نظر آتے ہیں کچھ
عورت کے حوالے سے کوئی بھی قانون پاس کروانے سے پہلے بہت سی برائیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
کہتے ہیں کہ عورت ہی عورت کا دکھ سمجھ سکتی ہے، اگرچہ وہ گھر کی سربراہ ہو تو عدل و انصاف سے فیصلے کرکے اپنے گھر کی چار دیواری کو مضبوط کرتی ہے، لیکن ہمارے ملک کی سیاسی لیڈر خواتین کی کارکردگی عورت کے تحفظ کے لیے نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ روٹی، کپڑا اور مکان کی سیاست میں الجھی ہوئی سیاسی رہنما خواتین کو عورت ہی کی عزت پامال ہوتے ہوئے نظر نہیں آتی۔
وہ مرد لیڈروں کے ساتھ مہنگائی، ملک میں روز مرہ ہونے والے واقعات اور حالات پر بخوبی نظر رکھتے ہوئے ٹی وی ٹاک شوز میں آ کر سیاسی گفتگو کرکے اپنے آپ کو منتخب سیاسی پارٹی کی وفادار بننے کی کوششوں میں کوشاں نظر آتی ہے، جب کہ بحیثیت عورت کے وہ لیڈر بعد میں ہیں ، پہلے وہ عورت ہے۔
اگرچہ گنتی کے ہونے والے واقعات کو اہم رپورٹ بنایا بھی جاتا ہے تو وہ ایسے ہراسمنٹ، زیادتی، تیزاب گردی کے واقعات کے کیسز ہوتے ہیں جو بڑے گھرانوں یا اہم شخصیات کے ساتھ ہوں، ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے کا مقصد صرف عوام کے سامنے ایلیٹ کلاس کی شخصیات کو اہم خبر بناکر ٹی وی ٹاک شوز میں چورن بیچا جائے، ورنہ ہر روز ایک بچی، بالغ لڑکی، شادی شدہ خاتون کی عزت بے آبرو ہوتے دیکھ کر بھی چھوٹی سی خبر بناکر معاملات کو حالات کے سپرد کیا جاتا رہا ہے۔
پاور شو کرنے والے لیڈروں کے ساتھ خواتین لیڈر جلسے کو کامیاب کرنے کے لیے بھیڑ میں کھڑی ہوکر آواز سے آواز ملاتی ہوئی نظر آتی ہیں، لیکن افسوس جو طاقت عورت کو قدرت نے دی ہے اگر وہ کسی مظلوم متاثرہ خاتون/لڑکی یا بچی کے لیے کھڑے ہوکر آواز بلند کرے تو میں سمجھتی ہوں کہ عورت کے حوالے سے کوئی بھی قانون پاس کروانے سے پہلے بہت سی برائیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ معصوم بچی زینب اغوا ہوئی اور جب زیادتی کے بعد قتل کی گئی تو بہت سے لیڈران نے آئیں بائیں شائیں کی، خواتین لیڈران نے وہی رسمی گفتگو اور حکومتی بیانات کو دہرایا، عملاً کچھ نہ کرسکیں۔
موجودہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں ہونے والے عورتوں سے زیادتی کے واقعات انتہا درجے کو پہنچ چکے ہیں۔ آئے دن اخبارات میں ہر دوسری خبر زیادتی کے حوالے سے ہوتی ہے۔ اب اس بات کو کیسے مان لیا جائے کہ حکومت وقت کے ساتھ جڑی سیاسی خواتین لیڈرز کو ان واقعات کی خبر نہیں ہوگی؟ جب کہ اخباروں کے پلندے ان کے آفس میں موجود ہوتے ہیں، کیا ان کو یہ خبر نہیں ہوگی کہ تیرہ سالہ گھریلو ملازمہ کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ، پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق زیادتی ثابت ہوئی تھی۔
اسی طرح ڈسکہ میں جوان لڑکی کو گھر سے باہر ایک شخص نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اغوا کیا اور کسی نامعلوم جگہ پر زیادتی کی۔ جڑانوالا کے علاقے تھانہ ملت ٹاؤن میں بیس سالہ لڑکی سے ایک شخص اور دیگر ساتھیوں نے زیادتی کی۔ چک نمبر 72 میں طلحہ اور اس کے دوست نے 12 سالہ لڑکی کی عزت لوٹ لی۔ اسی طرح دل خراش واقعے میں ایک شخص نے ایک شادی شدہ خاتون کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ تھانہ مظفر آباد کے علاقے ہلال پارک کی 18 سالہ لڑکی کو ایک لڑکے نے بے آبرو کردیا۔
مذکورہ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے، اور یہ کوئی مان ہی نہیں سکتا کہ ان خواتین لیڈروں کی نظروں سے نہ گزرے ہوں اور انھوں نے بھی وہی کرنا ہے جو پچھلی حکومتوں کی لیڈ خواتین نے کیا اور آج بھی معصوم بچیوں پر بھیڑیے کی نظر رکھنے والا قانون کے ہوتے ہوئے آزاد گھوم رہا ہے۔
پاکستان میں لاقانونیت کی وجہ سے ہر صوبہ سے زیادتی کے واقعات میں مسلسل شدت نظر آرہی ہے۔ اسی لاقانونیت کی وجہ سے 2020 کی پہلی شش ماہی رپورٹ کے مطابق خواتین کے ساتھ زیادتی اور استحصال کے اعداد و شمار لیے گئے جس میں میڈیا رپورٹ کے مطابق 1365 جب کہ سرکاری رپورٹ کے مطابق 12,309رہے۔ ایسی صورتحال تب سامنے آتی ہے جب ریاست نے سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا ہو، فیکٹس اینڈ فگرز میں زمین آسمان کا فرق ان سیاسی خواتین کو کب نظر آئے گا؟
ہم نے پاکستان میں بہت سی حکومتوں کو آتے جاتے اور دوبارہ آتے جاتے دیکھا لیکن عورت کے حوالے سے کسی نے کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا، حتیٰ کہ کتنی ''خاتون اول'' آئیں اور گئیں، انھوں نے بھی صرف نام کا سہرا باندھا اور خاتون ہونے کی حیثیت سے خواتین کے لیے اور ان کے تحفظ کے لیے کچھ نہ کرسکیں۔ حکومت وقت کی ''خاتون اول'' بھی باقی سیاسی پارٹیوں سے منسلک لیڈر خواتین کے ساتھ اپنا اپنا وقت گزار کر چلی جائیں گی۔
کڑوا سچ تو یہ ہے کہ زیادتی کرنے والا مجرم پولیس کی گرفت میں تو آجاتا ہے لیکن اس ملزم کا چہرا ڈھانپ دیا جاتا ہے، دوسری طرف متاثرہ خاتون کا چہرہ اور میڈیکل ٹیسٹ تک پبلک کیا جاتا ہے۔ سرعام پھانسی تو دور کی بات ملزم کا منہ (چہرہ) تفتیش کے دوران ڈھانپ دیا جانے پرخواتین سیاست دان سوال کیوں نہیں اٹھاتیں؟ کیا پکڑے جانے والا ملزم واقعی ملزم ہے یا کرائے کا ملزم۔ ہم کیسے یقین کرلیں کہ گرفت میں آنے والا واقعی وہی ملزم ہے؟
اس معاملے پر عملدرآمد کروانا سیاسی لیڈروں کے ذمے آتا ہے۔ حکومت وقت نے پچھلے تین سال کے آٹھ مارچ جوکہ خواتین کا دن منایا جاتا ہے بڑی بڑی تقریریں عورت کے تحفظ کے بارے میں کی گئیں لیکن قانون کو سخت اور لاگو کرنے کے بجائے معاشرے پر ذمے داری عائد کرنے کی باتیں کی گئیں کیونکہ ہم جنگل میں جو رہتے ہیں۔
سیاسی لیڈر خواتین اگرچہ سنجیدگی سے خواتین کے تحفظ کے حوالے سے قانون لاگو کروائیں تو یہ ازل سے بگڑا ہوا معاملہ بہتر ہو سکتا ہے۔ ورنہ تو جو ہر حکومت کی سیاسی خواتین نے اپنا دائرہ کھینچ کر خود کو ہی محفوظ رکھا لیکن غریب مسکین، عوام کی بچیوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
ہیں کوا کب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
(غالب)