صحافی نوبل انعام کے حقدار

پاکستان میں میڈیا کے بیانیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے قانون کے نفاذ کی کوشش ہورہی ہے۔

tauceeph@gmail.com

ISLAMABAD:
تحقیقاتی رپورٹنگ کے عالمی شہرت یافتہ دو صحافی نوبل انعام کے حقدار پائے، یوں پوری دنیا میں صحافیوں کو درپیش خطرات، ریاستوں اور غیر ریاستی کرداروں Non State Actors کی جانب سے آزادی پر قدغن لگانے اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے مخصوص بیانیہ کو مسلط کرنے کے خلاف بین الاقوامی سطح پر یہ بھرپور اعتراف ہے۔

سرالفرڈ نوبل نے ڈائنامائٹ ایجاد کیا تھا ، انھوں نے 1895میں اس ایجاد سے ملنے والی رائلٹی سے اس انعام کے لیے ٹرسٹ قائم کیا تھا۔ نوبل انعام ان شخصیتوں کو دیا جاتا ہے جنھوں نے انسانیت کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ یہ انعام فزکس، کیمسٹری، فزیالوجی، میڈیسن، ادب اور دنیا میں امن کے لیے کوششیں کرنے والے معروف افراد کی خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔

پہلا نوبل انعام 1906میں دیا گیا۔ انعام پانے والی معزز شخصیات کو ایک سونے کا تمغہ اور 1.1 ملین امریکی ڈالر دیے جاتے ہیں۔ اس رقم میں اضافہ ہوتا رہا ہے اور موجودہ انعامی رقم کا تعین 2020 میں کیا گیا تھا۔ اس دفعہ فلپائن کی صحافی Maria Resee اور روس کے صحافی Dmitry Moratavکو مشترکہ طور پر یہ انعام دیا گیا۔ ان دونوں صحافیوں کو اپنے اپنے ملک میں آزادئ صحافت کے لیے گراں قدر خدمات انجام دینے کا اعتراف کرتے ہوئے نوبل انعام کمیٹی کی انتظامی کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے۔

روس کے صحافی مارٹوو سابقہ سوویت یونین کے شہر Kuibyshew میں 30اکتوبر 1961 میں پیدا ہوئے، اب اس شہرکا نام Samari رکھ دیا گیا ہے۔ انھوں نے کالج کے زمانہ میں مقامی اخبارات میں لکھنا شروع کیا تھا اور اخبارات میں جز وقتی ملازمت اختیار کی تھی۔ انھوں نے1983 میں سامارا یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ انھیں سوویت یونین کی فوج میں شمولیت اختیار کرنی پڑی جہاں وہ ایکویمنٹ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ مارٹوو نے 1987 میں اخبار Volshsky Komsmrlets میں نامہ نگار کی حیثیت سے فرائض انجام دینا شروع کیے۔

ان کی کارکردگی اتنی عمدہ تھی کہ ایک سال بعد انھیں Komsmolskaya Pravda کے بورڈ ڈپارٹمنٹ کا سربراہ مقرر کیا گیا، بعد ازاں سوشلسٹ ریاست سوویت یونین بکھرگئی۔ مارٹوو نے اس سرکاری اخبار سے علیحدگی اختیار کر لی۔ مارٹوو نے کئی صحافیوں کے ساتھ مل کر اخبار Volshsky Komosmeletsکا آغاز کیا۔ ان کے پسندیدہ عنوان میں آزادئ صحافت اور حکومتی اداروں میں کرپشن جیسے حساس موضوعات شامل ہیں۔

صحافیوں کے تحفظ کی بین الاقوامی کمیٹی کا کہنا ہے کہ ماٹوو نے اپنے اخبار میں روسی فوج کے چچنیا میں مظالم کو خوب ایکسپوز کیا۔ ان کا شمار روس کے صدر پیوٹن کے بڑے تنقید نگاروں میں ہوتا ہے۔ صدر پوٹن نے ماٹوو کو نوبل انعام ملنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس انعام سے وہ غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا الزام سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے۔


Maria Reseeکا تعلق فلپائن سے ہے مگر ان کے پاس امریکی شہریت بھی ہے ، وہ ایک ڈیجیٹل میڈیا کمپنی Rappler کے بانیوں میں شامل ہیں۔ انھوں نے نوبل انعام ملنے کی خبر سننے کے بعد کہا کہ یہ نوبل انعام دنیا کے تمام صحافیوں کے نام کرتی ہوں۔ Maria Resee نے یہ بھی اعلان کیا کہ اس انعام سے آنے والی رقم وہ ان صحافیوں کے لیے مختص کردیں گی جو فلپائن میں قتل کیے گئے۔ Maria Reseeگزشہ دو دہائیوں سے تحقیقاتی صحافت میں مصروف ہیں۔ وہ 2اکتوبر 1963 کو فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں پیدا ہوئیں۔ ابھی ایک سال کی تھیں کہ ان کے والد انتقال کرگئے۔

ان کی والدہ نے Maria Reseeاور ان کی بہن کو ان کے والد کے رشتہ داروں کے پاس چھوڑا اور امریکا چلی گئیں۔ بعدازاںوہ فلپائن واپس آئیں اور اپنی دونوں بچیوںکو امریکا لے گئیں۔ ریا نے ہرسٹن یونیورسٹی میں مولی کیولر، بیالوجی اور تھیٹر کی تعلیم حاصل کی اور 1986 میں ڈانس اور تھیٹر میں سند حاصل کی۔ وہ فل برائٹ اسکالرشپ کی حقدار قرار پائیں اور یونیورسٹی آف فلپائلن ڈیمن میں پولیٹیکل تھیٹر Political Theatre کی تعلیم حاصل کی۔

انھوں نے اس یونیورسٹی میں صحافت کے کورس کی تدریس بھی کی۔ Maria Reseeنے اپنے کیریئر کا آغاز سرکاری ٹی وی سے کیا۔ انھوں نے تحقیقاتی رپورٹنگ کے ذریعہ بین الاقوامی سطح پر اپنا نام روشناس کرایا۔ انھوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں اور 2018 میں کئی خواتین صحافیوں کے ساتھ مل کر آن لائن نیوز ایجنسی Rappler قائم کی۔ ان پر سائبر قانون کے مجریہ 2012 کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا۔ انھوں نے فلپائن کے موجودہ صدر اور ان کے حامیوں پر تنقید اور ان کے اسکینڈل افشا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

یہ دونوں صحافی جن حالات میں آزادئ صحافت اور عوام کے جاننے کے حق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ویسے ہی حالات ایشیا اور افریقہ کے ممالک کے علاوہ یورپ اور امریکا میں بھی ہیں۔ ایک انگریزی اخبار نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ ان دونوں صحافیوں نے اپنے اپنے ممالک میں فاشسٹ حکومتوں کے خلاف اور آزادئ صحافت کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم Committee to protect Journalist کی رپورٹ کے مطابق 2020ء میں 274 صحافیوں کو پابندِ سلاسل کیا گیا۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1992 سے گزشتہ سال تک ایک سال میں اتنے صحافیوں کی گرفتاریاں عمل میں نہیں آئیں۔ دنیا بھر میں اب بھی کچھ ممالک میں بادشاہتیں اور فوجی آمریتیں قائم ہیں وہاں آزاد میڈیا کا تصور نہیں قائم ہوسکا ہے مگر جہاں کثیر جماعتی نظام قائم ہے اور جمہوری ادارے موجود ہیں ان ممالک میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش وغیرہ شامل ہیں جمہوری نظام ہونے کے باوجود ریاستی ادارے میڈیا کا بیانیہ کنٹرول کرنے کی مسلسل کوشش کرتے ہیں۔ دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں ہندوتوا کے مذہبی بیانیہ نے میڈیا کی آزادی پر ضرب لگائی ہے اور بھارت کے بانی پنڈت جواہر لعل نہرو کے آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت کے تحفظ کے بیانیہ کو تبدیل کردیا گیا ہے۔

پاکستان میں میڈیا کے بیانیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے قانون کے نفاذ کی کوشش ہورہی ہے۔ بھی میڈیا کی معیشت کو تارپیڈو کیا جاتا ہے ،کبھی غیر ریاستی کردار صحافیوں کو ہراساں کرتے ہیں اور کبھی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت سیاہ قوانین کے ذریعہ میڈیا کوکنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہیں مگر صحافی تنظیموں، انسانی حقوق کے اداروں، وکلاء اور سول سوسائٹی کی جدوجہد سے پاکستان میں اب تک طالع آزما قوتیں ناکام ہورہی ہیں۔ صحافیو ں کو ملنے والا یہ نوبل انعام پوری دنیا میں آزادئ صحافت کی تحریک کو تقویت دے گا۔
Load Next Story