آہِ سحر گاہی احساس اور یا سیدی ﷺ
میرے ہاتھوں میں بھی وقفے وقفے سے کئی کتابیں بغرض مطالعہ آتی رہیں۔
الحمدللہ 12 ربیع الاول خیر و عافیت سے گزر گیا۔ ہر سمت نعت خوانی کی صدائیں گونج رہی تھیں اور درود پاک آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺ کی بارگاہ میں امت مسلمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہی تھی۔ میرے ہاتھوں میں بھی وقفے وقفے سے کئی کتابیں بغرض مطالعہ آتی رہیں۔
دو کتابیں تو ملک کے ممتاز شاعر پروفیسر خیال آفاقی کی ہیں ''آہِ سحرگاہی'' اور دوسرا شعری مجموعہ ''یا سیدی ﷺ '' اول الذکر مجموعے میں حمد و مناجات اور ثانی الذکر نعتیہ مجموعہ ہے۔ رفعت جلیل مودودی صاحبہ کی شعر و سخن پر مبنی کتاب ''احساس'' بھی میرے سامنے موجود ہے کوشش کروں گی کہ ''احساس'' پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کروں۔
پروفیسر خیال آفاقی کی کتابوں مرتب و مہتمم پروفیسر مقصود پرویز ہیں اپنے مضمون ''اذانِ سحر'' میں انھوں نے لکھا ہے کہ ''الحمدللہ پروفیسر خیال آفاقی کے حالیہ شعری مجموعے '' لذت آشنائی'' کی ترتیب و اشاعت کے بعد مجھے ان کے حمدیہ کلام کو مرتب کرنے اور شایع کرنے کا یہ دوسرا شرف حاصل ہے یوں تو پروفیسر صاحب کا تمام تر شاعرانہ کلام ہی فکر للہیت سے مملو ہے تاہم ''حمد'' ادب کی ایک الگ صنف ہے لہٰذا ان کا حمدیہ کلام بھی اپنی جگہ خصوصی امتیاز کا حامل ہے۔
''اشک ندامت'' کے عنوان سے جو حمد لکھی ہے اس حمد کا انداز بیاں، ندرت خیال نے اسے موثر بنادیا اللہ تعالیٰ کی کاریگری اور اس کی قدرت کاملہ کا نقشہ لفظوں کی شکل میں شاعر نے صفحہ قرطاس پر ثبت کردیا ہے۔
حمد کہتا ہوں تو یہ بھی ہے عنایت اس کی
ورنہ میں اور کہاں محفل مدحت اس کی
کیا مرا ہے کہ کروں فصل پر دعویٰ اپنا
بیج اس کا ہے ، زمیں اس کی زراعت اس کی
رکھ دیا جس نے سر عجز خدا کے آگے
پھر نہیں گھٹتی کسی حال میں عزت اس کی
شاعر نے اللہ تعالیٰ کے مہربانیوں، احسانات اور نوازشات کو اظہار ممنونیت کے ساتھ شاعری کے پیکر میں سجا دیا ہے۔ بے شک وہ مہربان ، رحیم و کریم ، ستار و غفار ہر چیز کا بنانے والا ، دریا ، سمندر ، جنگل، زمین و آسمان کا مالک، ہر چیز کا تخلیق کار اس کی جتنی بھی تعریف کریں اس کا احسان مانیں کم ہے اس کی تعریف کے لیے سمندر روشنائی بن جائیں جیساکہ سورہ لقمان آیت نمبر 27 کا ترجمہ ہے۔ زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے) جسے سات سمندر مزید روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں (لکھنے سے) ختم نہ ہوں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔بس اللہ تو کن کہتا ہے تو وہ ہو جاتا ہے (کن فیکون)
اللہ نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی ہے کہ تو پہاڑوں، درختوں اور اونچی اونچی چھتریوں پر چھتے بنا، (68)، پھر ہر قسم کے میوے کھا (رس چوس)، پھر اپنے رب کے آسان راستوں پر چل، ان کے پیٹوں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد) اس کے رنگ مختلف ہیں اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے، جو غور و فکر کرتے ہیں۔ تو پروفیسر خیال آفاقی نے اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں کی طرف اشارہ کیا ہے، نظم کا عنوان ہے ''ذرہ نوازی'':
کیا ذرہ نوازی ہے اس کی جس نے کہ ہمیں دی شان کیا
رہنے کے لیے دنیا بخشی ، جینے کا ہر اک سامان کیا
ایک نعمت ہو تو ذکر کروں ، کیا کیا نہ دیا کھانے کو ہمیں
یہ گوشت یہ سبزی ترکاری ، یہ گیہوں ، چنا ، چاول ، دالیں
کچھ کھٹی ہیں کچھ میٹی ہیں، کچھ میٹی سے بھی میٹھی ہیں
اور ان چیزوں کا کیا کہنا جو میوہ جات مقوی ہیں
یہ پھل اور مشروبات سبھی، ہیں اپنی جگہ میں خوب مگر
چکھنے سے زباں عاری ہو اگر، کس کام کے پھر رس دار ثمر
تاثیر ہی ایسی ہے ان کی ہر صنعت نے حیران کیا
کیا ذرہ نوازی ہے اس کی جس نے کہ ہمیں ذی شان کیا
بے شک اللہ رب العزت کی کرم نوازیاں ہی تو ہیں جو آج ہم سانس لے رہے اور زندگی کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے سورہ رحمن میں بے شمار نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے اور یہ وہ واحد سورہ ہے جس میں بیک وقت انسانوں اور جنات دونوں کو صراحت کے ساتھ مخاطب فرمایا ہے اور بار بار یہ فقرہ دہرایا گیا ہے کہ ''اب بتاؤ کہ تم دونوں اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟''
''یا سیدی ﷺ '' نعتیہ مجموعہ ہے۔ یہ کتاب 160 صفحات پر مشتمل ہے، نعت کا ہر شعر اللہ کے حبیب احمد مجتبیٰ ﷺ کی محبت اور عقیدت کا مظہر ہے، انھوں نے عشق رسولؐ کی شان میں مدحت و نکہت کے گلہائے عقیدت پیش کیے ہیں۔ خیال آفاقی نے نعتوں کے علاوہ ایک طویل قصیدہ بھی لکھا ہے جو 56 اوراق کا احاطہ کرتا ہے اور ان کے تخلیقی وجدان نے ان سے ایک ہی رات میں آپؐ کی سیرت پاکؐ، اخلاق حسنہ، شب معراج، غزوات، آپؐ کا سراپا، رخ روشن، واقعہ شق القمر، غرض حضور پاک ﷺ کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے جو راتوں رات منزل کو پہنچی اور قصیدہ مکمل ہوا۔
لاکھوں سلام آپ پر اللہ کے رسولؐ
ممنون ہوں کہ میری دعا ہوگئی قبول
میری گرہ زبان کی میرے رب نے کھول دی
صد شکر میرے شوق کی محنت ہوئی وصول
آنکھوں کے سامنے ہے ، مواجہ حضور کا
سانسوں سے لکھ رہا ہوں قصیدہ حضور کا
انسان کیا حضور کی تعریف کرسکے
الفاظ کم ہیں آپ کی مدحت کے واسطے
دیکھا فلک نے بزم رسالت مآب میں
اصحاب کیا ہیں جن و ملائکہ جھوم جھوم اٹھے
حسان نے پڑھا جو قصیدہ حضور کا
عشاق آج گاتے ہیں نغمہ حضور کا
......
''احساس'' محترمہ رفعت جلیل مودودی کا شعری مجموعہ ہے اکبر خان کیانی مذکورہ کتاب کے ناشر ہیں، انھوں نے اپنے مضمون ''حرفے چند'' میں اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا ہے ''رفعت جلیل مودودی نے جس اخلاص مندی اور راست گفتاری کے ساتھ اس شعری مجموعے ''احساس'' کی تخلیقات کو اپنے عہد کا ترجمان بنا کے پیش کیا ہے یہ مستحسن امر بجا طور پر حلقہ شعر و ادب میں ان کے خیر مقدم کا مستحکم جواز ہے۔'' رفعت جلیل قدوائی کی شاعری فکر و آگہی اور بلندی خیال کی مظہر ہے، انھوں نے غزلیات و قطعات اور نظمیہ شاعری پر طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی شاعری میں دنیا چھوڑنے والوں اور حالات و سانحات کی نذر ہونے والوں کا دکھ بھی شامل ہے، اسلامی سوچ اور وطن کی خوشبو سے رچی بسی شاعری قارئین کو متاثر کرتی ہے۔
موت اور زیست کا فلسفہ بھی کتنا پرانا ہے
روتے ہوئے آتے ہیں ، جاتے وقت اوروں کو رلانا ہے
بدن کے شکنجے میں جکڑا ہوا انسان
شیطانی حکومت ، زر کی پوجا کیا یہ نہیں حقیقت زمانہ ہے
غزل سے دو شعر:
آپ سنیں تو غم کا فسانہ
آپ سے پردہ کچھ بھی نہیں
میرے سیل اشک کے آگے
بہتا دریا کچھ بھی نہیں