نعت رسول مقبول ﷺ
اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی
انؐ کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیں
جس راہ چل گئے ہیں، کوچے بسا دیے ہیں
جب آگئی ہیں جوش رحمت پہ انؐ کی آنکھیں
جلتے بجھا دیے ہیں، روتے ہنسا دیے ہیں
انؐ کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہو
جب یاد آ گئے ہیں، سب غم بھلا دیے ہیں
میرے کریمؐ سے گر قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہا دیے ہیں، دُر بے بہا دیے ہیں
اسرا میں گزرے جس دم بیڑے پہ قدسیوں کے
ہونے لگی سلامی، پرچم جھکا دیے ہیں
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلّم
جس سمت آگئے ہو، سکّے بٹھا دیے ہیں
داغ دہلوی
توؐ جو اﷲ کا محبوب ہوا، خُوب ہوا
یا نبیؐ خُوب ہوا، خُوب ہوا، خُوب ہوا
شب معراج یہ کہتے تھے فرشتے باہم
سخن طالب و مطلوب ہوا، خُوب ہوا
حشر میں امت عاصی کا ٹھکانا ہی نہ تھا
بخشوانا تجھے مرغوب ہوا، خُوب ہوا
تھا سبھی پیش نظر معرکہ کرب و بلا
صبر میں ثانی ایوب ہوا، خُوب ہوا
داغ ہے روز قیامت مری شرم اس کے ہاتھ
میں گناہوں سے جو محبوب ہوا، خُوب ہوا
ساغر صدیقی
جاری ہے دو جہاں پہ حکومت رسولؐ کی
کرتے ہیں مہر و ماہ اطاعت رسولؐ کی
ایماں ایک نام ہے حُبّ رسولؐ کا
ہے خُلد کی بہار مُحبّت رسولؐ کی
نوک مژہ پہ جن کی رہے اشک کربلا
پائیں گے حشر میں وہ شفاعت رسولؐ کی
غار حرا کو یاد ہیں سجدے رسولؐ کے
دیکھی ہیں پتھروں نے عبادت رسولؐ کی
ساغر تمام عالم ہستی ہے بے حجاب
آنکھوں میں بس رہی ہے وہ خلوت رسولؐ کی
عبدالرحمن گیلانی
زندگی پُربہار ہوجائے
ہر نظر لالہ زار ہوجائے
ناطقہ دل کا ترجمان بنے
ہر نفس اک شرار ہوجائے
دشتِ طیبہ جنوں نواز بنے
خاکِ بطحیٰ مزار ہوجائے
زندگی اپنی جس قدر بھی ہے
انؐ کی خاطر نثار ہوجائے
انؐ کی الفت کے پھول گَر نہ کِھلیں
گُلِ تر نوکِ خار ہوجائے
نام انؐ کا اگر زباں پر ہو
جذبِ دل باوقار ہوجائے
نقشِ پا انؐ کے گر نہ روشن ہوں
زندگی خار زار ہوجائے
کیف و مستی کی ہر ادا بڑھ کر
میری لوحِ مزار ہوجائے
انؐ کے در کی رسائی ہو ممکن
ہر نفس بے قرار ہوجائے
ناز پرور تری مشیت ہے
کیوں نہ عالی وقار ہوجائے
میرے ذوقِ نظر کا ہر پردہ
اک گریباں کا تار ہوجائے