ہمالہ کے چشمے
ہم ہر دوسرے پر بدکرداری اور کرپشن کا الزام لگانے سے پہلے اپنا جائزہ لینے سے بھی انکاری ہیں۔
جس طرح وقت کے ساتھ موسم، حالات، عادات ، دن اور رات میں تبدیلی دیکھنے میں آتی رہتی ہے اسی طرح سرکاری اور عوامی کام کرنے والوں کی طرز ملازمت میں اُتار چڑھائو ، نیکی بدی، تیزی نرمی، اچھائی برائی کے مدوجزر بھی آتے رہتے ہیں۔
ایک واضع مثال ہی پر توجہ دے کر موضوع کو جانچ لیں کہ آج سے چالیس، پینتالیس سال قبل کسی محکمے میں دو کرپٹ افسروں کی نشاندہی ایک مشکل بلکہ ناممکن ایکسرسائز ہو اکرتی تھی جب کہ آج کل سرکاری محکمے میں دیانتدار افسر ڈھونڈلینا نا ممکن ہو گیا ہے۔ دیانتدا ، بددیانت سرکاری افسر کا ذکر صرف محکمے کی حد تک نہ سمجھا جائے بلکہ ضلع اور صوبہ بھی اس موضوع کی گرفت میں آتا ہے۔
یہیں پر مزید وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہر محکمے میں متعدد پوسٹنگز ہوتی ہیں اور ان میں معمولی اختیارات والی اور منافع رساں عہدوں والی Postings کے علاوہ روٹین کام والے عہدے ہوتے ہیں۔ اس موضوع کی مزید وضاحت یوں ہے کہ اگر کسی محکمے میں دس یا بارہ ایک ہی گریڈ کے عہدے ہوں تو ان میں دو یا تین ایسے ہوتے ہیں جن پر ہر افسر کی نظر ہوتی ہے جب کہ باقی دس بارہ پوسٹوں کی حیثیت خانہ پرُی والی کہی جا سکتی ہے۔
جس افسر نے رولز ریگولیشنز کی پروا کیے بغیر صرف اپنے افسر اعلیٰ یا منسٹر کے اشارے پر کام کرنا ہو، اُس نے باس ہی کو راضی رکھنا ہوتا ہے اور اُس کے سامنے گرفت اور آیندہ پکڑ کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ لیکن قانون اور ضابطے کی پروا کیے بغیر کام کا یوم ِ حساب ضرور آتا ہے۔
ہمارے ایک دوست نے گریڈ 22 کے ایک افسر کی روزمرہ زندگی کا مطالعہ کر کے بیان کیا ہے کہ ریٹائرمنٹ قریب آ جانے کی وجہ سے ایسے افسر گھریلو تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ اُن کی بیگم سرکاری گاڑی پر پرائیویٹ نمبر لگوا کر اپنی سہیلیوں ،کمیٹی پارٹیوں یا کلب میں مصروف ہو جاتی ہے۔ بچے بیرون ملک تعلیم یا ملازمت کے سلسلے میں چلے جاتے ہیں۔ صاحب میٹنگوں ، ملاقاتوں اور ملکی اور غیر ملکی دوروں کی وجہ سے شٹل کاک بن جاتے ہیں۔ کبھی وفود آجانے پر مغز ماری کا شکار ہو جاتے ہیں البتہ بیرون ملک دوروں کے دوران بچوں سے ملنے کا موقع پا لیتے ہیں۔
باتوں کے دوران ایک دوست نے اپنا مشاہدہ بتایا کہ گریڈ اکیس یا بائیس گریڈ کے ایک افسر کا کروفر دیدنی تھا۔ ماتحتوں اور کام سے آئے سائلوں کی پیشی کے دوران افسر مجاز کے تکبر کروفر رعب ، دبدبے اور اکڑی گردن کا منظر خوفناک تھا لیکن اس شخص نے مذکورہ افسر کو تقرر و تبادلے کرنے کے اختیار رکھنے والی اتھارٹی کے روبرو کوئی وضاحت بیان کرتے دیکھا کہ ماتحت افسر کی آواز میں لکنت تھی۔
با الفاظ ِ دیگر اس کی سٹی گم ہونے کے علاوہ دونوں ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور وہ مسلسل سر، اوکے سر، یس سر کی گردان الاپ رہا تھا۔ پیشی کے تمام وقت کے دوران وہ گیدڑ تھا لیکن اپنی کرسی پر براجمان ہوتے ہی وہ شیر کی کھال پہن لیتا تھا۔
کسی بھی ملک اور معاشرے کے بگاڑ اور سدھار میں وہاں قانون، اصول، انصاف ، کردار اور عادات کی پاسداری کا بنیادی role ہوتا ہے۔ جزا اور سزا لوگوں کو اور پھر ملک کو اُٹھانے یا گرانے کی ذمے دار ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کو نظر میں رکھتے ہوئے جائزہ لے لیں، جہاں جہاں ملکوں کے فرمانروا اچھائی اور برائی کا اطلاق خود پر کرتے نظر آئیں گے، ملک اور معاشرہ با اصول خوشحال اور ترقی کی طرف گامزن نظر آئے گا۔
اور جس جس ملک کے حکمران بدکردار، کرپٹ اور انصاف سے رُو گردانی کرتے ملیں گے وہ معاشرہ گراوٹ کا شکار ملے گا۔ صرف چین کی مثال لے لیں جو بدحال تھا لیکن علامہ اقبال نے تجزیہ کر کے کئی دہائیاں پہلے ان کے حالات کو پرکھا اور پیشینگوئی کی۔
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
اور آج دیکھ لیں امریکا اور روس بھی اس کے ساتھ ادب سے مخاطب ہوتے ہیں۔ وہاں کرپشن کی سزا پھانسی ہے جب کہ ہمارے کرپٹوں کی ناجائز کمائی بیرون ِ ملکوں کے بینکوں میں اور قیمتی پراپرٹیاں بھی نہ جانے کہاں کہاں ہیں، یہاں موجود حکمران اور بزنس ٹائیکون مقدمات میں ملوث لیکن دندناتے پھرتے ہیں اور مذہب کے ٹھیکیدار عوام کی اصلاح کرنے کی بجائے خود ناجائز کمائی میں لتھڑے ہوئے ہیں۔
ہم ہر دوسرے پر بدکرداری اور کرپشن کا الزام لگانے سے پہلے اپنا جائزہ لینے سے بھی انکاری ہیں۔ افسوس کہ ہم جزا اور سزا کے اطلاق پر لفاظی کرتے ہیں لیکن عمل سے انکاری ہیں۔
ایک واضع مثال ہی پر توجہ دے کر موضوع کو جانچ لیں کہ آج سے چالیس، پینتالیس سال قبل کسی محکمے میں دو کرپٹ افسروں کی نشاندہی ایک مشکل بلکہ ناممکن ایکسرسائز ہو اکرتی تھی جب کہ آج کل سرکاری محکمے میں دیانتدار افسر ڈھونڈلینا نا ممکن ہو گیا ہے۔ دیانتدا ، بددیانت سرکاری افسر کا ذکر صرف محکمے کی حد تک نہ سمجھا جائے بلکہ ضلع اور صوبہ بھی اس موضوع کی گرفت میں آتا ہے۔
یہیں پر مزید وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہر محکمے میں متعدد پوسٹنگز ہوتی ہیں اور ان میں معمولی اختیارات والی اور منافع رساں عہدوں والی Postings کے علاوہ روٹین کام والے عہدے ہوتے ہیں۔ اس موضوع کی مزید وضاحت یوں ہے کہ اگر کسی محکمے میں دس یا بارہ ایک ہی گریڈ کے عہدے ہوں تو ان میں دو یا تین ایسے ہوتے ہیں جن پر ہر افسر کی نظر ہوتی ہے جب کہ باقی دس بارہ پوسٹوں کی حیثیت خانہ پرُی والی کہی جا سکتی ہے۔
جس افسر نے رولز ریگولیشنز کی پروا کیے بغیر صرف اپنے افسر اعلیٰ یا منسٹر کے اشارے پر کام کرنا ہو، اُس نے باس ہی کو راضی رکھنا ہوتا ہے اور اُس کے سامنے گرفت اور آیندہ پکڑ کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ لیکن قانون اور ضابطے کی پروا کیے بغیر کام کا یوم ِ حساب ضرور آتا ہے۔
ہمارے ایک دوست نے گریڈ 22 کے ایک افسر کی روزمرہ زندگی کا مطالعہ کر کے بیان کیا ہے کہ ریٹائرمنٹ قریب آ جانے کی وجہ سے ایسے افسر گھریلو تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ اُن کی بیگم سرکاری گاڑی پر پرائیویٹ نمبر لگوا کر اپنی سہیلیوں ،کمیٹی پارٹیوں یا کلب میں مصروف ہو جاتی ہے۔ بچے بیرون ملک تعلیم یا ملازمت کے سلسلے میں چلے جاتے ہیں۔ صاحب میٹنگوں ، ملاقاتوں اور ملکی اور غیر ملکی دوروں کی وجہ سے شٹل کاک بن جاتے ہیں۔ کبھی وفود آجانے پر مغز ماری کا شکار ہو جاتے ہیں البتہ بیرون ملک دوروں کے دوران بچوں سے ملنے کا موقع پا لیتے ہیں۔
باتوں کے دوران ایک دوست نے اپنا مشاہدہ بتایا کہ گریڈ اکیس یا بائیس گریڈ کے ایک افسر کا کروفر دیدنی تھا۔ ماتحتوں اور کام سے آئے سائلوں کی پیشی کے دوران افسر مجاز کے تکبر کروفر رعب ، دبدبے اور اکڑی گردن کا منظر خوفناک تھا لیکن اس شخص نے مذکورہ افسر کو تقرر و تبادلے کرنے کے اختیار رکھنے والی اتھارٹی کے روبرو کوئی وضاحت بیان کرتے دیکھا کہ ماتحت افسر کی آواز میں لکنت تھی۔
با الفاظ ِ دیگر اس کی سٹی گم ہونے کے علاوہ دونوں ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور وہ مسلسل سر، اوکے سر، یس سر کی گردان الاپ رہا تھا۔ پیشی کے تمام وقت کے دوران وہ گیدڑ تھا لیکن اپنی کرسی پر براجمان ہوتے ہی وہ شیر کی کھال پہن لیتا تھا۔
کسی بھی ملک اور معاشرے کے بگاڑ اور سدھار میں وہاں قانون، اصول، انصاف ، کردار اور عادات کی پاسداری کا بنیادی role ہوتا ہے۔ جزا اور سزا لوگوں کو اور پھر ملک کو اُٹھانے یا گرانے کی ذمے دار ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کو نظر میں رکھتے ہوئے جائزہ لے لیں، جہاں جہاں ملکوں کے فرمانروا اچھائی اور برائی کا اطلاق خود پر کرتے نظر آئیں گے، ملک اور معاشرہ با اصول خوشحال اور ترقی کی طرف گامزن نظر آئے گا۔
اور جس جس ملک کے حکمران بدکردار، کرپٹ اور انصاف سے رُو گردانی کرتے ملیں گے وہ معاشرہ گراوٹ کا شکار ملے گا۔ صرف چین کی مثال لے لیں جو بدحال تھا لیکن علامہ اقبال نے تجزیہ کر کے کئی دہائیاں پہلے ان کے حالات کو پرکھا اور پیشینگوئی کی۔
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
اور آج دیکھ لیں امریکا اور روس بھی اس کے ساتھ ادب سے مخاطب ہوتے ہیں۔ وہاں کرپشن کی سزا پھانسی ہے جب کہ ہمارے کرپٹوں کی ناجائز کمائی بیرون ِ ملکوں کے بینکوں میں اور قیمتی پراپرٹیاں بھی نہ جانے کہاں کہاں ہیں، یہاں موجود حکمران اور بزنس ٹائیکون مقدمات میں ملوث لیکن دندناتے پھرتے ہیں اور مذہب کے ٹھیکیدار عوام کی اصلاح کرنے کی بجائے خود ناجائز کمائی میں لتھڑے ہوئے ہیں۔
ہم ہر دوسرے پر بدکرداری اور کرپشن کا الزام لگانے سے پہلے اپنا جائزہ لینے سے بھی انکاری ہیں۔ افسوس کہ ہم جزا اور سزا کے اطلاق پر لفاظی کرتے ہیں لیکن عمل سے انکاری ہیں۔