پشاور کے قدیمی و تاریخی مقامات
پشاور میں آج بھی قدیم دور سے متعلق سڑکیں باغات اور بازار نظر آتے ہیں۔
دس ایسے مقامات کے بارے میں عرض کر رہا ہوں جوکہ پشاور میں نمایاں مقبولیت رکھتے ہیں ، جو تاریخی بھی اور اہمیت کے حامل بھی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
1۔1541 میں شیرشاہ سوری نے پشاور میں ایک قلعہ تعمیر کرایا جس کو قلعہ بالا ہسارکہا جاتا ہے ، جیسا اس نے تعمیر کروایا بالکل ایسا ہی موجود ہے فوج نے خاص خیال رکھا۔ ہفتہ کے دن اس قلعے کو فیملی کے لیے مخصوص کھولا جاتا ہے اور بروز اتوار فیملی کے ساتھ ہرکسی کو آنے کے لیے قلعہ بالاہسار کھلا رہتا ہے۔ اونچے ٹیلے پر ہونے کی وجہ سے پورے پشاور کا خوبصورت نظارہ ہوتا ہے۔
2۔ عجائب گھر یہ 1907 میں ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں تعمیر کیا گیا۔ گندھارا آرٹ کے مجموعہ کے لیے مشہور ہے یہ دو منزلہ عمارت ہے۔ برٹش ساؤتھ ایشین ، ہندو ، بدھ مت اورمغلیہ طرز میں اس کی تعمیرکی گئی۔ پشاور عجائب گھر میں بدھ مت دورکے گندھارا آرٹ کا سب سے بڑا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ اسے دنیا میں بدھ مت کے سب سے بڑے ذخیروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ سیاح تاریخ کو جاننے کے لیے اس میوزیم کا رخ کرتے ہیں۔
3۔1964 میں ایوب خان کے دور میں باب خیبر تعمیر کیا گیا، پشاور شہر کے مغرب میں واقع ہے۔ خیبر ایجنسی میں باب خیبر کو بنائے جانے والے سب سے اہم تعمیراتی منصوبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سیاحوں کی بڑی تعداد اس کو دیکھنے آتی ہے۔
4۔ مسجد محبت خان 1630 میں مغل بادشاہ شاہ جہان کے ماتحت پشاور کے گورنر محبت خان نے تعمیر کرائی۔ اس مسجد میں استعمال کردہ سفید ماربل بہت ہی خوبصورت نظر آتے ہیں، اس کو نہایت خوبصورتی سے بنایا گیا ہے آج بھی بالکل اسی طرح ہے ذرا فرق نہیں۔
5۔ گورکھتری یہ ایک پارک ہے جوکہ دور مغلیہ کے کھنڈرات کے مقام پر پشاور میں بنایا گیا ہے، پشاور کے اونچے مقامات میں سے ایک گورکھتری پارک کے دو دروازے ہیں اس میں ایک مسجد ، عجائب گھر اور آثار قدیمہ کا مقام بھی موجود ہے۔ اس پارک کے در میں گورکھ ناتھ مندر بھی موجود ہے۔
6۔ 12 فروری 1918 کو پشاور کے چڑیا گھر کو عوام کے لیے کھولا گیا ، اس کا پاکستان کے بڑے چڑیا گھروں میں شمار ہوتا ہے۔ کے پی کے حکومت کے مختلف شعبے جن میں فاریسٹ، انوائرنمنٹ اور وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ شامل ہیں وہ اس چڑیا گھر کے انتظامات سنبھالتے ہیں۔ یہ چڑیا گھر 29 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے یہاں تقریباً تمام اقسام کے جانور اور پرندے پائے جاتے ہیں۔
7۔ وزیر باغ ، اٹھارہویں صدی کا ایک تاریخی باغ ہے، اس باغ کو درانی دور حکومت میں سردار فتح محمد خان بارک زئی نے تعمیرکروایا تھا جو اس وقت کا وزیر تھا۔ اس پارک میں ایک مسجد ، فٹبال گراؤنڈ اور دو کشادہ لان موجود ہیں جس میں درخت اور فوارے بھی لگے ہوئے ہیں۔ یہ پشاور کے پرانے اور بڑے باغات میں شمار کیا جاتا ہے۔
8۔ سیٹھی محلہ۔ یہ پشاور شہرکا بہت پرانا اور روایتی انداز میں سجا ہوا ہے۔ یہ محلہ سات ساؤتھ ایشین حویلیوں پر مشتمل ہے جو سیٹھی خاندان نے تعمیر کرائیں۔ یہ حویلیاں انیسویں صدی میں تعمیر کی گئی تھیں، یہ پشاور کے گھنٹہ گھر کے قریب موجود ہے۔ اس میں بارہ کمرے اور چار تہ خانے شامل ہیں اس میں ایک چشمہ بھی ہے۔
9۔ جمرود قلعہ۔ یہ باب خیبر کے ساتھ موجود ہے اس کو ہری سنگھ نلواہ نے تعمیر کروایا تھا، جو اس وقت سکھ فوج کا سپہ سالار تھا۔ جمرود قلعہ ایک اونچے ٹیلے پر بنایا گیا تھا جہاں سے خیبر مہمند اور باڑہ جیسے علاقوں کو دیکھا جاسکتا تھا۔ اس قلعہ کا نام بعد میں تبدیل کرکے فتح گڑھ رکھا گیا۔ اس قلعہ کو فوج نے نہایت شاندار انداز میں محفوظ رکھا ہے یہ 180 سال سے بھی زیادہ پرانا قلعہ ہے۔
10۔ سرسنگھم کلاک ٹاور۔ یہ کلاک ٹاور 1900 میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کے اعزاز میں تعمیر کروایا گیا۔ اس ٹاور کا نام سر جارج سنگھم کے نام سے منسوب کیا گیا جو اس وقت صوبے کے سابق برطانوی گورنر اور ایک سیاست دان تھے۔ یہ ٹاور 85 فٹ بلند اور 32 فٹ چوڑا ہے آج بھی یہ ٹاور پشاور گھنٹہ گھر نمایاں ہے۔
پشاور وہ شہر ہے جس نے ماضی میں برصغیر پر حملہ آوروں کا سامنا کیا یہ امر قابل ذکر ہے مذکورہ شہر کبھی مغل، پشتون، مرہٹوں یا پھر سکھوں کے قبضے میں رہا تو کبھی امریکا اور روس کے درمیان جنگ اور سرد جنگ کا حصہ بنا رہا۔ جس کی وجہ سے پاکستان کے اس قدیم تاریخی شہر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ مذکورہ شہر اپنی خوبصورتی کی وجہ سے پھولوں کا شہر کہلایا تو کبھی بم دھماکوں کا مرکز بنا رہا۔
دراصل پشاور درہ خیبر سے ہندوستان پر حملہ کرنے والوں کی گزرگاہ تھا ، جب کہ اس دوران پشاور کے باسیوں کی طرف سے اپنے شہر کے دفاع کے لیے جانوں کے نذرانے بھی پیش کرنے پڑے۔127 ء کے لگ بھگ یہاں کے حکمرانوں نے بدھ مت کی تعلیمات سے متاثر ہو کر بدھ مت قبول کرلیا اور بدھ مت کو سرکاری درجہ مل گیا۔ حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پشاور بدھ مت کی تعلیمات کا اہم مرکز بن گیا جب کہ آبادی کی خراسان میں زرتشت اور روحیت کی پیروکار رہی ، خراسان پر عرب قبضہ کے بعد اسلام لانے لگے۔
محمود غزنوی نے اپنی سلطنت کو افغانستان سے آگے برصغیر تک پھیلایا اور پشاور بھی اس کے قبضے میں آگیا۔ 1539 میں شیر شاہ سوری تخت نشین ہوا اس کے دور میں پشاور کی تعمیر نو کو تیزی دی گئی۔ مغل بادشاہت کا بانی ازبکستان سے پشاور پہنچا تو اس نے بگرام کا شہر آباد کرایا۔ ایران کی طرح یہاں بھی شجر کاری باغات لگانے سے پشاور پھولوں کا شہر بن گیا۔
پشاور مختصر عرصے کے مرہٹوں کا قبضہ رہا جو ہندوستان کی سلطنت پر قابض تھے۔ انھوں نے 8 مئی 1758 کو قبضہ کیا۔ بعد میں افغان درانیوں کے بڑے لشکر نے 1759 میں پشاور پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔1812 میں پشاور پر افغانستان کا قبضہ ہوا لیکن جلد ہی سکھوں نے حملہ کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ 1834 میں اسے سکھ ریاست میں شامل کرلیا گیا اور زوال شروع ہوگیا۔ مغلیہ دور کے بہت مشہور سارے باغات تباہ کردیے گئے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے سکھوں کے ساتھ دوسری جنگ میں سکھوں کو شکست دے کر پشاور پر قبضہ کرلیا۔ 1947 میں پشاور مغربی پاکستان کا حصہ بنا 1950 کی دہائی کے وسط تک پشاور دیواروں کے درمیان شہر تھا جس کے 16 دروازے تھے۔ ان میں کابلی دروازہ سب سے زیادہ مشہور تھا۔ 1980 میں افغان جنگ کی وجہ سے پشاور میں امریکن اور روسی جاسوسوں کے علاوہ افغانستان مہاجر کیمپوں کا مرکز بنا رہا۔
اکثر روسی جاسوس اور امریکا کے اہلکار افغان مہاجرین کے بھیس میں اس شہر میں داخل ہوئے اس طرح پشاور روسی اور امریکی ایجنٹوں کے درمیان میدان جنگ بنا رہا۔ 1988 کے انتخابات کے دوران ایک لاکھ سے زائد مہاجرین یہاں آباد تھے اور غیر اندراج شدہ مہاجرین کی تعداد میں لاکھوں میں تھی۔ نمک منڈی بازار اور بکروں کے گوشت کی کڑھائی اور بھنے گوشت کے حوالے سے مشہور ہے۔
نمک منڈی بازار میں صبح کے علاوہ افغانستان، قبائلی علاقوں پنجاب اور سندھ سے بھی لوگ کڑھائی تکہ اور سیخ تکہ کھانے کے لیے آتے ہیں۔قصہ خوانی بازار کو پشاور کا دل کہا جاتا ہے کسی زمانے میں دریائے باڑہ قصہ خوانی کی پشت پر بہتا تھا اور وسط ایشیا سے آنے والے قافلوں میں شامل افراد یہاں پر بیٹھ کر قصہ سناتے تھے جس کی وجہ سے اس کا نام قصہ خوانی بازار پڑ گیا۔ ماضی میں پشاور کے باغات نہایت خوبصورت اور دلکش ہوتے تھے۔ غیر ملکی مورخین اور سیاحوں نے بھی انھیں دنیا کے خوبصورت ترین باغات قرار دیا تھا۔
پشاور میں آج بھی قدیم دور سے متعلق سڑکیں باغات اور بازار نظر آتے ہیں قصہ خوانی قدیم بازار ہے جس کی تاریخ ایک ہزار سال پرانی ہے۔ قصہ گو افراد قصہ خوانی بازار میں آنے والے فوجیوں اور سیاحوں کو محبت اور جنگ کے دلچسپ قصہ کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ یہاں کی سب سے مشہور سبز چائے ہے۔ سردریاب جو دریائے کابل پر تعمیرکیا گیا ہے جہاں دریا کی سیر کے لیے کرایہ پر کشتی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہاں میٹھے پانی کی مچھلی بہت لذیذ ہے اس مچھلی کو خود بھی شکارکیا جاسکتا ہے۔