ملکی سیاست کا بنیادی مسئلہ
پاکستان کی ضرورت ایک مضبوط جمہوری اور شفاف حکمرانی کا نظام ہے۔
پاکستان کی سیاست اور جمہوریت میں سول ملٹری تعلقات ہمیشہ سے ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے اوراسی بنیاد پر ملک میں سیاسی اورجمہوری نظام بھی کمزور یا تعطل کا شکار رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں قومی سیاست میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملے نے ایک بار پھر سول ملٹری تعلقات پر سوالات کو کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بالخصوص سیاست اور میڈیا سے جڑے ایک طبقہ نے اس مسئلہ کو اپنے سیاسی مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔
اگرچہ حکومت کے بقول ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا معاملہ افہام و تفہیم سے دونوں فریقین میں باہمی رضامندی سے حل ہوگیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اگلے چند دنوں تک نوٹیفیکیشن بھی جاری ہوجائے گا۔ اصولی طور پر تو یہ فیصلہ بلاوجہ سیاست اورمیڈیا کے محاذ پرنہ ہوتا تو یہ ملکی مفاد میں تھا ۔اس فیصلہ کی حکومتی سطح سے تاخیر نے بھی بہت سے سیاسی مہم جو افراد کو موقع دیا کہ وہ اپنی مرضی کی بنیاد پر سیاسی ہیجانی کیفیت پیدا کرکے فریقین میں بداعتمادی پیدا کریں۔
پچھلے تین برس سے یہ سیاسی مہم جو افراد جو میڈیا اورسیاست دونوں محاذ پر ہیں وہ یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ کسی طریقے سے حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ میں ٹکراؤ پیدا کیا جائے اوراسی کو بنیاد بنا کر حکومت کو اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے رخصت کیا جائے۔اس لیے حالیہ واقعہ نے ان کو بھرپور موقع دیا کہ وہ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے اس کھیل میں اپنا رنگ ڈالیں۔
اب دیکھنا ہوگا کہ حالیہ جو بحران نظر آیا اس کا منطقی انجام کیا ہوگا۔ بظاہر تو ایسے ہی لگتا ہے کہ یہ بحران کافی حد تک حل ہوگیا ہے ۔ البتہ دیکھنا ہوگا کہ اس بحران کے نتیجے میں مستقبل کی سیاست میں کیا اثر پڑتا ہے اورکیا جو ماحول اب ہمیں دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ آگے چل کر کیا رنگ دکھاتا ہے۔
گیند بنیادی طور پر حکومت کی کورٹ میں ہے اور یہ حکومت ہی کی صوابدید پر ہے کہ وہ اس معاملے میں جو مسائل ہیں ان کو کیسے حل کرتی ہے ۔کیونکہ حکومت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ان کے سیاسی مخالفین ہر صورت میں یہ ہی ایجنڈا رکھتے ہیں کہ ان کے اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہو اورحکومت کو اسی بنیاد پر رخصت کیا جائے ۔اس لیے حکومت کو ہر صورت بگاڑ کے بجائے مسائل کے حل کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔
پاکستان اس وقت داخلی ، علاقائی یا عالمی سیاست کے ایک بڑے سیاسی اور معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ بالخصوص افغانستان کی جو بڑی صورتحال ہے اس پر پاکستان کی توجہ سب سے زیادہ ہے ۔کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ افغان بحران کا حل براہ راست پاکستان اورخطہ کے مفاد سے جڑا ہوا ہے۔بھارت کے جو سیاسی عزائم ہیں وہ خود بھی پاکستان سمیت علاقائی ممالک کے لیے ایک بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت کا ایجنڈا پاکستان اورافغانستان کو عدم استحکام کی سیاست سے دوچار کرنا ہے۔
ایسی صورتحال میں پاکستان کے سیاسی اور سفارتی یا ڈپلومیسی کے محاذ پر موجود حکمت عملیوں میں ایک بڑی حکمت عملی سول ملٹری تعلقات میں بہتری اورایک مشترکہ کاوش کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ماضی میں سول ملٹری معاملات پر دو مختلف بیانیوں کی حکمت عملی نے ہمیں فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے۔
جب جمہوری قوتیں ملک میں سیاست، جمہوریت، قانون کی حکمرانی یا پارلیمانی بالادستی کی بات کرتی ہیں تو اسی فریم ورک میں ہمیں سول ملٹری تعلقات کے درمیان توازن پر مبنی پالیسی کو بھی اہمیت دینی چاہیے۔ ایک مخصوص طبقہ جو سیاست ، صحافت اور اہل دانش کی سطح پر موجود ہے وہ اس بحث کو ایک غلط رنگ دے کر بلاوجہ ٹکراؤ کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کاحالیہ بحران پر جو طرز عمل ہمیں دیکھنے کو ملا ہے وہ حکومتی دشمنی میں خود کو متبادل قیادت کے طور پر پیش کرنا ہے یا اس کھیل میں زیادہ شدت یا ٹکراو پیدا کرکے ذاتی طور پر موجود سیاسی مقاصد کا حصول ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ دونوں سطح کی قیادت ان معاملات سے کیسے نمٹتی ہے اورکس حد تک مشاورت اوراتفاق رائے کو بنیاد بنا کر آگے بڑھا جاتا ہے۔یہ ہی عمل سیاست اور جمہوریت یا اداروں کے درمیان باہمی تعاون کی بہترین شکل بھی ہے ۔وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری نے اس حالیہ بحران کے تناظر میں درست بات کی ہے کہ سول ملٹری تعلقات میں بہتری کا عمل ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔ کیونکہ ٹکراؤ کی پالیسی سے پورے ریاستی نظام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ان کے بقول اگر ہم اپنی سیاسی تاریخ دیکھیں تو اس میں حکومت کے مقابلے میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے سازش کرکے حکومت کو چلتا کریں ۔
پاکستان کی ضرورت ایک مضبوط جمہوری اور شفاف حکمرانی کا نظام ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب سیاسی ، انتظامی ، معاشی اور قانونی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ملک کو چلانے کی کوشش کریں۔ہمیں روائتی اور فرسودہ طورطریقوں کے بجائے جدیدیت کی بنیاد پر اپنا نظام چلانا ہوگا۔
حالیہ دنوں میں قومی سیاست میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملے نے ایک بار پھر سول ملٹری تعلقات پر سوالات کو کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بالخصوص سیاست اور میڈیا سے جڑے ایک طبقہ نے اس مسئلہ کو اپنے سیاسی مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔
اگرچہ حکومت کے بقول ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا معاملہ افہام و تفہیم سے دونوں فریقین میں باہمی رضامندی سے حل ہوگیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اگلے چند دنوں تک نوٹیفیکیشن بھی جاری ہوجائے گا۔ اصولی طور پر تو یہ فیصلہ بلاوجہ سیاست اورمیڈیا کے محاذ پرنہ ہوتا تو یہ ملکی مفاد میں تھا ۔اس فیصلہ کی حکومتی سطح سے تاخیر نے بھی بہت سے سیاسی مہم جو افراد کو موقع دیا کہ وہ اپنی مرضی کی بنیاد پر سیاسی ہیجانی کیفیت پیدا کرکے فریقین میں بداعتمادی پیدا کریں۔
پچھلے تین برس سے یہ سیاسی مہم جو افراد جو میڈیا اورسیاست دونوں محاذ پر ہیں وہ یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ کسی طریقے سے حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ میں ٹکراؤ پیدا کیا جائے اوراسی کو بنیاد بنا کر حکومت کو اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے رخصت کیا جائے۔اس لیے حالیہ واقعہ نے ان کو بھرپور موقع دیا کہ وہ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے اس کھیل میں اپنا رنگ ڈالیں۔
اب دیکھنا ہوگا کہ حالیہ جو بحران نظر آیا اس کا منطقی انجام کیا ہوگا۔ بظاہر تو ایسے ہی لگتا ہے کہ یہ بحران کافی حد تک حل ہوگیا ہے ۔ البتہ دیکھنا ہوگا کہ اس بحران کے نتیجے میں مستقبل کی سیاست میں کیا اثر پڑتا ہے اورکیا جو ماحول اب ہمیں دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ آگے چل کر کیا رنگ دکھاتا ہے۔
گیند بنیادی طور پر حکومت کی کورٹ میں ہے اور یہ حکومت ہی کی صوابدید پر ہے کہ وہ اس معاملے میں جو مسائل ہیں ان کو کیسے حل کرتی ہے ۔کیونکہ حکومت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ان کے سیاسی مخالفین ہر صورت میں یہ ہی ایجنڈا رکھتے ہیں کہ ان کے اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہو اورحکومت کو اسی بنیاد پر رخصت کیا جائے ۔اس لیے حکومت کو ہر صورت بگاڑ کے بجائے مسائل کے حل کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔
پاکستان اس وقت داخلی ، علاقائی یا عالمی سیاست کے ایک بڑے سیاسی اور معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ بالخصوص افغانستان کی جو بڑی صورتحال ہے اس پر پاکستان کی توجہ سب سے زیادہ ہے ۔کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ افغان بحران کا حل براہ راست پاکستان اورخطہ کے مفاد سے جڑا ہوا ہے۔بھارت کے جو سیاسی عزائم ہیں وہ خود بھی پاکستان سمیت علاقائی ممالک کے لیے ایک بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت کا ایجنڈا پاکستان اورافغانستان کو عدم استحکام کی سیاست سے دوچار کرنا ہے۔
ایسی صورتحال میں پاکستان کے سیاسی اور سفارتی یا ڈپلومیسی کے محاذ پر موجود حکمت عملیوں میں ایک بڑی حکمت عملی سول ملٹری تعلقات میں بہتری اورایک مشترکہ کاوش کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ماضی میں سول ملٹری معاملات پر دو مختلف بیانیوں کی حکمت عملی نے ہمیں فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے۔
جب جمہوری قوتیں ملک میں سیاست، جمہوریت، قانون کی حکمرانی یا پارلیمانی بالادستی کی بات کرتی ہیں تو اسی فریم ورک میں ہمیں سول ملٹری تعلقات کے درمیان توازن پر مبنی پالیسی کو بھی اہمیت دینی چاہیے۔ ایک مخصوص طبقہ جو سیاست ، صحافت اور اہل دانش کی سطح پر موجود ہے وہ اس بحث کو ایک غلط رنگ دے کر بلاوجہ ٹکراؤ کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کاحالیہ بحران پر جو طرز عمل ہمیں دیکھنے کو ملا ہے وہ حکومتی دشمنی میں خود کو متبادل قیادت کے طور پر پیش کرنا ہے یا اس کھیل میں زیادہ شدت یا ٹکراو پیدا کرکے ذاتی طور پر موجود سیاسی مقاصد کا حصول ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ دونوں سطح کی قیادت ان معاملات سے کیسے نمٹتی ہے اورکس حد تک مشاورت اوراتفاق رائے کو بنیاد بنا کر آگے بڑھا جاتا ہے۔یہ ہی عمل سیاست اور جمہوریت یا اداروں کے درمیان باہمی تعاون کی بہترین شکل بھی ہے ۔وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری نے اس حالیہ بحران کے تناظر میں درست بات کی ہے کہ سول ملٹری تعلقات میں بہتری کا عمل ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔ کیونکہ ٹکراؤ کی پالیسی سے پورے ریاستی نظام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ان کے بقول اگر ہم اپنی سیاسی تاریخ دیکھیں تو اس میں حکومت کے مقابلے میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے سازش کرکے حکومت کو چلتا کریں ۔
پاکستان کی ضرورت ایک مضبوط جمہوری اور شفاف حکمرانی کا نظام ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب سیاسی ، انتظامی ، معاشی اور قانونی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ملک کو چلانے کی کوشش کریں۔ہمیں روائتی اور فرسودہ طورطریقوں کے بجائے جدیدیت کی بنیاد پر اپنا نظام چلانا ہوگا۔