اٹھارہویں ترمیم اور کراچی
صنعتی اور معاشی اہمیت کے باوجود بھی اس شہر کا نہ تو وفاق کو کوئی خیال ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت کو کوئی قدر ہے۔
کراچی کو شہر قائد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ شہر بانی پاکستان کا شہر ہے اس لیے کہ وہ اسی شہر میں پیدا ہوئے ہیں ، ان کی وفات ہوئی اور یہاں ہی ان کا مزار اقدس بھی واقع ہے۔
چند سال قبل کچھ لوگ اس شہر قائد کو ایک نام نہاد قائد کے نام سے منسوب کرنے لگے تھے۔ اب تو خیر وہ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے اور اس کا قصہ ہی ختم ہو چکا ہے۔ ہمارا یہ شہر پہلے بھی محمد علی جناح کا شہر تھا اور آج بھی انھی کا ہے اور ہمیشہ انھی کا رہے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ شہر جو پہلے کبھی ایک مثالی شہر ہوا کرتا تھا۔ برصغیر میں جس کی صفائی ستھرائی اور انتظامی معاملات کی تعریف و توصیف کی جاتی تھی۔ کیا وہ دن قصہ پارینہ بن کر رہ گئے ہیں اور اس شہر کی پہلے جیسی شان و شوکت اور یہاں کے لوگوں کی خوش خرمی اب کبھی واپس لوٹ کر نہیں آئے گی؟ پرانا دور یقینا واپس آ سکتا ہے اگر اس شہر کو پہلے جیسے مخلص اور محنتی قائدین نصیب ہو جائیں۔ اس وقت اس شہر میں نفسا نفسی کا عالم ہے لوٹ مار اور جھوٹی شہرت حاصل کرنے کے لیے ایک دوڑ جاری ہے۔
جہاں تک سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے وہ بس نمبر بنانے میں لگی ہوئی ہیں۔ وہ اس شہر کے عوامی مسائل سے کھلا مذاق کر رہی ہیں ، حالانکہ یہ کوئی معمولی شہر نہیں ہے۔ یہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ریونیو مہیا کرتا ہے۔ یہ ملک میں سب سے بڑا روزی روزگار کا وسیلہ ہے۔ ملک کے پچاس فی صد سے زیادہ محنت کش یہاں سے روزی حاصل کرتے ہیں۔ ملک میں اتنے کارخانے کسی اور شہر میں نہیں ہیں جتنے اس شہر میں موجود ہیں۔ معاشی سرگرمیوں میں بھی یہ شہر سب سے اول نمبر پر ہے۔
افسوس تو اس امر پر ہے کہ صنعتی اور معاشی اہمیت کے باوجود بھی اس شہر کا نہ تو وفاق کو کوئی خیال ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت کو کوئی قدر ہے تاہم دونوں ہی اس دودھ دیتی گائے سے بھرپور مستفید ہو رہے ہیں۔ گوکہ وفاق اس شہر کو دو مرتبہ بڑے ترقیاتی پیکیجز دینے کا اعلان کرچکا ہے مگر یہ شہر اب تک ان سے محروم ہے۔ اب وزیر اعظم عمران خان نے کراچی سرکولر ریلوے کی بحالی کا افتتاح کرتے ہوئے پھر اس شہر کے لیے ایک نئے پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ کیا یہ وعدہ بھی پہلے کیے گئے وعدوں کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جائے گا۔
وفاق کہہ چکا ہے کہ اسے کراچی کے مسائل کا ادراک ہے اور ان مسائل کے حل کے لیے رقم دینا چاہتا ہے مگر چونکہ یہ رقم صوبائی حکومت کے پاس سیدھی جائے گی اور وفاق کو صوبائی حکومت پر اعتبار نہیں ہے۔ وفاقی وزرا اکثر صوبائی حکومت پر کھلے الزامات لگاتے رہتے ہیں کہ وہ کرپشن میں ملوث ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جب تک آئین پاکستان کی 18 ویں ترمیم موجود ہے وفاق کو صوبے کے لیے رقم صوبائی حکومت کو ہی دینا پڑے گی مگر 18 ویں ترمیم جب تک موجود ہے وفاق صوبائی حکومت کو رقم دیتے ہوئے ہچکچاتا رہے گا۔
اس طرح اس صوبے کا اور خصوصاً کراچی کے مسائل کا حل کیسے ہوگا۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دراصل یہ سب کچھ صوبائی اور وفاقی حکومت کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا اور اس شہر کے باسیوں کو تنگ کیا جاتا رہے گا۔ اس سلسلے میں وفاق 18ویں ترمیم میں مزید ترمیم چاہتی ہے مگر سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس ترمیم میں کسی صورت مزید ترمیم نہیں ہونے دے گی۔ اس طرح وفاق اور صوبائی حکومت کی یہ آپسی جنگ یا ملی بھگت کراچی کے مسائل کو مزید بڑھا رہی ہے۔
18 ویں ترمیم نے بلاشبہ چاروں صوبوں کو خود مختاری عطا کردی ہے مگر وفاق کے مطابق وہ اس ترمیم کے ذریعے خودسری پر اتر آئے ہیں۔ پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال سمیت کئی سیاسی رہنما 18 ویں ترمیم میں مناسب ترمیم کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ان کا مطالبہ یقینا ملک کے مفاد میں ہے۔ اس وقت کراچی کیا پورے سندھ کو بلدیاتی نظام سے محروم کردیا گیا ہے۔
حالانکہ سابقہ بلدیاتی مدت ختم ہونے کے فوراً بعد حکومت سندھ کو بلدیاتی انتخابات کرا دینے چاہیے تھے اس لیے کہ بلدیاتی نظام کی موجودگی ہر جمہوری حکومت کی بنیادی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے اس وقت سندھ ہی کیا پورے ملک میں بلدیاتی اداروں پر بیورو کریٹس کا راج جاری ہے۔
پنجاب میں اب عدالتی فیصلے کے بعد بلدیاتی نظام بحال کیا جا رہا ہے۔ حکومت پنجاب نے بلدیاتی ادارے تو بحال کردیے ہیں مگر نئے انتخابات کے سلسلے میں خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ البتہ تحریک انصاف کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ پورے ملک میں جلد ازجلد بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔ تاہم وفاق کی جانب سے ابھی تک صوبائی حکومتوں کو اس سلسلے میں کوئی ہدایت جاری نہیں کی گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں خود وفاق تذبذب کا شکار ہے۔ چنانچہ وفاقی حکومت کی اس ڈھیل ڈھال سے صوبائی حکومتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں اور بیورو کریٹس کے ذریعے من مانی کر رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں عوامی شکایت پر سندھ ہائی کورٹ نے صوبے میں جلد بلدیاتی انتخابات کرانے کی ہدایت کی ہے۔ سندھ حکومت نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے نئی حلقہ بندی کو ضروری قرار دیا ہے مگر ایسا ضروری نہیں ہے تاہم الیکشن کمیشن سندھ حکومت کی مانگ کو پورا کرسکتا ہے۔
الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 221 تا 223 بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندیاں کرانے کا مکمل مجاز ہے۔ وہ اس ایکٹ کی دفعہ 222 کے تحت نئی حلقہ بندیاں کرانے کے لیے ایک کمیٹی بنانے کا بھی اختیار رکھتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن بھی کراچی سمیت پورے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں مخلص ہیں وہ اپنی ذمے داری پورا کرنا چاہتے ہیں مگر لگتا ہے سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت سندھ کے تمام بلدیاتی ادارے سندھ حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔
اس کے مقرر کردہ ایڈمنسٹریٹرز اس کی مرضی کے مطابق کام کر رہے ہیں دراصل بلدیہ کے ریونیو جنریٹ کرنے والے شعبے اس کی خاص دلچسپی کا محور ہیں۔ چنانچہ وہ صوبے میں بیورو کریٹس کے ذریعے اپنی من مانی جاری رکھنا چاہتی ہے۔ بہرحال دیر بدیر بلدیاتی انتخابات سندھ میں منعقد ہوکر رہیں گے مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا اب پھر نئے میئر کے اختیارات میں سندھ حکومت کٹوتی کرے گی؟
اگر پھر ایسا ہوتا ہے تو پھر نئے بلدیاتی انتخابات سے کراچی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کراچی کے مسائل میں مزید اضافے کے ساتھ عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ سابق میئر کراچی کی طرح نئے میئر کا بے اختیار ہونا اب کراچی کے عوام برداشت نہیں کر پائیں گے۔