عید میلادالنبی ﷺ

آج عید میلادالنبیؐ کا دن یوم احتساب ہے، اس عہد کی تجدید کا اس سے بہتر موقع اہل پاکستان کو نہیں مل سکتا۔

آج عید میلادالنبیؐ کا دن یوم احتساب ہے، اس عہد کی تجدید کا اس سے بہتر موقع اہل پاکستان کو نہیں مل سکتا۔ (فوٹو : فائل)

WASHINGTON:
عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر46ویں دو روزہ قومی رحمت اللعالمینﷺ کانفرنس کل پیر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شروع ہوئی۔ دو روزہ کانفرنس کا موضوع ''حضور رحمتہ اللعالمینﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں اتحاد اور ہم آہنگی کے فروغ کے لیے مسجد، مدارس، خانقاہوں اور امام بارگاہوں کا کردار'' ہے۔

کانفرنس کے افتتاحی دن قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر مہمان خصوصی ہوں گے۔ انعامات کی تقسیم کے بعد محفل نعت منعقد ہو گی۔ کانفرنس کے دوسرے دن دو سیشن ہوں گے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی پہلے سیشن کی صدارت کریں گے جب کہ وزیر اعظم عمران خان کانفرنس کے آخری سیشن کی صدارت کریں گے۔ دو روزہ قومی کانفرنس آج اختتام پذیر ہوگی۔

اس بابرکت دن کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی طرز حیات کوئی سیاسی نعرہ نہیں بلکہ سکون قلب اور ارتقائے انسانیت کا واحد راستہ ہے، دنیا کے کروڑوں مسلمان یوم عیدمیلاد النبیﷺ منا رہے ہیں، ان کے دل مسرور ہیں، ان کے شہر، گھر گلیاں اور بازار جھنڈوں، جھنڈیوں اور برقی قمقموں سے آراستہ ہیں، کیونکہ وہ اس عظیم ہستی کے یوم پیدائش کی خوشیوں کو اپنے دامن میں بھر رہے ہیں:

وہ شمع اجالا جس نے کیا

چالیس برس تک غاروں میں

آج بھی وہ شمع دنیا میں اجالا کیے ہوئے ہے۔ جاہلیت اور گمراہی کو عرب کے ریگزاروں میں شکست ہوئی، اسوہ حسنہ کی چاندنی چار سو پھیلی، کفر وظلمت نے سر جھکا لیے، اسلام کی حقانیت سربلند ہوئی، قیصر وکسریٰ کے محلات لرزہ براندام ہوئے۔

حضور اکرمﷺ نے انسانیت کو ایک ضابطہ حیات دیا، مساوات، رواداری و انصاف کی نصیحت کی، ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا، اس پاک و عظیم خاتم النبیینﷺ نے جو عدیم المثال اسوہ حسنہ پیش کیا وہ لازوال، دائمی اور دنیا میں امن، خیر خواہی، ہمدردی، انصاف، مساوات اور نجات کا وسیلہ تھا، حضورﷺ کی پوری حیات طیبہ ہمارے لیے قیامت تک روشنی اور ہدایت و نجات کا سرچشمہ ہے، یہ ہماری کوتاہ اندیشی تھی کہ ہم سیاسی خرافات اور اختلافات و جھگڑوں میں اسلام کے زریں اصولوں کو پامال کرتے ہوئے فراموش کر بیٹھے، آج ہم بلاشبہ عید میلاد النبیؐ کی خوشیاں منا رہے ہیں لیکن ہم دل و دماغ اور جسم سے ستیزہ کار ہیں، ہمیں اپنے سرمدی اسلامی اصول یاد نہیں رہے، ہمیں مغرب نے جو تعلیمی نصاب پڑھایا، وہ ہماری ذہنیت، اخلاقیات اور روز و شب کا نصاب بن گیا، ہم نے سائنس کی تعلیم پر توجہ نہیں دی اور ایک بڑے انحراف کے نتیجہ میں غیر معمولی خواہشات کے غلام بن گئے، پاکستان کا سیاسی مسئلہ بہت سارے مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے، سیاست، اقتصادیات، سماج اور فنون لطیفہ کے سوالات ہماری سلامتی کے لیے اہم ترین سوالات کی جگہ لے چکے ہیں، ہم نے دنیا داری اور ریاکاری کے درمیان فرق اور فاصلہ مٹا دیا ہے بلکہ روایات و خرافات سے اپنی مسلم شناخت کو مسخ کر دیا ہے، حکومت نے نو آبادیاتی نصاب کو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا ہے، وہ قومی یکجہتی کی علمبردار ہے لیکن یک نصابی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے، یا اللہ ہماری مدد فرما۔

ملک میں سرکاری زبان اردو ہونی چاہیے، یہ عدالت عالیہ کا برسوں پرانا فیصلہ ہے لیکن بیورو کریسی نے اس مسئلہ کو حل نہیں کیا، چنانچہ آج اردو کو معاشی بقا اور نصابی کامیابی کے لیے انگریزی سے کم تر سمجھا جاتا ہے، بلکہ ایک بڑی تہذیبی بساط بچھائی گئی ہے، ہمارے معصوم بچے پرائمری کلاسوں سے ہی انگریزی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ بڑا آدمی بننے کے لیے انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کرنا ناگزیر ہے، وہ کوششیں جو سید عبداللہ اور دیگر درد مند ماہرین نے کیں ان کا کوئی فائدہ نہیں، لارڈ میکالے جیت گیا ان کا نصاب فتحیاب ہوا۔


بلاشبہ اسلامی نصاب اور مذہبی تعلیم کو فروغ حاصل ہوا ہے، فکر میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آئی ہے، دین پر نئی نسل کو بڑی رغبت ملی اور درجنوں کتابیں شایع ہوئیں مگر حقیقت یہ ہے کہ مذہبی تعصبات، انتہا پسندی اور عدم رواداری نے سماج کے چہرے کو مسخ کر دیا ہے، نئے پاکستان میں وہ کون سے سماجی اور غیر انسانی جرائم ہیں جن کا ارتکاب نہیں کیا جاتا ، جنسی جرائم بے حساب ہیں، بنت حوا رسوا ہوچکی، اسے وراثت کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے، غربت ایک درد انگیز موضوع ہے، سیاسی لغت میں جتنی تحقیر غربت پر اظہار خیال میں اہل فکر ونظر کی ہوئی ہے اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

ملکی معیشت کے مسیحا نہیں جانتے کہ ملکی اقتصادی نظام کس کے پاس ہے۔ ماہرین نے نظام معیشت کو غریبوں کے لیے آسودگی مہیا کرنے کے قابل نہیں بنایا، موجودہ دنیا میں ہم ایک ایسی قوم بن چکے ہیں جو کسی بھی معاملے میں ایک عوام دوست نظریہ ہائے حیات پر متفق ہو۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ملک میں سچائی کی کوئی اہمیت نہیں جو سب سے زیادہ عیار اور مکار ہے، جس کا کام تجارت اور کاروبار میں دو نمبری،چابک دستی کرنا ہے کاروبار میں وہی کامیاب ہوگا۔

حکما نے کہا ہے کہ انسانیت کی تکمیل صرف انبیا علیہ السلام کی سیرتوں سے ممکن ہے، مولانا سید سلیمان ندوی نے خطبات مدارس میں لکھا ہے کہ حکما اور فلاسفر جنھوں نے اپنی عقل رسا سے نظام عالم کے نقشے دیے، جنھوں نے عجائبات عالم کی طلسم کشائی کے حیرت انگیز نظریے پیش کیے، مگر انسانیت کے نظام ہدایت کا کوئی عملی نقشہ پیش نہ کرسکے، اور نہ فرائض انسانی کی طلسم کشائی میں کوئی عملی امداد دے سکے، دنیا کے اسٹیج پر بڑے بڑے بادشاہ اور حکمراں نمودار ہوئے، جنھوں نے چار دانگ عالم میں حکومت کی، دنیا میں بڑے بڑے شاعر پیدا ہوئے، خیالی دنیا کے یہ شہنشاہ عملی طور پر ناکام ثابت ہوئے، ہومر سے لے کر آج تک خیالی جوش و ہنگامہ کی پیدائش اور خیالات لذت والم کی افزائش کے سوال نسل انسانی کی مشکلات دور کرنے کے لیے کوئی صحیح مشورہ نہ دے سکے۔

لیکن انسانیت کی نجات کے لیے جو اسوہ حسنہ ہمارے آخری نبیؐ نے پیش کیا اس کی سچائی، صداقت، ابدیت اور لازوال ہونے کی شہادت ہر دور کا انسان دیتا ہے، جو راہ ہدایت ہم نے قرآن سے پائی کاش اس سے مسلمان اپنی زندگیوں کو سنوارتے تو آج دنیا کتنی آسودہ ہوتی۔

ملک کو کتنے چیلنجز درپیش ہیں، ایک طرف ملکی سالمیت، معیشت کے استحکام اور سیاستدانوں میں اتفاق رائے، دوراندیشی اور رواداری و یکجہتی کی ضرورت ہے ، دوسری طرف ہمسایہ بردار ملک افغانستان کو معاشی، سیاسی استحکام اور بقا کے لیے عالمی معاونت، سیاسی و معاشی امداد درکار ہے، امن و سیاسی استحکام درکار ہے، خطے کی ترقی اور عوام کو خوشحالی چاہیے، پاکستان کو سیاسی استحکام، عوام کو خوشحالی اور عوام دوست درد آشنا حکمران کی ضرورت ہے، قومی یک جہتی کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے، عوام مہنگائی کے مسئلے سے دوچار ہیں، یا رب حکمرانوں کو ہدایت دے کہ وہ حکمرانی کے اصولوں کو سامنے رکھیں، اسلام نے جو اصول مدنیت وشہریت مقدم رکھے ان کی پیروی کی جائے، ملک کو معاشی اور سیاسی استحکام نصیب کر، غربت کو فراوانی میں بدل دے، ایسی حکمت عطا فرما جو ہمارے حکمرانوں کے قلب ونظر کو بدل دے، یا رب اس ممکت خداداد کو سلامتی سے نواز دے، اہل پاکستان اور اس کی نئی نسل کو اسلام ، قرآن کی فضیلت عطا فرما۔ پاکستان کو دنیا میں انفرادیت عطا فرما۔

ہمیں خود کفیل بنا اور سخاوت سے نواز۔ ہمارے شہروں کو امن وانصاف سے آباد کر، ہمیں جرائم، غیر انسانی حالات سے بچا ، ہمیں جدید جمہوری روایات کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات پر چلنے والا بنا۔ ہماری سوچ کو انسان دوستی سے آشنا فرما۔ ہماری دشمنیاں دوستی اور رحمدلی میں بدل دے، ہمیں شیر وشکر کر دے۔

آج عید میلادالنبیؐ کا دن یوم احتساب ہے، اس عہد کی تجدید کا اس سے بہتر موقع اہل پاکستان کو نہیں مل سکتا، آج حکمراں یہ عہد کریں کہ وہ ملک کو سیاسی رواداری، اور استحکام دلانے کی جدوجہد کریں گے، غربت مٹائیں گے، مہنگائی کا کوئی دائمی حل نکالیں گے۔

وقت آگیا ہے کہ ہر قسم کے حالات میں قوم ایک ہی جھنڈے تلے کھڑی ہوگی۔ غربت ، بیروزگاری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف سینہ سپر رہے گی، یا رب ہمارے عوام کو ایک اچھی حکمرانی نصیب کر، آپس میں مہر و محبت اور یک جہتی و ہمدردی سے زندگی گزارنے کی اہلیت سے سرفراز فرما۔ پاکستان کے عوام کو غریبوں کی مدد کرنے کے لیے ہمیشہ تیار فرما، غربت ملک کا سنگین مسئلہ ہے، غریبی اور امیری کے فرق کو اپنی رحمتوں سے کم کردے، سیاسی اور معاشی سرخروئی سے ہم سب کو سرفراز فرما۔ آمین۔
Load Next Story