سارے رنگ

میں تم کو خبردار کرتا ہوں، دنیا کی زندگی مختصر ہے اور بعد کی زندگی اچھی ہوگی۔

میں تم کو خبردار کرتا ہوں، دنیا کی زندگی مختصر ہے اور بعد کی زندگی اچھی ہوگی۔ فوٹو : فائل

ہمیں صرف اپنے مطلب کا سچ ہی کیوں چاہیے۔۔۔؟
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

یوں تو ہم سبھی اپنے اپنے طور پر سچ کہنے اور سچ ماننے کے دعوے کرتے ہیں، لیکن اکثر ہوتا ایسا ہے کہ ہم سچ مان ضرور رہے ہوتے ہیں، لیکن صرف وہی سچ، جو ہمارے مطلب کا ہوتا ہے اور ہمیں پسند ہوتا ہے۔۔۔! لیکن جیسے ساری تاریخ کبھی ہمارے حق میں نہیں ہو سکتی، اور اس میں کچھ ناپسندیدہ سچائیاں بھی لازماً نکل آتی ہیں، بالکل ایسے ہی حال کی تمام حقیقتیں اور مکمل سچ کبھی کسی ایک فریق کے حق میں ہونا کچھ مشکل سا محسوس ہوتا ہے۔

اکثر ہم سب اِس پروپیگنڈے کے دور میں صرف اس محدود اور مخصوص سچ کے ساتھ نہ صرف خوش رہنا چاہتے ہیں، جو ہمارے نظریے، ہمارے موقف اور طرز فکر کے مطابق ہوتا ہے، بلکہ مکمل اور ناپسندیدہ سچ کہنے والے کے خلاف اپنے سخت ردعمل کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔۔۔ اس کا خوب تجربہ ہمیں صحافت کی اِس پُرخار وادی میں ہوا، اور ہم اس کی ایک 'قیمت' مختلف گروہوں، سیاسی جماعتوں اور 'لابیوں' میں 'ناپسندیدہ' اور 'ناقابل قبول' بننے کی صورت میں بھگت بھی رہے ہیں۔۔۔

ہوتا یہ ہے کہ کسی بھی واقعے پر جب آپ کوئی منطقی سا سوال اٹھاتے ہیں، کوئی تلخ سچائی لکھتے ہیں، تو وہ بات جس کے حق میں جاتی ہے، وہ گروہ تو خوب 'واہ، واہ' کے ڈونگرے برساتا ہے، لیکن جب کبھی کوئی اور 'سچ' اسی گروہ کے خلاف جا رہا ہوتا ہے، تو وہی لَٹھ لے کر آپ پر 'جانب داری' کا ٹھپا لگانے میں لمحے بھر کی تاخیر نہیں کرتا۔ اس لیے جب بھی کسی خبر اور کسی حقیقت سے کسی بھی جماعت یا گروہ کی غلطی، غفلت یا جرم عیاں ہو رہا ہو، فَٹ دینے سے وہ آپ کے خلاف ایک مورچہ لگا لیتا ہے۔۔۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ اکثر ایسے تمام لوگ آپ کے نام پر ناک بھوں چڑھانے لگتے ہیں۔

کیوں کہ وہ آپ کو سچ اور جھوٹ سے قطع نظر صرف اپنا حامی یا اپنا مخالف، بس انھی دو روپ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔۔۔! بدقسمتی سے ہمارے سماج کے بہت سے بڑے بڑے نام، صحافی، ناول نگار، بلاگر اور وغیرہ وغیرہ دانش وَر اس کا بری طرح شکار دکھائی دیتے ہیں۔

چوں کہ اب 'اِبلاغ' کا سفر 'سوشل میڈیا' (سماجی ذرایع اِبلاغ) کے توسط سے بہت برق رفتار ہو چکا ہے، جس میں ہر کسی ہی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُسے شہرت ملے، یعنی اس کے 'کھاتے' میں زیادہ سے زیادہ لائکس، شیئر اور تبصرے ہوں، اگر یہ سلسلہ 'یوٹیوب' پر ہے، تو وہ حتی الامکان 'سبسکریبشن' بٹور لے۔۔۔ ویسے آپس کی بات ہے تعریفیں کسے پسند نہیں آتیں۔

جب کہ غیر مقبول سچ کہہ کر تنہا رہ جانا اور طرح طرح کی سلواتیں سننا بالکل بھی آسان روگ نہیں ہوتا۔۔۔ بہت سے احباب سے ہلکی پھلکی اور مناسب تنقید بھی نہیں سہی جاتی۔۔۔ لیکن اب یہ یک طرفہ باتیں کسی جماعت کا ترجمان، کارکن یا کوئی 'پبلک ریلیشن افسر' (پی آر او) ہی کر سکتا ہے ناں، کہ صرف مخصوص اور من چاہے حقائق ہی کا پرچار کرتا رہے۔۔۔ یعنی میٹھا میٹھا اور 'سب اچھا' ہی پیش کیا جائے اور پھر لوگوں کو یہ بھی بتائے کہ بس صرف یہی مکمل حقائق ہیں، ہم تو بہت اچھے ہیں، اور ہمیشہ سے ہیں۔۔۔! ہم یا ہماری سیاسی جماعت ہمیشہ 'درست' اور ہمارا 'سیاسی راہ بر' فرشتے کے موافق کسی غلطی سے بھی ماورا ہے، اس لیے اس پر تنقید کی کبھی کوئی گنجائش نہیں۔۔۔

اب آپ ہی بتائیے، ہم ٹھیرے تاریخ کے ایک طالب علم اور بن گئے صحافی۔۔۔! اس لیے برے پھنسے، کہ کریں تو آخر کیا کریں۔۔۔ ہماری جنم بھومی کراچی اور اس کی تاریخ اور حالات ہمیشہ سے ہماری خاص دل چسپی کے موضوع رہے ہیں۔ اتفاق سے کراچی پر بات کرنا اور کراچی کے حالات کا تجزیہ کرنے کا سودا سبھی کے من میں سماتا ہے۔

اور وہ چاہے کچھ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، اپنے مطلب کا اور ایک مخصوص قسم کا سچ لے کر وہ 'پھول برسانا' شروع کر دیتے ہیں۔۔۔ ان میں سے بہت سوں نے کراچی صرف تصویروں میں ہی دیکھا ہوا ہوتا ہے، لیکن ان کے پاس اپنے مطلب کے لیے 'فلاں، فلاں' کی ''سند'' کافی قرار پاتی ہے اور چوں کہ بات ان کے مَن کو بھاتی ہے، اس لیے وہ اس کے مزید پہلو دیکھنے کے بالکل روادار نہیں ہوتے۔۔۔ جیسے کراچی کے تشدد کو ہی لے لیجیے۔

اس کا سب سے زیادہ الزام کراچی کی ایک بڑی سیاسی جماعت پر عائد ہوتا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے لڑکوں نے بہت غلطیاں کیں، اور بہت سے چھوٹے بڑے جرائم میں ملوث بھی ہوئے، لیکن اب کراچی کی تشدد کی تاریخ یہیں سے نہ تو شروع ہوتی ہے اور نہ ختم ہوتی ہے۔۔۔

جامعہ کراچی میں ہمارے ایک استاد محترم بھی کلاس میں سیاسی فاشزم کی شروعات کے لیے انھیں ہی ذمہ دار قرار دیتے تھے، لیکن پورا سچ تو یہ ہے کہ جامعہ کراچی میں 1970ء کی دہائی میں ایک معروف مذہبی طلبہ تنظیم اور ایک حکومتی طلبہ تنظیم براہ راست مسلح تشدد میں ملوث ہو چکے تھے۔۔۔ ڈنڈے، لاٹھیوں، کانچ کی بوتلوں سے بات بڑھ کر چاقو زنی اور فائرنگ تک جا پہنچی تھی اور پھر 3 فروری 1981ء میں ایک پرتشدد تصادم کے بعد اسی مذہبی تنظیم نے بعد میں کراچی کی بڑی سیاسی جماعت بن جانے والی نئی تنظیم کو مار مار کر جامعہ کراچی سے باہر کر دیا تھا۔

کیوں کہ اس نئی تنظیم نے پہلی بار طلبہ یونین کا چنائو جیت لیا تھا۔۔۔ رہی اس مذہبی طلبہ تنظیم کے ساتھ تشدد میں ملوث ہونے والی حکومتی سیاسی تنظیم، تو دنیا نے دیکھا کہ اس سے وابستہ طلبہ بعد میں طیارہ اغوا جیسے سنگین ترین جرائم میں ملوث ہوئے، اور ذرا جگر تھام کے یہ بھی سن لیجیے 1977ء میں حکومت مخالف مظاہروں میں تشدد اور اشتعال اس قدر بڑھ چکا تھا کہ حکومت کے حامی ایک سیاسی کارکن کو مار کر اس کی لاش اسی کراچی شہر میں لٹکا دی گئی تھی۔ اب کسی کے لیے تلخ ہو تو ہو، لیکن سچائیاں تو یہی ہیں صاحب۔۔۔! اب کون ہے، جو بہ یک وقت ان تمام سچائیوں کو کھلے دل کے ساتھ مانے اور تینوں فریقین کی خرابیوں کو تسلیم کرے۔۔۔؟

ہمارا تجربہ تو یہی ہے کہ اکثر نہیں کریں گے، کیوں کہ ہم اکثر اپنے آپ میں اچھے خاصے 'آمر مطلق' اور ایک سخت گیر تاثر کے حامل واقع ہوئے ہیں، جو دلیل اور سچ کا جواب مکالمے کے بہ جائے صرف اسی طرح دے سکتا ہے کہ کہہ دے کہ آپ متعصب اور جانب دار ہیں، آپ فلاں کے حامی ہیں یا فلاں سے بغض رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یا پھر یہ کہ دھڑلے سے مخالفت کریں گے کہ آپ غلط لکھ رہے ہیں، جب ہم کہیں کہ 'پھر آپ ہی درست بتا دیجیے، ممکن ہے ہماری اصلاح ہو جائے!' نہیں، وہ 'درست' بھی نہیں بتائیں گے اور آپ کو غلط بھی کہہ دیں گے اور آپ سوچتے ہی رہیں گے کہ یہ کیا ہوا۔۔۔

سچ تسلیم نہ کرنے کا رویہ ہم جیسے لکھنے والوں کے لیے بعضے وقت شدید اذیت و کوفت اور تکلیف کا باعث بھی بن جاتا ہے، جب ہم انسانی حقوق کے عَلم برداروں سے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ بتائیے آپ کا یہ موقف کون سی اخلاقیات، کون سے قاعدے، آئین یا انسانی حقوق کے منشور کے مطابق ہے۔۔۔؟ جواباً بہت رائے ساز اور نام ور شخصیات یہی کہہ کر ہمیں ایک 'قوسین' میں قید کر دیتی ہیں، کہ آپ تو دراصل 'فلاں' کے طرف دار ہیں، دوسری طرف 'فلاں' کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ بھی ذرا سی تنقید سننے کا حوصلہ نہیں رکھتے، بہ جائے دلیل دینے کے وہ بھی کسی سچ پر منہ چڑھائے بیٹھ رہتے ہیں کہ آپ تو 'فلاں' گروہ جیسی باتیں کر رہے ہیں۔۔۔ لیجیے۔۔۔ اور کہیے سچ۔۔۔!؎

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھر کے رہے

لیکن ہمیں نہ اِدھر کا ہونا ہے اور نہ اُدھر کا۔۔۔ بس سچ کا ہونا ہے! بھلے سے آپ کسی سیاسی جماعت اور گروہ سے عقیدت رکھتے ہوں، لیکن اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ تنقید اور تاریخی سچائیوں کا انکار کر کے آپ دراصل کس کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں۔

غلطیوں پر تعمیری تنقید کی گنجائش نہ نکال کر آپ حقیقتاً کس کا نقصان کر رہے ہیں۔۔۔ اپنے کالموں، بلاگ، ناولوں، افسانوں اور کہانیوں میں پٹی پٹائی اور یک طرفہ باتیں لکھ کر آپ شاید مقبولیت کے ریکارڈ تو قائم کر لیں گے، لیکن آپ انسانیت، تاریخ اور اپنے قلم کے ایک بڑے مجرم بھی بن جائیں گے، کیوں کہ آپ لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن آپ اس صلاحیت کو سچائی کے بہ جائے صرف اپنی شہرت، مفادات یا ذاتی پسند وناپسند کی خاطر ہی بروئے کار لا رہے ہیں۔۔۔!


کچھ زخمی کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں۔۔۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی

وطن عزیز کی سیاست کا تمام تر دارومدار اب اس پر رہ گیا ہے کہ کس جماعت نے کتنا بڑا جلسہ کر کے کتنے زیادہ لوگوں کا وقت ضایع کیا، کتنا بڑا جلوس نکال کر کتنی سڑکوں کو بند کرا کے عوام کو اذیت میں مبتلا کیا، کتنا بڑا اور طویل دھرنا دے کر میڈیا پر رنگ اور معیشت پر زنگ جمایا وغیرہ۔ بعض برخود غلط قسم کے سیاست داں فخریہ دھمکی دیتے ہیں کہ وہ ایک کال پر پورا شہر و صوبہ یا ملک بند کروا سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام کے جال و مال اور روزگار کو جو نقصان پہنچتا ہے۔

اس کی ذمے داری وہ حکومت وقت اور برسر اقتدار پارٹی پر ڈال کر اپنے لیے راحت قلب اور راحت روح کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ وہ خود ''شرم پروف'' ہوتے ہیں، لیکن مخالفین کو بے شرمی کے طعنوں سے نوازنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ سیاست غریب سے ووٹ اور امیر سے نوٹ لے کر دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کا فن ہے۔ سابق صدر رونالڈ ریگن نے غلط تھوڑی کہا تھا ''سیاست دنیا کا دوسرا قدیم ترین پیشہ ہے۔ مجھے اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ یہ اول نمبر پر قدیم ترین پیشے سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔''

اگر غور کیا جائے، تو یہ دونوں پیشے آپس میں ''کزن'' ہیں۔ شاید اس قرابت داری کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے ایک انقلابی شاعر آغا شورش کاشمیری نے سیاست کے باب میں کہا تھا:

مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

سیاست داں اور دانش ور کبھی بلاوجہ سچ نہیں بولتے۔ جب کبھی وہ (حادثاتی طور پر ) سچ بول جاتے ہیں، تو لوگ ان کا یقین نہیں کرتے۔ امریکا میں سیاست دانوں سے بھری ہوئی ایک بس کسی قومی تقریب میں شرکت کے لیے ایک نواحی گائوں میں جا رہی تھی۔ جب بس ہائی وے سے گائوں کے راستے میں آگئی۔

تو ڈرائیور کی بد احتیاطی کے باعث ایک سنسان مقام پر درخت سے ٹکرا کر الٹ گئی۔ ہر طرف خون اور شیشے کے ٹکڑے بکھر گئے۔ وہاں موجود ایک بوڑھے شخص نے فرض شناسی سے مغلوب ہو کر تن تنہا دو گھنٹے میں ایک بڑا سا گڑھا کھود کر اس میں دفنا دیا۔ شام تک جب حادثے کی خبر عام ہوئی، تو میڈیا والوں نے دیہاتی کو تلاش کر کے حادثے کی تفصیلات لیں اور اس کے جذبۂ انسانیت کو سراہا۔ ایک اخباری نمائندے نے اس سے سوال کیا ''کیا سب لوگ جاں بحق ہوگئے تھے؟''

''نہیں جی'' بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا ''کچھ زخمی تو کہہ رہے تھے کہ ہم زندہ ہیں، مگر آپ جانتے ہیں، وہ سیاست داں تھے۔''

انگلستان کے ایک وزیراعظم (Benjamin Disraeli) نے اپنے ہی ملک کے ایک سیاست داں کے بارے میں کہا تھا کہ اگر وہ ٹیمز دریا میں گر جائے، تو یہ ایک حادثہ ہوگا، لیکن اگر اسے بچا لیا جائے، تو یہ سانحہ ہوگا۔ حادثے اور سانحہ کا فرق جاننا ہو تو پروفیسر عنایت علی خان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر

(تصنیف ''کتنے آدمی تھے؟'' سے چنا گیا)

سزائے موت سننے کے بعد سقراط کے خیالات
مریم کنول، کراچی

میں تم لوگوں کو انجام سے آگاہ کرتا ہوں کہ تمھارا کیا حشر ہونے والا ہے؟ میری موت کے فوراً بعد تمہارے دنوں کی گنتی بھی شروع ہو جائے گی۔ میں تو سچ کی خاطر موت کو گلے لگا رہا ہوں، لیکن تم موت سے بچنے کے لیے ہمیشہ بھاگتے رہو گے، تم کو زندگی بھر چین نہیں مل سکے گا، تم زمین کی کتنی ہی گہری تہوں میں چھپ جائو، لیکن فرشتۂ موت سے بچ نہیں سکو گے، کیوں کہ وہ ہر جگہ تم کو تلاش کرنے پر قادر ہے؟ تمھاری سزا مجھ سے کہیں زیادہ سخت ہوگی۔

اے ایتھنز کے لوگو! جو مجھ سے محبت کرتے ہو اور مجھے سنائی جانے والی سزا پر غمگین اور دکھی ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ میری موت کے بعد تمھاری محبت میں کمی نہیں ہوگی اور تم میرے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دو گے۔ تم میں سے بہت سے چاہتے تھے کہ میں جھوٹ بول کر سزا سے بچ جائوں اور اپنی زندگی بچا لوں، لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا۔ میں سچ سے پیار کرتا ہوں اور اپنی جان دے کر اس پیار کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں۔

موت کیا ہے؟ موت انسان کی روح کی ایک دنیا سے دوسری دنیا تک منتقلی یا انتقال کا نام ہے۔ سبھی کو مرنے کے بعد وہاں جانا ہے۔ میں ان ججوں سے مخاطب ہوں، جنھوں نے یہ سوچے بغیر فیصلے دیے کہ ان کو بھی موت آئے گی اور مرنے کے بعد ان کو اپنی ناانصافی کا حساب دینا ہوگا۔ وہاں ان ججوں کو اس دنیا میں اپنے کرتوتوں پر افسوس ہوگا۔ اے منصفو! وہاں تمھاری ملاقات Orpheus (ایک یونانی شاعر) اور Museus اور Hesiod (یونانی شاعر) Homer (ایک یونانی شاعر) سے ہوگی۔ کیا تم لوگ ان کو منہ دکھانے کے قابل ہوگے؟ میرے لیے یہ موت تکلیف دہ نہیں، بلکہ باعث فخر ہے کہ میں سچ کی خاطر جان دے رہا ہوں، لیکن اے ججو! اے منصفو! تمھاری موت تمھارے لیے سخت تکلیف دہ اور باعث شرم ہوگی۔

کیا یہ جج اور یہ خود ساختہ منصف، جنھوں نے چند ٹکوں کے لیے بددیانتی پر مبنی فیصلوں کے ذریعہ موت کی سزائیں دیں، اس زندگی میں معبودِ برحق کے انصاف کا سامنا کرنے کے قابل ہوں گے؟ کیا یہ منصف اور جج جنھوں نے حکمرانوں کی خوش نودی کو پیش نظر رکھا۔ اے منصفو! اے ججو! اب بھی وقت ہے، موت سے پہلے اچھی طرح سمجھ لو کہ تم کو بھی مرنے کے بعد اپنے ہر ہر عمل کا حساب دینا ہے۔

اب میرے موت کو گلے لگانے کا وقت آگیا ہے، لیکن میں تم کو خبردار کرتا ہوں، دنیا کی زندگی مختصر ہے اور بعد کی زندگی اچھی ہوگی۔ اچھے کام کرنے والوں کو اگلی زندگی میں نیکیوں کا کیا انعام ملے گا اس کی خبر خدائے واحد کے سوا کسی کو نہیں، لیکن جس میں تم یقین نہیں رکھتے۔
Load Next Story