واپسی کا سفر

پی ٹی آئی حکومت کی بدولت ملک میں ترقی سے تنزلی کی طرف واپسی کا سفر شروع ہوچکا ہے

پی ٹی آئی نے ملک کو تنزلی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

SINGAPORE:
آج سے 50 سال قبل زندگی سادہ تھی، زیادہ تر لوگ دیہات میں رہتے تھے، اور اپنی بنیادی ضروریات زندگی جیسے آٹا، گھی، سبزیاں، گوشت کا بندوبست خود ہی کرلیا کرتے تھے۔ ذرائع آمدورفت کےلیے بیل، گدھے، گھوڑے استعمال ہوا کرتے تھے۔ موٹر گاڑیوں کی تعداد انتہائی کم ہونے کی وجہ سے فضا صاف ستھری ہوا کرتی تھی۔ خالص غذائیں کھانے کی وجہ سے لوگ صحتمند زندگی گزارتے اور لمبی عمریں پاتے۔ دیہاتوں میں تو دور شہروں میں بھی اِکا دُکا صحت کے مراکز ہوا کرتے تھے۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ ہر چیز بدلتی چلی گئی۔

ترقی کی خواہش لیے لوگوں نے دیہاتوں سے شہروں کا رخ کیا۔ حرص و ہوس کے مارے لوگوں کو شیطان نے ملاوٹ کا راستہ دکھا کر بیماریوں کا راستہ کھولا۔ بڑھتی آبادی کی ضرورت پورا کرنے کےلیے دیہاتوں کو رہائشی آبادیوں میں تبدیل کردیا گیا۔ آج بھی لوگ اس وقت کو یاد کرکے آہیں بھرتے ہیں، لیکن گیا وقت ہاتھ آتا نہیں۔

ایسا شاید کبھی ممکن نہ ہوتا کہ ہم ماضی میں لوٹ جائیں، مگر پھر تبدیلی آگئی۔ تبدیلی سرکار نے وطن عزیز کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے کر تبدیلی کا سفر شروع کردیا۔ انھوں نے ارض پاک کی تقدیر بدلنے کےلیے کرپٹ لوگوں کو (آپ کے بقول) جیل میں ڈالا، اور پھر نکالا، اور نکالنے کے بعد آپ نے 'نہیں چھوڑوں گا' راگ الاپتے ہوئے عوام کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ آج تین سال گزرنے کے بعد کچھ کرپٹ لوگ آپ کے ساتھ ہیں اور کچھ لندن اور اپنے محلات میں سکھ و چین کی زندگی گزارہے ہیں۔ لیکن عوام سکھ چین سے محروم ہیں۔ جی ہاں! وہی عوام جن کی آپ آخری امید تھے۔ وہی عوام جنہوں نے آپ کے وعدوں سے متاثر ہو کر ''اچھے دن آئیں گے'' کی امید لگائی تھی۔ عوام کےلیے جینے کا اب ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عہدِ رفتہ کی جانب لوٹ جائیں اور واپسی کا یہ سفر شروع ہوچکا ہے۔ لاہور کے رکشہ ڈرائیوروں نے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا مقابلہ کرنے کےلیے رکشوں سے موٹریں نکال کر گھوڑے لگا کر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ گھوڑوں کو سفر کےلیے استعمال کرنے سے ایک طرف وہ تیل کی بڑھتی قیمتوں کی ٹینشن سے آزاد ہوگئے ہیں، دوسری طرف فضائی آلودگی میں بھی کمی واقع ہوگی۔


ہم سب کو مہنگائی کا مقابلہ کرنے کےلیے اپنی بنیادی ضروریات کےلیے حکومت پر اپنا انحصار کم کرتے ہوئے ماضی کی طرز پر ''کچن گارڈن'' کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔ اگر ممکن ہوسکے تو ہم دیہات میں رہائش پذیر ہوجائیں، بصورت دیگر راولپنڈی کے اس شہری کی طرز پر، جس نے اپنے 5 مرلے کے گھر کی چھت کو باغیچہ بنالیا، ہم بھی اپنے محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے 'خودانحصاری کا سفر' شروع کردیں اور اگر ہوسکے تو وزیراعظم عمران خان کے نظریات کے مطابق ''مرغیاں، انڈے اور کٹوں'' کی پروش کرکے اپنی آمدن بڑھائیں اور معاشی خوشحالی کا سفر شروع کردیں۔ اور ہمیں اپنی بقا کےلیے یہ سب کرنا ہوگا، کیونکہ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ پاکستان کے حالات شاید ہی تبدیل ہوسکیں۔ اس کی دو بنیادی وجوہ ہیں۔ ایک ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے، اور وہ دن دور نہیں جب ہمارے قرضے ہماری آمدن سے بڑھ جائیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے ذمے قرض کا حجم جی ڈی پی کے 97.4 فیصد تک پہنچ چکا ہے اور حکومت چاہے کسی کی بھی ہو اسے قرض ادا کرنے کےلیے قرض لینا پڑے گا اور مزید قرض تب ہی ملے گا جب وہ عالمی اداروں کی سخت ترین شرائط کو پور کرتے ہوئے غربت کو نہیں غریب کو ہی ختم کردیں۔

دوسری بڑی وجہ حالیہ پی ڈی ایم اور پی پی پی کے جلسوں میں عوام کی کثیر تعداد میں شمولیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ آنے والی حکومت بھی موجودہ سیاسی پارٹیوں کا ہی مجموعہ ہوگی، اور پھر ماضی کی طرح عوام کے بجائے وزیروں کے دن بدلیں گے۔ اس لیے عوام کےلیے بہتری اسی میں ہے کہ واپسی کا سفر شروع کردیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story