پی ٹی آئی کے تین سال اور عوام کا رونا

حکومت کے ہر دعوے کی قلعی عوام پر کھل چکی ہے اور اکثریت حکومت سے سخت نالاں ہے


پی ٹی آئی نے اپنے اقتدار کے تین سال نہایت بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ (فوٹو: فائل)

کسی بھی تعلیمی درسگاہ کے کمرہ امتحان میں بیٹھے ہوئے طلبا بنیادی طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کو سوالیہ پرچہ دیکھتے ہی یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کو وہ اس میں کامیاب ہوجائیں گے، جبکہ دوسری قسم وہ ہوتی ہے جس کی پرچہ پر نظر پڑتے ہی دعاؤں پر تکیہ ہوتا ہے کہ اللہ کرے میں پاس ہو جاؤں۔ پہلی قسم لائق جبکہ دوسری قسم نالائق اسٹوڈنٹس میں شمار ہوتی ہے۔

عام طور پر سوالیہ پرچے کو حل کرنے کےلیے تین گھنٹے کا وقت دیا جاتا ہے لیکن ہر گزرتے لمحے کے ساتھ طلبا کے لکھنے کے اسپیڈ بڑھنے کے ساتھ ان کے دلوں کی دھڑکن بھی تیز ہوتی جاتی ہے تاکہ دیے گئے مقررہ وقت کے اندر پیپر کو اس طریقے سے حل کرلیا جائے جس کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں نکلے۔ پرچہ حل کرنے کی اس تگ و دو میں جب آدھے سے زیادہ وقت گزر جاتا ہے تو پھر نالائق طالب علم کے ہاتھ پاؤں سُن پڑجاتے ہیں کہ وقت تھوڑا رہ گیا اور ابھی تک میں نے پاس مارکس کا پرچہ بھی حل نہیں کیا اور پھر اسی افراتفری میں اس کا ذہن بھی اس کا ساتھ نہیں دیتا اور بالآخر اس کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں سامنے آجاتا ہے۔

اسی طرح ہمارے ملک میں جو سیاسی پارٹی الیکشن جیت کر حکومت قائم کرتی ہے تو اس کو پانچ سال کا ایک مقررہ وقت دیا جاتا ہے، جس میں اس نے اپنی کارکردگی عوام کے سامنے رکھنی ہوتی ہے، جس پر اس پارٹی کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ہوتا ہے۔ امتحانی کمرہ میں طلبا کو سوالیہ پرچہ اس وقت تھمایا جاتا ہے جب وہ کمرہ امتحان میں داخل ہوکر اپنی سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے، جبکہ حکومت کو پرچے کے سوالات پہلے سے معلوم ہوتے ہیں جب وہ اپوزیشن میں بیٹھ کر اپنے سے پہلے والی حکومت کی کارکردگی کو دیکھ رہی ہوتی ہے اور ملک اور عوام کو درپیش مسائل پر دن رات مگرمچھ کے آنسو بہائے نہیں تھکتی۔ اسے حکومت میں آکر ملک اور عوام کو انہی مسائل کی دلدل سے نکالنے کی تدبیر کرنی ہوتی ہے جن کو حل کرنے کے بارے میں وہ اپنی اپوزیشن کے دور میں افلاطونی دعوے کرتے نہیں تھکتی تھی اور اس طرح حکومت سنبھالنے کے پہلے دن ہی پورا کا پورا سوالیہ پرچہ حکومتی جماعت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں رائج اسی طریقہ کار کے تحت 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی جس کی سربراہی 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی فاتح پاکستان ٹیم کے کپتان عمران خان کے ہاتھوں میں تھی، جنہوں نے اگست 2018 کو وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا کر حکومت کے کمرہ امتحان میں عوام کی طرف سے دیے گئے سوالیہ پرچہ کو حل کرنے کی تگ و دو شروع کی۔

انہوں نے پہلے دن سے بلند بانگ دعوؤں کو اپنی تقریروں کا حصہ بنایا اور ملک لوٹنے والوں کو الٹا لٹکانے کے بے تحاشا دعوے کیے۔ کبھی تاریخ پر ہاتھ صاف کیا تو کبھی معیشت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کبھی ملک میں کھیلوں کے معیار کو بین الاقوامی معیار کے مطابق لانے کی باتیں کیں اور ملک کی ہر سطح پر میرٹ نافذ کرنے کی بڑھکیں ماریں۔ کبھی لوٹی گئی دولت واپس لانے کا فلسفہ بیان کیا اور کبھی ایک کروڑ نوکریاں دینے کے وعدے کیے۔ کبھی پچاس لاکھ گھروں کا جال بچھایا تو کبھی وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں بدلتے دکھایا اور گورنر ہاؤسز کی دیواریں بلڈوز کرنے کے خواب دکھائے۔ تعلیم اور صحت کے معیار کو آسمان کی بلندیوں تک لے جانے کی باتیں کیں اور کبھی اپنے آپ کو امت مسلمہ کا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کی۔ غربت ختم کرنے کے اتنے جھوٹے دعوے کیے کہ سچ لگنے لگے۔ الغرض جتنی کتابی باتیں وہ اور ان کی حکومت کرسکتی تھی اس نے کیں اور جتنے سنہرے خواب وہ عوام کو دکھا سکتے تھے وہ خوب دکھائے اور پھر سب باتوں کی ایک بات ملک میں 'ریاست مدینہ کی طرز کی حکومت' بنانے کی گردان تو وہ روز اول سے ہی کرتے آرہے ہیں۔

آج جب پی ٹی آئی کو حکومت سنبھالے مقررہ پانچ سال میں سے تین سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور اس کے ہر دعوے کی قلعی ایک ایک کرکے عوام پر کھل چکی ہے اور آج نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ان کو ووٹ دینے والوں کی اکثریت نے اپنے گھروں کی چھت سے پی ٹی آئی کے جھنڈے اتار پھینکے ہیں اور عوام کی اکثریت کا غیر جانبدار ووٹر اس بات کی ضد کرنے لگا ہے کہ اسے اس نئے پاکستان کے بدلے پرانا پاکستان واپس کیا جائے جس میں اس کی سانسیں قدرے مشکل سے ہی سہی لیکن چل تو رہی تھیں، اب تو ہر آنے والا دن مشکل سے مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔

آج تعلیم، صحت، کھیل اور مہنگائی کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ عوام کو عام استعمال کی چیزوں کو سونے کے مول لینا پڑ رہا ہے۔ ڈالر ہے کہ آسمان سے باتیں کررہا ہے، پٹرول کی قیمتیں ایک ماہ میں دو بار بڑھا کر تین سال میں عوام کا حشر نشر کردیا گیا ہے۔ ادویہ، گوشت، سبزی، دالیں، مصالحے، گھی، چینی، گیس سب کی قیمتوں پر حکومت کا کنٹرول صفر ہے۔ تعلیم ایک تو کورونا کی وجہ سے متاثر ہوئی، باقی رہی سہی کسر حکومتی طور طریقوں نے پوری کردی۔ ہاں تعلیم کا معیار اس قدر ضرور بلند ہوا ہے کو لاتعداد طلبا نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں سو فیصد نمبر حاصل کرلیے ہیں، البتہ ان کی لیاقت چیک کرنے کےلیے کیا پیمانہ ہوگا اس کا کچھ پتہ نہیں کیونکہ ان میں سے اکثریت مختلف انٹری ٹیسٹس میں فیل ہوجاتی ہے۔

الغرض ہمارے ملک کے سابق کرکٹ اسٹار نے اپنی حکومت میں جو رتن جمع کیے انہوں نے حکومت کی ناکامی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ویسے بھی ان میں کون سے نظریاتی لوگ تھے جو جماعت کے نظریے کو لے کر چلتے۔ یہ تو 'کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا' لے کر بھان متی نے کنبہ جوڑا تھا۔ اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی'' کے مصداق ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا ہے۔ ایک بات بہت اہم اور حیران کن یہ ہے کہ کپتان صاحب نے اپنی اب تک کی تین سالہ حکومت میں ہر وہ کام ببانگ دہل کیا ہے جس کے وہ پچھلے تقریباً 22 سال بالعموم اور پچھلی حکومت کے دور میں بالخصوص سخت ناقد رہے ہیں اور ایسے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگایا جس کے وعدے وہ شب و روز عوام سے کرتے رہے۔

اب اس حکومت کا آدھے سے زیادہ وقت گزر چکا ہے اور ایگزامینر جوابی کاپی ان کے ہاتھ سے مقررہ وقت ختم ہوتے ہی واپس لے لے گا اور ان کے لکھے گئے جوابات کی روشنی میں اگلے الیکشن میں اس کی کامیابی یا ناکامی کا نتیجہ سامنے آئے گا۔ سر دست ایک محب وطن شہری کے ہم اس حکومت کو مشورہ ضرور دیں گے کہ ابھی بھی آپ کے ہاتھ میں پاس مارکس لینے کا وقت موجود ہے۔ اگر باقی رہ جانے والے وقت کے دوران اگر آپ بنیادی سوالات کے درست جوابات لکھنے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں تو اس کےلیے پونے دو سال کا باقی رہ جانے والا عرصہ کچھ کم نہیں ہے۔ اس میں آپ ملک کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کےلیے کم از کم ملک کو درست سمت پر گامزن کرسکتے ہیں۔ ایسے بلند بانگ دعوے نہ کیجئے جن کو پورا کرنا آپ کے بس کی بات نہیں۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے منہ کے بل نیچے گرتے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی سطح پر کوئی بات کرنے سے پہلے اس کا مکمل ہوم ورک کریں اور اس بات کو خدارا اپنے ذہن سے نکال دیں کہ آپ کو سب پتہ ہے اور باقی کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ اس خام خیالی کو بھی دماغ سے نکال پھینکیے کہ صرف آپ ہی محب وطن ہیں اور باقی کوئی نہیں اور ریاست مدینہ کی بات کرنے سے پہلے ریاست مدینہ کا مکمل مطالعہ ضرور کرلیجئے۔

اس بات میں دو رائے نہیں کہ عوام کی اکثریت نے آپ کو بے حد پذیرائی بخشی، کیوں کہ آپ سیاست میں ایک مختلف فیلڈ سے وارد ہوئے تھے اور پھر 22 سالہ جدوجہد کے دوران آپ نے عوام کے مسائل کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا اور حکومت میں آنے تک آپ نے ان کو ہر لحاظ سے یہ یقین دلایا تھا کہ بس آپ کے حکومت میں آنے کے دیر ہے، آپ نے سب ہوم ورک کرلیا تھا اور اپنی ٹیم کے مین کھلاڑی بھی بتا دیے تھے اور 90 دن کا ٹائم بھی دے دیا تھا اور پھر ہر طرف آپ کی کمٹمنٹس کے بھی چرچے تھے۔ رہی سہی کسر آپ کے حسن نے پوری کردی، لہٰذا عوام کی کثیر تعداد آپ کےلیے دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھی تھی کہ جیسے آپ آئے سمجھو بہار آئی۔ لیکن یہ بات افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ عوام کے خوابوں کے سارے محل دھڑام سے گر چکے ہیں۔

یہ بات یاد رکھیے کہ الیکشن میں غیر جانبدار ووٹر نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس وقت غیر جانبدار اور عوام کا غریب طبقہ آپ کے حق میں نہیں ہے۔ کیوں ان کا ''جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے''۔ کرکٹ کی ٹیم اور حکومتی ٹیم میں بہت فرق ہوتا ہے اور آپ کو بہتر معلوم ہوگا کہ میدان سے باہر بیٹھ کر مشورے دینا بڑا آسان لیکن میدان کے اندر جاکر کارکردگی دکھانا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ آپ نے بھی حکومت سے باہر بیٹھ کر بڑے مشورے دیے، بڑے طعنے مارے، کسی کو نالائق تو کسی کو سست اور نکما کہا اور کسی کو چور، ڈاکو اور غدار۔ آج وہ سب باہر بیٹھے ہیں اور آپ میدان کے اندر ہیں۔ ابھی آپ کے پاس وقت ہے۔ اپنی حکومتی کمی، کوتاہیوں پر نظر ڈالیے اور باقی رہ جانے والے وقت میں کم از کم پاس مارکس لینے کی کوشش کیجئے۔

آپ کی ایمانداری اور اسمارٹ نیس کا عوام کو صرف اسی صورت میں فائدہ ہے جب آپ ان سے کیے گئے وعدے پورے کریں اور ان کے مسائل حل کریں، ورنہ یاد رکھیے کہ بقول حبیب جالب
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں