سکوت بول پڑا
پابندی اظہار کے زمانے میں سکوت کس طرح بول پڑتا ہے.
عبدالوحید بلوچ ، جن کا قلمی نام وحید نور ہے۔ 1971ء میں کراچی کے قدیمی علاقہ لیاری میں پیدا ہوئے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں پولٹیکل سائنس میں ماسٹر اور ایل ایل بی کیا ہے، گزشتہ 23 سالوں سے وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ 2008ء میں کراچی بارکے ایگزیکیٹو باڈی کے منتخب ممبر رہ چکے ہیں۔
یہ وہ پرآشوب دور تھا جب ملک میں آمر حکمران پرویز مشرف کی حکومت تھی، ججز بحالی تحریک عروج پر تھی اورکراچی میں ایک سیاسی تنظیم کی جانب سے سٹی کورٹ کے قریب وکلا کے دفاتر میں آگ لگادی گئی تھی جس کے نتیجے میں متعدد وکلاء زندہ جل گئے تھے اورکراچی ہی میں 12مئی کا دلخراش واقعہ رونما ہوچکا تھا جس میں ان گنت بے گناہ انسان حکومتی حمایت یافتہ سیاسی تنظیم کی بے رحم گولیوں کا نشانہ بنادیے گئے تھے اور حکمران ہوا میں مکا لہرا رہے تھے کہ ابھی یہ ایک ٹیلر ہے ، فلم باقی ہے۔
اسی دوران عبدالوحید نور نے لیاری سے وابستہ دیگر وکلاء کے ہمراہ وکلاء تحریک میں بھر پور حصہ لیا اور حکومت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے اور حق کی آواز بلند کی جس کے اعتراف میں کراچی بار میں نصب مونومنٹ وکلا تحریک یادگار پر 28 وکلاء کے نام کندہ ہیں جس میں وحید نور کا نام بھی شامل ہے۔ وحید نور کراچی آرٹس کونسل کے کوآرڈینٹر بھی ہیں جو ادبی حوالے سے لیاری کراچی اور بلوچستان کے معاملات ذمے داری سے بہ احسن خوبی ادا کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے ممبر بھی ہیں جہاں وہ انسانی حقوق کے معاملات میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
ہر سال کراچی میں منعقدہ سب سے بڑا تین روزہ ادبی میلہ جسے عالمی لٹریچر میلہ کہا جاتا ہے ، اس میں وحید نور گزشتہ 5 سالوں سے بلوچی ادب کی نمایندگی کرتے چلے آرہے ہیں۔ علاوہ ازیں کراچی آرٹس کونسل کے مقامی اور عالمی اردو کانفرنس میلوں میں بھی نما یندگی کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ لٹریچر فورم میں بھی شرکت کرچکے ہیں۔
جہاں انھوں نے اپنا معروف کلام '' یہ بستی ہے لیاری '' سنایا تھا جسے بعد میں گانے کی صورت میں ریکارڈ کرایا گیا اور عوام میں بہت مقبول ہوا۔ وحید نور کے دادا ایشرق اپنی بیوی بچوں کے ہمراہ مکران دشت سے ہجرت کرکے کراچی کے علاقے ملیر میںآباد ہوگئے تھے ، اس وقت ان کے والد نور محمد کی عمر 12سال تھی۔ وحید نور کی والدہ کا تعلق ایران سے تھا جو لیاری ، چاکیواڑہ میں آباد ہوئیں۔ وحید نور کے نانا عبدالحکیم اگو اپنے وقت کے ممتاز شاعر تھے جن کا شمار بلوچی اور فارسی زبانوں کے اولین شاعروں میں ہوتا تھا لیکن اس وقت وحید نور کے نانا کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ آنے والے وقت میں ان کا نواسہ وحید نور بھی ان کے نقش قدم پر چل کر معروف شاعر بن جائے گا۔
جی ہاں ! ہمہ جہت شخصیت کے حامل وحید نور ایک بے باک اور دلکش شاعر بھی ہیں ان کی شاعری کا اولین مجموعہ کلام '' سکوت بول پڑا '' کی تقریب رونمائی ہوچکی ہے جب کہ ان کی دوسری کتاب2022ء میں منظر عام پر آئے گی ۔ سکوت بول پڑا 200 صفحات پر مشتمل ہے ، جس کا سرورق دیدہ زیب ہے ، اس کتاب کو ویلکم بک پورٹ نے شایع کیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب کو اپنے جاننے والوں اور اپنے آپ کو پہچاننے والوں کے نام سے منسوب کیا ہے۔ اس کتاب کے دیباچہ میں پروفیسر سحر انصاری نے لکھا ہے کہ وحید نور کے یہاں سکوت کا استعارہ بھی بلیغ انداز میں نمایاں ہوا ہے۔ پابندی اظہار کے زمانے میں سکوت کس طرح بول پڑتا ہے ۔
بلا شور مچا ہے ، عجب تھا حشر بپا
ہجوم چپ جو ہوا تو سکوت بول پڑا
وحید نور ایک رجائی شاعر ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ جبر و ظلم کی کالی رات ضرور ختم ہوگی اور امن و آشتی کی صبح ضرور طلوع ہوگی ۔
رات گہری ہے اورکالی ہے
ہو نہ ہو صبح ہونے والی ہے
وحید نور صرف بلوچوں کے لیے سوچتے اور لکھتے نہیں ہیں بلکہ وہ ایک روشن خیال ، انسان دوست اور ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے ہر مسئلے پر اپنا تخلیقی ردعمل ظاہر کرتے ہیں جس کا تعلق انسانی اقدار سے ہے ۔ اس میں مقامی مسائل بھی ہیں اور عالمی منظر نامہ بھی۔ اسی طرح وحید نورکے دوسرے اشعار میں تازگی اور تاثیر اسی لیے ہے کہ انھوں نے کسی فرضی یا خیالی معاشرے کا تذکرہ نہیں کیا ہے بلکہ ان کا مشاہدہ ہے اور ان پرسب کچھ بیتی بھی ہے ۔
سب کچھ آنکھوں دیکھا ہے یہ اخباری بات نہیں
زندہ ہونٹوں کے قصے ہیں ، دیواروں کی بات نہیں
مبارک قاضی نے بھی اس کتاب پر اپنے تاثرات قلم بندکیے ہیں۔ وحید نور لفظوں کے ساتھ کھیلتا ہے اور اپنے احساسات کو اس طرح بیان میں ڈھالتا ہے کہ لفظ تشبیہ اور استعارے گوکہ اردو میں ہوتے ہیں مگر اس کے اندر کی بلوچیت اس کلام میں ان ستاروں کے بیچ چاند کی صورت نمایاں ہوتی نظر آتی ہے۔
ساحلوں پر بسنے والی بستیاں پیاسی رہیں
تھرکا شکوہ کیا کریں جب پیاسا خود گوادر ہوا
...
سچ بیانی کبھی رکے گی نہیں
کچھ بھی ہو روشنی رکے گی نہیں
یہ جو ہونٹوں پہ بات ہے دل کی
سن ! مری خامشی ! رکے گی نہیں