مسلح افواج کو رسک الاؤنس دینے سے متعلق کیس سپریم کورٹ بینچ کو ارسال
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی عدالت سے کیس پر لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا
سپریم کورٹ نے مسلح افواج کے اہلکاروں کو رسک الاؤنس دینے سے متعلق کیس تین رکنی بینچ کو بھجوا دیا۔
مسلح افواج کے اہلکاروں کو رسک الاؤنس دینے کے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف فنانس ڈویژن کی اپیل پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربرا ہی میں قائم دو رکنی بینچ نے سماعت کی ۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ یکم جولائی 2009 کو مغربی سرحد پر تعینات مسلح افواج کے اہلکاروں کو ایک ماہ کی تنخواہ بطور رسک الاوٴنس دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا جو کہ بعد میں جنوری 2010 میں تمام افواج کیلئے لاگو کر دیا گیا ۔
اس کے بعد فوج میں شامل سویلین افراد نے احتجاج کیا تو ائیر چیف کی جانب سے مسلح افواج میں شامل سویلین ملازمین کو بھی رسک الاوٴنس دینے کا نوٹیفیکیشن 2009 میں جاری کردیا گیا جس پر فنانس ڈویثرن نے ائیر چیف کو ایک خط لکھا جس کے بعد ائیر چیف کا نوٹیفیکشن واپس لے لیا گیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاائیر چیف خود سے الاؤنس دینے کا اختیار نہیں رکھتے تھے فنانس ڈویثرن کے اعتراض پر ائیر چیف کا نوٹیفیکیشن واپس لے لیا گیا جس کے بعد ملازمین نے فنانس ڈویژن کو فریق بنائے بغیر سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لیا ۔
ایڈیشنل اٹارنی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو غلط حقائق اور قانون بتا کر فیصلہ لیا گیا عدالتی حکم پر عملدرآمد کر چکے ہیں لیکن اب تمام ملازمین کو رسک الاوٴنس نہیں دیا جا سکتا جس پر چیف جسٹس نے کہا سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ ہے دو رکنی بینچ نہیں سن سکتا اب کیس کو تین رکنی بینچ کے سامنے ہی لگائیں گئے جس کے بعد عدالت تین رکنی بینچ کے سامنے مقر ر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ کیس پر لارجر بینچ تشکیل دیا جائے تاہم چیف جسٹس نے کہا لارجر بینچ کا فیصلہ تین رکنی بینچ ہی کرے گا۔
مسلح افواج کے اہلکاروں کو رسک الاؤنس دینے کے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف فنانس ڈویژن کی اپیل پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربرا ہی میں قائم دو رکنی بینچ نے سماعت کی ۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ یکم جولائی 2009 کو مغربی سرحد پر تعینات مسلح افواج کے اہلکاروں کو ایک ماہ کی تنخواہ بطور رسک الاوٴنس دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا جو کہ بعد میں جنوری 2010 میں تمام افواج کیلئے لاگو کر دیا گیا ۔
اس کے بعد فوج میں شامل سویلین افراد نے احتجاج کیا تو ائیر چیف کی جانب سے مسلح افواج میں شامل سویلین ملازمین کو بھی رسک الاوٴنس دینے کا نوٹیفیکیشن 2009 میں جاری کردیا گیا جس پر فنانس ڈویثرن نے ائیر چیف کو ایک خط لکھا جس کے بعد ائیر چیف کا نوٹیفیکشن واپس لے لیا گیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاائیر چیف خود سے الاؤنس دینے کا اختیار نہیں رکھتے تھے فنانس ڈویثرن کے اعتراض پر ائیر چیف کا نوٹیفیکیشن واپس لے لیا گیا جس کے بعد ملازمین نے فنانس ڈویژن کو فریق بنائے بغیر سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لیا ۔
ایڈیشنل اٹارنی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو غلط حقائق اور قانون بتا کر فیصلہ لیا گیا عدالتی حکم پر عملدرآمد کر چکے ہیں لیکن اب تمام ملازمین کو رسک الاوٴنس نہیں دیا جا سکتا جس پر چیف جسٹس نے کہا سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ ہے دو رکنی بینچ نہیں سن سکتا اب کیس کو تین رکنی بینچ کے سامنے ہی لگائیں گئے جس کے بعد عدالت تین رکنی بینچ کے سامنے مقر ر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ کیس پر لارجر بینچ تشکیل دیا جائے تاہم چیف جسٹس نے کہا لارجر بینچ کا فیصلہ تین رکنی بینچ ہی کرے گا۔