آخری موقع

عمران خان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سب سے بڑے داعی ہیں، پھر ایسا کیا ہوا کہ جب طالبان کی طرف سے۔۔۔

ayazkhan@express.com.pk

عمران خان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سب سے بڑے داعی ہیں، پھر ایسا کیا ہوا کہ جب طالبان کی طرف سے 5رکنی کمیٹی میں انھیں شامل کیا گیا تو وہ ہچکچاہٹ کا شکار ہوئے اور پھر تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا اجلاس ہوا ، جس کے بعد اعلان ہوا کہ خان صاحب طالبان کی کمیٹی مین شامل نہیں ہوں گے۔ عمران خان واحد سیاسی لیڈرہیں جنہوں نے ہمیشہ مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ وہ یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف اور انھیں جو مینڈیٹ ملا تھا وہ مذاکرات کی حمایت کے باعث تھا۔ وزیراعظم نواز شریف کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے کہ انھوں نے مذاکرات کے ساتھ ساتھ دیگر آپشنز کی بات بھی کی ہے۔ وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران جب طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا اس پر کچھ لوگوں نے حیرت کا اظہار بھی کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میاں صاحب کی صدارت میں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی جو تفصیلات آئی تھیں ان میں کہا گیا تھا کہ 90 فیصد سے زائد شرکاء مذاکرات کے حق میں نہیں تھے۔

اس کے باوجود وزیراعظم نے مذاکرات کا راستہ چنا تو اس کے پیچھے محض یہی سوچ کارفرماتھی کہ امن کو ایک موقع دیا جائے۔ پیر کو لاہور میں سینئر صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں بھی میاں صاحب نے کہا کہ ملک کو خونریزی سے بچانے کے لیے انھوں نے مذاکرات کا راستہ چنا ہے۔ میاں صاحب کے اس موقف کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے حمایت کی ہے۔ وہ سیاسی جماعتیں بھی آج ن لیگ کی حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں جو اس مسئلے کا حل صرف آپریشن کی صورت میں دیکھ رہی تھیں۔ کپتان نے وزیراعظم کی تقریر کے بعد قومی اسمبلی میں جو تقریر کی اس میں نہ صرف حکومت کے اقدام کا خیر مقدم کیا بلکہ یہ پیش کش بھی کی کہ وہ ہر طرح کے تعاون پر تیار ہیں۔ اور پھر جب موقع آ گیا تو وہ ڈبل مائنڈڈ ہو گئے اور ان کے طرز عمل سے یوں محسوس ہوا کہ جیسے ان کے آگے کھائی اور پیچھے کنواں والی صورت حال ہے۔

تحریک انصاف میں لیڈروں اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اپنے چیئرمین کے اس موقف کی حامی نہیں ہے کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں اس کے باوجود کپتان کا یہ دعویٰ ہے کہ اس مسئلے کا واحد حل بات چیت ہے۔ اب اگر وہ مذاکرات کے عمل میں شریک نہ ہوئے تو بقول مولانا سمیع الحق کپتان کی سیاسی ساکھ متاثر ہو گی۔ کپتان کا انکار حکومتی پارٹی کو یہ کہنے کا موقع فراہم کرے گا کہ وہ مذاکرات کا مطالبہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے کرتے تھے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ حکومت اور طالبان نے اپنے پتے بڑی خوبصورتی سے کھیلے ہیں۔ دونوں نے مل کر عمران خان کو مشکل میں پھنسا دیا ہے۔ کپتان کو اس مشکل صورتحال سے نکلنے کے لیے اپنی وہی مہارت بروئے کار لانا پڑے گی جو وہ کبھی کرکٹ کے میدان میں استعمال کیا کرتے تھے۔ ویسے اب کپتان کو یہ بات تو سمجھ میں آ گئی ہو گی کہ کرکٹ کے میدان میں زیادہ سے زیادہ 5 دن کا ٹیسٹ ہوتا ہے جب کہ سیاست مسلسل ٹیسٹ کا نام ہے۔ یہاں ہر سیشن میں بازی پلٹ جاتی ہے۔


طالبان نے جس مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کیا ہے اس میں اکوڑہ خٹک ڈیرہ اسماعیل خان پر بازی لے گیا ہے۔ مولانا سمیع الحق موجود ہیں اور مولانا فضل الرحمان غائب۔ مولانا فضل الرحمان کی پارٹی سے مفتی کفایت اللہ کا نام تجویز کیا گیا ہے۔ منور حسن سے زیادہ اعتماد پروفیسر محمد ابراہیم پر کیا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان قبائلی جرگے کو نظر انداز کرنے کا شکوہ کر رہے ہیں تو وہ اس میں حق بجانب ہیں کیونکہ نواز شریف حکومت نے اگر ان پر اعتماد نہیں کیا تو طالبان کی طرف سے بھی اعتماد سامنے نہیں آیا۔

اس ساری صورت حال میں جو چیز واضح ہے وہ یہ ہے کہ حکومت اور طالبان دونوں مذاکرات میں سنجیدہ ہیں۔ اس وقت تک دونوں فریق یہ چاہتے ہیں کہ یہ کامیاب بھی ہو جائیں۔ خیر مذاکرات کے نتیجے کے بارے میں فی الوقت کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جب دونوں فریق ایک میز پر بیٹھیں گے اور ایک دوسرے کے سامنے اپنے مطالبات رکھیں گے تو معلوم ہو گا کہ کون کتنی لچک دکھانے کے لیے تیار ہے۔ مذاکرات کے لیے سنجیدگی مجھے اتوار کو بھی نظر آئی جب پشاور کے ایک سینما میں دھماکوں سے ہلاکتیں ہوئیں تو چینلوں پر یہ خبر چلنے کے تھوڑی دیر بعد ہی تحریک طالبان پاکستان نے اپنا اظہار لاتعلقی ظاہر کر دیا۔ اس سے پہلے تحریک طالبان کسی دھماکے کی ذمے داری قبول کرتی تھی یا خاموشی اختیار کرتی تھی۔ دو تین مواقع پر اظہار لاتعلقی ضرور سامنے آیا مگر وہ بھی قدرے تاخیر سے۔نواز شریف نے اس دھماکے کے حوالے سے بھی ہدایات جاری کر دی ہیں کہ طالبان کے اظہار لا تعلقی کے بعد پتہ چلایا جائے کہ یہ کس کا کام ہے۔ وہ کون ہے جو مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔

حکومت نے مذاکرات کے لیے 4 رکنی کمیٹی کا اعلان پہلے کر کے جو سبقت لی تھی طالبان کی طرف سے کمیٹی کے جوابی اعلان سے وہ ختم ہو گئی ہے۔ گیند اب پھر سے حکومت کی کورٹ میں ہے۔ مذاکرات کی حامی اور مخالف سب قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ ملک میں امن قائم ہو جائے۔ امن کو موقع دیا گیا ہے لیکن فریقین یاد رکھیں کہ یہ آخری موقع ہے۔ یہ موقع ضایع ہو گیا تو ساری ایکسر سائز برباد ہو جائے گی۔ ایسا کون چاہے گا؟۔اس دوران ڈرون حملہ ہوا یا کوئی اور بڑا واقعہ تو پھر کیا ہو گا؟
Load Next Story