اسلام کا بلدیاتی نظام آخری حصہ
ہماری تاریخ میں بہت بڑے بڑے شہروں کی تعمیر اور ترقی کے لیے جو نظام قائم ہوا اس سے آج کے بلدیاتی نظام کا۔۔۔
ہماری تاریخ میں بہت بڑے بڑے شہروں کی تعمیر اور ترقی کے لیے جو نظام قائم ہوا اس سے آج کے بلدیاتی نظام کا ڈھانچہ اخذکرسکتے ہیں۔ جناب رسالت مآبؐ کی احادیث مبارکہ کے علاوہ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور جناب حضرت عمر فاروقؓ کے احکامات سے ہمیں بلدیاتی نظام کے بہت سے اصول ملتے ہیں۔ پھر حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز کے دور سے کچھ رہنمائی ہوجاتی ہے۔
بلدیاتی محکموں کے مقاصد کچھ اس طرح ہوتے ہیں۔
٭شہروں کی گلیوں اور شاہراہوں کا بندوبست۔
٭رہائشی انتظامات۔
٭پینے کے پانی کی فراہمی و تقسیم۔
٭گندے پانی کی نکاسی اورکوڑے کرکٹ کو اٹھوانے اور ٹھکانے لگانے کا بندوبست۔
٭تعلیم، علاج معالجہ اور دیگر فلاحی کام۔
٭کھیل کے میدانوں، باغوں اور تفریح گاہوں کا انتظام۔
٭سڑکوں کے اطراف سایہ دار درخت لگانا۔
٭چمن بندی اور شہروں کی خوبصورتی۔
٭تمام امورکے لیے مالی وسائل کی فراہمی اور ان کا احتساب۔
سب سے پہلے ہم ''احتساب'' کو لیتے ہیں۔ جس کا ہمارے ہاں بڑے زورشور سے چرچا ہے۔ ہمارے سیاسی مفکرین نے ملکی اور شہری دونوں حکومتوں کے لیے محکمہ احتساب کے قیام پر بڑا زور دیا ہے۔ مدینہ منورہ میں یہ کام اللہ کے رسولؐ خود انجام دیتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے بھی اپنے دور میں اس طرف بہت توجہ دی تھی۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے بازاروں میں نکلتے تو جگہ جگہ رک کر ناپ تول کے پیمانے دیکھتے،چیزوں میں ملاوٹ کا پتہ لگاتے، عیب دار مال کی چھان بین فرماتے، گراں فروشی کا پتہ لگا کر اسے روکنے کا انتظام فرماتے، استعمال کی چیزوں کی مصنوعی قلت کا انسداد فرماتے، بازار کی نگرانی کے لیے حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں ایک محکمہ قائم کیا تھا اور نگرانی کا کام پولیس کے سپرد تھا۔ حضرت امیر معاویہؓ کے دور میں بھی یہ کام پولیس کے ذریعے ہی چلتا رہا۔ دور عباسی میں خلیفہ مہدی نے علیحدہ محکمہ احتساب قائم کیا۔ محتسب کے فرائض میں سڑکوں کی نگرانی، تجاوزات کی روک تھام، ملازموں اور جانوروں کے ساتھ بے رحمانہ برتاؤ کا انسداد، باجماعت نماز کے سوا کسی کو اجازت نہیں تھی کہ کسی بھی کام کے لیے تجاوزات کھڑی کی جائیں۔ ریڑھیاں لگانے والے اگر راستہ روکیں تو حکم ہے کہ ان سے مال نہ خریدا جائے۔
سڑکوں ہی کے ضمن میں ایک اہم مسئلہ ٹریفک جام بھی ہے۔ اس کے بارے میں بھی ہمارے پاس نظام ملتے ہیں۔ سڑکوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے اور راستے میں خلل ڈالنے سے ہمارے پیارے نبیؐ نے منع فرمایا ہے۔ اسلام جان کے تحفظ کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ سڑکوں پر گڑھے کھودنا منع کیا گیا ہے۔ مبادہ کوئی حادثہ نہ ہوجائے۔ خواتین جس طرف سے چل رہی ہوں، اس طرف سے ہٹ کر چلنے کا حکم ہے۔ ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ دمشق میں پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ تھے۔ سوار سڑک کے درمیان سے گزرتے تھے۔ خطیب نے تاریخ بغداد میں لکھا ہے کہ بغداد میں 10 ہزار سڑکیں اور گلیاں تھیں۔ آبادی کے مسائل اور گندے پانی کی نکاسی کے انتظام کے لیے خاص احکام تھے۔ مسلمان انجینئروں نے اس سلسلے میں بڑے کام کیے۔
فراہمی و نکاسی آب کے سلسلے میں مدینہ منورہ کی شہری مملکت نے مسلمانوں کے پینے کے پانی کا انتظام یہودیوں سے کنواں خرید کرکیا۔ مدینے کی گلیوں میں گندے پانی کی نکاسی بالکل نہ ہوتی تھی کیونکہ اجازت نہ تھی۔ بیت الخلا کا اس زمانے میں رواج نہ تھا لیکن مسلمانوں کی فتوحات کے بعد جب شہروں کی آبادی بڑھنے لگی تو ان مسائل کا حل تلاش کیا گیا۔
مصرکے قدیم شہر ''فسطاط'' کی کھدائی سے جو گھر زمین سے برآمد ہوئے ان کے ہر گھر میں غسل خانہ اور بیت الخلا موجود تھا ۔ پینے کے پانی کی لائن نکلی ہے۔ گندے پانی کی نکاسی کے لیے بند نالیوں کا انتظام تھا جو شہر سے باہر گڑھوں میں گندگی بہا لیجاتی تھیں، ان گڑھوں کو بند کردیا جاتا تھا تاکہ بدبو نہ پھیلے۔ ان کے علاوہ حوض، فواروں اورکنوؤں کا بھی پتہ چلا۔ کھدائی سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل فسطاط اعلیٰ تعمیری ذوق رکھتے تھے اور انھوں نے فن تعمیر میں کافی ترقی کی تھی۔ بیروت یونیورسٹی میں الفسطاط کے بارے میں ایک مخطوطہ محفوظ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بلدیاتی قوانین نافذ تھے۔
تاریخ میں بغداد کی شان و شوکت اور صفائی ستھرائی کی بھی بڑی تفصیل ملتی ہے۔ وہاں سڑکوں پر دن میں دو بار چھڑکاؤ ہوتا تھا، محکمہ بلدیات کی ذمے داریوں میں ایک ذمے داری رہائشی مکان بناکر بانٹنے کا تھا۔ مالداروں کو خود اپنے مکان تعمیر کرنے کا حکم تھا۔ غریبوں کو مکانات کی فراہمی حکومت کا فریضہ تھا۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے بھی زکوٰۃ وصدقات کی رقوم سے غریبوں اور ناداروں کی رہائش کا بندوبست کیا۔ انھوں نے اپنے دورخلاف میں بیت المال کے خرچ پر شفاخانے، پل، سرائے،حمام بنوائے اور کنوئیں کھدوائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب ذمے داریاں بھی شہری حکومت کی ہیں۔ اس دور میں مکانات کی تعمیر،شہری زمینوں کی خرید وفروخت، حرمت، رمضان کی پابندی، ناپ تول کی جانچ پڑتال، ملاوٹ، گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھام، نشہ بازوں اور غنڈوں کی روک تھام، یہ تمام فرائض محکمہ بلدیات کے سپرد تھے۔
بلدیاتی نظام میں سب سے اہم کام سڑکوں اور پلوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کے علاوہ نئی شاہراہوں کی تعمیر اور آیندہ کے لیے ان کی منصوبہ بندی کا کام ہوتا ہے۔ بعض لوگ اپنی ذاتی اغراض کے لیے سڑکوں کو گھیرلیتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا کہ ''جب تم راستے میں اختلاف کرو تو اس کی چوڑائی سات ہاتھ ہوگی، اس سے کم چوڑی گلی نہیں بنائی جائے گی''۔ حضور پاکؐ نے سڑکوں پر بیٹھنے، تجاوزات کھڑی کرنے، سڑکوں پر گندگی ڈالنے کو منع فرمایا ہے اور راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانے کو صدقہ قرار دیا ہے۔ سڑکوں پر سایہ دار درخت لگانے کا حکم ہے۔ سڑک پر تو مسجد کی تعمیر بھی ممنوع ہے البتہ قریب سڑک اجازت ہے۔
حفظان صحت کا خیال رکھنا اسلامی زندگی کا بنیادی نظریہ ہے۔ حفظان صحت کے اصولوں کے تحت بلدیاتی نظام میں کھانے پینے کی چیزوں کے خالص ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ ملاوٹ کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں اور عذاب کی وعید ہے۔ صفائی اور پاکیزگی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے۔ گھر اور گھر سے باہر ہر مقام، اپنے جسم اور اپنے کپڑوں کی پاکی کا بار بار حکم آیا ہے۔ مسجد کو پاکیزگی کے نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ سرکاری عمارات کو پاک صاف رکھنے کا حکم آیا ہے۔ تہذیب و شائستگی اسلام کا حصہ ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب نہیں جو لباس اور اس کی تراش خراش کے بارے میں رہنمائی کرتا ہو جو اسلام نے کی ہے۔ اس طرح اللہ اور اس کے رسولؐ کو رہن سہن میں آرائش اور سادگی پسند ہے۔
حضور اکرمؐ نے اور باتوں کے علاوہ ''تعلیم'' پر بہت زور دیا۔ اسلام نے تعلیم کی ذمے داری بھی مملکت پر عاید کی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے مسجد کی تعمیرکے وقت ایک چبوترہ بناکر اسلام کی پہلی اقامتی درسگاہ کی بنیاد رکھی تھی۔ جہاں آپؐ خود درس دیا کرتے تھے۔ آپؐ کا ارشاد پاک ہے کہ ''علم انبیا کا ورثہ ہے۔ مسلمان کو چاہیے کہ جہاں سے ملے لے لے''۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ ''علم حاصل کرو چاہے اس کے لیے چین جانا پڑے''۔ اس دور کے ذرایع آمد و رفت اور راستوں کی مشکلات کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچیے کہ اس وقت چین جانا کتنا کٹھن تھا۔ اس سے تعلیم کی اہمیت کا اندازہ کیجیے۔
اللہ پاک کی پہلی وحی لفظ ''اقرا'' سے شروع ہوئی۔ یعنی ہمارے لیے پہلا حکم ہی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دیا گیا اور اس میں بھی مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں رکھی۔ دونوں ہی کے لیے یکساں حکم ہے۔ علم حاصل کرنے کے لیے عمر کی بھی کوئی شرط نہیں۔ فرمایا گیا: ''علم حاصل کرو، گود سے گور تک''۔
اس اہم ترین فرض کے لیے حکمرانوں کو مکلف کیا اور اس کا عملی نمونہ خود نبی پاکؐ نے ''اصحاب صفہ'' کو تعلیم فرماکر پیش کیا۔ حضور اکرمؐ کی بعثت کے وقت قبیلہ قریش میں کل سترہ افراد لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ جب آپؐ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو ایک لاکھ صحابہؓ کرام احادیث مبارکہ کی روایت کرتے تھے۔
دور خلافت میں سیدنا عمر فاروقؓ نے اور تمام کاموں کے علاوہ تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ تاریخ اسلام میں پہلا نصاب تعلیم ان ہی کا بنایا ہوا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے ہر مسجد میں مکتب قائم کیے تھے۔ ان کی نگہداشت اور اخراجات کا ذمے دار بھی حکومت کو بنایا۔ اس لیے اشاعت تعلیم فرد، جماعت اور حکومت ہر ایک کی ذمے داری ہے۔ سایہ، باغات اور عوامی تفریح گاہوں کا انتظام بھی عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے۔ مسلمانوں کے تمام بڑے شہروں میں سبزہ زاروں اور باغات کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ ان کے علاوہ دلکش مساجد کی تعمیر، ظفرا نویسی، دیدہ زیب فن تعمیر، کتب خانے، اور مدرسے سب تمدن کے مظاہرے ہیں جو اسلام کے بلدیاتی نظام میں شامل ہیں۔اسلام کے بلدیاتی نظام کے اس مختصر سے خاکے کو سامنے رکھ کر اللہ پاک کا شکر ادا کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جب ہم یہ حقوق و فرائض ادا کرتے تھے، مغرب پوری جہل کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اور آج۔۔۔! آج ہماری زندگیوں کا انداز کچھ اور ہے اور جو جہالت کے گم کردہ راہی تھے وہ آج ستاروں پر کمند ڈال رہے ہیں۔ فرق صرف عمل کا ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی' جہنم بھی