مردم شماری بروقت ہونی چاہیے
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے رواں سال میں ملک میں قومی مردم شماری۔۔۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے رواں سال میں ملک میں قومی مردم شماری کرانے کے احکامات جاری کردیے ہیں تاکہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق کروائے جا سکیں۔ وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن کے خط کے جواب میں ادارہ شماریات کو حکم دیا ہے کہ چاروں صوبوں میں مردم شماری کے لیے تیاریاں کی جائیں۔ الیکشن کمیشن نے خط میں وزیر اعظم سے درخواست کی تھی کہ ملک میں مردم شماری یقینی بنائی جائے۔ قبل ازیں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے ملک میں مردم شماری کرانے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف کو خط لکھا تھا۔ مردم شماری اور حلقہ بندیاں کرنا آئینی ضرورت ہے جو الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 222 کی ذیلی شق کے تحت کرانے کا پابند ہے۔
واضح رہے کہ 2010 میں سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل نے ملک میں مردم شماری کے انعقاد کی منظوری دی تھی جس کے تحت ملک میں خانہ شماری اکتوبر 2010 جب کہ چھٹی مردم شماری مارچ 2011 میں ہونا تھی مگر بوجہ نہیں ہوسکی تھی۔ اس سے قبل بھی 2008 میں چھٹی مردم شماری ہونی تھی تاہم بعض وجوہات کے باعث اسے ایک سال کے لیے موخر کردیا گیا تھا جب کہ 2009 میں فاٹا، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کے کہنے پر ایک مرتبہ پھر مردم شماری و خانہ شماری موخر کردی گئی تھی۔ واضح رہے کہ ملک میں آخری مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ ملک میں ہر دس سال بعد قومی مردم شماری 1951 ، 1961، 1972، اور 1981 میں ہوئی تھی۔1991 میں پانچویں مردم شماری ہونی تھی، ابتدائی مرحلے میں خانہ شماری کا کام مکمل کرلیا گیا تھا لیکن اندرون سندھ آبادی میں 770 فیصد تک اضافے کی ناقابل یقین رپورٹوں کے پیش نظر یہ عمل روک دیا گیا تھا۔ اس وقت کی خانہ شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان کی آبادی 81 ملین سے بڑھ کر 133 ملین ہوگئی تھی۔ واضح رہے کہ 1991 کی مردم شماری تین مرتبہ ملتوی ہونے کے بعد یکم مارچ سے 13 مارچ 1998 کو ہوئی۔ اس طرح 15 سال گزر چکے ہیں چھٹی مردم شماری ہو نہیں پا رہی ہے۔اب جب کہ وفاقی حکومت نے ملک میں مردم شماری کے انعقاد کی منظوری کے لیے 3 سال سے زیر التوا معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر مشترکہ مفاد کونسل کے ایجنڈے میں شامل کرلیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف مشترکہ مفادات کونسل کے آیندہ اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے مردم شماری کے انعقاد کے حوالے سے رائے طلب کریں گے۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس جنوری 2014 کے آغاز میں ہوگا۔
قومی مردم شماری و خانہ شماری کی اہمیت وافادیت سے انکار ممکن نہیں کہ مستقبل کے بارے میں دوررس نتائج برآمد کرنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ مثلاً نئی مردم شماری کے نتائج موصول ہونے کے بعد تمام قومی اعدادوشمار اور اقتصادی اعشاریے بھی تبدیل ہوجائیں گے،ملک کی درست آبادی کا تعین ہوگا اسی حساب سے معاشی و اقتصادی اہداف کا تخمینہ لگایا جاسکے گا، قومی، صوبائی اور بلدیاتی حلقہ بندیاں کی جاسکیں گی اور آبادی کے لحاظ سے انتخابی نشستوں کا تعین کیا جاسکے گا۔وفاق اور صوبوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم کا تنازعہ بھی حل ہوجائے گا۔
مردم شماری کے نہ ہونے کے باعث کراچی سمیت اندرون سندھ میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کی تشکیل کے موقعے پر کئی اضلاع میں آبادی کم اور ووٹرز کی تعداد زیادہ آ رہی ہے، کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جن کا وجود 1998 کی مردم شماری میں نہیں ہے تاہم نئی آبادکاری اور 2011 کی خانہ شماری کی بنیاد پر ہونے والی انتخابی فہرستوں کے باعث یہاں بلدیاتی حلقے تشکیل دیے گئے ہیں، ضلع غربی میں لیاری ایکسپریس وے کے نوآباد تیسر ٹاؤن، ہاکس بے اور بلدیہ ٹاؤن میں چند سال قبل آباد ہوئے ہیں تاہم اب یہاں بلدیاتی حلقے بنادیے گئے ہیں۔ متعلقہ اداروں کے مطابق بلدیاتی حلقوں کی تشکیل کے لیے اس میں کوئی قانونی مسئلہ نہیں ہے تاہم فنڈز کے اجرا کے موقعے پر یہاں قانونی پیچیدگی آئے گی اور عوام اپنے جائز حق سے محروم رہیں گے۔
کراچی کی کل آبادی 1998 کی مردم شماری کے مطابق 98,20,700 ہے جس میں سے 8811070 کی آبادی شہری حکومت کا حصہ ہے جب کہ 1009630 کی آبادی کنٹونمنٹ بورڈ کے حصے میں شامل ہے۔ جب کہ 2011 کی خانہ شماری کے بلاکس کی بنیاد پر انتخابی فہرستوں میں کراچی میں ووٹرز کی تعداد 71 لاکھ سے زائد ہے، قانون کے مطابق فنڈز کا اجرا آبادی و غربت اور دیگر عوام کے مطابق کیا جاتا ہے، کراچی میں 1998 کی مردم شماری کے موقعے پر کئی مقامات پر آبادی کا یا تو وجود ہی نہیں تھا یا آبادی 100 افراد سے بھی کم تھی تاہم 15 سال کے دوران ہزاروں افراد کی نقل مکانی بالخصوص کراچی کے مضافات میں کئی بستیاں وجود میں آگئی ہیں۔ 1998 کی مردم شماری کے لحاظ سے ضلع غربی میں دیہہ مٹھان کی آبادی صرف 99 افراد پر مشتمل تھی تاہم اب یہ گلشن بہار کی توسیع ہے اور ہزاروں افراد رہائش پذیر ہیں، ضلع شرقی میں باغ کورنگی میدانی علاقہ تھا اور آبادی کا کوئی وجود نہیں تھا، 5 سال قبل یہاں ہزاروں افراد کی آبادی ہوچکی ہے۔
15 سال قبل گلستان جوہر کی میونسپل حدود الٰہ دین پارک سے پہلوان گوٹھ کی آبادی صرف 43 ہزار تھی، اب یہاں کثیر تعداد میں فلیٹوں کی تعمیر ہونے سے آبادی لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ علاوہ ازیں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرکے پاکستانی شہریت حاصل کرچکی ہے۔ حکومت کو اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی مناسب اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ پاکستان میں آباد غیر ملکی آبادی کا بڑھتا ہوا یہ سیلاب بہت سے مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ حکومت افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے جلد ازجلد اقدامات کرے۔
پاکستان میں مردم شماری اپنی مقرر کردہ دس سالہ مدت کے عرصے میں کبھی نہیں ہوئی بلکہ ایک سے دوسری مردم شماری کے دورانیے میں کئی کئی سال کا غیر ضروری وقفہ آتا رہا۔ اب اگر 2014 میں مردم شماری ہونی ہے تو یہ سولہ سال کے بعد ہوگی۔ حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ ہر دس سال بعد مردم شماری کا عمل بلاتاخیر منعقد ہوتا رہے تاکہ ہر پانچ سال بعد ہونے والے عام انتخابات سے قبل حلقہ بندیوں سمیت دیگر مسائل باآسانی حل ہوسکیں۔
واضح رہے کہ 2010 میں سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل نے ملک میں مردم شماری کے انعقاد کی منظوری دی تھی جس کے تحت ملک میں خانہ شماری اکتوبر 2010 جب کہ چھٹی مردم شماری مارچ 2011 میں ہونا تھی مگر بوجہ نہیں ہوسکی تھی۔ اس سے قبل بھی 2008 میں چھٹی مردم شماری ہونی تھی تاہم بعض وجوہات کے باعث اسے ایک سال کے لیے موخر کردیا گیا تھا جب کہ 2009 میں فاٹا، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کے کہنے پر ایک مرتبہ پھر مردم شماری و خانہ شماری موخر کردی گئی تھی۔ واضح رہے کہ ملک میں آخری مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ ملک میں ہر دس سال بعد قومی مردم شماری 1951 ، 1961، 1972، اور 1981 میں ہوئی تھی۔1991 میں پانچویں مردم شماری ہونی تھی، ابتدائی مرحلے میں خانہ شماری کا کام مکمل کرلیا گیا تھا لیکن اندرون سندھ آبادی میں 770 فیصد تک اضافے کی ناقابل یقین رپورٹوں کے پیش نظر یہ عمل روک دیا گیا تھا۔ اس وقت کی خانہ شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان کی آبادی 81 ملین سے بڑھ کر 133 ملین ہوگئی تھی۔ واضح رہے کہ 1991 کی مردم شماری تین مرتبہ ملتوی ہونے کے بعد یکم مارچ سے 13 مارچ 1998 کو ہوئی۔ اس طرح 15 سال گزر چکے ہیں چھٹی مردم شماری ہو نہیں پا رہی ہے۔اب جب کہ وفاقی حکومت نے ملک میں مردم شماری کے انعقاد کی منظوری کے لیے 3 سال سے زیر التوا معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر مشترکہ مفاد کونسل کے ایجنڈے میں شامل کرلیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف مشترکہ مفادات کونسل کے آیندہ اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے مردم شماری کے انعقاد کے حوالے سے رائے طلب کریں گے۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس جنوری 2014 کے آغاز میں ہوگا۔
قومی مردم شماری و خانہ شماری کی اہمیت وافادیت سے انکار ممکن نہیں کہ مستقبل کے بارے میں دوررس نتائج برآمد کرنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ مثلاً نئی مردم شماری کے نتائج موصول ہونے کے بعد تمام قومی اعدادوشمار اور اقتصادی اعشاریے بھی تبدیل ہوجائیں گے،ملک کی درست آبادی کا تعین ہوگا اسی حساب سے معاشی و اقتصادی اہداف کا تخمینہ لگایا جاسکے گا، قومی، صوبائی اور بلدیاتی حلقہ بندیاں کی جاسکیں گی اور آبادی کے لحاظ سے انتخابی نشستوں کا تعین کیا جاسکے گا۔وفاق اور صوبوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم کا تنازعہ بھی حل ہوجائے گا۔
مردم شماری کے نہ ہونے کے باعث کراچی سمیت اندرون سندھ میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کی تشکیل کے موقعے پر کئی اضلاع میں آبادی کم اور ووٹرز کی تعداد زیادہ آ رہی ہے، کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جن کا وجود 1998 کی مردم شماری میں نہیں ہے تاہم نئی آبادکاری اور 2011 کی خانہ شماری کی بنیاد پر ہونے والی انتخابی فہرستوں کے باعث یہاں بلدیاتی حلقے تشکیل دیے گئے ہیں، ضلع غربی میں لیاری ایکسپریس وے کے نوآباد تیسر ٹاؤن، ہاکس بے اور بلدیہ ٹاؤن میں چند سال قبل آباد ہوئے ہیں تاہم اب یہاں بلدیاتی حلقے بنادیے گئے ہیں۔ متعلقہ اداروں کے مطابق بلدیاتی حلقوں کی تشکیل کے لیے اس میں کوئی قانونی مسئلہ نہیں ہے تاہم فنڈز کے اجرا کے موقعے پر یہاں قانونی پیچیدگی آئے گی اور عوام اپنے جائز حق سے محروم رہیں گے۔
کراچی کی کل آبادی 1998 کی مردم شماری کے مطابق 98,20,700 ہے جس میں سے 8811070 کی آبادی شہری حکومت کا حصہ ہے جب کہ 1009630 کی آبادی کنٹونمنٹ بورڈ کے حصے میں شامل ہے۔ جب کہ 2011 کی خانہ شماری کے بلاکس کی بنیاد پر انتخابی فہرستوں میں کراچی میں ووٹرز کی تعداد 71 لاکھ سے زائد ہے، قانون کے مطابق فنڈز کا اجرا آبادی و غربت اور دیگر عوام کے مطابق کیا جاتا ہے، کراچی میں 1998 کی مردم شماری کے موقعے پر کئی مقامات پر آبادی کا یا تو وجود ہی نہیں تھا یا آبادی 100 افراد سے بھی کم تھی تاہم 15 سال کے دوران ہزاروں افراد کی نقل مکانی بالخصوص کراچی کے مضافات میں کئی بستیاں وجود میں آگئی ہیں۔ 1998 کی مردم شماری کے لحاظ سے ضلع غربی میں دیہہ مٹھان کی آبادی صرف 99 افراد پر مشتمل تھی تاہم اب یہ گلشن بہار کی توسیع ہے اور ہزاروں افراد رہائش پذیر ہیں، ضلع شرقی میں باغ کورنگی میدانی علاقہ تھا اور آبادی کا کوئی وجود نہیں تھا، 5 سال قبل یہاں ہزاروں افراد کی آبادی ہوچکی ہے۔
15 سال قبل گلستان جوہر کی میونسپل حدود الٰہ دین پارک سے پہلوان گوٹھ کی آبادی صرف 43 ہزار تھی، اب یہاں کثیر تعداد میں فلیٹوں کی تعمیر ہونے سے آبادی لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ علاوہ ازیں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرکے پاکستانی شہریت حاصل کرچکی ہے۔ حکومت کو اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی مناسب اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ پاکستان میں آباد غیر ملکی آبادی کا بڑھتا ہوا یہ سیلاب بہت سے مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ حکومت افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے جلد ازجلد اقدامات کرے۔
پاکستان میں مردم شماری اپنی مقرر کردہ دس سالہ مدت کے عرصے میں کبھی نہیں ہوئی بلکہ ایک سے دوسری مردم شماری کے دورانیے میں کئی کئی سال کا غیر ضروری وقفہ آتا رہا۔ اب اگر 2014 میں مردم شماری ہونی ہے تو یہ سولہ سال کے بعد ہوگی۔ حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ ہر دس سال بعد مردم شماری کا عمل بلاتاخیر منعقد ہوتا رہے تاکہ ہر پانچ سال بعد ہونے والے عام انتخابات سے قبل حلقہ بندیوں سمیت دیگر مسائل باآسانی حل ہوسکیں۔