گورنر اسٹیٹ بینک صاحب سب کا فائدہ کیجئے ناں
کیوں نہ 22 کروڑ پاکستانیوں کو باہر بھیج دیا جائے تاکہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے سب ہی کو فائدہ ہو
پاکستان کی قسمت میں ایسی ایسی نادر و نایاب نابغہ شخصیات آئی ہیں، جن کی ''دانشمندانہ'' باتیں عام ذہن رکھنے والے پاکستانیوں کو انگشت بدندان کردیتی ہیں۔ یہاں ہم وزیراعظم پاکستان کا تذکرہ تو بالکل ہی نہیں کررہے کہ بسا اوقات اُن کی کہی ہوئی بات خود انھیں ہی سمجھ میں نہیں آتی اور کچھ عرصے بعد وہ اپنی ہی کہی بات سے ''یوٹرن'' لیتے نظر آتے ہیں۔ لیکن حالیہ جو اسٹیٹ بینک کے گورنر نے ڈالر کے مہنگا ہونے کے فوائد گنوائے ہیں، اس نے عام پاکستانی کو سر دھننے پر مجبور کردیا ہے۔ ایسی اعلیٰ و ارفع منطق بھلا ہم کم عقلوں کو کہاں سوجھنے والی تھی۔
اب تک تو ہم وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ڈالر مہنگا ہونے کے نقصانات ہی سنتے آئے تھے کہ اگر ڈالر ایک روپیہ بھی مہنگا ہوجائے تو پاکستان پر قرضوں میں کئی ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے اور اشیا مہنگی ہوجاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ وہ تو بھلا ہو گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا جنھوں نے ڈالر کی قیمت کنٹرول کرنے میں ناکامی کے بعد یہ نکتہ بھی سمجھایا کہ ڈالر مہنگا ہونے سے اگر کچھ پاکستانیوں کو نقصان ہورہا ہے تو سمندر پار پاکستانیوں کے اہل خانہ کو فائدہ بھی ہورہا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک کے اس بیان کے بعد تو اکثر لوگوں کو ''ڈالر ڈالر کی سوجھ'' رہی ہے۔ ملک میں مہنگائی کا جو عالم ہے ایسے میں سخت محنت کے بعد روپوں میں کمائی کا ''مزہ'' ہی نہیں رہا۔ پورا دن جان جوکھم میں ڈال کر اپنا پسینہ بہانے والا عام پاکستانی بمشکل پانچ سو سے ہزار روپے ہی کما پاتا ہے (شاید یہ بھی ہم نے زیادہ بیان کردیئے) اور اگر اس رقم کو ڈالر میں تبدیل کرکے دیکھا جائے تو روزانہ تین سے پانچ چھ ڈالر ہی معاوضہ مل پاتا ہے۔ یعنی آٹھ سے بارہ گھنٹے محنت مزدوری کے بعد بھی صرف پانچ چھ ڈالر۔ لیکن ذرا تقابل کیجئے کہ بیرون ملک مثلاً امریکا میں موجود ہمارے پاکستانی بھائی اگر بیرا گیری یا ریسٹورنٹ میں برتن دھونے کا کام بھی کرتے ہیں تو انھیں فی گھنٹہ کم از کم پندرہ ڈالر معاوضہ ملتا ہے، یعنی پاکستانی کرنسی میں تقریباً ڈھائی ہزار روپے وہ بھی صرف ایک گھنٹے میں۔ بس یہی وہ نکتہ ہے جو ہمارے یہاں کے دانشوران اور ہر حکومت کے حمایتی دانستہ نظر انداز کردیتے ہیں۔
اب واپس آتے ہیں گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے بیان کی جانب، برطانیہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رضا باقر کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے کچھ لوگوں کو فائدہ اور کچھ کو نقصان ہوتا ہے۔ موصوف کے مطابق اوورسیز پاکستانیوں کو فائدہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے بھیجے پیسے پاکستان میں ان کے پیاروں کو زیادہ ملتے ہیں۔
ظاہر ہے جب ڈالر سو روپے کا ہو اور کوئی بیرون ملک مقیم پاکستانی سو ڈالر اپنے رشتے داروں کو پاکستان بھیجے تو وہ سو ڈالر نہیں بلکہ پاکستان کے دس ہزار روپے ہوں گے، لیکن جب یہی ڈالر 170 روپے کا ہوگا تو پاکستانی رشتے دار کو سو ڈالر کے بدلے سترہ ہزار روپے ملیں گے۔ فائدہ تو ہوا ناں! پورے سترہ ہزار روپے زیادہ ملے۔
رضا باقر کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف ان لوگوں کی بات نہ کریں جنہیں نقصان ہوتا ہے، جنہیں فائدہ ہوتا ہے ہمیں ان لوگوں کو بھی نہیں بھولنا چاہئے۔ چلیے جناب مان لیتے ہیں آپ کی یہ بات بھی، اور صرف ان لوگوں کا تذکرہ کرتے ہیں جنھیں ڈالر کی قیمت بڑھنے سے فائدہ ہورہا ہے۔ لیکن پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی تعداد کتنی ہے اور انھیں حقیقتاً فائدہ ہو بھی رہا ہے؟
سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ ملک کی آبادی کا محض چار فیصد یعنی تقریباً 9 ملین افراد دنیا کے مختلف 115 ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ ان میں سے کچھ بسلسلہ روزگار و تعلیم اور کچھ وہاں مکمل سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی زرِ مبادلہ بھیج کر پاکستانی معیشت کے استحکام میں اپنا اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ خاص کر وہ پاکستانی قابل تعظیم ہیں جو اپنے خاندان کے مستقبل کی خاطر اپنے رشتے داروں اور وطن کی مٹی سے دور اپنے ماہ و سال گزار رہے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک کو سو روپے فی ڈالر کے مقابلے میں ایک سو ستر روپے کا ڈالر زیادہ فائدہ مند نظر آرہا ہے لیکن وہ بہت سی بنیادی باتیں فراموش کرگئے ہیں۔ ہم یہاں اکانومی کی پیچیدہ باتیں نہیں دہرائیں گے لیکن کچھ عوامی باتوں کو تو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کے باعث ملک میں مہنگائی کا جو طوفان آتا ہے اور اس کے پیچھے جو عوامل ہوتے ہیں اس سے اب بچہ بچہ واقف ہے، لیکن انجان ہیں تو صرف وہی لوگ جنھیں اس ملک کا اقتدار حاصل ہوا اور جنھیں اس ملک کی پالیسیاں مرتب کرنی ہیں۔ اور یہی سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس طبقے کو ان حالات و واقعات کا ذرا بھی ادراک نہیں جس کا سامنا عوام کو کرنا پڑ رہا ہے۔
مہنگائی تو اس ملک کا مقدر بن گئی ہے لیکن جب ڈالر سو روپے کا تھا اس وقت کی مہنگائی قابل برداشت تھی، لیکن آج کی مہنگائی نے سفید پوشوں کو بھی ہاتھ پھیلانے پر مجبور کردیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک سیدھا سا یہ تقابل بھی کرلیتے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی کے رشتے دار کو یہاں ڈالر کے مقابلے میں زیادہ روپے تو بے شک ملیں گے لیکن اس کی وجہ سے مہنگائی کا جو زور ہے اس کے سامنے وہ زیادہ روپے بھی کم ثابت ہوں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ روپے کی قدر گھٹنے سے اس سو روپے کے مقابلے میں 170 روپے بھی اب کم ہوگئے ہیں۔ جب ڈالر فی سو روپے تھا اس وقت اجناس اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں نکال لیجئے اور آج جب تقریباً 174 روپے کا ہوگیا ہے تو آج کی قیمتیں بھی دیکھ لیجئے۔
صاحبان اقتدار تو اس بات سے بھی ناواقف ہوں گے کہ ان کی ناقص پالیسیوں نے پاکستان کو دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک بنا دیا ہے۔
رضا باقر صاحب جس عہدے پر موجود ہیں، اس پر لاعلمی کی یہ ''بے تکی'' باتیں زیب نہیں دیتیں۔ یا پھر بڑے بوڑھوں کے انداز تکلم میں کہا جائے تو یہ سب پیٹ بھرے کی باتیں ہیں۔ جس انسان کو بھوک اور غربت کا علم ہی نہ ہو وہ کہاں یہ سب باتیں سمجھ پائے گا۔ ہم نے کسی کی سیلری سلپ تو نہیں دیکھی، لیکن سننے میں تو کچھ ایسا ہی آیا ہے موصوف کی تنخواہ 35 لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے۔ اب بھلا بتائیے کیا پینتیس لاکھ ماہانہ کمانے والا پندرہ ہزار روپے ماہانہ کمانے والے کا درد سمجھ سکتا ہے۔ ایسے میں تو پھر یونہی ہانکی جائے گی اور ملکہ کی طرح مشورہ دیا جائے گا کہ ڈبل روٹی نہیں کھا سکتے تو کیک کھالیں۔
رضا باقر صاحب ہوش کے ناخن لیجئے۔ اگر آپ سے ڈالر کی قیمت نہیں سنبھل رہی تو اپنی ناکامی کا اعتراف کیجئے، یوں بے پر کی نہیں چھوڑئیے۔ یا اگر آپ کو اب بھی لگتا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے رشتے داروں کو ڈالر کی قیمت بڑھنے سے فائدہ ہوتا ہے تو کیوں نہ 22 کروڑ پاکستانیوں کو باہر بھیج دیا جائے تاکہ سب کا ہی فائدہ ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اب تک تو ہم وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ڈالر مہنگا ہونے کے نقصانات ہی سنتے آئے تھے کہ اگر ڈالر ایک روپیہ بھی مہنگا ہوجائے تو پاکستان پر قرضوں میں کئی ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے اور اشیا مہنگی ہوجاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ وہ تو بھلا ہو گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا جنھوں نے ڈالر کی قیمت کنٹرول کرنے میں ناکامی کے بعد یہ نکتہ بھی سمجھایا کہ ڈالر مہنگا ہونے سے اگر کچھ پاکستانیوں کو نقصان ہورہا ہے تو سمندر پار پاکستانیوں کے اہل خانہ کو فائدہ بھی ہورہا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک کے اس بیان کے بعد تو اکثر لوگوں کو ''ڈالر ڈالر کی سوجھ'' رہی ہے۔ ملک میں مہنگائی کا جو عالم ہے ایسے میں سخت محنت کے بعد روپوں میں کمائی کا ''مزہ'' ہی نہیں رہا۔ پورا دن جان جوکھم میں ڈال کر اپنا پسینہ بہانے والا عام پاکستانی بمشکل پانچ سو سے ہزار روپے ہی کما پاتا ہے (شاید یہ بھی ہم نے زیادہ بیان کردیئے) اور اگر اس رقم کو ڈالر میں تبدیل کرکے دیکھا جائے تو روزانہ تین سے پانچ چھ ڈالر ہی معاوضہ مل پاتا ہے۔ یعنی آٹھ سے بارہ گھنٹے محنت مزدوری کے بعد بھی صرف پانچ چھ ڈالر۔ لیکن ذرا تقابل کیجئے کہ بیرون ملک مثلاً امریکا میں موجود ہمارے پاکستانی بھائی اگر بیرا گیری یا ریسٹورنٹ میں برتن دھونے کا کام بھی کرتے ہیں تو انھیں فی گھنٹہ کم از کم پندرہ ڈالر معاوضہ ملتا ہے، یعنی پاکستانی کرنسی میں تقریباً ڈھائی ہزار روپے وہ بھی صرف ایک گھنٹے میں۔ بس یہی وہ نکتہ ہے جو ہمارے یہاں کے دانشوران اور ہر حکومت کے حمایتی دانستہ نظر انداز کردیتے ہیں۔
اب واپس آتے ہیں گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے بیان کی جانب، برطانیہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رضا باقر کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے کچھ لوگوں کو فائدہ اور کچھ کو نقصان ہوتا ہے۔ موصوف کے مطابق اوورسیز پاکستانیوں کو فائدہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے بھیجے پیسے پاکستان میں ان کے پیاروں کو زیادہ ملتے ہیں۔
ظاہر ہے جب ڈالر سو روپے کا ہو اور کوئی بیرون ملک مقیم پاکستانی سو ڈالر اپنے رشتے داروں کو پاکستان بھیجے تو وہ سو ڈالر نہیں بلکہ پاکستان کے دس ہزار روپے ہوں گے، لیکن جب یہی ڈالر 170 روپے کا ہوگا تو پاکستانی رشتے دار کو سو ڈالر کے بدلے سترہ ہزار روپے ملیں گے۔ فائدہ تو ہوا ناں! پورے سترہ ہزار روپے زیادہ ملے۔
رضا باقر کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف ان لوگوں کی بات نہ کریں جنہیں نقصان ہوتا ہے، جنہیں فائدہ ہوتا ہے ہمیں ان لوگوں کو بھی نہیں بھولنا چاہئے۔ چلیے جناب مان لیتے ہیں آپ کی یہ بات بھی، اور صرف ان لوگوں کا تذکرہ کرتے ہیں جنھیں ڈالر کی قیمت بڑھنے سے فائدہ ہورہا ہے۔ لیکن پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی تعداد کتنی ہے اور انھیں حقیقتاً فائدہ ہو بھی رہا ہے؟
سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ ملک کی آبادی کا محض چار فیصد یعنی تقریباً 9 ملین افراد دنیا کے مختلف 115 ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ ان میں سے کچھ بسلسلہ روزگار و تعلیم اور کچھ وہاں مکمل سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی زرِ مبادلہ بھیج کر پاکستانی معیشت کے استحکام میں اپنا اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ خاص کر وہ پاکستانی قابل تعظیم ہیں جو اپنے خاندان کے مستقبل کی خاطر اپنے رشتے داروں اور وطن کی مٹی سے دور اپنے ماہ و سال گزار رہے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک کو سو روپے فی ڈالر کے مقابلے میں ایک سو ستر روپے کا ڈالر زیادہ فائدہ مند نظر آرہا ہے لیکن وہ بہت سی بنیادی باتیں فراموش کرگئے ہیں۔ ہم یہاں اکانومی کی پیچیدہ باتیں نہیں دہرائیں گے لیکن کچھ عوامی باتوں کو تو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کے باعث ملک میں مہنگائی کا جو طوفان آتا ہے اور اس کے پیچھے جو عوامل ہوتے ہیں اس سے اب بچہ بچہ واقف ہے، لیکن انجان ہیں تو صرف وہی لوگ جنھیں اس ملک کا اقتدار حاصل ہوا اور جنھیں اس ملک کی پالیسیاں مرتب کرنی ہیں۔ اور یہی سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس طبقے کو ان حالات و واقعات کا ذرا بھی ادراک نہیں جس کا سامنا عوام کو کرنا پڑ رہا ہے۔
مہنگائی تو اس ملک کا مقدر بن گئی ہے لیکن جب ڈالر سو روپے کا تھا اس وقت کی مہنگائی قابل برداشت تھی، لیکن آج کی مہنگائی نے سفید پوشوں کو بھی ہاتھ پھیلانے پر مجبور کردیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک سیدھا سا یہ تقابل بھی کرلیتے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی کے رشتے دار کو یہاں ڈالر کے مقابلے میں زیادہ روپے تو بے شک ملیں گے لیکن اس کی وجہ سے مہنگائی کا جو زور ہے اس کے سامنے وہ زیادہ روپے بھی کم ثابت ہوں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ روپے کی قدر گھٹنے سے اس سو روپے کے مقابلے میں 170 روپے بھی اب کم ہوگئے ہیں۔ جب ڈالر فی سو روپے تھا اس وقت اجناس اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں نکال لیجئے اور آج جب تقریباً 174 روپے کا ہوگیا ہے تو آج کی قیمتیں بھی دیکھ لیجئے۔
صاحبان اقتدار تو اس بات سے بھی ناواقف ہوں گے کہ ان کی ناقص پالیسیوں نے پاکستان کو دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک بنا دیا ہے۔
رضا باقر صاحب جس عہدے پر موجود ہیں، اس پر لاعلمی کی یہ ''بے تکی'' باتیں زیب نہیں دیتیں۔ یا پھر بڑے بوڑھوں کے انداز تکلم میں کہا جائے تو یہ سب پیٹ بھرے کی باتیں ہیں۔ جس انسان کو بھوک اور غربت کا علم ہی نہ ہو وہ کہاں یہ سب باتیں سمجھ پائے گا۔ ہم نے کسی کی سیلری سلپ تو نہیں دیکھی، لیکن سننے میں تو کچھ ایسا ہی آیا ہے موصوف کی تنخواہ 35 لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے۔ اب بھلا بتائیے کیا پینتیس لاکھ ماہانہ کمانے والا پندرہ ہزار روپے ماہانہ کمانے والے کا درد سمجھ سکتا ہے۔ ایسے میں تو پھر یونہی ہانکی جائے گی اور ملکہ کی طرح مشورہ دیا جائے گا کہ ڈبل روٹی نہیں کھا سکتے تو کیک کھالیں۔
رضا باقر صاحب ہوش کے ناخن لیجئے۔ اگر آپ سے ڈالر کی قیمت نہیں سنبھل رہی تو اپنی ناکامی کا اعتراف کیجئے، یوں بے پر کی نہیں چھوڑئیے۔ یا اگر آپ کو اب بھی لگتا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے رشتے داروں کو ڈالر کی قیمت بڑھنے سے فائدہ ہوتا ہے تو کیوں نہ 22 کروڑ پاکستانیوں کو باہر بھیج دیا جائے تاکہ سب کا ہی فائدہ ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔