شنگھائی تعاون تنظیم

نیٹو جیسے مغربی فوجی اتحادوں کے توڑ کے طور پر اُبھر کر سامنے آنے والی تنظیم کا تفصیلی تعارف۔


ڈاکٹر آصف چنڑ October 24, 2021
نیٹو جیسے مغربی فوجی اتحادوں کے توڑ کے طور پر اُبھر کر سامنے آنے والی تنظیم کا تفصیلی تعارف۔ فوٹو : فائل

شنگھائی تعاون تنظیم جغرافیائی دائرہ کار اور آبادی کے لحا ظ سے دنیا کی بڑی بین الاقوامی تنظیموں میں سے ایک کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اس میں یوریشین براعظم کا تین/ پانچواں(5/3 ) حصہ، دنیا کی 40 فیصد آبادی اور عالمی جی ڈی پی کا 20 فیصد سے زیادہ حصہ شامل ہے۔

تنظیم کی تشکیل کا اعلان 15 جون 2001 کو شنگھائی چین میں قازقستان، چین، روس، تاجکستان اور ازبکستان نے مل کر کیا۔ اس سے پہلے اسے''شنگھائی فائیو'' کا نام دیا گیا تھا جو 26 اپریل 1996 کو چین، قازقستان، کرغزستان، روس اور تاجکستان کی ریاستوں کے سربراہوں کی طرف سے شنگھائی میں سرحدی علاقوں میں فوجی اعتماد کو بہترکرنے کے معاہدے پر دستخط کے ساتھ تشکیل دیا گیا تھا۔

یہ ایک سیاسی، اقتصادی اور عسکری تنظیم ہے جس کا مقصد خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنا ہے۔اسے نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے ردعمل میں طاقت کے توازن کو قائم رکھنے کے قدم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر پر جون 2002 میں سینٹ پیٹرز برگ میں تنظیم کے سربراہان مملکت کے اجلاس کے دوران دستخط کیے گئے اور یہ چارٹرا 19 ستمبر 2003 کو نافذ ہوا۔ یہ بنیادی قانونی دستاویز ہے جو تنظیم کے اہداف اور اصولوں کے ساتھ ساتھ اس کے ڈھانچے اور بنیادی سرگرمیاں سے متعلق ہے۔

تنظیم کے بنیادی اہداف میں رکن ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور ہمسائیگی کو مضبوط بنانا،سیاست، تجارت، معیشت، تحقیق، ٹیکنالوجی اور ثقافت کے ساتھ ساتھ تعلیم، توانائی، ٹرانسپورٹ، سیاحت، ماحولیاتی تحفظ اور دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا ہے۔اس کے علاوہ خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا اور جمہوری، منصفانہ اور نئے بین الاقوامی سیاسی اور معاشی نظام کے قیام کی طرف پیش قدمی کرنا شامل ہیں۔

تنظیم کی داخلی پالیسی باہمی اعتماد، مفاد، مساوات، مشاورت، ثقافتی تنوع کا احترام اور مشترکہ ترقی کی خواہش پر مبنی ہے جس میں کسی تیسرے ملک کو نشانہ نہ بنانا ور اس کی حدود و سالمیت کا احترام ایک اہم جزو ہے۔

اس وقت شنگھائی تعاون تنظیم نو رکن ممالک پر مشتمل ہے جن میں قازقستان، چین، کرغزستان، پاکستان، روس ہندوستان، تاجکستان، ازبکستان جبکہ تنظیم کے 21 ویں سربراہی اجلاس منعقدہ 18تا17 ستمبر 2021 دوشنبے میں ایران کو نویں ممبر کے طور پر شامل کیا گیا ہے تنظیم میں مبصر ریاستیں بھی شامل ہیں جن میں افغانستان، بیلاروس اور منگولیا شامل ہیں۔

تنظیم میں چھ مکالمہ شراکت دار بھی ہیں جن میں آذربائیجان، آرمینیا، کمبوڈیا، نیپال، ترکی، اور سری لنکا شامل ہیں۔

رواں سال اگست میں جس میں دنیا نے طالبان کو افغانستان میں دوبارہ اقتدار سنبھالتے دیکھا اسی تناظر میں خطے کی بڑھتی ہوئی غیر یقینی سیکورٹی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کا 21 واں سربراہی اجلاس 16 تا 17 ستمبر 2021 تاجکستان کے شہر دوشنبے میں بلایا گیا۔

جس میں کئی اہم فیصلے کیے گئے۔خاص طور پر اجلاس میں افغانستان کی زمینی صورتحال اور اس کے عالمی اثرات پر توجہ مرکوز کی گئی اس کے ساتھ ساتھ ایران کو تنظیم کا نوواں مکمل رکن تسلیم کیا گیا۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے اس اجلاس کے اہم نکات یہ تھے:
بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے خلاف سخت موقف اختیار کیا جائے۔ اراکین پر زور دیا کہ وہ مشترکہ نقطہ نظر لے کر چلیں اور دہشت گردی کی مالی معاونت اور سرحد پار دہشت گردی کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔وسطی ایشیا میں اعتدال پسند اسلام کی اہمیت پر زور دیا گیا۔افغانستان میں پیدا ہونے والے سنگین انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مالی اور تجارتی بہاؤ میں رکاوٹ کی وجہ سے افغان عوام کی معاشی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ ساتھ ہء اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ ملک میں ہونے والی پیش رفت منشیات، غیر قانونی ہتھیاروں اور انسانی اسمگلنگ کے بے قابو بہاؤ کا باعث بن سکتی ہے۔ وسطی ایشیا کے ساتھ اپنا رابطہ بڑھانے کے لیے ممبران پرعزم ہیں۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام ممالک کی علاقائی سالمیت کا احترام ہونا چاہیے۔

یوریشین سیکورٹی بلاک جس میں چین، بھارت، قازقستان، کرغیزستان، پاکستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں،کی توجہ امریکہ کی زیر قیادت بین الاقوامی فوج کے افغانستان سے انخلا اور طالبان کی واپسی سے علاقائی نتائج پر مرکوز رکھی جائے۔ اس بات کو بھی زیر غورلایا گیا کہ تنظیم کے کئی ارکان طالبان کے زیر انتظام افغانستان کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے ہیں وہ فراخ دلی کا مظاہرہ کریں جیسے کی بیجنگ نے طالبان کے ساتھ کاروباری تعلقات قائم کرنے اور افغانستان کو امداد اور ویکسین کی فراہمی پر اتفاق کیا۔ چین کے علاوہ روس نے بھی طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے آمادگی ظاہر کی، لیکن تنظیم کے وہ اراکین کے درمیان ' جو کہ افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہیں' اختلافات پر مفا ہمت کی ضرورت محسوس کی گئی۔

تاجکستان طالبان سے اچھے تعلقات نہیں رکھتا اور اس بات پر تشویش میں ہے کہ یہ گروپ اپنی اندرونی سلامتی کے لیے کیا معنی رکھتا ہے، جبکہ ازبکستان نے عسکریت پسندوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا ہے اور سرحد پار افراتفری سے اپنے فاصلے کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے طالبان سے رابطہ کیا ہے۔ پاکستان افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کا خواہش مند ہے۔ بھارت غیر معمولی طور پر طالبان کو ایک پاکستانی پراکسی کے طور پر دیکھتا ہے اور اس بارے دیرینہ اسٹریٹجک خدشات رکھتا ہے جو دہلی کے لیے طالبان کی حکومت سے ہو سکتے ہیں۔ان متضاد خیالات میں مشترکہ لا ئحہ عمل ایک بڑا چیلنج ہے۔

تنظیم ہشت گردی کے خلاف جاری مشقوں اور اپنے ملکوں کی فوجوں کے درمیان مزید باہمی تعاون پیدا کرنے کی کوششوں کے طور پر یہ رواں ماہ کے آخر میں روس میں مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرے گی۔

اس تنظیم کو ''خالی ٹاک شاپ'' ہونے کی وجہ سے تنقید کا بھی سامناہے البتہ اس نے چند اہم کامیابیاں بھی سمیٹی ہیں۔ افغانستان سے پیدا ہونے والے مسائل طویل عرصے سے اس کی توجہ کا مرکز رہے ہیں، اس لیے تنظیم نے اسے ایک مبصر کے طور پر لانے کے علاوہ، کچھ عملی اقدامات بھی کیے ہیں۔

دہشت گردی اور دیگر بیرونی خطرات کے خلاف تعاون اور ہم آہنگی کو فروغ دینے اور علاقائی امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے اراکین کے درمیان فوجی مشقیں بھی باقاعدگی سے کی جاتی ہیں۔

شنگھائی فائیو گروپ کی تشکیل کے بعد کے سالانہ سربراہی اجلاس 1998 میں قازقستان، 1999 میں کرغزستان جبکہ میں 2000 میں، تاجکستان میں منعقد ہوئے۔ جس میں 'انسانی حقوق کی حفاظت' سمیت پانچ ممالک کی قومی آزادی، خودمختاری، علاقائی سالمیت اور سماجی استحکام کے تحفظ میں ایک دوسرے کی حمایت کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔

2001 میں، سالانہ سربراہی اجلاس شنگھائی واپس آیا۔ وہاں پانچ رکن ممالک نے سب سے پہلے شنگھائی فائیو میکنزم میں ازبکستان کو تسلیم کیا۔ پھر تمام چھ سربراہان مملکت نے اس کو اعلیٰ سطح کے تعاون میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا۔

جون 2002 میں، شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان کی ملاقات روس کے سینٹ پیٹرز برگ میں ہوئی۔ وہاں انہوں نے تنظیم کے چارٹر پر دستخط کیے جس نے تنظیم کے مقاصد، اصولوں، ڈھانچے اور آپریشن کے ماڈلز کی وضاحت کی گئی۔

جولائی 2005 میں، قازقستان کے نور سلطان میں سربراہی اجلاس میں، ہندوستان، ایران، منگولیا اور پاکستان کے نمائندوں کے ساتھ پہلی بار کے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے والے میزبان ملک کے صدر نور سلطان نذر بائیف نے مہمانوں کو ان الفاظ میں خوش آمدید کہا۔ ''اس مذاکرات کی میز پر بیٹھی ریاستوں کے رہنما آدھی انسانیت کے نمائندے ہیں''۔

2007 تک ایس سی او نے نقل و حمل، توانائی اور ٹیلی کمیونیکیشن سے متعلق بیس بڑے منصوبوں کا آغاز کیا تھا اور اس کے رکن ممالک کے سیکورٹی، فوج، دفاع، خارجہ امور، اقتصادی، ثقافتی، بینکنگ اور دیگر عہدیداروں کی باقاعدہ میٹنگیں منعقد کی تھیں۔

جولائی 2015 میں اوفا، روس میں تنظیم نے بھارت اور پاکستان کو مکمل ممبران کے طور پر داخل کرنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں نے جون 2016 میں تاشقند، ازبکستان میں ذمہ داریوں کی یادداشت پر دستخط کیے، اس طرح ان کا تنظیم

میں مکمل ممبر کی حیثیت سے شمولیت کا باقاعدہ عمل شروع ہوا۔9 جون 2017 کو آستانہ میں ایک سمٹ میں ہندوستان اور پاکستان نے باضابطہ طور پر تنظیم میں مکمل ممبران کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔

شنگھائی تعاون تنظیم نے 2004 میں اقوام متحدہ کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں (جہاں یہ جنرل اسمبلی میں مبصر ہے)، 2005 میں آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ، 2005 میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان)، 2007 میں اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم، 2007 میں اقتصادی تعاون تنظیم، 2011 میں منشیات اور جرائم پر اقوام متحدہ کا دفتر، 2014 میں ایشیا میں تعامل اور اعتماد سازی کے اقدامات پر کانفرنس (CICA)، اور 2015 میں اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے ایشیا اور بحرالکاہل، اور2018 میں افریقی یونین میں شمولیت حاصل کی۔

ایشیا پیسیفک میں اس کی بڑھتی ہوئی مرکزیت کی وجہ سے اسے وسیع پیمانے پر ''مشرق کا اتحاد'' کے طور پر سمجھا جاتا ہے، اور یہ خطے کا بنیادی حفاظتی ستون ہے۔

تنظیمی ڈھانچہ
ہیڈ آف اسٹیٹ کونسل (HSC) شنگھائی تعاون تنظیم کا فیصلہ سازی کا اعلیٰ ادارہ ہے۔ یہ سال میں ایک بار ملتا ہے اور تنظیم کے تمام اہم معاملات پر فیصلے اور رہنما اصول وضع کرتا ہے۔ تنظیم کے سربراہان کی گورنمنٹ کونسل (HGC) بھی سال میں ایک بار تنظیم کی کثیر الجہتی تعاون کی حکمت عملی اور ترجیحی شعبوں پر تبادلہ خیال کرنے، موجودہ اہم معاشی اور دیگر تعاون کے مسائل کو حل کرنے اور تنظیم کے سالانہ بجٹ کی منظوری کے لیے ملاقات کرتی ہے۔ اس وقت تنظیم کی سرکاری زبانیں روسی اور چینی ہیں۔

ایچ ایس سی اور ایچ جی سی کے اجلاسوں کے علاوہ پارلیمنٹ کے سربراہوں کی سطح پر ملاقاتوں کا ایک طریقہ کار بھی موجود ہے۔ سلامتی کونسلوں کے سیکرٹری، وزرائے خارجہ، دفاع، ہنگامی امداد، معیشت، نقل و حمل، ثقافت، تعلیم، اور صحت کی دیکھ بھال، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اعلیٰ اور ثالثی عدالتوں کے سربراہ اور پراسیکیوٹر جنرل شنگھائی تعاون تنظیم رکن ممالک کی قومی رابطہ کار کونسل (سی این سی) اس کے لییکوآرڈینیشن کے طور پر کام کرتی ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے دو مستقل ادارے ہیں۔ سیکریٹریٹ جوبیجنگ میں قائم ہے اور تاشقند میں قائم علاقائی انسداد دہشت گردی (RATS) کی ایگزیکٹو کمیٹی۔ تنظیم کے سیکرٹری جنرل اور (RATS)ریٹس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ڈائریکٹر کو کونسل آف ہیڈز آف سٹیٹس تین سال کی مدت کے لیے مقرر کرتے ہیں۔ ولادیمیر نوروف (ازبکستان) اور جماخون گیوسوف (تاجکستان) یکم جنوری 2019 سے بالترتیب ان عہدوں پر فائز ہیں۔

تنظیم کی سربراہان مملکت کی موجودہ کونسل میں شامل ہیں :
1۔شی جن پنگ (چین)، 2۔قاسم جومارٹ ٹوکائیف (قازقستان)، 3۔صدیر جپاروف (کرغزستان)، 4۔عمران خان (پاکستان) ، 5۔ولادیمیر پوٹن (روس)، 6۔نریندر مودی (بھارت) ، 7۔امام علی رحمان (تاجکستان)، 8۔شوکت مرزیوئیف (ازبکستان)، 9۔ابراہیم ریئسی(ایران )

حکومت کے سربراہوں کی کونسل تنظیم کی دوسری اعلیٰ ترین کونسل ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر کے مطابق سربراہان مملکت کی سمٹ سالانہ متبادل مقامات پر منعقد کی جاتی ہیں۔ یہ مقامات روسی زبان میں رکن ریاست کے نام کے حروف تہجی کے اعتبار سے طے پاتے ہیں۔ اس میں اراکین کثیر الجہتی تعاون کے مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور یہ کونسل تنظیم کے بجٹ کی بھی منظوری دیتی ہے۔

اس کے علاوہ وزرائے خارجہ کی کونسل بھی باقاعدہ اجلاس کرتی ہے، جہاں وہ موجودہ بین الاقوامی صورتحال اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ ایس سی او کے تعامل پر تبادلہ خیال کرتی ہے۔عام طور پر تنظیم کیوزرائے خارجہ کی کونسل کا اجلاس سربراہان مملکت کے سالانہ سربراہی اجلاس سے ایک ماہ قبل منعقد ہوتا ہے ا ور وزرائے خارجہ کی کونسل کے غیر معمولی اجلاس کسی بھی دو رکن ممالک کی طرف سے بلائے جا سکتے ہیں، جبکہ قومی رابطہ کاروں کی کونسل تنظیم کے چارٹر کے فریم ورک کے اندر رکن ممالک کے کثیر جہتی تعاون کو مربوط کرتی ہے۔

تنظیم کا ایک مستقل عضو علاقائی انسداد دہشت گردی کی (RATS) ایگزیکٹو کمیٹی ہے جس کا صدر دفتر تاشقند، ازبکستان میں ہے جو دہشت گردی، علیحدگی اور انتہا پسندی جیسی برائیوں کے خلاف رکن ممالک کے تعاون کو فروغ دینے کا کام کرتا ہے۔ RATS ایگزیکٹو کمیٹی کے ڈائریکٹر کو تین سال کی مدت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ موجودہ ڈائریکٹر تاجکستان کے جماخون گیوسوف ہیں، جنہوں نے یکم جنوری 2019 کو اپنا عہدہ سنبھالا۔ ہر رکن ریاست RATS کو مستقل نمائندہ بھی بھیجتی ہے۔

منگولیا 2004 تاشقند سربراہی اجلاس میں مبصر کا درجہ حاصل کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔ پاکستان، بھارت اور ایران نے جولائی 2005 میں قازقستان میں ہونے والے تنظیم کے سربراہ اجلاس میں مبصر کا درجہ حاصل کیا تھا۔

افغانستان نے 7 جون 2012 کو بیجنگ میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم سربراہ اجلاس میں مبصر کا درجہ حاصل کیا۔ 2008 میں، بیلاروس نے تنظیم میں شراکت دار کی حیثیت کے لیے درخواست دی تاہم روسی وزیر دفاع سرگئی ایوانوف نے اس پرتحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بیلاروس ایک مکمل طور پر یورپی ملک ہے۔ اس کے باوجود 2009 میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں اسے ڈائیلاگ پارٹنر کا درجہ دیا گیا۔ جبکہ اسے مبصر کا درجہ 2012 میں ملا۔

ایران نے 2000تنظیم میں شامل ہونے کی دلچسپی ظاہر کی اس وقت چین ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے ہچکچا رہا تھا۔ ایران کی تنظیم میں شمولیت کے مضمرات کو ہر لحاظ سے بہت زیادہ سوچا گیا آ خر کار ایک طویل انتظار کے بعد رواں سال 17 ستمبر 2021 کو اسیتنظیم میں شامل کر لیا گیا۔

جون 2010 میں تنظیم نے نئے ممبران کو داخل کرنے کے طریقہ کار کی منظوری دی۔ اس وقت کئی ریاستیں بطور مبصر تنظیم میں شرکت کرتی ہیں، جن میں سے کچھ نے مستقبل میں مکمل ممبر بننے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

دریں اثنا، 2012 میں آرمینیا، آذربائیجان، بنگلہ دیش، مشرقی تیمور، نیپال اور سری لنکا نے تنظیم میں مبصر کی حیثیت کے لیے درخواستیں دی۔مصراور شام نے بھی مبصر کی حیثیت کے لیے درخواستیں جمع کرائی ہیں، جبکہ اسرائیل، مالدیپ، یوکرین،عراق، اور سعودی عرب نے ڈائیلاگ پارٹنر کے لیے درخواستیں دی ہے۔ اس کے علاوہ بحرین اور قطر نے بھی باضابطہ طور پر اس میں شامل ہونے کے لیے درخواستیں دی ہیں۔

ترکی نے کہا ہے کہ انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم میں مکمل رکنیت کے بدلے یورپی یونین میں ترکی کے الحاق کی اُمید کو ترک کرنے کے امکان پر تبادلہ خیال کیا ہے۔21 نومبر 2016 کو اس کو دوبارہ تقویت ملی، جب یورپی پارلیمنٹ نے ترکی کے ساتھ الحاق کے مذاکرات کو معطل کرنے کے لیے متفقہ طور پر ووٹ دیا۔ دو دن بعد، 23 نومبر 2016 کو ترکی کو 2017 کی مدت کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے انرجی کلب کی چیئرمین شپ دی گئی۔

شنگھائی تعاون تنظیم کی سرگرمیاں سیکورٹی میں تعاون
شنگھائی تعاون تنظیم بنیادی طور پر اپنے رکن ممالک کے وسطی ایشیائی سلامتی سے متعلقہ خدشات پر مرکوز ہے، جو اکثر دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے طور پر درپیش اہم خطرات دو چار رہتا ہے۔ تاہم شواہد بتاتے ہیں کہ اس کے رکن ممالک کی سماجی ترقی کے شعبے میں سرگرمیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں

16-17 جون 2004 کو تاشقند، ازبکستان میں منعقد ہونے والے تنظیم سربراہ اجلاس میں علاقائی انسداد دہشت گردی کا ڈھانچہ (RATS) قائم کیا گیا۔ 21 اپریل 2006 کو اس نے انسداد دہشت گردی روبرک کے تحت سرحد پار سے منشیات کے جرائم کے خلاف منصوبوں کا اعلان کیا۔

اکتوبر 2007 میں اس نے تاجک دارالحکومت دوشنبے میں اجتماعی سیکورٹی معاہدہ تنظیم (سی ایس ٹی او) کے معاہدے پر دستخط کیے، تاکہ سکیورٹی، جرائم اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے مسائل پر تعاون کو وسیع کیا جا سکے۔

یہ تنظیم سائبر وار فیئر سے نمٹنے کے لیے بھی متحرک ہے، اس کا کہنا ہے کہ ریاستوں کے لیے نقصان دہ معلومات تک رسائی کو ''سیکیورٹی خطرہ'' سمجھا جانا چاہیے۔ 2009 میں اس نے ایک ریاست کی طرف سے دوسرے کے ''سیاسی، اقتصادی اور سماجی نظاموں'' کو سائبر وار فیئر سیکمزور یا مفلوج نا کرنے سیمتعلق سفارشات پیش کیں۔ اخبار دی ڈپلومیٹ نے 2017 میں رپورٹ کیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم نے 600 دہشت گردی کی سازشوں کو ناکام بنا دیا ہے اور 500 دہشت گردوں کو RATS کے ذریعے حوالے کیا ہے۔ آر اے ٹی ایس کی کونسل کے 36 ویں اجلاس نے رواں سال 2021میں پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی مشترکہ مشق ؎ پبی-اینٹی ٹیرر 2021 منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

عسکری سرگرمیاں
گزشتہ چند سالوں کے دوران، تنظیم کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے جس میں عسکری تعاون میں اضافہ، انٹیلی جنس شیئرنگ، اور انسداد دہشت گردی شامل ہیں۔

ممبروں کے درمیان دہشت گردی اور دیگر بیرونی خطرات کے خلاف تعاون اور ہم آہنگی کو فروغ دینے اور علاقائی امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے فوجی مشقیں باقاعدگی سے کی جاتی ہیں۔ اسکی متعدد مشترکہ فوجی مشقیں ہو چکی ہیں۔ ان میں سے پہلا 2003 میں منعقد ہوئی، پہلا مرحلہ قازقستان اور دوسرا چین میں ہوا۔ تب سے چین اور روس نے 2005 میں بڑے پیمانے پر جنگی کھیلوں کے لیے مل کر کام کیا (امن مشن 2005۔، 2007 اور 2009، شنگھائی تعاون تنظیم کے زیراہتمام مکمل ہوا۔

2007 میں مشترکہ فوجی مشقوں میں4000 سے زائد فوجیوں نے حصہ لیا (جسے ''امن مشن 2007'' کہا جاتا ہے) جو کہ یورال پہاڑوں کے قریب چیلیابنسک روس میں ہوئی، جیسا کہ اپریل 2006 میں تنظیم کیوزرائے دفاع کے اجلاس میں اتفاق کیا گیا تھا۔ جنگی کھیلوں کی کامیاب تکمیل کے بعد، روسی عہدیداروں نے مستقبل میں اس طرح کی مشقوں میں ہندوستان کی شمولیت اور تنظیم میں فوجی کردار کی ضرورت پر بات شروع کی۔ امن مشن 2010، جو 9-25 ستمبر کو قازقستان کے Matybulak ٹریننگ ایریا میں کیا گیا، چین، روس، قازقستان سے 5000 سے زائد اہلکاروں نے شرکت کی۔کرغزستان اور تاجکستان بھی مشترکہ منصوبہ بندی اور آپریشنل مشقیں کرتے ہیں۔

معاشی تعاون
روس، قازقستان اور کرغزستان بھی یوریشین اکنامک یونین کے رکن ہیں۔ ایک فریم ورک ایگریمنٹ اجلاس میں 23 ستمبر 2003کو تنظیم کے رکن ممالک نے دستخط کیے۔

26 اکتوبر 2005 کو تنظیم کے ماسکو سربراہی اجلاس کے دوران، تنظیم کے سیکرٹری جنرل نے کہا تنظیم مشترکہ توانائی کے منصوبوں کو ترجیح دے گی۔ تیل اور گیس کے شعبے میں، ہائیڈرو کاربن کے نئے ذخائر کی تلاش، اور آبی وسائل کا مشترکہ استعمال شامل ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم انٹر بینک کنسورشیم کی تخلیق پر بھی اس سمٹ میں اتفاق کیا گیا تاکہ مستقبل کے مشترکہ منصوبوں کو فنڈ دیا جا سکے۔ نومبر 2006 میں منعقد ایک بین الاقوامی کانفرنس الماتی کے نمائندیروسی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ روس ایس سی او ''انرجی کلب'' کے منصوبے تیار کر رہا ہے۔ 2008 کے سربراہی اجلاس کے دوران یہ کہا گیا کہ ''ایک ذمہ دار کرنسی اور مالیاتی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے عالمی معیشت کی ترقی میں سست روی کے پس منظر میں، سرمائے کے بہاؤ پر کنٹرول، خوراک اور توانائی کی حفاظت کو یقینی بنانا ہو گا۔

ثقافتی تعاون
شنگھائی تعاون تنظیم کیفریم ورک میں ثقافتی تعاون بھی پایا جاتا ہے۔ ؎اسکے کلچر وزراء نے پہلی بار بیجنگ میں 12 اپریل 2002 کو ملاقات کی، مسلسل تعاون کے لیے ایک مشترکہ بیان پر دستخط کیے۔ وزیر ثقافت کا تیسرا اجلاس 27-28 اپریل 2006 کو تاشقند، ازبکستان میں ہوا۔ تنظیم آرٹس فیسٹیول، لوک رقص،نمائش و دیگر ثقافتی پروگرامز کو اجاگر کرتی ہے۔

مغرب کے ساتھ تعلقات
امریکہ نے شنگھائی تعاون تنظیم میں مبصر کی حیثیت کے لیے درخواست دی لیکن 2005 میں اسے مسترد کر دیا گیا۔جولائی 2005 میں آستانہ سمٹ میں، افغانستان اور عراق کی جنگوں میں ازبکستان اور کرغزستان میں امریکی افواج کی غیر معینہ مدت کی موجودگی کے پیش نظر تنظیم نے امریکہ سے درخواست کی کہ وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک سے اپنی فوجیں واپس بلانے کے لیے ایک واضح ٹائم ٹیبل طے کرے۔ کچھ دیر بعد ازبکستان نے امریکہ سے K2 ایئر بیس چھوڑنے کی درخواست کی۔

شنگھائی تعاون تنظیم نے امریکہ یا خطے میں اس کی فوجی موجودگی کے خلاف کوئی براہ راست تبصرہ نہیں کیا ہے۔ تاہم، ماضی کے اجلاسوں میں کچھ بالواسطہ بیانات کو مغربی ذرائع ابلاغ نے انہیں امریکہ کے خلاف قرار دیا ہے

جیو پولیٹیکل پہلو
شنگھائی تعاون تنظیم کی جغرافیائی سیاسی نوعیت کے بارے میں کئی مباحثے اور تبصرے ہوئے ہیں۔ میتھیو برمر، بین الاقوامی امور کا جریدہ خلیج فارس میں تنظیم کی توسیع کے مضمرات کا جائزہ لیتا ہے۔

ایرانی مصنف حامد گولپیرا کا اس موضوع پر یہ کہنا ہے کہ یوریشین لینڈ ماس کا کنٹرول عالمی تسلط کی کلید ہے اور وسطی ایشیا کا کنٹرول یوریشین لینڈماس پر قابو پانے کی کلید ہے۔ روس اور چین اس نظریہ پر توجہ دے رہے ہیں۔جب سے انہوں نے 2001 میں شنگھائی تعاون تنظیم کی تشکیل کی ہے بظاہر یہ علاقے میں شدت پسندی کو روکنے اور سرحدی سلامتی کو بڑھانے کے لیے بنی لیکن ممکنہ طور پر اس کا اصل مقصد امریکہ کی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنا اور نیٹو کے مقابلے میں خطئے مین طاقت کا توازن برقرار رکھنا ہے۔

انسانی حقوق کے مسائل
دسمبر 2015 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ووٹنگ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام چھ ارکان نے ایران میں انسانی حقوق کی مجموعی صورت حال کے خلاف ووٹ دیا، نہ صرف مذہبی ظلم و ستم کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا بلکہ حکومت کی جانب سے سزائے موت کے بار بار استعمال، قانونی عمل کو برقرار رکھنے میں ناکامی، اظہار رائے کی آزادی پر پابندیاں، اور خواتین اور نسلی اقلیتوں کے خلاف جاری امتیازی سلوک کے حوالے سیبھی اپنا ٹھوس موقف پپش کیا۔

جولائی 2019 میں، ایس سی او کے آٹھ میں سے پانچ ممبران 50 ممالک میں شامل تھے جنہوں نے سنکیانگ میں چین کی پالیسیوں کی حمایت کی، یو این ایچ آر سی کو ایک مشترکہ خط پر دستخط کرتے ہوئے چین کی ''انسانی حقوق کے شعبے میں قابل ذکر کامیابیوں'' کی تعریف کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ''اب حفاظت اور سلامتی واپس آگئی ہے'' سنکیانگ اور تمام نسلی گروپس عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کر رہے ہیں'' جوکہ اس کی کاوشوں کا اعتراف ہے۔

اس وقت دنیا کو21 ویں صدی کی نئی حقیقتوں کے مطابق ڈھلنے والی عالمی اور علاقائی سلامتی، معاشی و انسانی ترقی سمیت سیاسی اثر و رسوخ کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال جیسے مسائل کا سامنا ہے ۔

خصوصا امریکہ کا افغانستان سیشرمناک انخلاء اور سی پیک جیسیایک عظیم منصوبے کی موجودگی جو کہ دراصل چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ ہے کے پیش نظر شنگھائی تعاون تنظیم کو پیچیدہ مشکلات و چیلنجز کا سامنا ہے اور جن کے باعث اس کی اہمیت و ذمہ داریاں اور بڑھ گئی ہیں۔

جدید معاشروں میں استحکام اور خوشحالی لازم و ملزوم تصورات بن چکے ہیں۔ ممبر ممالک وسعت بصری و قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کی حدود و اقدار،سالمیت و بقا ء کااحترام کریں تاکہ خطے میں پائیدار امن اقتصادی،معاشرتی، سیاسی،انسانی و ماحولیاتی ترقی کا حصول ممکن ہو سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔