مخدوم بلاول سے لے کر بلاول بھٹو تک
عجیب تھے رابندرناتھ ٹیگور، شانتی نکیتن میں اپنا اسکول چلاتے تھے، بچوں کو پڑھاتے تھے۔ وہ کہتے تھے بچے۔۔۔
عجیب تھے رابندرناتھ ٹیگور، شانتی نکیتن میں اپنا اسکول چلاتے تھے، بچوں کو پڑھاتے تھے۔ وہ کہتے تھے بچے فطرت کی مانند ہیں ، انھیں فطرت کے بیچ میں بیٹھ کے پڑھایا جائے۔وہ بچوں کو بہتے دریاؤں کے کنارے، درختوں کی ٹہنیوں پر بٹھاکر پڑھاتے تھے۔ پرندوں کی بولیاں سناتے تھے، گیت گاتے تھے، ناچتے تھے، تاکہ ان کا دل نرم ہو، وہ انسان بنیں اور فطرت کے حسن میں اور اضافہ کریں۔ خیر نہرو نے اپنی بیٹی کو بھی رابندر ناتھ کے پاس پڑھانے بھیجا۔ ایک موہن جو دڑو کے قریب گاؤں میں رہنے والے ہمارے سوبھوگیان چندانی بھی ان کے پاس ان کے اسکول میں پڑھنے گئے۔ رابندر ناتھ ان کو A man from Moen-Jo-Daro کہہ کر بلاتے تھے۔ سوبھو کی عمر اس وقت نوے سال سے زیادہ ہوگی وہ آج بھی حیات ہیں۔ جب بٹوارہ ہوا سوبھو کے بہت سے احباب ہندوستان چلے گئے لیکن سوبھو نہیں گئے۔ آپ سندھ کے دہقانوں کی تحریک میں میرے والد اور حیدر بخش جتوئی کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے رہے۔ کامریڈ سوبھو کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ ہم تہذیب کے وارث ہیں ہم موئن جودڑو کی تاریخ کا تسلسل ہیں مرجاؤں گا مگر یہ مٹی میں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔
آج آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل بلاول بھٹو کو ، جن کے نانا اور اماں بھی اسی شرفاؤں کے عظیم ادارے کے پڑھے ہیں بہت اچھا خیال آیا کہ میں اس تہذیب کو دنیا میں اور آشکار کروں، انھیں سندھ فیسٹیول کے نام سے ایک بڑا ایونٹ کرنے کا خیال آیا۔ ایک ایسے وقت جب ہم انتہا پرستی کی طرف دھکیل دیے گئے ہیں۔ جب ہماری آیندہ کی نسلیں اپنی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ہیں۔ ان کے اسکول بند ہیں اور استاد چھٹیاں منا رہے ہیں۔ خیر بلاول پورے سندھ تو یقیناً، پورے پاکستان، پورے ساؤتھ ایشیا، بلکہ پوری دنیا کی توجہ ہماری تہذیب پر مرکوز کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور خود اپنی شخصیت بنانے میں بھی ۔کیونکہ وہ دھنک کے رنگوں والے پاکستان کے ترجمان ہیں نہ کہ ایک رنگ والے پاکستان کے۔
مگر بلاول کے اس ایونٹ میں، اس سوچ میں اس وقت بہت بڑی بدمزگی پیدا ہوئی جب پتا چلا کہ اس تہذیب کے دعویدار خود اس تہذیب کے نشانات کو تباہ کرنے جا رہے ہیں۔
مجھے شک تو اس وقت بھی پڑگیا تھا کہ یہ سوبھو کی طرح من رکھنے والے لوگ نہیں ہیں یہ فطرت کو سمجھنے سے عاری ہیں جب انھوں نے اپنے اس مقصد کو ثقافتی تبدیلی یا ''کلچرل کوcoup'' کا نام دیا۔ کہاں کلچرل اور کہاں کو۔ اول تو اس لفظ کو چننے میں خود بلاول ذمے دار ہیں وہ بچے نہیں رہے۔ اب بالغ ہیں اور دنیا کے عظیم ادارے کے تعلیم یافتہ ہیں۔ اور پھر دوسرا الزام ان کے مشیروں پر آتا ہے جس میں ایک خاتون سیاستدان بھی آتی ہیں۔ بھلا ہوتا کہ وہ رابندر ناتھ کی نواسی شرمیلا ٹیگور جیسا من رکھتیں مگر وہ اپنے قائد کو کوئی معنی نہیں سمجھا سکیں ۔ اور یہ جو آج اس ملک کی حالت بنی ہے یہ وہی ''کو'' تو تھے یہ اسی کا ثمر ہی تو ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا اور خود اردو یا انگریزی لغت میں اس سے بڑا بھیانک لفظ اور کون سا ہوسکتا ہے۔ سقراط کہتے تھے غلط الفاظ کا چناؤ روح میں شیطان پیدا کرتا ہے۔ کنفیوشس تو الفاظ کے چناؤ کو بہت اچھا سمجھتے تھے۔ اور پھر کیا ہوا وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ وہی لانگ بوٹوں کی طرح ٹرکوں سے جیسے اتر کے انھوں نے موئن جو دڑو کے عظیم کھنڈرات کا محاصرہ کیا اور اس میں کیلیں ٹھونکنا شروع کیں، اس میں گھڑے بنائے اور وہ ہلچل مچائی کہ جہاں کسی بکری کا ممیانہ بھی اس کی پانچ ہزار سالہ پرانی اینٹوں کو زبوں کردیتا ہے۔
خود ایک کیل تو کیا بلکہ ایک قدم بھی پھونک کے لیا جاتا ہے۔ ہتھوڑے استعمال کرنے سے پہلے اس زمین کے اندر سے ایکسرے لیے جاتے ہیں۔ برش استعمال کرکے ان Artifacts سے مٹی کی تہیں اتاری جاتی ہیں۔ وہاں ایک لاکھ لوگوں کو کھڑا کرنے سے کتنا نقصان ہوگا۔ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ بلاول کی والدہ محترمہ کی سیاسی پرورش اس کے ابا نے کی تھی وہ جو لاڑکانہ کے ایک جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے مگر موئن جو دڑو کو سب سے پہلے ریاستی سطح پر اجاگر کرنے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ لاڑکانہ میں سرکاری خرچے سے فور اسٹار ہوٹل بنوایا تو اس بات کا خیال رکھا کہ اس کی تعمیر میں موئن جو دڑو کی تعمیر کا عکس ہو اور اس ہوٹل کا نام بھی ''سمبھارا'' رکھا۔ یہ موئن جو دڑو کی اس رقاصہ کا نام ہے جس کو وہاں کے رہنے والے دیوی کرکے پوجا کرتے تھے۔
ایک بہت اعلیٰ میوزیم موئن جو دڑو میں بنوایا اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنی بیٹی کو سندھ کی جاگیردارانہ روایت کے خلاف ،موئن جو دڑو کی روایت کے مطابق بیٹوں کی طرح برابر سمجھا بلکہ بیٹوں سے بھی زیادہ سمجھا۔ آرکیالوجی کے ماہر کہتے ہیں موئن جو دڑو تہذیب میں عورت کی حکمرانی تھی اور پھر کیسے سندھ میں بھٹائی، جس کے اجداد خود قندھار سے یہاں آکے آباد ہوئے تھے نے جب سندھ کی مٹی میں اپنے آپ کو سمو دیا تو ان کو فارسی میں شاعری کا شوق باقی نہیں رہا۔ انھوں نے بڑوں کی روایت سے ہٹ کر مچھیروں دہقانوں کی سندھی کو اپنے وجود کا حصہ بنایا اور اس میں شاعری کرنا شروع کی ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بھٹائی نے سندھ کی تہذیب کو واپس موئن جو دڑو سے جوڑ دیا اور اس طرح وہ عورت بن کے عورت کا درد بن کے عورت کو گانا شروع کردیا اور عورت کے من سے دنیا کو سمجھنا، کائنات کو سمجھنا اور خدا اور اس کی وحدانیت کو سمجھنا شروع کیا۔ شاید دنیا کے واحد مرد شاعر ہوں جس نے ایسا کیا اور اب بھی یہ روایت بھٹ شاہ میں ڈھائی سو سال سے قائم ہے کہ ان کے فقیر جب بھٹائی کا عارفانہ کلام گاتے ہیں تو ایک ٹولا مرد کی آواز میں گاتا ہے اور ایک عورت کی آواز میں۔
اس ناچیز کو بھی موئن جو دڑو کی تہذیب سے بڑا لگاؤ رہا۔ آج سے ستائیس سال قبل جب میں شاگردوں کی تنظیم کا مرکزی صدر تھا تو ''موئن جو دڑو بچاؤ ''کے عنوان سے ایک بہت بڑی کانفرنس کا خود موئن جو دڑو پر کروانے کا اہتمام کیا پھر ہوا یوں کہ اس کے کچھ مندوبین شاگرد جب جامشورو یونیورسٹی سے بسوں میں کانفرنس کے لیے نکلے تو ٹوڑی پھاٹک پر گولیوں کی بارش کردی گئی اور پھر ہمیں بھی کانفرنس ملتوی کرنی پڑی۔ آج سے پندرہ برس قبل نئے سال کی آمد پر اسلام آباد سے آکر موئن جودڑو میں چپ چاپ بیٹھ کر نئے سال کو خوش آمدید کہتا تھا۔
ہم سندھ کے لوگ بھی بڑے عجیب ہیں ایک طرف اندر میں وڈیرہ رکھتے ہیں اور دوسری طرف صوفی ۔ دونوں میں بڑا تضاد بھی ہے ایک طرف تو عورت کو اماں کرکے پکارتے ہیں اور دوسری طرف اس کو غیرت کے نام پر مارتے بھی ہیں ۔ ایک طرف صوفی آستانوں کے انبار لگے ہیں اور دوسری طرف وڈیروں کی اوطاقیں ہیں ۔لگتا ہے بلاول بھی کہیں اسی تذبذب کا شکار ہے۔ بلاول کی اماں کی تو کیا بات ہے۔ مگر بلاول کہیں شاید ابھی اپنے آپ کو دریافت نہیں کر پایا۔ اس کے مشیر وہی وڈیرہ سوچ کے لگتے ہیں، جن کو نہ 'کوcoup' لفظ کی بے رحمی سمجھ آتی ہے اور نہ ہی یہ پتا ہے کہ عظیم کھنڈرات پر پروگرام رکھنا کتنا حساس کام ہے اور اس کے بین الاقوامی معیار ہیں اور معیارات پر پورا اترنا کتنا لازم ہے۔لیکن جو کام بلاول کرنے جا رہا ہے وہ حقیقتاً عظیم ہے۔ وہ اپنی تہذیب کا وارث بننا چاہتا ہے۔
سندھ میں ایک مخدوم بلاول بھی ہوتے تھے جن کو آج سے ڈھائی سو سال قبل ارغونوں نے Blasphemy کے الزام میں تیل کی چکی میں پیس کر مارا تھا۔ کہتے ہیں اس کے مرتے وقت اس کے ہونٹوں پر ''حق، حق'' کے الفاظ تھے۔ وہ صوفی سندھ میں آج ایک بہت بڑا رتبہ رکھتے ہیں۔ اتنا بڑا رتبہ جتنا سرمدکا ہے۔
محقق کہتے ہیں موئن جو دڑو کے اصل باشندے دراوڑ نسل کے تھے۔ جو بھی طوفان آیا یا آرین کا حملہ ہوا یہ لوگ ساتھ تھے انڈیا وغیرہ کے باسی ہوگئے اور باقی کچھ بھورو بھیل کی شکل میں یہاں رہ گئے ہیں جودوستوسکی کے ناول ''ذلتوں کے مارے لوگ'' کے عنوان کی طرح ہیں۔ شاید میرے بزرگ دوست B.M Kuttey کواس کا علم ہو کہ نہیں کیرالا کے آج کے لوگوں کے اجداد کا تعلق موئن جو دڑو سے تھا۔
جاتے ہوئے صرف یہ کہہ دوں کہ میں اور میرے دوست مرتضیٰ سولنگی کو بھی ایک نوٹنکی بنانے کا 1990 کے زمانے میں شوق ہوا تو ہم نے بھی اس نوٹنکی کا نام موئن جو دڑو کی دیوی ''سمبھارا'' رکھ دیا۔