دنیا کا پہلا نجی سویلین خلائی مشن ’’اِنسپائریشن فور‘‘

اب عام شہری بھی خلابازی کا شوق پور ا کرسکیں گے۔

اب عام شہری بھی خلابازی کا شوق پور ا کرسکیں گے۔ فوٹو : فائل

FRANKFURT/LONDON:
اب آپ بھی خلاء کی سیر کرنے جاسکتے ہیں جس کے لیے آپ کو پیشہ ور خلاباز بننے کی بھی ضرورت نہیں، مگر اس کے لیے تھوڑا انتظار کرنا ہوگا!

حالیہ سال جولائی میں ایک اور پرائیویٹ کمپنی ''ورجن گالیکٹیک'' کی جانب سے خلائی سیّاحت کے حوالے سے بڑی پیش رفت کی گئی ہے۔ کمپنی کے ارب پتی مالک رچرڈ برانسن اس وقت دنیا کے پہلے ارب پتی خلاباز بن گئے جب وہ خلاء کی سیر کو گئے۔

اس طرح دنیا کے امیر ترین شخص جیف بیزوس اپنی فرم ''بلیواورجن'' کی جانب سے خلاء میں سفر کرنے والے دوسرے امیر ترین خلاباز قرار پائے۔ دونوں نجی خلائی فرموں کے اہم حریف اسپیس ایکس کے بانی اور چیف ایلون مسک نے ماہ ستمبر میں ایک بڑی پیش رفعت کرکے اپنے حریفوں کو بھرپور جواب دے دیا، جب انہوں نے دنیا کی سب سے پہلی عام شہریوں کی خلائی پرواز کو کام یابی سے خلاء سفر پر روانہ کیا اور واپس لے آئے۔

اگرچہ ایلون اس سفر میں بذات خود شریک نہ تھے اور ان کے ایک ساتھی ارب پتی خلاباز مشن کے کمانڈر کے طور مہم میں شامل تھے، جنہوں نے سفر کے تمام اخراجات برداشت کیے۔ اس طرح جیرڈآئزک مین دنیا کے تیسرے ارب پتی خلاباز ہیں جو عام شہر ی کے طور پر خلابازی کا تجربہ رکھتے ہیں۔ یوں ان ارب پتیوں نے خلائی سیّاحت کا دروازہ عام لوگوں کے لیے کھول دیا ہے۔ اس خلائی مشن کو Inspiration4" " کا نام دیا گیا ہے۔ انسپائریشن کا مطلب ہے ''حوصلہ یا ہمت افزائی۔''

خلابازی کے ابتدائی دور میں خلائی سفر پر جانے والے سخت جسمانی واعصابی ساخت کے مالک ہوتے تھے۔ مخصوص قد کاٹھ، ہڈی و جبڑوں کے حامل امیدواروں کو انتہائی مشقت سے بھر پور تربیت سے گزرنا ہوتا تھا، تاکہ وہ کشش ثقل کے ماحول میں رہ سکیں۔ اسی لیے ابتدائی ایام میں خلابازوں کے گروپ کا تعلق فوج سے رہا ہے، جن میں زیادہ تر ایئرفورس کے جوان ہوتے تھے۔

فی زمانہ خلابازی کے لیے چناؤ بھی غیرمعمولی تعلیمی سرگرمیوں کی بنیاد پر ہوتا ہے اور پھر خلابازوں کی مخصوص طریقے سے تربیت کے بعد ہی خلاء میں جانے کا سرٹیفیکٹ دیا جاتا ہے، جب کہ نئی خلائی مہم پر جانے والے چاروں سویلین خلانوردوں کو عام شہری کے طور پر منتخب کیا گیا اور چھے ماہ کی تربیت سے گزارا گیا ہے۔ چاروں خلابازں میں ایک بات مشترک ہے۔ وہ یہ کہ سب ہی خلاء سے لگاؤ اور محبت رکھتے ہیں۔ ان چاروں عام شہری خلابازوں کے بارے میں جانا جائے تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کسی طرح بھی پروفیشنل خلابازوں سے تعلیم، فنّی صلاحیت اور قابلیت کے لحاظ سے کم نہیں ہیں۔

خلابازی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب پیشہ ورانہ خلابازوں کے بجائے عام لوگوں کو سفر کے لیے چنا گیا اور امریکی قومی خلائی ادارے 'ناسا' کی مدد کے بنا ایک نجی خلائی فرم سے خلاء کی جانب روانہ کیا گیا۔ اس کا اہم مقصد خلائی سیّاحتی راستے کو فروغ دینا اور خلاء تک عام لوگوں کی رسائی ممکن بنانا ہے۔ اگرچہ ابھی خلائی سیّاحت کا یہ شوق بہت مہنگا ہے اور صرف امیر ترین لوگوں کا کھیل سمجھا جارہا ہے، لیکن آنے والے وقت میں امید کی جارہی ہے کہ خلائی سیّاحت کے اخراجات میں کمی لائی جاسکے گی۔



مشن انسپائریشن فور کا آغاز 15 ستمبر کی صبح8:02 منٹ پر اسپیس ایکس کے فیلکن راکٹ سے ہوا تھا اور اختتام مشرقی وقت کے مطابق 18ستمبر کی شام 7:06 کو ہوا جب چاروں خلاباز کے کریو ڈریگن کیپسول پیرا شوٹ کی مدد سے کوسٹ آف فلوریڈا کے پانی پر اترگیا، اسے ''فلیش ڈاؤن'' کہا جاتا ہے۔

انسپائریشن یا حوصلہ افزائی کا مقصد200 ملین ڈالر کی خطیر اکٹھا کرنا تھا تاکہ سینٹ جوڈ چلڈرن ریسرچ اسپتال کی امداد کی جاسکے۔ ایلون مسک کی جانب سے بھی چلڈرن اسپتال کو دی جانے والی اس امداد میں دو سو ڈالر سے زائد کا اضافہ ہوچکا ہے۔ ڈریگن خلائی جہاز میں نئی تبدیلی یا اضافہ شیشے کا گنبدنما ''کپولا'' (Glass Cupola) ہے، اسے پہلی بار جہاز میں نصب کیا گیا ہے اس کا خیال خلائی اسٹیشن ISS کی ونڈو کو دیکھتے ہوئے رکھا گیا ہے، کیوںکہ اس سے پہلے ڈریگن کریو کے جہاز صرف خلائی اسٹیشن پر خلابازوں کو پہنچانے کے لیے استعمال ہوئے ہیں، جن میں خلائی جہاز اور خلائی اسٹیشن کا ملاپ ہوتا ہے، جسے ''ڈوکنگ'' کہا جاتا ہے۔

چوںکہ اب نیا ڈریگن کا تین روزہ مشن خلائی اسٹیشن کے بجائے زمین کے اطراف مدار میں چکر لگاکر واپس آنا تھا، اسی لیے ڈریگن کے اس لمبے سفر میں خلابازوں کے تمام مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے جہاز کے میکنزم میں تبدیلی کی گئی اور جہاز میں ونڈو ''کپولا'' لگانے کے لیے ڈوکنگ ایڈاپٹر کو تبدیل کردیا گیا ہے، جو کہ جہاز کی ناک "Nosecane" کے نیچے چھپا ہوتا ہے اور ایک ایئرلاک سسٹم سے کھلتا اور بند ہوتا ہے۔

پہلے یہ نیسکون خلائی اسٹیشن کے ملاپ کے وقت کھلا ہوتا تھا۔575 کلومیٹر کی بلندی کے مقام یا اپوجی پر کپولا کا آبزرویشن گنبد تین تہہ والے شیشے سے بنا ہے جسے نہایت محتاط طریقے سے آزمائش کے بعد عمدگی سے فٹ کیا گیا تھا۔ اس کپولا ونڈو سے خلابازوں نے زمین اور خلاء کی تاریکی کے حیرت انگیز اور شان دار مناظر کا مشاہد ہ کیا۔ ڈریگن کرویوC-207کو فیلکن 9، بلاک5 راکٹ کی مدد سے خلاء میں بھیجا گیا۔ فیلکن نائی، بلاک فائیو اسپیس ایکس کا دوبارہ استعمال ہونے والا حصہ یا اسٹیج ہے۔ اس کی بلندی کی رینج زمینی مدار میں 590 کلومیٹر تک ہوتی ہے۔

اسے کینیڈی خلائی مرکز۔ فلوریڈا کے لاؤنچنگ کمپلیکس39A سے خلاء کی جانب روانہ کیا گیا تھا۔ 12 منٹ کے بعد اسپیس ایکس ڈریگن کا ماڈیول راکٹ کے دوسرے اسٹیج سے الگ ہوکر زمین پر آرہا۔ خلائی جہاز کرویو ڈریگن اپنی لاؤنچنگ اور واپس لینڈنگ تک مکمل طور پر خودکار ہے، جہاز کا عملہ اس کا مینولی آپریشن بھی کرسکتا ہے۔ خلائی جہاز کا کنٹرول سسٹم ٹچ اسکرین سے آپریٹ ہوتا ہے جیسے کہ بڑا آئی پوڈ، چند سوئچوں کے ساتھ جب کہ تمام تر سوئچس یا بٹن اسکرین ٹچ ہیں۔


خلاء میں نقل وحرکت کو جوائے اسٹکس کی طرح قابو کیا جاتا ہے، خلائی جہاز ایک عام طیارے یا کار کی ڈرائیونگ جیسا نہیں ہوتا ہے کیوںکہ جہاز بے وزنی کے زیراثر خلاء میں ڈول یا تیر رہا ہوتا ہے، اس کی حرکات کو دائیں یا بائیں کے بجائے آگے (فارورڈ) اور پیچھے (ریورس) کیا جاسکتا ہے۔ خلائی جہاز بلندی (Pitch) عمودی محور یا موڑ (Yaw)، چکر یا گھمانے(Roll) سے قابو کیا جاتا ہے۔ ایک عام فضائی طیارے اور خلائی جہاز میں فرق گریویٹی کا ہوتا ہے جو کہ خلاء میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی لیے جہاز مُعلق ہوکر خلاء میں ڈولتے ہیں۔

چاروں خلاء باز کون ہیں؟ اس مشن فور کے کمانڈر جیرک آئزک مین کے ذہن میں چار ستون یا Pillars کا تھا جس کے مشن کا ہر رکن نمائندگی کرتا ہے،1۔ لیڈر شپ، 2۔ خوش حالی (Prosperity) ،3 امید(Hope) اور 4 ۔ فراخ دلی (Generosity)۔ اس لیے آئزک مین نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ٹیم کو سینٹ جوڈ اسپتال سے منتخب کریں گے تاکہ اسپتال سے موضوع ترین امیدواروں کو موقع دیا جائے۔ ان کی خواہش تھی کہ ہر ممبر ایک ستون کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرے جس سے مستقبل کی نئی نسل کو ہمت و حوصلہ افزائی مل سکے۔

مشن کمانڈر،38 سالہ جیرک آئزک مین ایک بزنس ٹائکون ہیں اور کاروباری سرگرمیوں کے لحاظ سے قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں وہ اپنی کمپنی Shift-4 Payments کے سربراہ ہیں جو پیمنٹس کی ادائیگی کے لیے قائم کی گئی ہے۔ جیرک نے اس پہلے عام شہری مشن کے اخراجات برداشت کیے ہیں اور 100 ملین ڈالر اسپیس ایکس کو ادا کیے۔ کبھی اسکول سے نکالے گئے، آئزک مین کا کہنا ہے کہ ''کچھ لوگ پہلے بھی خلاء میں گئے ہیں اور ابھی بہت سے لوگوں کو جانا ہے!'' اس طرح مشن کی سیاہ فام پائیلٹ ڈاکٹر شیان پروکٹر ''خوش حالی'' ، نرس ہیلی ''امید'' اور مشن کے ماہر کے طور پر کرسٹو فر سیمبروکس ''فراخ دلی'' کی علامت اور چوتھے ستون کے طور پر ٹیم کا حصہ بنے ہیں۔

ڈاکٹر شیان 28 مارچ 1970 ء کو امریکی علاقےHaganta میں پیدا ہوئیں جو Guam کا مرکزی گاؤں ہے۔ وہ اپنی نوجوانی ہی سے خلاء سے محبت کرتی ہیں۔ ان کے والد نے Guam کے ریموٹ گراؤنڈ پر رہتے ہوئے اپالوخلائی مہم کے وقت تیکنیکی خدمات انجام دی تھیں۔ اس کے بعد وہ اپنی فیملی کو لے کر امریکا چلے گئے، جہاں شیان نے ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ 1992 ء میں وہ انوائرمنٹل سائنس میں گریجویٹ کرچکی تھیں پھر 1998ء میں انہوں نے ایروزونایونیورسٹی سے ''جیالوجی'' میں ماسٹر کیا جب کہ 2006 ء میں وہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری ''سائنس ایجوکیشن'' میں پانے میں کام یاب ہوگئیں۔

وہ سائنس کی کمیونٹی کیٹر اور جیالوجی کی پروفیسر ہیں اور اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایروزونا ونگ کے 'سول ائیر پیٹرول' میں ایئراسپیس کی تعلیمی آفیسر بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ 2009 ء میں ناسا کے گروپ 20کی ایک ممکنہ امیدوار تھیں، لیکن بدقسمتی سے ان کا چناؤ نہ ہوسکا تھا۔ اب انسائریشن فور مشن میں بحیثیت پائیلٹ ان کی دیرینہ آرزو پوری ہوگئی ہے، جنہیں خوش حالی کی سیٹ ایک مقابلے کے بعد عطا ہوئی۔ اپنی تخلیق کردہ Shift4 Shop کے ذریعے وہ اپنی آرٹ جیولری فروخت کرتی ہیں، مقابلے میں انہوں نے ایک وڈیو بنائی تھی جو کہ ان کی دکان کو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، اس دکان کو دیکھنے کے بعد انہیں مشن کے ستون خوش حالی کا حصہ بنایا گیا ہے۔

میڈیکل آفیسر ہیلی آرسینتاؤ(Hayley Arceneaux) ٹیم کی سب کم عمر ممبر ہیں۔4 دسمبر 1991 ء کو جنم لینے والی یہ باہمت لڑکی اب امریکا کی سب سے کم عمر خلاباز کا ٹائٹل حاصل کرچکی ہے۔ ہیلی جب دس برس کی تھی تو اسے کینسر کی موذی بیماری نے جکڑ لیا تھا۔ اس کے والدین نے سینٹ جوڈ چلڈرن اسپتال سے اس کا علاج کروایا تھا۔ کئی سرجریوں کے بعد جن میں اس کے ایک گھٹنے کی تبدیلی کا آپریشن بھی شامل تھا، کیمیائی علاج کے بعد اس نے کینسر کے خلاف جنگ جیت لی اور وہ صحت یاب ہوگئی۔

ہیلی نے 2014 ء میں اس نے ہسپانوی زبان کی معاون ڈگری حاصل وصول کی جب کہ 2016 ء میں ہیلی نے فزیشن میں معاون ڈگری لینے کے بعد اپنی بیماری سے نجات حاصل کرنے کے تجربے سے متاثر ہوکر دوسروں کو بیماری سے چھٹکارا دلانے کا بیڑا اٹھایا اور پھر اسی چلڈرن اسپتال میں ملازمت کا آغاز کردیا۔ اپنی اس کہانی کے پس منظر کے سبب اسے انسپریشن فور کے ستون ''امید'' کے طور پر رکھا گیا ہے۔

آئزک مین کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ پچپن کے کینسر سے صحت یابی کے بعد خلائی سفر پر جانا ان مریض بچوں کی بھی پوری حوصلہ افزائی کا باعث بنے جو کہ کینسر سے جنگ لڑرہے ہیں، تو یہ ان کی امید ہوگی۔ اپنے خلائی تجربے کے بارے میں ہیلی کہتی ہے کہ اگرچہ میں خلائی سفر کے لیے جسمانی طور پر مکمل فٹ تو نہ تھی، میری ٹانگ میں راڈ ہے، اس لیے میں ناسا کے خلاباز پروگرام کے لیے نااہل ہوسکتی تھی۔

مشن کے ماہر Christopher Sembrokis ہیں۔ وہ 28 اگست 1979 ء کو نارتھ کیرولینا کے شہر "Kannapolis" پید ا ہوئے۔ سیمبروکس Embry Riddle Aeronatic University کے سائنس کے گریجویٹ ہیں۔ بطور الیکٹرومیکینکل ٹیکنیشن انہوں نے امریکی ایئرفورس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ کالج کے زمانے سے ہی سیمبروکس کو خلاء سے دل چسپی تھی۔ وہ بطور کونسلر اپنی خدمات خلائی کیمپ کو دیتے تھے جو کہ Huntsville میں ایک تعلیمی نوعیت کا کیمپ تھا۔ اس کے علاوہ سیمبروکس خلاء سے متعلق رضاکارانہ اپنی خدمات ایک غیرمنافع بخش تنظیم "Advocates For Space Flight" کو بھی دیتے تھے۔ ایک مخلص دوست نے ان کے چناؤ کو یقینی بنانے میں فراخ دلی) Generosity) کا مظاہر ہ کرتے ہوئے انہیں انسپائریشن 4کی ٹیم میں شامل کروادیا۔

اگرچہ سیمبروکس نے بھی سینٹ جوڈ اسپتال کی انعامی اسکیم کے ہزاروں امیدواروں کی طرح ٹکٹ خریدا تھا لیکن سیٹ کی جیت کی دوڑ میں ان کے قریبی دوست کا نمبر لگ گیا تو اس مہربان دوست نے اپنی جیتی ہوئی سیٹ سیمبروکس کے حوالے کردی، کیوںکہ وہ جانتے تھے کہ وہ طویل مدت سے خلاء سے لگاؤ رکھتے ہیں اور صحیح معنی میں اس سیٹ کے حق دار ہیں۔ ان چاروں خلابازوں کو چھے ماہ سخت تربیتی مراحل سے گزارا گیا تھا جس میں سیمولیشن، صفر کشش ہوائی جہاز کی فلائیٹ، ہائی صفر کشش ثقل کی جیٹ اڑان، پانی کے اندر اور سینٹری فیوج کی تربیت شامل ہیں۔

چاروں خلابازوں نے 1999 ء کے بعد زمینی مدار سے بلندترین مقام تک سفر کا تجربہ کیا ہے جب خلائی شٹل مشن STS-103کے ذریعے 'ہبل دوربین' کی مرمت کا مشن انجام دیا گیا تھا۔ یہ بلندی 575 کلومیٹر ہے جب کہ خلائی اسٹیشن آئی ایس آئی کا زمین سے فاصلہ 250 کلومیٹر ہے۔ ان خلابازوں نے اپنے مشن میں جو تجربات کیے ہیں ان میں تاب کاری، موومنٹ، سونے کا عمل، دل کی دھڑکنوں کی رفتار کا ڈیٹا جمع کرنا اور خون میں آکسیجن کی مقدار اور اس کی صورت حال کا مطالعہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ڈریگن جہاز کے کیبن میں شوروغل اور روشنی کی شدت کی پیمائش کو بھی نوٹ کیا اور یہ کہ مالیکولر پروسیس کا ڈیٹا خلاء میں انسانی جسم پر کیسے تبدیل ہوتا ہے۔ خلابازوں نے ایک نئی ڈیوائسtterflyIQ+Ultrasound" "Bu کا بھی استعمال کیا ہے۔

یہ خلائی پرواز کا پہلا مشن ہے جس میں مصنوعی اعضاء کے ساتھ ٹیسٹنگ کی گئی، اس تحقیق کے نتائج ناسا کے لیے بنیاد بنیں گے کہ آیا ایسے مصنوعی اعضاء کے حامل خلابازوں کو مستقبل میں خلائی سفر پر جانے کی اجازت ہوگی یا نہیں؟ اس خلائی مشن نے باتھ روم کی سہولت کے بارے میں اسپیس ایکس کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس طویل خلائی پرواز میں باتھ روم کی ناگوار بدبو شدت سے محسوس کیا گیا ہے، اس لیے آئندہ سیّاحتی خلائی سفر میں اچھے باتھ روم کی ضرورت کو مدنظر رکھا جائے گا۔

جیف بیزوس کی کمپنی ''بلیواَورجِن'' نے بھی ماہ اکتوبر میں اپنی دوسری سیّاحتی پرواز کا اعلان کردیا ہے جس میں چار خلاباز مسافروں کے ساتھ سرپرائز طور پر لیجنڈری اداکار ولیم شینٹر کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ ولیم مشہور معروف ٹی وی سیریز ''اسٹارٹریک'' کے کیپٹن کرک کے کردار سے شہر ت رکھتے ہیں۔ اسٹار ٹریک کی کہانی بھی ایسے ہی خلابازوں کی کہانی ہے جو اپنے جہاز انٹرپرائز میں سوار ہوتے ہیں اور نئی دنیاؤں کی کھوج میں رہتے ہیں۔
Load Next Story