کہ سامنے بیٹھی خواتین سے آپ کا گھٹنا نہ ٹکرائے، ورنہ آپ کے پٹنے کی ''گَھٹنا'' پیش آسکتی ہے۔
گلاب: یہ تو بہت مشکل ہے۔
ہم: آگے تو سنیے۔ آپ کو چلتی بس سے کود کر بیچ سڑک پر اترنے کی مشق کرنا ہوگی۔
گلاب: نہیں یار۔
ہم: اتنا ہی نہیں۔ اگر آپ کار یا موٹرسائیکل چلا رہے ہیں تو شہر کی ساری سڑکوں گلیوں کے سب گڑھوں کو یاد رکھنا ہوگا۔
گلاب: ابے لے۔
ہم: اور آپ کو شہر کے سارے کھلے گٹر بھی حفظ ہونے چاہییں، ورنہ بارش میں ذرا سی لغزش سے آپ جیسا طوفان کسی گٹر کو دان ہوجائے گا۔
گلاب: ارے باپ رے۔
ہم: اور بجلی کے کھمبوں اور تاروں سے دور رہیے گا، ورنہ منٹوں میں گلاب سے کالی گلاب جامن میں تبدیل ہوجائیں گے۔
گلاب: بس کردے بھائی، کتنا ڈرائے گا۔
ہم: پانی پینا ہو، منہ دھونا ہو یا نہانا ہو، تو نل مت کھولیے گا ورنہ وہ شرم سے پانی پانی ہوجائے گا۔ اپنی ضروریات کے لیے آپ کو پانی خریدنا پڑے گا۔
گلاب: اتنی مشکل زندگی! اچھا یہ بتاؤ یہاں مجھے سرکاری ملازمت مل جائے گی۔
ہم: کراچی کے ساحل سے شہر میں آئے تو ہرگز نہیں، اس کے لیے ذرا آگے جاکر ٹھٹھہ کے ساحل سے خشکی پر تشریف لائیں اور پھر کراچی میں داخل ہوں، لیکن آپ کو ''دلاں تیر بجاں'' کے بولوں پر رقص کرتے ہوئے آنا ہوگا، پھر ملازمت ملے گی۔
گلاب: اوہو، اچھا۔
ہم: بچے ہیں؟
گلاب: ہاں، دو ہیں، بیٹا بھنور اور بیٹی موج۔
ہم: بس تو انھیں اسکول میں داخل کرانے کے لیے سمندر سے خزانہ نکالتے لائیں۔
گلاب: یہ بھی کرنا پڑے گا؟ یار اس شہر کے لوگوں کو کوئی سہولت بھی حاصل ہے؟
ہم: بس ایک سہولت حاصل تھی، انتخابات کے موقع پر شہریوں کے ووٹ خود بہ خود ڈبے میں پہنچ جاتے تھے، ووٹر کو جانا نہیں پڑتا تھا۔
گلاب: اور اب؟
ہم: اس خودکار نظام کے باعث اب ووٹ اتنے خود کفیل ہوگئے ہیں کہ ڈالو کسی کو پڑ کسی کو جاتے ہیں۔
گلاب: ووٹ سے خیال آیا، میں یہاں سیاست کروں تو کیسا رہے گا؟
ہم: ان دنوں تو شہر کی فضا سیاست ختم ہونے کے لیے سازگار ہے، سیاست شروع کرنا ہے تو کہیں اور جائیے۔ ''سیاست'' نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔
گلاب: نہیں بھیا، اس شہر میں رہنے کے لیے تو طوفان سے زیادہ حوصلہ چاہیے، ہم سے نہ ہوپائے گا۔
اتنا کہہ کر گلاب بھیا سَٹک لیے، اور ہم نے گھر کی راہ لی۔
کراچی والے بہت خوش ہوئے کہ بچت ہوگئی، لیکن کسی نے ہمارا شکریہ ادا نہ کیا کہ ہم نے کس طرح بھائی گلاب کو سمجھا بجھا کر کراچی آنے سے روکا۔ یوں تو اس طوفان کے رک جانے کا سبب ہم نے فیس بک پر ایک پوسٹ کے ذریعے کچھ اور بیان کیا تھا کیوں کہ ہمیں ڈر تھا کہ حقیقت بتادی تو لوگ ہم سے فرمائش کرنے لگیں گے کہ ''کسی طرح مہنگائی کے طوفان کو بھی بہلا پھسلا کر واپس کردو'' اور اس فرمائش کو پورا کرنا ہمارے بس میں نہیں، کیوں کہ یہ کوئی عام طوفان نہیں بلکہ ''طوفان ترین'' ہے۔ ہماری مذکورہ پوسٹ تھی:
''سمندر: ''کیا ہوا طوفان بھیا، تم تو کراچی کو ڈبونے نکلے تھے؟''
طوفان: ''کیا کروں واپس آنا پڑا، وزیراعلیٰ سندھ نے روک دیا کہ اٹھارھویں ترمیم کے تحت کراچی کی تباہی صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔''
ہماری یہ مختصر تحریر بہت سے احباب نے اپنائیت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے نام سے خوب چلائی۔ اب ہم اس پوسٹ سے یوٹرن لیتے ہوئے حقیقت بتارہے ہیں کہ یہ وزیراعلیٰ سندھ کا ''قانونی اور آئینی'' نکتہ نہیں بلکہ گلاب صاحب سے ہمارا لبِ ساحل ہونے والا مکالمہ تھا جس کی وجہ سے وہ کراچی آتے آتے رہ گئے۔ یہاں ہم وہ مکالمہ درج کیے دیتے ہیں تاکہ شہری ہمارا احسان مانیں اور کل کا مورٔخ یہ جان سکے کہ کراچی میں گلاب طوفان کیوں نہ آیا۔
ہم: بھائی گلاب ب ب ب ب، گلابووووو، ارے گلاب بھیااااا۔
گلاب: کیوں چِلا رہے ہو، میں وہیں آرہا ہوں۔
ہم: ارے نہیں نہیں، یہاں مت آئیے، ہمیں جو کہنا ہے وہ وہیں کھڑے کھڑے سُن لیں۔
گلاب: عجیب بات کرتے ہو۔ میں تو اس لیے آرہا تھا کہ تمھیں بات کرنے میں آسانی ہو، چیخنا نہ پڑے، چلو تمھاری مرضی، وہیں سے چیخ چیخ کر کلام کرتے رہو۔
ہم: بھیا! آپ کی بات معقول ہے، لیکن ہم کراچی والوں کا تجربہ ہے کہ بہت دور سے کیا جانے والا ''خطاب'' چاہے سمجھ میں آئے نہ آئے لیکن قریب کی گفتگو سے زیادہ پُراثر ہوتا ہے۔
گلاب: کتنی دور سے؟
ہم: زیادہ سے زیادہ لندن۔۔۔کم سے کم راولپنڈی۔
گلاب: میری سمجھ میں تم کراچی والوں کی باتیں نہیں آتیں۔ خیر بکو۔
ہم: یہی تو مسئلہ ہے، ہم کراچی والے برسوں سمجھ میں نہ آنے والی باتوں پر بنا سمجھے ہی عمل کرتے رہے، اور ہماری سمجھ میں آنے والی باتیں بھی کوئی نہیں سمجھ پاتا۔
گلاب: اُف، بہت پکاتے ہو بھئی، اب جو کہنا ہے کہو، ورنہ میں آرہا ہوں۔
اس پر ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا ''نئیں بھائی نئیں''، پھر عرض کیا۔
ہم: دیکھیے بھائی گلاب! خدارا! کراچی مت آئیے۔
گلاب (بدتمیزی پر اترتے ہوئے) کیوں بے!
ہم: دیکھیے ایک تو جو فریضہ آپ انجام دینے یہاں آرہے ہیں وہ حکومت سندھ بہ خوبی ادا کر رہی ہے۔ ہم نے شہر کی تصویریں دکھائیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس شہر میں تباہی پھیلانے کی آپ کی ''مُراد'' بر آئی ہے، پھر آپ کو یہاں آنے کی کیا ضرورت؟
گلاب (سوچتے ہوئے): تمھاری بات دل کو لگتی ہے، چلو تباہی نہیں پھیلاتا، سمندر میں سفر کرتے کرتے تھک گیا ہوں، سوچ رہا ہوں اب سمندر چھوڑ کر کراچی میں بس جاؤں۔
ہم: گلاب بھیا! اس شہر میں رہنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، یہاں رہنے والے کو ہر دَم چوکَنّا رہنا پڑتا ہے۔
گلاب: اچھا، میں نے تو سنا تھا کہ کراچی میں رہنے کی بس ایک ہی شرط ہے کہ ''اس شہر میں رہنا ہے تو اوقات میں رہنا۔''
ہم (ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے): یہ پرانی بات ہوگئی، جو اوقات میں رکھتے تھے وہ ان دنوں مکافات میں، حوالات میں یا بیرون ملک مکانات میں ہیں۔ اب تو شہریوں کو کورونا کے بہانے اوقات میں نہ رہنے پر دھر لیا جاتا ہے۔
گلاب: اوہ اچھا، چلو خیر یہ بتاؤ اس شہر میں رہنے کے لیے مجھے کیا کرنا پڑے گا۔
ہم: سب سے پہلے تو آپ کو چنگچی میں یوں بچ بچاکر چڑھنا اور اترنا سیکھنا ہوگا کہ سامنے بیٹھی خواتین سے آپ کا گھٹنا نہ ٹکرائے، ورنہ آپ کے پٹنے کی ''گَھٹنا'' پیش آسکتی ہے۔
گلاب: یہ تو بہت مشکل ہے۔
ہم: آگے تو سنیے۔ آپ کو چلتی بس سے کود کر بیچ سڑک پر اترنے کی مشق کرنا ہوگی۔
گلاب: نہیں یار۔
ہم: اتنا ہی نہیں۔ اگر آپ کار یا موٹرسائیکل چلا رہے ہیں تو شہر کی ساری سڑکوں گلیوں کے سب گڑھوں کو یاد رکھنا ہوگا۔
گلاب: ابے لے۔
ہم: اور آپ کو شہر کے سارے کھلے گٹر بھی حفظ ہونے چاہییں، ورنہ بارش میں ذرا سی لغزش سے آپ جیسا طوفان کسی گٹر کو دان ہوجائے گا۔
گلاب: ارے باپ رے۔
ہم: اور بجلی کے کھمبوں اور تاروں سے دور رہیے گا، ورنہ منٹوں میں گلاب سے کالی گلاب جامن میں تبدیل ہوجائیں گے۔
گلاب: بس کردے بھائی، کتنا ڈرائے گا۔
ہم: پانی پینا ہو، منہ دھونا ہو یا نہانا ہو، تو نل مت کھولیے گا ورنہ وہ شرم سے پانی پانی ہوجائے گا۔ اپنی ضروریات کے لیے آپ کو پانی خریدنا پڑے گا۔
گلاب: اتنی مشکل زندگی! اچھا یہ بتاؤ یہاں مجھے سرکاری ملازمت مل جائے گی۔
ہم: کراچی کے ساحل سے شہر میں آئے تو ہرگز نہیں، اس کے لیے ذرا آگے جاکر ٹھٹھہ کے ساحل سے خشکی پر تشریف لائیں اور پھر کراچی میں داخل ہوں، لیکن آپ کو ''دلاں تیر بجاں'' کے بولوں پر رقص کرتے ہوئے آنا ہوگا، پھر ملازمت ملے گی۔
گلاب: اوہو، اچھا۔
ہم: بچے ہیں؟
گلاب: ہاں، دو ہیں، بیٹا بھنور اور بیٹی موج۔
ہم: بس تو انھیں اسکول میں داخل کرانے کے لیے سمندر سے خزانہ نکالتے لائیں۔
گلاب: یہ بھی کرنا پڑے گا؟ یار اس شہر کے لوگوں کو کوئی سہولت بھی حاصل ہے؟
ہم: بس ایک سہولت حاصل تھی، انتخابات کے موقع پر شہریوں کے ووٹ خود بہ خود ڈبے میں پہنچ جاتے تھے، ووٹر کو جانا نہیں پڑتا تھا۔
گلاب: اور اب؟
ہم: اس خودکار نظام کے باعث اب ووٹ اتنے خود کفیل ہوگئے ہیں کہ ڈالو کسی کو پڑ کسی کو جاتے ہیں۔
گلاب: ووٹ سے خیال آیا، میں یہاں سیاست کروں تو کیسا رہے گا؟
ہم: ان دنوں تو شہر کی فضا سیاست ختم ہونے کے لیے سازگار ہے، سیاست شروع کرنا ہے تو کہیں اور جائیے۔ ''سیاست'' نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔
گلاب: نہیں بھیا، اس شہر میں رہنے کے لیے تو طوفان سے زیادہ حوصلہ چاہیے، ہم سے نہ ہوپائے گا۔
اتنا کہہ کر گلاب بھیا سَٹک لیے، اور ہم نے گھر کی راہ لی۔