لیاقت علی خان ڈاکٹرعبدالقدیر حکیم سعید اور دلِ ویران

نوجوانی کے قدم سے لے کر بڑھاپے کی دہلیز تک آپ کو لوگوں کے دلوں کا احترام کرنا پڑتا ہے۔

meemsheenkhay@gmail.com

دنیا کی وسعتوں میں کھو گئے ہو تم

مٹی کے نرم بستر پر سو گئے ہو تم

وہ حسن نظر وہ محبت کی رعنائیاں

ڈھونڈیں کہاں پردیس جو گئے ہو تم

کسی بھی اچھے اور مستند اخبار میں کالم لکھنا بہت مشکل ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ الفاظ کا چناؤ خوبصورت موتیوں کی طرح کرنا پڑتا ہے کہ نوجوانی کے قدم سے لے کر بڑھاپے کی دہلیز تک آپ کو لوگوں کے دلوں کا احترام کرنا پڑتا ہے۔

ماہ اکتوبر نے تو گراں قدر شخصیات کو آہوں کراہوں کے تحت واجب الاحترام کردیا ہے۔ گزشتہ دنوں صوبہ سندھ کی ایک منفرد شخصیت جن کے بغیر چڑیا تو چھوڑیے بڑا باز بھی پَر نہیں مار سکتا فرما رہے تھے لیاقت علی خان کی برسی کے موقع پر، کہ لیاقت علی خان فرزند کراچی اور کراچی میں ہی ان کی شہادت ہوئی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے خوبصورت شہر پنڈی میں ان کی شہادت ہوئی اور پنڈی کو اس غم سے انھوں نے محروم کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی کے لیے ان کی لازوال خدمات جو کتابوں اور تاریخ میں انکشافات کے تحت موجود ہیں اور تاریخ ہمیشہ سچ پر مبنی ہوتی ہے۔

15 اگست 1947 میں گورنر ہاؤس کراچی میں وزیر اعظم منتخب ہوئے، 25 فروری 1948 میں اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو اس ملک کی سرکاری زبان ہوگی ،15 اپریل 1948 کو پانی کے جہاز کا افتتاح کیا اور مسلح افواج کو خراج تحسین پیش کیا، 19 ستمبر 1949 کو اردو کالج کا افتتاح کیا۔

اپریل 1950 وزیر اعلیٰ سندھ یوسف ہارون کی جگہ قاضی فضل کو وزیر اعلیٰ نامزد کیا گیا۔ 7 ستمبر 1950 صنعتی میلے کا افتتاح کیا جس میں دنیا کے 8 ممالک نے شرکت کی۔ 16 جولائی 1951 میں ریڈیو پاکستان کا افتتاح کیا (یہ تمام تاریخی باتیں تاریخ میں موجود ہیں اور اس وقت کے اخبارات نے اسے شایع بھی کیا) یہ عظیم شخصیت 16 اکتوبر 1951 کو شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئی۔ کراچی کے لیے ان کی خدمات قابل رشک تھیں۔

لیجیے ماہ اکتوبرکا ایک سانحہ اور دیکھ لیں جنھیں ان کے چاہنے والوں نے مایوسی کی گرد کے ساتھ سپرد خاک کیا۔ ڈاکٹر قدیر خان شہید، اس ملک میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر شہادت کا رتبہ دیا جاتا ہے، وہ تو اس قوم کے دلوں میں شہید ہیں اور دلوں میں ہی سپرد خاک ہیں، ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نہ مانا گیا تو اس معاشرے کا کیا بنے گا وہ بہت زندہ دل انسان تھے۔

راقم الحروف سے ایک ملاقات ایک نجی چینل میں ہوئی تھی، اس کا احوال بعد میں بیان کروں گا وہ ایک سائنس دان تھے پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں بلایا وہ سب کچھ چھوڑکر دیار غیر سے پاکستان چلے آئے ، اس میں بھٹو صاحب خراج عقیدت کے قابل ہیں وہ ہالینڈ سے پاکستان آئے اور اس ملک کو ایٹمی قوت بنا دیا۔ ان کی وجہ سے یہ قوم سینہ تان کر چلتی ہے اور آج ہم ان کے مقروض ہیں وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں شمع محبت بن کر زندہ رہیں گے۔

ان کے جنازے میں کسی بااثر شخصیت نے شرکت نہیں کی، اس المیے پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے ان سے کچھ غلطیاں ہوئیں وہ پاکستان آ کر دودھ کی دکان کھول لیتے، دودھ میں پانی ملا کر فروخت کرتے کروڑوں کے مالک ہوتے، کوئی برگر کی دکان بنا لیتے، 5 بائی 5 کی دکان اور 20 فٹ روڈ پر قبضہ کرلیتے تو کروڑوں کما لیتے اور لوگ ان کو اعزازی طور پر سلام تحسین پیش کرتے۔ نہاری کی دکان کھول کر کسی بھی وفاقی وزیر سے افتتاح کروا لیتے تو بڑے بزنس مین کہلاتے ، جوتے کی دکان کھول لیتے قوم کو معاشی طور پر جوتے بھی مارتے اور جوتے بھی خوب فروخت ہوتے، کوئی مہنگا تعلیمی ادارہ کھول لیتے تو جون جولائی کی فیس وصول کرکے عیش کرتے، سیاست میں آجاتے تو ساری عمر پروٹوکول اور بھاری پنشن وصول کرتے ، یہ بات دوسری ہے کہ یہ قوم ایٹمی قوت نہ ہونے کی وجہ سے چوہے کی زندگی گزار رہی ہوتی۔


آج سیاسی حضرات کہتے ہیں کہ پاکستان پر کسی نے میلی نظر ڈالی تو ہم آنکھیں نکال دیں گے یہ بھی انھی کا دم ہے جو سب اچھل اچھل کر بیان دیتے ہیں، ڈاکٹر عبدالقدیر خان یہ قوم آپ کو دل سے خراج عقیدت پیش کرتی ہے کہ آپ اس قوم کے دلوں میں مجاہد شہید کی طرح مدفون ہیں یہ بات دوسری ہے کہ دو بار نشان امتیاز، ہلال امتیاز لینے والے ڈاکٹر قدیر (شہید) کے نماز جنازہ میں کسی قابل ذکر سیاست دان نے شرکت نہیں کی یہ بات یاد رکھیں جو دلوں میں زندہ رہتے ہیں وہ رب کے ہاں بھی اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں یہ وعدہ تو غفور الرحیم کا ہے اپنے بندوں سے۔

آئیے ! اب ان سے دس منٹ کی ملاقات کا تذکرہ بھی کیے دیتا ہوں۔ اداس رنگ تو ان کی زندگی میں تھا ہی نہیں مگر یہاں ناقدروں نے انھیں اندر سے توڑ پھوڑ دیا تھا، یہ بھی ایک المیہ ہے پاکستان میں بڑے جرنلسٹ جو دنیا میں نہیں ہیں اور جو حیات ہیں انھوں نے اپنی صحافت کا آغاز شوبزنس سے کیا تھا ناموں کا پردہ رہنے دیں چونکہ راقم ابھی طفل مکتب ہے مگر کافی عرصہ شوبزنس سے بھی وابستہ رہا۔

دس منٹ کی ملاقات میں ان سے شوبزنس کے حوالے سے جو سوال کیے انھوں نے بہت خوبصورتی سے جواب دیے۔ (اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ زندہ دل انسان تھے) طبیعت میں شوخی بھی پائی جاتی تھی، گلوکاروں کے حوالے سے انھوں نے مہندی حسن مرحوم کی تعریف کی اور ان کا یہ گیت انھیں بہت پسند تھا، فلم ''عظمت'' کا گیت:

زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں

گلوکارہ نیرہ نور (رب انھیں زندگی دے) کی یہ غزل :

اے جذبہ دل گر میں چاہوں' ہر چیز مقابل آجائے

موسیقار نثار بزمی کا یہ گیت جو بہت پسند کیا گیا تھا:

جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں

علی سفیان آفاقی مرحوم شوبزنس کے بڑے صحافی تھے، ان کا تعلق بھوپال سے تھا اور قدیر صاحب کا تعلق بھی بھوپال سے تھا، ان کی فلم ''آس'' انھوں نے دیکھی تھی اور انھیں بہت پسند آئی تھی، ڈاکٹر صاحب نے بتایا تھا کہ بحیثیت اداکار محمد علی مرحوم مجھے پسند تھے اور وہ اس فلم کے مرکزی کردار تھے جب کہ ندیم بھی پسند تھے، ڈاکٹر صاحب انکساری، بلند اخلاق اور شائستگی کا خوبصورت دروازہ تھے، جس سے ہمیشہ تعلیم یافتہ حضرات مستفید ہوئے، وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں شہیدوں کی طرح زندہ رہیں گے۔ خداوند کریم ان کی بیٹیوں محترمہ دینا خان، عائشہ خان اور ان کے لواحقین کو صبر و جمیل عطا کرے آمین۔

آئیے ! اب اس شخصیت کا بھی تذکرہ ہو جائے جن کی اکتوبر میں 24 ویں یوم شہادت پر برسی تھی۔ حکیم سعید جن کے چاہنے والے اور ان سے مستفید ہونے والے آپ کو کراچی سے لے کر خیبر تک ملیں گے یہ وہ تاریخی شخصیات ہیں ، جن کو تاریخ زندہ رکھے گی۔ آج تو کوئی کسی بھی شعبے میں نظر نہیں آتا ، جو تاریخ کا حصہ بن سکے، ان کی خدمات سے لاکھوں مریض مستفید ہوئے ان کی تاریخی کامیابیاں بہت طویل ہیں، بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ جب وہ صوبہ سندھ کے گورنر تھے تو صبح آرام باغ کراچی میں 6 بجے مریضوں کو بحیثیت گورنر دیکھا کرتے تھے اور 9 بجے اپنی سواری سے گورنر ہاؤس جایا کرتے تھے۔

راقم نے بھی ایک دفعہ بحیثیت مریض کے ان کو دکھایا تھا جس کا میں گواہ ہوں، ان کے دوا خانے کے توسط سے آج بھی کروڑوں مریض ان کو دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں اور آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ حکیم سعید کی خدمات کا سلسلہ بھی بہت طویل ہے، سابق وزیر اعظم لیاقت علی خان، ڈاکٹر قدیر خان اور حکیم سعید کے لیے احساس کرنے والے دل آج بھی غم زدہ اور آنکھیں اشکبار ہیں، آیندہ پاکستان کی تاریخ میں یہ انمول ہیرے پیدا نہیں ہوں گے آنے والے وقت کے لیے یہ اس ملک کا المیہ ہے۔
Load Next Story