زرمبادلہ کے ذخائر پٹرول کی قیمت اور بے روزگاری

اب حکومت جو بھی اقدام اٹھانا چاہتی ہے اس کے نتائج عارضی ہوں گے۔

اقتدار میں آنے سے قبل ہر سیاسی جماعت اپنے منشور میں اس بات کا برملا اعلان کرتی ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ عوام کے مسائل فوری طور پر حل کردے گی۔ پاکستانی عوام کے یوں تو کئی مسائل ہیں ان میں بہت سے مسائل مقامی سطح کے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی پورے پاکستان کا اہم مسئلہ مہنگائی ، بے روزگاری اس کے علاوہ دیگر کئی مسائل ہیں۔

1960کی دہائی میں جن دو منصوبوں پر عمل کرتے رہے ان میں اس طرح کی پیش بندیاں کرلی گئی تھیں کہ مہنگائی نہ ہونے پائے اور روزگار کے مواقع بڑھتے رہیں، اس وقت کے معاشی حکام اس بات کا ادراک رکھتے تھے کہ آئی ایم ایف سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔

1955 سے لے کر 1968 تک ملک بھر میں کارخانوں کے قیام کا سلسلہ بڑھتا رہا اور ہر فیکٹری کے گیٹ پر یہ بورڈ بھی لگا دیا جاتا تھا کہ ضرورت ہے، کاریگروں کی، ہنرمندوں کی، کلرکوں کی اور مزدوروں کی بھی۔ اس طرح لوگ برسر روزگار بھی ہوتے چلے گئے اور عرصہ دراز تک اشیا کی قیمتیں بھی مستحکم رہیں۔

البتہ کچھ معمولی کمی بیشی کسی شے کی قیمت میں ہوتی تو وہ سبزیاں یا پھل وغیرہ ہیں ، لیکن 1973 میں جب روپے کی قدر کو سخت ترین جھٹکا لگا اس کے ساتھ ہی مہنگائی کا جن بھی بوتل سے باہر نکل کر ایسا آزاد ہوا کہ اس وقت سے لے کر اب تک کسی بھی معاشی حکام کے ہاتھوں قابو میں نہیں آیا۔ اب مہنگائی کئی وجوہات کے ساتھ اپنا اتحاد پکا کرچکی ہے، جن میں کئی باتیں ہیں یعنی ڈالر مہنگا ہوگا تو مہنگائی ہوگی۔ روپیہ جتنا سستا ہوتا چلا جائے گا اشیائے درآمدات اتنی زیادہ مہنگی ہوتی چلی جائیں گی۔ اسی طرح پٹرول سے متعلقہ تمام مصنوعات کو مہنگا کرنا پڑے گا کیونکہ پٹرولیم مصنوعات درآمدی آئٹم ہے۔

روپیہ اس وقت بھی دباؤ میں آجاتا ہے جب آئی ایم ایف سے قسط ملنے میں دیر ہو جائے مذاکرات میں رکاوٹ پیدا کرکے ناکام ہونے کا تصور دیا جائے یا آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے تاخیری حربے اختیار کیے جائیں ، تاکہ پاکستان آئی ایم ایف کے تمام بھاری شرائط کو تسلیم کرلے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے تو بار بار بجلی کی قیمت بڑھائی جاتی رہی اب آیندہ بھی مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ اس کے ساتھ ہی کئی ماہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافے کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تاریخی اضافہ کردیا گیا۔

پٹرول 10.49 اور ڈیزل 12.44 روپے مہنگا کردیا گیا۔ مٹی کا تیل 10.95 روپے فی لیٹر بڑھ کر 110.26روپے کا ہو گیا۔ پٹرول 137.79 روپے کا اور ہائی اسپیڈ ڈیزل 134.48 روپے کا ہو چکا ہے۔ اب مہنگائی کی ایک اور اہم وجہ حکومت نے عوام کے سر پر لاد دی ہے جب بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مختلف حکومتوں نے اور اس حکومت نے بھی اضافہ کیا تو وہ معمولی اضافہ ہوا کرتا تھا مثلاً کبھی دو ، کبھی دو روپے 25 پیسے وغیرہ 3 یا 4 فیصد اضافے سے عوام پر اتنا زیادہ اثر نہیں ہوتا۔

لیکن یکایک فی لیٹر پر 10یا 12 روپے زائد دینے پڑ جائیں تو عوام پر اس کا شدید منفی اثر ہوتا ہے کیونکہ پاکستان میں اب اکثریت غریب افراد کی ہے کسی زمانے میں یہ بات تھی کہ امیر افراد کے پاس موٹرسائیکل یا ویسپا ہوا کرتی تھی لیکن جب سے پاکستان میں چائنیز ماڈل موٹرسائیکل متعارف ہوئے ہیں اب موٹرسائیکل ہر غریب کی جھونپڑی کے باہر، ہر خانہ بدوش کے خیمے کے باہر کھڑی نظر آئے گی۔ کورونا وبا کے باعث چونکہ ہر قسم کا کاروبار مندی کا شکار ہے لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے، بے روزگاروں کی تعداد میں روزانہ ہزاروں افراد کا اضافہ ہو رہا ہے، ایسے میں پٹرولیم مصنوعات اور مٹی کا تیل جس کی قیمت بڑھا دی گئی ہے۔


اس وجہ سے لوگوں کی مالی حالت اب خراب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اب مہنگائی کے مزید بڑھنے کے لیے حکومت تمام تر اقدامات آراستہ کرچکی ہے اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت احساس ٹارگٹڈ پروگرام شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ عوام کا پہلے تو احساس کیا نہیں۔ ڈالر ریٹ بڑھاتے چلے گئے زرمبادلہ کے ذخائر گھٹتے چلے جا رہے ہیں۔ تازہ رپورٹ کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک ہفتے کے دوران ایک ارب 64 کروڑ60 لاکھ ڈالرز کی کمی آئی ہے۔ اس کی وجہ قرض کا لینا ہے اور جب قرض لیتے ہیں تو اس کی قسطوں کی ادائیگی اور بھاری یا کم شرح سود کی ادائیگی وغیرہ مل کر بھاری مقدار میں ڈالرز نکالنا پڑتے ہیں۔

اب حکومت جو بھی اقدام اٹھانا چاہتی ہے اس کے نتائج عارضی ہوں گے۔ اس وقت دوسرا اہم مسئلہ روزگار کا ہے، جوکہ کورونا وبا کے باعث شدید کاروباری مندی اور دیگر وجوہات کی بنا پر روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کو جیسا کہ بتدریج قرض خواہ ملک کے طور پر آگے لایا گیا ہے اسی طرح درآمدی ملک کے طور پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایشیا کے دیگر ملکوں پر نظر دوڑائیں تباہ حال جنگ زدہ ویتنام کو ہی دیکھ لیں وہاں کی برآمدات دنیا کے ملکوں میں پھیلتی چلی جا رہی ہیں۔

بنگلہ دیش نے پاکستان کو ریڈی میڈ ٹیکسٹائل اور دیگر برآمدات کے معاملے میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان میں اگر بجلی، گیس اور پانی مہنگا کرتے چلے جائیں گے، روپے کی قدر روز بروز گراتے چلے جائیں گے تو وہ کون سا غیر ملکی سرمایہ کار ہوگا جو پاکستانی کرنسی پر اعتبار کرتے ہوئے ملک میں سرمایہ کاری کا ارادہ رکھے گا۔ ہم یہاں صنعتوں کو لگانے کا ماحول نہیں بنا رہے ہیں۔

غیر ملکی سرمایہ کار تو اب ایک طرف ملکی سرمایہ کار بھی اب کوئی فیکٹری، مل لگانے کا جب ارادہ کرلیتا ہے، پھر کارروائی کا آغاز کرتا ہے۔ اس کے بعد اسے جس قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس طرح حالات دیکھ کر وہ اپنے ارادے سے ہی باز آ جاتا ہے۔ لہٰذا حکومت مہنگائی سے نمٹنے کے اقدامات کرتی رہے لیکن ان تمام وجوہات اور عوام کو اس کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے مستقبل کی منصوبہ بندی کرے۔

ملک کا المیہ یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے ٹھوس تجاویز سامنے نہیں آتی اگر آجائے تو حکومت کی طرف سے ''میں نہ مانوں'' کی رٹ شروع ہو جاتی ہے۔ معاملہ اس وقت بگڑ جاتا ہے جب کوئی اچھا منصوبہ یا پراجیکٹ شروع کردیا جائے تو آنے والی حکومت اسے ختم کرنا اپنا اولین فریضہ سمجھتی ہے۔ لہٰذا اب سلسلے کے تدارک کے لیے اور مستقبل میں بہتر معاشی منصوبہ بندی کی خاطر جس میں اس بات کی راہ بھی متعین کرلی جائے کہ کس طرح مہنگائی کے جن کو قابو کرنا ہے اور روزگار کی تعداد میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد کا اضافہ کرنا ہے۔

ملک میں بہتر سے بہتر چھوٹے سے لے کر بڑے کاروباری افراد کے ساتھ کارخانہ دار، مل اونر تک کو بہترین کاروبار دوست ماحول فراہم کرنا اور بہت سے نکات کے ساتھ میثاق معیشت کا معاہدہ کرنا چاہیے۔ موجودہ حکومت نئے انتخابات سے قبل اگر اس قسم کے کسی بھی طویل مدتی معاشی پروگرام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو مہنگائی کا جن بھی قابو میں آجائے گا۔ آئی ایم ایف کی ناروا شرائط کی فہرست میں بھی کانٹ چھانٹ ہو جائے گی۔

ملک کو زرعی، صنعتی میدان میں ترقی دینے سے عوام کو زیادہ سے زیادہ روزگار ملے گا۔ ان کی آمدن بڑھے گی۔ لوگ غربت کی لکیر کی سطح سے بتدریج باہر آنے لگیں گے۔ بصورت دیگر عارضی اقدامات پھر ڈالر کی اڑان پھر زرمبادلہ کے ذخائر کاگھٹنا، زرعی و صنعتی پیداوار کی کمی اور بے روزگاری اور مہنگائی کا عفریت غریب عوام اور متوسط طبقے کے لیے پریشانی کا باعث ہی بنے رہیں گے۔
Load Next Story