خواتین کیلئے غیر محفوظ معاشرہ ذمہ دار کون

پہلے رومانوی اور غیر اخلاقی لٹریچر اور فلمیں اور اب انٹرنیٹ کا غلط استعمال، نئی نسل کو بے راہروی سے بچانا ہو گا۔


ظفر سجاد October 24, 2021
پہلے رومانوی اور غیر اخلاقی لٹریچر اور فلمیں اور اب انٹرنیٹ کا غلط استعمال، نئی نسل کو بے راہروی سے بچانا ہو گا۔ فوٹو : فائل

SYDNEY: کچھ عرصہ قبل لاہور کے ایک پسماندہ علاقے میں ایک چھوٹے سے کمرے میں رہائش پذیر پچھتر (75) سالہ لاوارث خاتون کسمپرسی کی حالت میں د م توڑ گئی، چند محلہ والوں نے چندہ اکٹھا کر کے اُسے قریبی قبرستان میں دفن کر دیا ، کوئی نہیں جانتا کہ یہ خاتون کون ہے،کہاں سے، آئی اُس کا اصل نام کیا ہے ؟سب اُسے ''اماں جی'' کہہ کر پکارتے تھے ، البتہ میں جا نتا تھا کہ وہ کون ہے؟ مجھے اُس نے اپنی کہانی سنائی تھی ، جو کہ کچھ اس طرح ہے۔

اماں جی نے بتایا کہ '' وہ مزنگ لاہور میں اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھیں ، وہ تین بہنیں اور دو بھائی تھے، وہ بچپن اور جوانی میں بہت ہی خوبصورت اور دلربا تھیں، محلہ اور خاندان میں ان کی دھوم تھی ۔ اُس زمانے کی سب سے بڑی تفریح اُردو اور پنجابی فلمیں تھیں ، ان فلموں میںعشق و محبت کی تر بیت کے ساتھ سفلی جذبات بھی اُبھارے جاتے تھے اور غنڈہ گردی بھی دکھائی جاتی تھی، لوگ فلمی ہیروئنوں اورہیروز سے اس قدر متاثر ہوتے تھے کہ وہ عملی زندگی میں یہی سب کچھ کرنے کے متلاشی ہوتے تھے۔

اس کے علاوہ رومانوی ، جاسوسی ناولوں اور جرائد ورسائل کا دور تھا ، چنانچہ عشق کرنا بڑا '' اچھا کام '' سمجھا جاتا تھا، یہ وہ زمانہ تھا کہ گھروں میں محلہ داروں اور رشتہ داروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا، لڑکے اور لڑکیوں کی آپس میں ملاقات بھی رہتی تھی ۔ عشق و محبت کرنے کے مواقع بھی باآسانی مہیا ہو جاتے تھے ، اماں جی کی داستان تو بہت طویل ہے مگر مختصراً یہ ہے کہ انھیں اپنے محلہ کے ایک لڑکے سے عشق ہو گیا وہ اس لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگ گئیں۔

اور جاتے ہوئے اپنی ماں کا سارا زیور اور نقدی بھی ساتھ لے گئیں ، وہ لڑکا انھیں کراچی لے گیا ، چند دن ان کے سا تھ بغیر نکاح دل بہلاتا رہا پھر ایک دن انھیں کسی عورت کے ہا تھ بیچ کر سارا زیور اور نقدی لے کر رفو چکر ہو گیا ۔ وہ عورت گندہ دھندا کرتی تھی اُس نے انھیں بھی زبردستی اس کام پر لگا دیا ، ان کی روح اور جسم بّری طرح مسخ ہو گیا ، ایک دن وہ موقع پا کر وہاں سے بھاگ نکلیں ، نجانے کہاں کہاںٹھوکریں کھانے کے بعد اپنے گھر پہنچیں تو گھر والوں نے انھیں قبول کر نے سے انکار کر دیا ، اس کے بعد ان کے ساتھ جو ہوا اس کی کہانی بھی بہت دردناک اور طویل ہے، مگر آخر کار وہ پچھتر سال کی عمر میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں انتقال کر گئیں ۔

جس زمانے میں فلمی کاروبار عروج پر تھا تو ملک کے تمام بڑے شہروں میں سنیما ہالز کی بہتات تھی کئی سنیما ہالز کی وجہ شہرت انگلش فلمیں تھیں ، ان سنیما ہالز میں غیر اخلاقی فلمیں بھی چلائی جاتی تھیں ، ایسی فلموں کی ٹکٹیں بلیک میں فروخت ہوتی تھیں ، ایسی فلمیںدیکھنے کیلئے نوجوانوں کے علاوہ باریش افراد اور بچے بھی لائنوں میں لگے ہوتے تھے ۔ کسی قسم کی جھجک نہیں تھی ، ہر شو میں غیراخلاقی فلموں کے حصے نہیں چلائے جاتے تھے ، اگر کسی شو کے دوران کچھ حصے چل جاتے تو فلم ختم ہونے کے بعد ' معززفلم بین '' نہایت فاتحانہ اور مسرور انداز میں باہر نکلتے ، اُسی زمانے میں مخرب الاخلاق لٹریچر کا بھی دور شروع ہوا یہ کتابیں عام دستیاب تھیں ۔

ایک عجیب سا ماحول ملک میں پیدا ہو گیا تھا، فلموں کے لئے سنسر بورڈ اُس زمانے میں بھی موجود تھا مگر فلموں میں شراب پینا اور دوسرا نشہ کرنا معمول کی بات تھی ، ا یسے سین بھی عموماً دکھائے جاتے تھے کہ جس میں ولن کو ریپ کے'' ابتدائی مراحل '' طے کرتے ہوئے دکھایا جاتا تھا ، باقی نتیجہ فلم بین خود ہی اخذ کر لیتے تھے ۔

پھر وی سی آ ر کا دور شروع ہو گیا ، وی سی آ ر پر چوری چھپے غیر اخلاقی انگلش فلمیں دیکھی جا نے لگیں، اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،کہ اس زمانے کے مشہور ماہر نفسیات کا دعویٰ تھا کہ ایسے معاملات کو کھلی چھٹی دینے کی وجہ سے اسی فیصد نوجوان بے راہ روی کا شکار ہو چکے ہیں ، ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ملک میں 38 فیصد بچے اور بچیاں جنسی ہراسگی کا نشانہ بن رہے ہیں ، انھوں نے اور بھی دل لرزا دینے والے انکشافات کئے تھے۔

حالات مزید مخدوش ہو تے گئے ، لڑکوں نے اپنی لڑکیوں کی نازیبا ریکاڑنگ کر کے انھیں بلیک میل کرنا شروع کر دیا ، جب کوئی معاملہ آ شکار ہوتا تو اخبارات والے بھی نمک مرچ لگا کر ایسی خبروں کو نمایا ں جگہ پر شائع کرتے ، اخبارات کا ایک صفحہ فلمی اشہتاروں کیلئے مختص ہوتا تھا ۔ ہفتہ میں ایک دن فلم ایڈیشن بھی شائع ہوتا تھا ، بے راہ روی میں اضافہ ہو تا چلا گیا اور پورے ملک میں کسی کو بھی اس بات کا احساس نہ تھا ، بلکہ اُ سے زندگی کے معمولات کا ایک حصہ سمجھ لیا گیا تھا ، ایک طوفان تھا، جس کی شدت میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا اور ہو رہا ہے ، مگر ارباب اختیار ان معاملات سے لا تعلق نظر آتے تھے ۔

انٹرنیٹ کا دور شروع ہوا ، جدید موبائیل فونز سے ان معاملات میں اور آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں ، اب تو ہر عمر کا بندہ یا بندی باآسانی اپنی مرضی کا مواد ''سرچ'' کر کے دیکھ سکتا ہے ، اس کا نتیجہ ۔۔۔۔۔؟

فیس بُک کی کامیابی کے بعد درجنوں نئی ایپس شروع ہو چکی ہیں، ان ایپس کے مالکان ارب پتی بن چکے ہیں ، اپنی ایپس کی مقبولیت کیلئے انھوں نے نوجوان نسل کی دلچسپی اور ذرائع آ مدنی بڑ ھانے کیلئے کئی پروگرام شروع کئے ہیں ، ان پر وگرامز میں شرکت کرنے والوں کا آغاز دل پذیر اور انجام عبرتناک ہوتا ہے۔

نوجوانوں میں '' ٹک ٹاک '' کا جنون بڑھتا جا رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے جس ''ٹک ٹاکر'' کو جتنی زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے اُسے اتنا ہی مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔ بے شمار افراد خطرناک سین کی ویڈیو بناتے ہوئے موت کے گھاٹ اُتر چکے ہیں ۔ بے شمار خواتین مختلف مسائل کا شکار ہو چکی ہیں۔

پچھلے دِنوں یوم آ زادی کے موقع پر مینار پاکستان میں ایک ٹک ٹاکر عائشہ اِکرم سے سینکڑوں کھلنڈروں اور اوباشوں کی بد سلوکی کی باز گشت پورے ملک میں سنی گئی ، وزیراعظم عمران خان نے خصوصی طور پر اس واقعہ کا نوٹس لیا ، سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا گیا ، ٹک ٹاکر عائشہ اکرم نے چھ افراد کی شناخت کی ان افراد کو جیل بجھوایا گیا ، مگر پچاس دن گزرنے کے بعد ٹک ٹاکر عائشہ نے مزید انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ اُسے ریمبو نامی ٹِک ٹاکر بلیک میل کرکے اپنے مزید دس دوستوں کو ملانے کیلئے مینار پاکستان لے گیا تھا ، اُس نے مزید بتایا کہ ریمبو کا ایک اور دوست خان بابا بھی اُسے بلیک میل کرتا رہا ہے۔

یہ کیس ابھی چل رہا ہے ، امکان تو یہی ہے کہ مزید انکشافات بھی سامنے آ ئیں گے ۔ مگر رش میں خواتین کے ساتھ بد سلوکی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ، ماضی میں بھی اس قسم کے واقعات تسلسل کے ساتھ رُونما ہو تے رہے ہیں ، مگر اس دور سے پہلے وقت چونکہ چینلز کی بہتات نہیں تھی، سوشل میڈیا بھی ایڈوانس نہیں تھا ، اس لئے ایسے واقعات کی باز گشت سنائی نہیں دیتی تھی ۔

جس زمانے میں لاہور میں فوٹریس اسٹیڈیم میں '' ہارس اینڈ کیٹل شو '' ہوتا تھا تو اسٹیڈ یم کے گردونواح میں دستکاری کی نمائش اور میلہ بھی لگتا تھا ۔ رات کے وقت اس قدر رش ہوتا تھا کہ خدا کی پناہ ۔ جو خواتین اپنی فیملیزکے ساتھ میلے میں آتی رہیں وہ لڑکوں کے جھرمٹ میں پھنس جاتی تھیں، کھلنڈر ے اور اوباش نوجوان ان کے ساتھ وہ سلوک کرتے تھے کہ ان لڑ کیوں کی چیخوں کی آ وازیں ہر طرف سنائی دیتی تھیں ۔ مگر ایسے واقعات کو میڈیا میں اچھالا نہیں جا تا تھا ۔

چاند رات کے موقع پر بازاروں میں خواتین کے ساتھ بد سلوکی کے واقعات عام تھے ، ان واقعات میں اضافہ ہی ہوا ہے، اسی طرح ماضی میں شب برات کے موقع پر اندرون موچی دروازہ آتش بازی خریدنے والوں کا بے پناہ رش ہوتا تھا، اپنے گھروں کی جانب جانے والی خواتین کی اکثریت ان افراد کے نرغے میں پھنس جاتی تھیں اور اس کا حال بھی ''ٹک ٹاکرعائشہ اکرم'' جیسا ہی ہوتا تھا مگر ان واقعات کا شوروغوغا نہیں ہوتا تھا۔

بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات بھی عام تھے، بھولی بھالی لڑکیوں کو اپنے دام اُ لفت میں پھنسا کر ان کی آ بروریزی کر نے والے لڑکے ''شکاری'' کہلاتے تھے بلکہ اب بھی کہلاتے ہیں ۔ بعض لڑکے سینکڑوں شریف زادیوں کی عصمت دری کا دعویٰ کرتے تھے ، بے شمار لڑکوں نے تو اپنے '' شکار '' کی باقاعدہ لِسٹ بنائی ہوتی تھی۔ یہ چیزیں روٹین کا ہی حصہ سمجھی جاتی تھیں ۔ جب غیر ملکی پاکستان آ تے تھے تو وہ پاکستانی قوم کو ذہنی دیوالیہ پن کا شکار قوم سمجھتے تھے۔

کچھ عرصہ سے دوران ڈکیتی خواتین کی آ بروریزی کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے ، شریف شہریوں کے مال کے ساتھ عزت بھی لُٹ جاتی ہے، ایک سینئر پولیس افسر کے بقول اٹھانوے فیصد افراد مال لوٹنے کی رپٹ تو درج کروا دیتے ہیں ، بد نامی کے خوف سے اپنی خواتین کی عزت لٹنے کی رپٹ درج نہیں کرواتے ۔ پچھلے دنوں لاہور سیالکوٹ موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ ڈکیتی کے ساتھ گینگ ریپ بھی کیا گیا تھا ۔ ایسے واقعات بھی اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں ۔

اس قسم کے واقعات اپنی جگہ ، پنچایتی طور پر بھی خواتین کو انفرادی اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کی سزا سنانے کی سینکڑوں مثالیں بھی موجود ہیں ، مختاراں مائی نامی ایک خاتون کو بھی پنچایت کے حکم سے جبری اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ اس واقعہ کی باز گشت عالمی سطح تک سُنی گئی ۔ ایک ماہر نفسیات کے بقول پنچایت میں شامل افراد اپنے سفلی جذبات کی تسکین کیلئے ایسے فیصلے سناتے ہیں، شبانہ نامی ایک لڑکی جس کا تعلق مظفر گڑ ھ کے قریبی گاؤں سے ہے، نے بتایا کہ اس کے بھائی کے گاؤں کی لڑکی کے ساتھ تعلقات تھے ، جب یہ معاملہ پنچایت کے سامنے اٹھایا گیا تو انھوں نے یہ فیصلہ دیا کہ اُس لڑکی کا باپ اور بھائی لڑکے کی بہن شبانہ کو زیادتی کا نشانہ بناکر اپنا بدلا لیں چنانچہ یہی ہوا ۔ پنچایت نے کہا کہ اب کسی لڑکے کو کسی کی عزت کے ساتھ کھیلنے کی جرات نہیں ہو گی۔

جنسی جرائم میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ، اس کی روک تھام کے لئے قوانین بنانے کی بھی ضرورت ہے اور ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ جس کی وجہ سے پورے ملک میں جنسی ہیجان میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اخلاقی اور دینی اقدار ختم ہوتی جا رہی ہیں ۔

بعض غیر ذمہ دار خواتین بھی موجودہ صورتحال کی ذ مہ دار ہیں
لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں مخصوص بس اسٹاپوں پر باپردہ خواتین باقاعدگی سے کھڑی نظر آتی ہے جو درحقیقت گاہکوں کی تلاش میں ہوتی ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس سرگرمی کی روک تھام نہ ہونے کے باعث ان بس اسٹاپوں پر آنے والی عام خواتین بھی کس قدر غیر محفوظ ہو جاتی ہیں۔

اجتماعی زیادتی کے بعض کیسوں کی اصل حقیقت
ایک پولیس افسر نے انکشاف کیا کہ جب وہ بطور ایس ایچ او کے فرائض سر انجام دے رہے تھے تو اُن کے پاس مختلف اوقات میں اجتماعی زیادتی کے چار ایسے کیسزبھی آ ئے کہ جن میں بردہ فروش عورتوں نے لین دین کے معاملات کی وجہ سے اجتماعی زیادتی کی رپٹ درج کروا دی ۔ تفشیش کے دوران اصل حقیقت کا علم ہوا ، ہم اپنے طور پر کوشش کرتے ہیں کہ ملزموں کو سزا بھی ملے، ان کے خلاف کا روائی بھی ہو مگر ایسے واقعات کی تشہیر نہ ہوکہ اس قسم کے واقعات کی تشہیر سے معاشرے پر بّرے اثرات مرتب ہو تے ہیں ،مگر خواتین بہت زیادہ غیر محتاط ہوتی ہیں ، ان کا نا مناسب رویہ معا شرے میں اضطراب پیدا کرتا ہے ۔

اجتماعی زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات برصغیر کی تقسیم کے موقع پر ہوئے
اگر دنیا کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بھی سامنے آ تی ہے کہ اجتماعی زیادتی کے سب سے زیادہ المناک اور دلخراش واقعات برصغیر کی تقسیم کے وقت رونما ہوئے ، جب ہندؤں اور سکھوں نے ہزاروں مسلم خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا ، اور پھر انھیں بیدردی سے شہید کر دیا گیا ، تا ریح میں اس سے پہلے اور بعد میں ایسے واقعات کبھی نہیں ہوئے۔

ساری دنیا آپ کی جیب میں
ماہرسماجیات (ایم ریئس شیخ سہروردی) صاحب نے اپنی رائے کا اظہارکرتے ہوئے کہا ! کہ سوشل میڈ یا عام زبان میں مطلب دُنیا آپ کے موبائیل میں اور موبائل آ پ کی پاکٹ میں ، اِس کا مطلب ہے ساری دنیا آپ کی جیب میں ، اب آپ کو ٹائم ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ، پہلے پروگرام بناؤ ، گھر سے باہر جا نے سے لے کر جہاں جا نا ہو تو اُ سی حساب سے رقم اکٹھی کرو ، پھر کپڑوں کا انتظام کرو ، اگر تھوڑی دیر کیلئے جا نا ہو تو کپڑے اُس کے مطابق ہوں ۔ دوستوں سے ملنا ہو تو کپڑے اُ س کے مطابق اور جیب میں ویسی ہی رقم کا ہونا ۔ عزیزوں سے ملنا ہو تو ویسے کپڑے ویسی رقم ۔ ہوٹل میں جانا ہے تو ؟ اگرچہ مسئلے ہی مسئلے ہیں ۔ سوشل میڈیا نے ایک اینڈ رائڈ موبائل سے تقریباً یہ سارے مسئلے حل کر دئیے ۔ سوائے اس کے جہاں خود جائے بغیر گزارہ نہیں ۔

گھر بیٹھے عزیزواقربا ء دوستوں، کاروباری لوگوں ، دفتری معاملات وغیرہ سب فون پر کئے جاتے ہیں ، گھر بیٹھے ویڈیوکال کے ذریعے پوری دُنیا میں جہاں بھی ہوں بات کر لو ، ایک دوسرے کی شکل بھی دیکھ لو ۔ پوزیشن بھی چیک کر لو ۔ تمام دنیا کے ڈرامے ، فلمیں ، ہر قسم کی معلومات ، سوال وجواب ، طلبا ء اور طالبات اسلامی تعلیم یا دنیا وی تعلیم ، ہواؤں ، فضاؤں ، سا ئنسی ، تجارتی غیر تجارتی ، کھیلوں وغیرہ ، ناپاک اشیاء یا ناپاک حرکتیں وغیرہ کوئی شے بھی چھپی نہیں رہی ، تمام کام ایک موبائل کے سوشل میڈیا پر گھر بیٹھے دیکھ اور کر سکتے ہیں ۔

دُنیا کے ٹاپ ٹین امیر ترین لوگوں میں زیادہ تر اِسی دنیائے سوشل میڈیا ، اِ ن موبائل کے ذریعے ہی بنے ہیں ۔ فوائد بے حساب اور نقصانات بھی بے حساب ، خاص طور پر جاہل لوگ اچھی باتوں کی بجائے غلاظتوں پر زیادہ فوکس کرتے ہیں ۔ اِس سے بھی بڑھ کر وہ والدین جو جاہلیت کی انتہائی حد تک پہنچے ہوتے ہیں ، تعلیم یافتہ ہوں یا اَن پڑھ چھوٹے بچوں کو موبائل کا عادی بنا دیتے ہیں ، مائیں اپنے گھر کے کاموں کی وجہ سے بچہ تنگ نہ کرے ، بچوں کو موبائل پر کارٹون سے شروع ہوتے ہوئے ، مزاحیہ باتوں یا گیمز وغیرہ ، ظلم کی انتہا کہ بچے کی عادات اتنی پکی ہو جاتی ہیں کہ منع کرنے کے باوجود سب کے سامنے بچے مارنا اور بدتمیزی کرنا شروع کر دیتے ہیں، اور خودکشی بھی کر لیتے ہیں ۔ تب ماں باپ کہتے ہیں ہم مجبور ہیں ۔ بچے تو بچے بڑے بھی اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں ۔

بات لکھتے ہوئے شرم محسوس ہو تی ہے ، لیکن لکھنی پڑ رہی ہے، شادی شُدہ نئے جوڑوں میں طلاق کی شرح بہت بڑ ھ گئی ہے، جوان بچے ماں باپ کے نافرمان ہو گئے ہیں ، گھر سے بھاگنے کا عام رواج ، آپس کے تعلقات اور رشتہ نہ صرف نوجوانوں میں بلکہ بڑے بزرگوں میں بھی ناپائیدار ہوگئے ہیں ۔ ہر کوئی سو شل میڈیا ، فیس بُک ،چیٹنگ ، ڈارمے ، فلموں اور عجیب و غریب حرکتوں سے لطف اندوز ہو نے میں مصروف ہوتے ہیں ۔ تنہائی میں ، بند کمروں میں راتوں کو دیر تک جا گنا ، صبح دیر سے اُٹھنا ، کام چور، سُستی ، صحت خراب ، کاروبار برباد وغیرہ، نقصانات ہی نقصانات ہیں ۔

انھوں نے مزید بتایا ! ابھی میں نے مشرقی اور مغربی دُنیا کے بارے میں نہیںکہا، بہت سارے واقعا ت جو رونما ہو چکے ہیں اور ایسے ناپاک واقعات کو قلم بندکرنا، میرے قلم میں طاقت نہیں ، ہمارے معاشرے میں بچے بچیوں کے ساتھ جوکچھ ہو رہا ہے۔ مغرب زدہ لوگوں کے بارے میں کہتے ہوئے شرم آتی ہے جو کچھ سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے ہو رہا ہے وہ انسانی زندگی کے ساتھ ظلم اور بربریت کی انتہا ہے۔ آخر میں اُن کا کہنا ہے کہ سوشل میڈ یا کی بُرائیوں میں مبتلا ہو نے والے بربادی کی پستیوں میں چلے جا رہے ہیں ، اس کے برعکس فائدہ اُٹھانے والے ترقی کی راہ پرکا میابی حاصل کر رہے ہیں ۔

ماضی کی معروف ٹک ٹاکر آمنہ کا اظہار خیال
ماضی کی معروف ٹک ٹاکر آمنہ نے اپنے خیالات کا اظہا ر کرتے ہو کہا! کہ کرونا وائرس کی وجہ سے آج ساری دنیا انٹر نیٹ پر کا م کر رہی ہے لیکن عام لوگ ، مزدور طبقہ اور ایسے لوگ جن کے پاس یہ سہولت نہیں ہے یا اُن کواستعمال کرنی نہیں آتی بہت متاثر ہوئے ہیں ۔ اسی دوران سوشل میڈیا نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے ، سوشل میڈیا پر لوگ گھر بیٹھے آ رام سے کام کر سکتے ہیں ، بظاہر یہ بات کہنے اور سننے میں بہت آسان لگتی ہے، لیکن اس پر کام کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ نقصانات اور فوائد کیا ہیں ۔

میں بھی اس سوشل میڈیا کا شکار ہو چکی ہوں ۔ میں نے اپنی فیملی کو سپورٹ کرنے کے لئے ٹِک ٹاک کو جوائن کیا ۔اس میں کام کرنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ کچھ مخصوص لوگوں نے اتنا بُرا بنایا ہوا ہے کہ آپ کی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ جو لوگ آپ کو پہلی بار دیکھتے ہیں اور آپ کے بارے کچھ نہیں جانتے ، ایسی ایسی باتیں کر جاتے ہیں ،جو آپ نے کبھی نہ سوچی اور نہ کبھی سُنی ہوتی ہیں ۔ سوشل میڈیا پر خاص طور پر لڑکیاں بالکل بھی محفوظ نہیں ہوتیں ۔ اس میں 50 فیصد قصور لڑکیوں کا ہوتا ہے ، کچھ لڑکیوں نے لوگوں کو اتنا فری کیا ہوتا ہے کہ اُن سے اپنی پرسنل باتیں بتا دیتی ہیں ، جس کی وجہ سے دوسری اُن لڑکیوں کو نقصان اٹھانا پڑتا جو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے مالی معاملات بہتر بنانا چاہتی ہیں ۔

شروع میں مجھے کوئی مشکل نہیں ہوئی ٹِک ٹاک پر کام کرنے میں لیکن بعد میں لوگ مجھے میسج کرکے کہتے کہ ا ٓپ ہم سے صرف پانچ منٹ بات کر لیں ،جو آ مدنی آپ کو ہو گی اس سے تین گُنا زیادہ میں آ پ کو دونگا ، اب مجھے حد سے زیادہ اسی طرح کے میسج اور کومنٹس آنے لگے اور انتہائی غیرمناسب باتیں کرنے لگے ، مجبوراً مجھے اپنا سوشل میڈ یا کا اکائونٹ بند کرنا پڑا لیکن اس بارے میں کسی نے نہیں سوچا کہ میں کس مجبوری کے تحت یہ کام کر رہی ہوں ، حال ہی میں مینار پاکستان میں جو واقعہ پیش آیا اس کے علاوہ اور بھی بہت سے واقعات روز ہی ہوتے رہتے ہیں وہ بھی سوشل میڈ یا کی وجہ سے ہو رہے ہیں ، آمنہ نے مزید کہا ! کہ یہاں میں ایک بات ضرور آپ لوگوں سے کہنا چاہ رہی ہوں کہ سوشل میڈیا میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں کہ ایک عام لڑکی بھی آسانی کے ساتھ کام کر سکے ، اگر کوئی غلط میسج یاکومنٹس کرے تو اس کا اکائونٹ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا جائے ، تاکہ مزید لڑ کیا ں اس قسم کے واقعات کا شکار نہ ہوں !!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں