علم و بصیرت کی دم بدم نفی

پیغمبر ﷺ جیسا علم و بصیرت کا مالک کبھی تھا، نہ ہے اور نہ ہی ہوگا۔ پیغمبر ﷺ کے غلاموں نے۔۔۔

پیغمبر ﷺ جیسا علم و بصیرت کا مالک کبھی تھا، نہ ہے اور نہ ہی ہوگا۔ پیغمبر ﷺ کے غلاموں نے بھی ان سے علم و بصیرت کی روشنی پائی اور مشرق سے لے کر مغرب تک اجالا ہوگیا۔

آج چودہ سو سال بعد گزرنے والا وقت میرے زمانے سے کہتا ہے کہ ''اقراء''۔ میرا زمانہ جواب دیتا ہے کہ مجھے پڑھنا تو آتا ہے مگر میں بھول جانا چاہتا ہوں، سارے لفظوں کو،ان لفظوں میں پوشیدہ ہر اک علم و بصیرت کو طاق نسیاں میں رکھ دینا چاہتا ہوں،کتابیں غرق دریا کرکے اطمینان و راحت چاہتا ہوں۔

گزرتا وقت حیرت سے پوچھتا ہے بھلا کیوں؟ بے بسی کی چادر اوڑھے میرا زمانہ کہتا ہے کہ ''علم و بصیرت اورکتب خانے میرے کس کام کے، جب ہر چوراہے، ہر محفل، ہر تقریب، ہر بزم میں بلند آواز لاؤڈ اسپیکروں سے وہ سبھی کچھ نشر ہوتا ہے جس سے علم و بصیرت کی دم بدم نفی ہوتی چلی جاتی ہے۔

ذرا سوچیے! علم و ارتقاء کی بے مثال منازل طے کرنیوالی اس صدی میں بھی مملکت خداداد پاکستان میں ایسا کیوں ہورہا ہے؟ علم و بصیرت کی نفی کیوں کی جارہی ہے؟ جہالت کے اندھیرے روشنیوں کی کرنوں کو کیوں نگل رہے ہیں؟ لوگ اپنی آنکھ میں موجود شہتیر کو دیکھنے کے بجائے دوسرے کی آنکھ میں موجود بال پر تنقید کیوں کررہے ہیں؟ اپنے گریبانوں میں جھانکنے ہی کی فرصت نہیں تو پھر دوسروں پر تنقید کرنے کا وقت کہاں سے نکالا جارہا ہے؟ ہماری بدقسمتی ہے کہ ملک پاکستان میں رونما ہونیوالے ہر واقعہ، ہر عمل، ہر بات کو یہود و ہنود کی سازش قرار دیکر سارا ملبہ غیر مسلم قوتوں کے سر ڈال دیا جاتا ہے اور ارباب اختیار و دانشور بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔


ہم برسوں سے اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم کو درپیش سارے مسائل، ساری برائیاں، ساری خرابیاں غیر ملکیوں نے سازش کے تحت ملک میں پھیلائی ہیں، ہم اس حد تک ذہنی مریض ہوگئے ہیں کہ ہمیں لگتا ہے کہ ساری دنیا ہماری دشمن بن چکی ہے، اصل میں سارا مسئلہ ہماری سوچ کا ہے، ہم اپنے قصور، غلطیوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔

ہمارے اپنے لوگ حرام مال پر حلال کا لیبل چسپاں کرکے ہمیں کھلاتے ہیں، کیا اس میں بھی یہود و ہنود کی کارستانیاں فرماہیں؟ نہیں، بالکل نہیں ، یہود و ہنود تو عبث بدنام ہے، اپنی تباہی و بربادی کے ذمے دار اصل میں ہم خود ہے، ہم اپنی اخلاقی اقدار کو خود اپنے ہاتھوں پامال کرنے کے مجرم ہیں۔ ہم تمام اخلاقی حدود پھلانگ چکے ہیں، ہماری اخلاقی اقدار کے انحطاط کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں حلال وحرام کی تمیز یہ رہ گئی ہے کہ جو ہاتھ آیا وہ حلال اور جو ہاتھ سے نکل گیا وہ حرام قرار دیا جاتا ہے۔

ہم نے اپنے معاشرے میں نیکی و بدی کو اس بری طرح غلط ملط کردیا ہے کہ چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی دنیا کے کسی بھی خطے میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ ہم نے نیکی کو مقفل اور بدی کو رہا کردیا ہے، ہمارے معاشرے میں نیکی کا خطاب ملنے پر بدی خوشی سے سرشار ہوکر قہقہے لگا رہی ہے اور برائی قرار دی جانیوالی نیکی سسک رہی ہے۔ ہمارے سمجھانے والے اپنی محافل میں برائی سمجھا رہے ہیں، ہمیں جنت کی بشارتیں سناکر برائی کی راہوں پر چلنے کا درس دیا جارہا ہے۔ ہمارے ذہن و دل میں برائی انڈیل دی گئی ہے۔ ہمارے کان برا سن رہے ہیں، ہماری زبان برا کہہ رہی ہے، ہمارا ذہن برا سوچ رہا ہے، ہماری آنکھیں برا دیکھ رہی ہیں، ہمارے ہاتھ و پاؤں برائی کی جانب اٹھ رہے ہیں، ہمارے چہار جانب برائی کی تعلیمات کو فروغ دیکر پروان چڑھایا جارہا ہے۔ ہر طرف برا کہا جارہا، برا سنا جارہا، برا دیکھا جارہا ہے، برا کیا جارہا ہے۔

فطرت نے انسان کو سوچنے کی عظیم ترین صلاحیت عطا کی ہے۔ انسان اپنا ماحول خود تخلیق کرسکتا ہے، جب کہ جانوروں کو ماحول کے تابع رہنا پڑتا ہے، آج ہمارے ارد گرد کا جو ماحول ہے اس کے تخلیق کردہ ہم خود ہیں، یہ چاروں طرف پھیلی گھٹن، حسب، معاشرتی و معاشی ناہمواری، رجعت پسندی، انتہا پسندی یہ سب ہماری ہی فخریہ پیشکش ہیں، ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ ہم صرف اپنی ذات کے غلام بنے رہے، ہم کبھی زندگی کی حقیقت کو سمجھ ہی نہیں پائے، ہمارے نزدیک کھانا، پینا، کمانا، شادی کرنا، بچے پیدا کرنا، عیش و آرام ہی زندگی کا مقصد رہا۔ اپنی تباہی و بربادی کی ذمے داری دوسروں کے کاندھوں پر ڈال کر انھیں کوسنے کے بعد دل کا غباروبھڑاس نکالنے سے ہماری تباہی کم نہیں ہوجائے گی بلکہ اور بڑھے گی۔

ہماری تباہی وبربادی کا سلسلہ اس وقت تک نہیں رک سکتا جب تک ہم خود آپ اپنا احتساب نہیں کریں گے۔ ارباب اختیار سے لے کر ایک سبزی فروش تک، اقتدار کے ایوانوں سے لے کر مسجد کے محراب و ممبر تک، گلی و محلوں سے لے کر امراء کے محلات تک ہم سب پر لازم ہے کہ جس بناء پر انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا اس عقل سلیم کو استعمال کرتے ہوئے سچائی و برائی کی تمیز کریں اور اپنے معاشرے کو تباہی و بربادی سے بچائیں، سچائی کے اندر انسان کی نجات، فلاح، خیر و برکت، اطمینان و سکون، طاقت، خوشحالی پوشیدہ ہے، ساری اچھائیاں سچ کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں اور ساری برائیاں، ساری خرابیاں جھوٹ کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں، جھوٹ سے راکھ، تباہی، آنسو، بدصورتی، بانجھ پن اور ویرانی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا، اسی جھوٹ نے پاکستان کو تباہ و برباد کیے رکھا ہے، ہماری نجات صرف سچائی میں ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ خدارا جاگ جائیے، وقت کبھی نہیں رکتا، نئے زمانے کے نئے تقاضے ہوتے ہیں، ہم اپنی حرکتوں اور سوچ کی وجہ سے دنیا بھر میں تنہا رہ گئے ہیں، دنیا ایک طرف ہے تو ہم دوسری طرف، ہم دنیا سے کٹ کر تنہا ہوکر کبھی بھی زندہ نہیں رہ سکیں گے، اگر اب بھی ہم نے اپنے آپ کو تبدیل نہیں کیا اور زمانے کے ساتھ نہیں چلے تو مکمل تباہی اور بربادی ہمارا بے چینی سے انتظار کر رہی ہے، فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے۔
Load Next Story