توانائی کا بحران اور سولر سسٹم

پاکستان گزشتہ چند برسوں سے توانائی کے شدید بحران سے گزر رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بحران شدید سے شدید...

فوٹو فائل

KARACHI:
پاکستان گزشتہ چند برسوں سے توانائی کے شدید بحران سے گزر رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران توانائی کے بحران پر قابو پانے کا نعرہ لگایا تھا اور عوام نے اسی امید پر انھیں اقتدار سونپا تھا کہ وہ برسراقتدار آ کر اسے توانائی کے عفریت سے نجات دلائیں گے۔ اگرچہ موجودہ حکومت نے اب تک توانائی کے بحران کو اولین ترجیح دیتے ہوئے اس پر قابو پانے کے لیے مختلف منصوبوں کا اعلان کیا ہے مگر یہ منصوبے ابھی تک کاغذوں تک محدود ہیں اور عملی طور پر ان کا آغاز نہیں ہو سکا۔

ہر سال بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث بجلی اور گیس کی طلب میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے خاص طور پر گزشتہ چھ سال سے گیس کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ امسال سردیوں میں گیس کا بحران خاصا شدید ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو آیندہ سال سردیوں میں گیس کا بحران مزید شدید ہو جائے گا جس کے منفی اثرات صنعتی شعبے پر مرتب ہوں گے ۔ اگرچہ ایل پی جی گیس اور دیگر متبادل ذرایع سے گھریلو صارفین کی ضرورت ضرور پوری ہو جاتی ہے مگر قدرتی گیس کے مقابلے میں یہ ذرایع مہنگے ہونے کے باعث گیس صارفین کے مالی بوجھ میںخاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اب سردیاں اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہیں اور گرمیوں کا موسم دو تین ماہ بعد شروع ہونے والا ہے جس میں بجلی کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ ابھی تک اس طلب کو پورا کرنے کے لیے فوری حکومتی منصوبہ سامنے نہیں آیا۔ پنجاب اور سندھ میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ تھرکول منصوبے سے پیدا ہونے والی بجلی سے انرجی بحران پر قابو پانے میں کافی حد تک مدد ضرور ملے گی مگر ان منصوبوں کی تکمیل میں ایک عرصہ درکار ہے۔


بعض ماہرین کے مطابق کوئلے سے بجلی بنانے سے ماحولیاتی آلودگی ایک مسئلہ بن جاتی ہے اگرچہ اب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے پر قابو پانا ممکن ہو چکا ہے۔ پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اور اس کی نوے فیصد صنعت کا انحصار بھی زراعت پر ہے اس لیے زرعی ترقی کے لیے ڈیمز کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ حکومت کو توانائی بحران کے خاتمے اور معاشی استحکام کے لیے ڈیموں کی تعمیر کے لیے انتہائی تیزی سے اقدامات کرنے ہوں گے۔ زراعت اور اس سے منسلک صنعت کو بچانے کے لیے ڈیمز کی تعمیر وقت کا تقاضا ہے۔ دوسری جانب بھارت مقبوضہ کشمیر میں ڈیم پر ڈیم تعمیر کرکے پاکستان کے لیے پانی میں کمی جیسے مسائل پیدا کرتا چلا جا رہا ہے اس سے پاکستان کی زراعت کو مجموعی طور پر شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ توانائی کے بحران اور پانی کی کمی کے مسئلہ کے حل کے لیے بڑے آبی ذخیرے کی تعمیر بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ہمارے مسائل مزید بڑھیں گے۔ اس کے علاوہ حکومت کو ملک میں دیگر چھوٹے چھوٹے ڈیمز تعمیر کرنا چاہیے۔ اگر زرعی شعبہ کمزور ہوا تو اس سے منسلک نوے فیصد صنعت بھی متاثر ہو گی اور اس طرح ملک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا۔

توانائی کے بحران کے باعث صنعتی شعبہ بھی شدید مشکلات کا شکار ہے خاص طور پر کپڑے کی صنعت بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ صنعتی شعبہ متاثر ہونے سے سرمایہ کاری کا عمل بھی کمزور پڑ چکا ہے۔ بہت سے صنعت کار توانائی کے بحران اور بجلی و گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں مختصر وقفے سے ہونے والے اضافے کے باعث اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں جس سے جہاں صنعتی شعبہ آگے نہیں بڑھ رہا وہاں بے روز گاری میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ توانائی کے بحران پر فوری قابو پانے کا ایک اہم ذریعہ سولر انرجی ہے۔ حکومت سولر انرجی پر زیادہ سے زیادہ انحصار کے لیے بنگلہ دیش سولر ماڈل کو اختیار کرے۔ اگرچہ سولر توانائی سے فائدہ اٹھانے کے لیے کام کا آغاز ہو چکا ہے اور جنوبی پنجاب میں قائداعظم سولر پارک پر بھی کام شروع کر دیا گیا ہے' مگر بجلی کی ہر سال بڑھتی ہوئی طلب کے مطابق سولر انرجی کے حصول کے نظام کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ گھریلو سطح پر سولر پینل کی زیادہ سے زیادہ تنصیب کے لیے حکومت شہریوں کو آسان شرائط پر بلا سود قرضے فراہم کرے' ڈیزل سے چلنے والے تمام ٹیوب ویلز کو سولر پمپس پر منتقل کرنے سے جہاں ڈیزل کی بچت ہو گی وہاں کسان کو ٹیوب ویل پر اٹھنے والے غیر ضروری اخراجات سے بھی نجات ملے گی اور زرعی پیداوار بھی سستی ہوں گی۔ سولرانرجی سے چلنے والی موٹر سائیکلیں اور کاریں تیار کی جائیں اس سے پٹرول کی درآمد پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالر کی بچت کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی۔

گھروں میں استعمال ہونے والے چولہے بھی سولرہوں تو اس سے گیس کے بحران پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی اور توانائی کے بحران کے باعث عوامی احتجاج سے بھی حکومت کو نجات مل جائے گی۔ سولر انرجی پر توجہ دی جائے تو یہ اتنی بڑی صنعت ہے کہ حکومت ملک میں صنعتی انقلاب لا سکتی ہے۔ بیروز گار نوجوانوں کو سولر انرجی کے بارے میں فنی تربیت دی جائے اور ہنر مند نوجوانوں کو آسان شرائط پر بلا سود قرضے دے کر سولر اسمال انڈسٹری کو فروغ دیا جائے۔ سولر ٹیوب ویل پمپس' سولر پنکھے سولر بلب' سولر بیٹریاں' سولر چولہے اور سولر کاریں بنانے کی صنعتیں لگائی جائیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں سولر انرجی کا خصوصی مضمون شامل کیا جائے۔ اس طرح پاکستان میں خوشحالی لائی جا سکتی ہے۔ دوسری جانب حکومت کم معیار کے سولر پینل کی اسمگلنگ کے انسداد کے لیے فوری کارروائی کرے۔ سولر انرجی کے شعبے کو ترقی دینے سے توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
Load Next Story