جزء جزو جُزوی اور جُزویات

عربی میں لفظ جُزء کے باب میں اچھی خاصی تفصیل موجود ہے۔

عربی میں لفظ جُزء کے باب میں اچھی خاصی تفصیل موجود ہے۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی 120

گزشتہ دنوں ہمارے ایک بزرگ معاصر نے خاکسار کی قلمی کاوش دیکھ کر واٹس ایپ کال کی زحمت فرمائی اور جو کچھ ارشاد فرمایا، اس کا لُبِ لُباب یہ تھا کہ زبان کے ارتقائی مراحل میں کسی بھی لفظ کی شکل بدلنا، معانی بدلنا، غیرزبانوں کا دخل وغیرہ یہ سب پرانی اور دُور اَزکار باتیں ہیں، آپ بلاوجہ اپنی توانائی ضایع کرتے ہیں۔

ہرچند کہ اُن کی گفتگو سے یہ عیاں تھا کہ موصوف نے کالم سِرے سے پڑھا ہی نہیں، مگر پاسِ ادب سے ہاں ہُوں کے سوا کچھ نہ کہا۔ اگر گستاخی کا یارا ہوتا تو کہہ سکتا تھا کہ قبلہ! آپ نے بھی تو ایک دن اپنے والد محترم کے مطب میں بیٹھے بیٹھے اچانک مزید تعلیم حاصل کرکے، اردوزبان وادب کی تدریس کا پیشہ اختیار کرنے کا بِیڑا اُٹھایا تھا ...خواہ مخواہ عمر کے اتنے سال ضایع کیے، وہی خاندانی حکمت جاری رکھتے، کیونکہ اِس دوسرے کام میں تو بہت لوگ ہیں۔

البتہ حکمت میں خاندانی لوگ اُٹھتے جارہے ہیں، اَدویہ بَوجوہ مہنگی اور نخالص ہیں ....لہٰذا اسی باب میں محنت جاری رکھتے ....خیر کیا کہیں، ہمارے یہاں پوری پوری کتاب پڑھے بغیر تبصرہ لکھنے اور تقریر کرنے کی روایت ماقبل چلی آرہی ہے، سو اَگر ہمارے ان محترم بزرگ نے کچھ کہہ دیا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ''یہ اگلے وقتوں کے ہیں لوگ، انھیں کچھ نہ کہو!''۔ اب یار لوگ کہیں گے، بھئی سہیل صاحب! آپ کیوں دل برداشتہ ہوتے ہیں۔ یہ سب جو لکھا جارہا ہے اور لکھا جائے گا اور اس کے متعلق جو کچھ لوگ کہتے ہیں، ایک دن تاریخ کا حصہ ہوگا۔

مندرجہ بالا پیرا کو ''جملہ ہائے معترضہ'' سمجھ کر نظراَنداز کرتے ہوئے اصل موضوع ملاحظہ فرمائیں۔

میرے حلقۂ احباب میں شامل بعض صاحبانِ علم اکثر نجی وعوامی سطح پر مجھے کوئی نہ کوئی موضوع سُجھاتے ہیں جس کی بابت تحقیق تشنہ یا مفقود ہوتی ہے یا بعض اوقات ماقبل ہوچکی ہو، مگر مشہور نہیں ہوتی۔ ان میں سرِفہرست نام میرے (شعبہ ادب، صحافت، نشریات و تشہیر کے پیش رَو)، بزرگ دوست محترم شہاب الدین شہاب ؔ کا ہے۔

ہمہ وقت دفتری اُمور میں مصروف نہیں، بلکہ مستغرق رہنے کے باوجود، انھیں جب کبھی کوئی ایسی بات یاد آئے یا خیال یکایک ذہنِ رَسا میں گویا دَر آئے تو وہ کہیں بھی ہوں، مجھے ٹیلی فون پر یاد فرماتے ہیں۔ ہماری باہمی گفتگو اکثر اس قدر مفصل وطویل ہوتی ہے کہ دونوں اطراف کی ''گھریلو سرکار'' کی ناراضی کا خطرہ بھی کسی تلوار کے مانند سَر پر 'لٹکا' ( یا سوار) رہتا ہے (خیر ہمارے لیے تو شاعر نے بہت پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ''مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی''۔ یہ الگ بات ہے کہ 'سخت قسم کے صدارتی نظام' یا بادشاہت میں یہ نوبت بھی شاذ ہی آئی ہے۔

آمریت زندہ باد! یہ مصرع بھی ''کمپنی کی مشہوری'' کے لیے، بلکہ ''جلے پھپھولے یا دل کے پھپھولے پھوڑنے'' کے لیے، درج کیا گیا ہے)۔ بہرحال آمدم برسرمطلب، یہ بات شہابؔ بھائی نے کچھ عرصے قبل چھیڑی جو اَدھوری رہی تھی، مگر پھر چند دن پہلے تازہ ہوگئی کہ اردو میں عربی لفظ جُزء سے جُزو، جزوی اور جزویات آخر کیوں کر بن گئے۔

انھوں نے برسبیل تذکرہ یہ انکشاف بھی کیا کہ ایک لکھنوی دوست نے ایک مرتبہ اثنائے گفتگو ''پارہ'' (یعنی حصہ یا ٹکڑا جیسے سیپارہ) کی جگہ ''جُزوا'' استعمال کیا۔ جب ہم نے تحقیق کی ابتداء کی تو معلوم ہوا کہ یہ انوکھا لفظ بھی پہلے سے موجود ہے، البتہ اس کا استعمال محدود ہے۔ یہاں یہ بنیادی نکتہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ بعض اُمور میں، بلکہ محترم شہاب بھائی کے نزدیک، اکثر، اہل ِزبان کا روزمرّہ ومحاورہ، لغات پر فائق اور بھاری ہوتا ہے۔ لہٰذا اہلِ زبان اگر کسی لفظ یا ترکیب یا محاورے کے ساتھ، حسب ِضرورت کوئی بھی سلوک کرچکے ہوں تو وہ آیندہ کے لیے سند بن جاتا ہے۔

عربی میں لفظ جُزء کے باب میں اچھی خاصی تفصیل موجود ہے۔ جدید اردو اِملا میں اس کے آخر کا ہمزہ حذف کرنے کا رواج ہے۔ براہ راست اسی لفظ پر آئیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ''الجُزء'' سے مراد ہے کسی بھی چیز کا ایک حصہ۔ اس کی جمع اجزاء ہے۔ جب کسی چیز کو انگریزی Partialکے مترادِف ۔یا۔ منقسم یا حصے میں بٹا ہوا بتانا ہو تو عربی میں ''الجزئی'' کہتے ہیں یہ کُلّی یعنی پوری/ساری کی ضد ہے، (جبکہ ہم اردو میں اسے جزوی کہتے ہیں۔

فارسی کے اثر سے اور موقع محل کے لحاظ سے جزواً یعنی تھوڑا یا کچھ بھی رائج ہے ) اسی سے لفظ جُزئیہ ہے جس کی جمع جزئیات ہے، (مصباح اللغات عربی اردو از ابوالفضل عبدالحفیظ بلیاوی)، ہم اردو میں اس سے مراد کسی موضوع، مضمون یا شئے کی تفصیل لیتے ہیں، مثلاً یہ کہ فُلاں موضوع میں کیا کیا کچھ شامل ہے۔ انگریزی میں Minute details کہا جاتا ہے۔ عربی سے یہی لفظ ترکی، فارسی اور تاجِک (یا تاجیک) میں گیا تو اس کی شکل برقرار رہی، مگر پھر غالباً فارسی والوں نے اسی لفظ کو اپنی سہولت کے لیے تبدیل کرکے جُزو بنالیا۔ یعنی اس میں وائو کا اضافہ کرکے اس کا استعمال سہل کردیا۔

جزء کی جمع اجزاء ہے، قیاس ہے کہ فارسی گو طبقے نے اپنے وضع کیے ہوئے لفظ جزو کی جمع جزویات بنالی جو درست معلوم نہیں ہوتی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ فرہنگ آصفیہ میں جز اور جزو دونوں موجود ہیں۔ مولوی سید احمد دہلوی صاحب نے لفظ جز کو فارسی الاصل بتاکر، اسے تابع فعل لکھا (حالانکہ عربی الاصل ہے۔ س ا ص) اور یہ معانی بیان کیے: ۱)۔ سوائے، بِدُون، علاوہ، ماوَراء، ماسِوا، بِن، چھُٹ، باِستثناء (بہ استثناء)، قطع نظر، وَرائے، غیر، اِلّا، مگر۔۲): مخفف، جُزو، پارہ، ٹکڑا۔}لغات کشوری اردو میں مولوی تصدق حسین رضوی صاحب نے بھی جُزء کے معانی، سوائے اور بدون لکھے ہیں۔

لفظ جزء ہماری دیگر مقامی وعلاقائی زبانوں میں بھی موجود ہے جیسے سندھی میں جُز، جزو، جزبندی، جزوی طور پائے جاتے ہیں۔ (سندھی انگریزی ڈکشنری: پرمانندمیوارام، انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی، جامعہ سندھ، جام شورو: ۱۹۹۱ء)

اب ذرا آگے بڑھ کر جزو کا باب دیکھتے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ کے مؤلف نے لکھا ہے: جُزو۔عربی۔اسم مذکر: ۱)۔ ریزہ، ٹکڑا، حصہ، کَن، بھاگ ، پارہ ۲)۔ سولہ صفحے یا آٹھ وَرق کا مجموعہ، سولہ Pageکا مجموعہ۔ اس کے بعد یہ مندرجات ہیں:

ا)۔ جُزوِ بدن ہونا: اردو، فعل ِ لازم، انگ لگنا، کسی چیز کا بخوبی ہضم ہوکر موقع سے صَرف ہونا، بدلِ مایَتحلَّل ہونا (یعنی حل ہوجانا۔س ا ص)


ب)۔ جزوبَندی: عربی، اسم مؤنث۔ کتاب کے اجزاء کو ڈور سے جزوجزو کرکے سِینا، کتاب کی باہمی دوختن (یعنی سِینا۔ ویسے ہمارے یہاں یہ جُزبَندی ہے۔ بابائے اردو کی اردو۔ انگریزی لغت میں بھی یہی لکھا گیا ہے۔س ا ص)

ج)۔ جزو دان: عربی، اسم مذکر، بستہ، وہ تھیلی جس میں کتاب رکھی جائے (ہمارے یہاں جُزدان کہا جاتا ہے اور یہ قرآن کریم رکھنے والی تھیلی یا تھیلے سے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ بابائے اردو کی اردو۔ انگریزی لغت میں بھی جُز دان ہی لکھا گیا ہے۔ س ا ص)

د)۔ جُزو رَس: عربی، صفت۔ (۱) کفایت شعار، کم خرچ، کفایت اندیش، بخیل، کنجوس (۲) نکتہ رَس، نکتہ فہم، ذہین، زُودفہم، زَکی (اب اکثر منفی معنوں میں مستعمل ہے، جُزرَس ہوچکا ہے، بابائے اردو کی اردو۔ انگریزی لغت میں بھی جُز رَس ہی لکھا گیا ہے، جبکہ عربی میں 'زکی' سے مراد پاک صاف کی ہے نہ کہ ذہین، تیز، ہوشیار کی۔ یہ دوسرا اسم، ذال سے ذکی ہے جس کا مفہوم مختلف ہے۔ س ا ص)

اس کے بعد ہمیں جُزو کے ذیل میں جُزو رَسی، جُزوِ کُل اور جُزو ِلایتجزّیٰ ملتے ہیں اور پھر آتا ہے، جُزوی۔

جُزوی: عربی، صفت۔ ذراسا ، تھوڑا سا، منسوب بہ جُزو، حقیر، خفیف، ہیچ، اَدنیٰ، چھوٹا، قلیل (مصباح اللغات عربی اردو میں جُزو اور جُزوی موجود نہیں۔ اسی طرحAl-Mawrid: A Modern English-Arabic Dictionary by Munir Ba'albaki: Beirut- 1980میں بھی موجود نہیں۔ عربی داں حضرات میری رہنمائی فرمائیں۔س اص)

جُزویات: عربی، اسم مذکر (حالانکہ رواج میں اسے مؤنث پایا گیا۔ س ا ص)۔ فروعات، افراد، حصے، چھوٹے چھوٹے نمونے، کُلّیات کے بَرخلاف اردو لغات کے سیرحاصل مطالعے کے بعد طبیعت گوارا کرے تو فارسی کا رُخ کرلیں؟...یہ دیکھیے کہ فارسی کی مختلف لغات میں اِن دو الفاظ کے کیا مفاہیم درج کیے گئے ہیں:

فرہنگ فارسی از ڈاکٹر عبداللطیف، کتابستان، لاہور:
جُز: سِوا، بغیر، بدون
جزو بندی: کتابوں کے اجزاء کو دھاگے یا ڈورے کے ساتھ سینا
جُزوکَش: قرآن پاک کے سیپارے پڑھنے والا
جُزوی: تھوڑا سا، کم
جُزویات: حصے، ٹکڑے (کلیات کا اُلٹ)

عباس آریان پور کاشانی و منوچہرآریان پور کاشانی کی مرتبہ فرہنگ انگلیسی فارسی (English-Persian Dicitonary]ہمیں بتاتی ہے کہ انگریزی لفظ[-ed, -ing] Except یعنی بغیر کے لیے جدید فارسی میں یہ الفاظ مستعمل ہیں:

بطورفعل: مستثنیٰ کردن، مشمول نکردن، اعتراض کردن، جبکہ بطور Preposition/Interjection: جُز، بجز، مگر، باستنثائی (بہ استثنائے)، غیر اَز، سِوای (سوائے)....علیٰ ہٰذاالقیاس۔ آن لائن فارسی لغات سے معلوم ہوا کہ لفظ جزء ان مفاہیم میں بھی مستعمل ہے: ناقص، پارہ پارہ، شکستہ، ریز شدہ، بی ربط (بے ربط)، بطور مسلسل، بطور ردیف، بدفعات۔
جُزء اور جُزو کی تفصیل سے تھک گئے ہوں تو قہوہ پی لیں؟

یہ قہوہ بھی کئی طرح کا ہوتا ہے، مگر ابھی اس کی تفصیل میں پڑے بغیر، یہ جان لیں کہ یہاں یہ لفظ بمعنی کافی[Coffee] استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ کافی کا قدیم نام یہی ہے۔ قہوے یا کافی کے ایک برتن کو جَذوَہ کہا جاتا ہے۔ دل چسپ انکشاف یہ ہے کہ عثمانی یا عثمانلی (قدیم عربی رسم الخط میں لکھی جانے والی، خلافت ِ عثمانیہ کے عہد کی) ترکی میں ایک لفظ ہے، جَزوہ یا جَذوہ (Jezve) جس کا تلفظ ہے، جیزوے اور جدید (رومن رسم الخط میں لکھی جانے والی) ترکی میں یوں لکھا جاتا ہے: Cezve۔ اس سے مراد ہے قہوہ یعنی کافی کا برتن (کوئی ڈونگایا دستے والا پیالہ)۔ رسم الخط کے فرق سے قطع نظر یہی لفظ ان زبانوں میں مستعار اور مستعمل ہے:

کریمیا تاتار [Crimean Tatar]، مقدونی[Macedonian] ، سربین، آرمینی[Armenian] ، (آرمینی میں جازوے)، روسی[Russian]،بُلغاری[Bulgarian] اور سربوکروئٹ [Serbo-Croatian](جیز وا)، چیک[Czech] (جیزوائی ) اور انگریزی [English](جیز وے)
https://www.wordsense.eu/} {
اب اس سے بھی بڑا انکشاف یہ ہے کہ عربی میں جَذوَہ سے مراد ہے بھڑکتا ہوا انگارہ یا کوئلہ۔ اسے جیم پر پیش اور زیر کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے۔ جب کسی شخص کو کسی فساد کی جڑ یا اسے پھیلانے والا قرار دیا جائے تو کہا جاتاہے: فُلاں جذوۃ شَرّ فُلاں۔ کہاں کافی، کہاں یہ لفظ.... مگر صاحبو! لسانیات میں یہی ایک لطف ہے کہ کسی بھی لفظ، ترکیب، محاورے یا اصطلاح کی اصل یا حقیقت معلوم کرنے کی سعی میں بہت سی ایسی باتیں بھی معلوم ہوجاتی ہیں کہ انسان دَنگ رہ جاتا ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ جس طرح کوئی دہکتا ہوا، بھڑکتا ہوا انگارہ یا کوئلہ کسی چیز کو گرم کرتا اور گرم رکھتا ہے، بالکل اسی طرح یہ برتن بھی کافی کو گرم رکھنے میں کام آتا ہے، لہٰذا اسے یہ نام دے دیا گیا۔

عین ممکن ہے کہ ابتداء میں قہوے کے وطن یا اصل خطے میں یہی برتن استعمال ہوتا ہو اور اسے یہ نام دیا گیا ہو جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ترکی اور ترکستان جاپہنچا ہو (پہلے حبشہ یا Ethiopia، یمن اور دیگر عرب ممالک میں قہوہ تھا جو کافی ہوگیا )۔ ماقبل آپ نے میرے کالم نمبر ایک سو گیارہ ''گل مُہر، گل مِہر یا گل مور'' میں پڑھا ہوگا کہ گل مہر کے انگریزی نامFlamboyant کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔ جن احباب کی نظر سے یہ کالم نہیں گزرا، وہ یہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں:
https://www.express.pk/story/2215356/1/
Load Next Story