قرض کیلیے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات پھر ناکام

اضافی ٹیکس کے ہدف اور پاور سیکٹر کے مالی استحکام پر اتفاق نہ ہوا۔


Shahbaz Rana October 17, 2021
مذاکرات کے تسلسل کے منتظر ہیں،آئی ایم ایف نمائندہ۔ فوٹو: فائل

پاکستان اور آئی ایم ایف ایک بار پھر معیاری فریم ورک پر اختلافات اور معیشت کے مستقبل کے روڈ میپ پر غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے مقررہ وقت پرا سٹاف سطح پر معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔

ایک ارب ڈالر کے قرض کی اگلی قسط جاری کرنے اور بہتر معاشی صورتحال کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے 4 سے 15 اکتوبر تک مذاکرات کا نیا دور بے نتیجہ رہا۔پاکستان کی جانب سے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی پیشگی شرط قبول کی جانے کے باوجود مذاکرات ناکام ہوئے۔

تاہم فریقین نے مذاکرات جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے،مذاکرات کے مثبت خاتمے کی کوششوں میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹلینا جارجیوا اور امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ڈونلڈ لو سے الگ الگ ملاقات کی۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں ملاقاتیں بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں۔

پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کی سبکدوش ہونے والی نمائندہ ٹریسا ڈابن سانچیز نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ آئی ایم ایف ٹیم پاکستانی وفد کے ساتھ مذاکرات میں ہمارے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف کار ہے اور ہم پاکستانی حکام کے ساتھ پالیسیوں اور اصلاحات پر مذاکرات کے تسلسل کے منتظر ہیں جو 6 ویں جائزے کی تکمیل کی بنیاد بن سکتے ہیں۔

یہ دوسری بار ہوا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف 'چھٹے جائزے کی تکمیل کی بنیاد' تک نہیں پہنچ سکے،جون میں بھی یہ کوشش بے سود رہی تھی،پاکستان اور آئی ایم ایف اب تک معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت (ایم ای ایف پی) پر متفق ہونے میں ناکام رہے ہیں ، جو بیل آؤٹ پروگرام کی بنیاد بنتا ہے۔

ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ فریقین نے تاحال حتمی میکرو اکنامک پوزیشنوں کا تبادلہ نہیں کیا، جسے 8 اکتوبر تک مکمل ہونا چاہیے تھا،آئی ایم ایف مذاکرات بارے غیر یقینی صورتحال اسٹاک مارکیٹوں کو متاثر کر سکتی ہے اور روپے اور ڈالر کی قدر کو مزید دباؤ میں لا سکتی ہے۔

ذرائع نے مزید کہا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف اضافی ٹیکس کے ہدف اور پاور سیکٹر کے مالی استحکام کے روڈ میپ پر متفق نہیں ہو سکے،گیس کی قیمتوں میں اضافے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کوقابو میں رکھنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے پر بھی مسائل سامنے آئے۔

مذاکرات 4 اکتوبر کو اسلام آباد میں شروع ہوئے تھے ،شوکت ترین چاہتے تھے کہ مذاکرات 15 اکتوبر کو واشنگٹن میں اختتام پذیر ہوں، پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ بجلی اور گیس کے نرخوں اور ٹیکس وصولی کے اعدادوشمار شیئر کیے ہیں اور وزیر خزانہ شوکت ترین نے واشنگٹن میں نیوز کانفرنس میں بتایا کہ آئی ایم ایف حکام ان اعدادو شمار کا جائزہ لے رہے ہیں اس حوالے سے وہ ہمیں آگاہ کرینگے۔

واضح رہے کہ عام طور پر پالیسی سطح کے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ان اعدادوشمار پر اتفاق کر لیا جاتا ہے۔ تاہم فریقین نے بجٹ سے متعلق اہم اعدادوشمار کا تبادلہ اس لئے نہیں کیا کیونکہ ان دونوں طرف بہت زیادہ فرق پایا جا رہا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے جی ڈی پی کے کم از کم 1 فیصد یا 525 ارب روپے سے زائد کے اضافی ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن حکومت 300 ارب روپے کے ٹیکس پر آمادہ ہے، اضافی ٹیکس کے ہدف پر بات چیت کا دور بھی نتیجہ خیز نہ رہا،رواں سال ایف بی آر 5.8 ٹریلین روپے کا ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرے گا، آئندہ مالی سال میں ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب جی ڈی پی کا 13.75 فیصد ہو جائے گا۔گزشتہ مالی سال کے اختتام پر ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب صرف 11.1 فیصد تھا۔

شوکت ترین نے اپنی نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ سیکرٹری خزانہ یوسف خان منگل تک مذاکرات جاری رکھنے کے لیے واشنگٹن میں قیام کریں گے جنہوں نے شیڈول کے مطابق پیر کو پاکستان واپس پہنچنا تھا ،وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ نیویارک میں ہونگے تاہم ضرورت پڑی تو آن لائن مذاکرات میں شامل ہوجائیں گے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔