وزیراعظم کےلیے طلائی تمغہ

سائیکل پر سواری کا وعدہ کپتان نے کیا مگر اب لگتا ہے پوری قوم کو سائیکل پر لا کر ہی چھوڑیں گے


وزیراعظم کی اعلیٰ کارکردگی پر ایک طلائی تمغہ تو بنتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

16 اکتوبر کو پوری دنیا میں غذا کا دن ''ورلڈ فوڈ ڈے'' منایا جاتا ہے اور اس سلسلے میں تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ مختلف ایونٹس میں حصہ لینے کےلیے پوری دنیا سے شمولیت کی دعوت عام دی جاتی ہے۔

اس دن کا آغاز 1945 میں غذا کی ترسیل کے نظام کو بہتر بنانے اور اسے مفلس اور غذا کی کمی والے افراد اور ممالک تک پہنچانے کے طریق کار پر زور دیتے ہوئے اقوام متحدہ برائے خوراک و زراعت تنظیم کا آغاز کیا گیا۔ جس میں ہر سال غذا کی بہتر اور صحت بخش پیداوار کرنے والے کو فوڈ ہیرو کے ایوارڈ سے بھی نوازا جاتا ہے اور غریب تک غذا کے ترسیلی نظام میں بہتری کو بھی سراہا جاتا ہے۔

حالات و واقعات سے لگتا ہے کہ اس سال پاکستان اس موقع پر گولڈ میڈل ضرور حاصل کرلے گا اور ورلڈ کپ کے بعد یہ کپتان کی دوسری شاندار کامیابی ہوگی۔ اس سلسلے میں ہمارے کپتان نے اپنی انتھک محنت سے تین سال سے زیادہ عرصہ حکومت کرکے اپنے ملک کے غریب عوام کےلیے جو غذا کا بندوبست کیا ہے اس کی تعریف نہ کرنا تو سراسر زیادتی تصور ہوگی کہ ہم نے ریکارڈ فصل کی پیداوار کے باوجود عوام کےلیے ان فصلوں کی پیداوار کو دگنا مہنگا کرکے دکھا دیا اور کوئی اف تک نہ کرسکا۔ اس سال غذا کے عالمی دن خصوصی طور پر کپتان نے عوام کو تین تحفے عنایت کیے جن کے صلے میں ان کےلیے طلائی تمغہ تو بنتا ہے۔

آئیے ذرا ان کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں تاکہ پہلے آپ کا ابہام دور ہوسکے اور پھر پوری دنیا کو بھی ہم نے سمجھانا ہے کہ ہمارے ایماندار وزیراعظم بھوک سے مرتی اپنی قوم سے کس حد تک ہمدردی رکھتے ہیں اور انہوں نے کتنے اعلیٰ درجے کے اور مشکل فیصلے لے کر ان کو ریلیف فراہم کیا ہے۔

سب سے پہلے تو عوام کو کھانا بہم پہنچانے کا بندوبست کیا اور پھر کھانا پکانے میں استعمال ہر چیز کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا تاکہ کوئی بھی غیر قانونی طور پر اشیا اسٹور کرکے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرسکے اور معقول منافع کما کر غریب کی کھال اتار لی جائے۔ اس میں تازہ تازہ فیصلہ گھی کی قیمت میں ایک سو نو روپے فی کلو کے حساب سے اضافہ کرکے غریب کے پیٹ میں سوراخ کردیا۔ دیکھا دیکھی باقی اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا اور سودا سلف غریب کی پہنچ سے بہت دور چلا گیا۔

پھر ہم نے عالمی مالیاتی ادارے کے حکم کے عین مطابق بجلی کے نرخوں میں ایک روپے اڑسٹھ پیسے فی یونٹ اضافہ کیا اور پچھلے سال کے وزیراعظم کے بیان کو بھی نظر انداز کردیا کہ انہوں نے عوامی ہمدردی میں کہا تھا کہ ہم اب کچھ بھی کرکے بجلی کی قیمت میں اضافہ نہیں کریں گے۔ مگر اس بیان کے بعد دو مرتبہ اضافہ کرکے انہوں نے یہ ثابت کیا کہ ''جو میں کہوں گا وہ کبھی نہیں کروں گا اور جو نہیں کہوں گا وہ ضرور کروں گا''۔ اس کی اور بھی کئی مثالیں ہیں جو بتانا یہاں پر مقصود نہیں۔ بہرحال اپنے دور حکومت میں پچاس فی صد تک بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت میں اضافہ کرچکے ہیں اور یہ سالانہ ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ ہے۔

اب چونکہ ہم نے ملک کا خزانہ ہی عالمی مالیاتی ادارے کے حوالے کردیا ہے تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین بھی انہوں نے ہی کرنا ہے اور ہمارے وزیر و مشیر تو کب سے یہ بتا رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں پٹرول بہت سستا ہے جبکہ پوری دنیا میں بہت مہنگا ہے۔ مجھے تو پوری امید تھی کہ اس بار پٹرول کی قیمتوں کا اعلان بھی امریکا بہادر کی طرف سے کیا جائے گا مگر یہ میری حسرت ہی رہی۔ بہرحال فی لٹر پٹرول کی قیمت میں دس روپے انچاس پیسے کے اضافے کے ساتھ ڈیزل بارہ روپے اور مٹی کا تیل گیارہ روپے بڑھ گیا اور ملکی تاریخ میں اپنی سب سے اونچی اڑان بھر چکا۔

سائیکل پر سواری کا وعدہ کپتان نے کیا مگر اب لگتا ہے پوری قوم کو سائیکل پر لا کر ہی چھوڑیں گے تاکہ ماحول بھی صاف ہوسکے اور صحت بھی اچھی رہے۔ اس طرح کتنے ہی عوام کے فائدے چھپے ہیں اس ایک فیصلے میں۔ تو پھر بنتا ہے ناں طلائی تمغہ؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں