ملنگانہ اظہار

اہلمذہب دنیا میں ذہن کی بیداری کی علامت کے طور پر متعارف کروائے گئے تھے مگر ہمارے ہاںان کا رنگ ہی نرالہ بنا دیا گیاہے۔

Warza10@hotmail.com

جہاں قانون نہیں ہوتا وہاں جو دکھایا جا رہا ہوتا ہے ، وہ کبھی گمان کو بھی حیران کر دیتا ہے۔ اپنی شرائط منوانے کا نیا کھیل شروع ہو کر کہاں ختم ہوتا ہے، شاید کہ عام فرد کے گمان میں بھی نہ ہوکہ میرے دیس کے واسی کو روزی روٹی کی فکر اور اپنی معاشی مشکلات کے گورکھ دھندوں میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ وہ حالات زمانہ اور سیاست کے داؤ پیچ سمجھنے ہی سے محروم کر دیا گیا ہے۔

اب ایسے بے گانے نگر کے دولھا بنا دیے گئے ہیں، جسے اپنی شادی سے زیادہ پڑوس کے گھر میں گھسنے اور ان کے مسائل جاننے میں دلچسپی ہو چکی ہے۔ اہلمذہب دنیا میں ذہن کی بیداری کی علامت کے طور پر متعارف کروائے گئے تھے مگر ہمارے ہاںان کا رنگ ہی نرالہ بنا دیا گیا ہے ، جو شعور دینے کی علامت تھے انھوں نے اب اپنے گھروں سے سماجی اور سیاسی شعور کو نکالا دے دیا ہے، بلکہ عبد اللہ کی مانند دیوانے کے کردار بننے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔

شعور کی آگہی کی جنگ ستر دہائیوں سے دھاڑ دھاڑ کر بلند آواز کی ہچکیوں سمیت صرف رونے گانے پر لگا دی گئی ہے، جب کہ عام خواندہ اور نا خواندہ کو '' سب اچھا ہے'' کی کونین کی گولی کا عادی بنا کر اہل علم خوب خوب مزے اڑا رہے ہیں۔

آج مجھے اپنے ایک دوست ذکی شیرازی کی یاد بہت آرہی ہے ، ان کی براق اچکن ، چوڑی دار پاجامہ ، ڈوری ڈلا کرتا اور نوابین کے تلے والے جوتے ، جن کی چپت وہ اکثر اپنے جملوں سے لگانے کے ماہر تھے ۔

ذکی شیرازی کے ریڈیو پاکستان کا یہ وہ زمانہ تھا کہ جہاں زیڈ اے بخاری کے عطا کردہ ماہرانہ صوتی اثرات کے ساتھ تہذیب و شائستگی جناح روڈ پہ واقع ریڈیو پاکستان کے برآمدوں چوکھٹوں اور ایستادہ و بلند ستونوں میں سر دھنتی رہتی تھی اور ریڈیو میں کام کرنے والا ہر فرد ایک جنون سے اپنے اپنے فرائض میں مگن رہتا تھا۔ قائد اعظم کی پہلی نشری تقریر کا اعزاز بھی اسے حاصل ہے ، اس تاریخی عمارت کی سلیقے اور تہذیب کی داستانیں ابھی تک ذہنوں سے محو ہونے پر تیار نہیں۔

ذکی شیرازی خود لکھنوی تہذیب سے رچے بسے تھے جب کہ یاور مہدی کی زندہ دلی اور محبت اہل لکھنؤ کے لیے ہمیشہ فرش راہ ہوا کرتی تھی، ابھی پچھلے دنوں ہی جب ہم اسلام آباد میں محبی بھائی افتخار عارف کی مزاج پرسی کے لیے ان سے محوگفتگو تھے تو انھوں نے عجیب پیار بھرے انداز سے یاور مہدی کی محبت و قدر کا نا صرف ذکر کیا بلکہ انھیں اپنا''محسن'' اور نابغہ روزگارکا محافظ جانا۔ اسی دران ریڈیو پاکستان میں فارسی سروس کی فاطمہ شیرازی کا ذکر بھی چھڑا کہ کس طرح مشکل حالات میں فاطمہ شیرازی نے فارسی کے اظہاریے پر سامعین کو ریڈیوکے پروگرام کے ذریعے اپنی سروس کی جانب مائل کیا ، فاطمہ اور ذکی شیرازی کی جوڑی ایک ہم سفر کے ساتھ علم شائستگی اور تہذیب و ادب کا ایسا مرقع تھی جس میں صرف حسن ہی جھلکتا تھا۔


یہ وہ زمانہ تھا کہ فاطمہ شیرازی کو اظہار عام کرنے کا مشکل کام دیا گیا اور انھوں نے پوری طرح اردو سے ناواقف سامعین کو املا اور تلفظ درست کرنے کا سلیقہ فارسی سروس اور پروگراموں سے کروایا ، سوچتا ہوں کہ جو کڑا وقت فاطمہ شیرازی نے گزارا وہ اب تک صحافت کے دریچوں میں مشکلات لیے ارد گرد منڈلا رہا ہے۔

ذکی شیرازی کے ذکر میں سفر کی مشکلات اور ذکی کی بذلہ سنجی شامل نہ ہو یہ ممکن نہیں ، یہ 85 کا وہ دور تھا جب وطن میں قہر منڈلا رہا تھا اور اس قہر سے چھٹکارے خاطر احمد فراز فرنگیوں کے دیس میں جائے پناہ کے رہ واسی بنا دیے گئے تھے ، انھی دنوں ہمارے ایک دوست ضمیر اختر (جنہوں نے بعد کو مکمل مذہب کی چادر اوڑھ لی) پوسٹل لائف میں ملازم تھے مگر ذہنی طور سے علم اور غور و فکر کے دھنی ہوا کرتے تھے اور میر انیس کے عشق میں لکھنؤ ان کا اوڑھنا بچھونا تھا ،گو وہ خود مصطفی آباد کے تھے، مگر لکھنؤ کے طور طریقے ان میں مکمل موجزن تھے، لکھنؤ یاترا میں وہ بھی ہمارے شریک سفر تھے، ان دنوں لکھنؤ میں اودھ فیسٹیول میں شرکت کی غرض سے احمد فراز اور افتخار عارف لندن سے آئے تھے جب کہ ذکی شیرازی ہم سمیت پاکستان سے پہنچے تھے ، وہ شام ذہن کے دریچوں میں اب تک محفوظ ہے جو بھائی افضال کے آغا میرکی ڈیوڑھی کے گھر میں ہوئی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ ذکی شیرازی نے براق لکھنوی انداز اپنایا ہوا تھا اور وہ مجھے حسین آباد سے تانگہ گاڑی میں لیتے ہوئے آغا میرکی ڈیوڑھی پہنچے تھے ، جہاں بھائی افتخار عارف اور احمد فراز پہلے سے موجود تھے ، بس یہی وہ لمحہ تھا جب ذکی شیرازی کی لکھنوی حس ظرافت جاگی اور انھوں نے میرا کیمرہ لے کر محفل کے تمام عکس محفوظ کیے اور جستہ جستہ ہر کلک پر جملہ کسنے سے باز نہ آئے اور محفل کو زعفران کرتے رہے جب کہ ریڈیو کے صوتی اثرات کی بدولت اپنی آواز کے جوہر دکھانے میں بھی تردد نہ برتا۔

اسی دوران جملوں کے تبادلے میں جب ذکی شیرازی نے احمد فراز سے خود ساختہ جلا وطنی کا سبب جاننا چاہا تو احمد فراز نے انھیں وطن میں قہر و جبر کے سایوں کے مابین زندگی کی حفاظت کو یقینی بنانے کی وجہ کو اپنی جلا وطنی کا سبب جانا ، جس سے ذکی شیرازی مطمئن نہ ہوئے اور برجستہ احمد فراز سے کہا کہ گویا ''اب تلوں میں تیل نہیں رہا '' اس بے ساختہ چپت پر احمد فراز بھونچکا ضرور ہوئے مگر دوسرے لمحے خود کو سنبھال لیا۔

یہ ریڈیو پاکستان کی صوتی آواز کے ذریعے عوامی رائے کی آزادی کا وہ دور تھا جب کراچی کے قہوہ خانے، بازار چوبارے انسانی آزادی کے جمہوری حق کے گیت گایا کرتے تھے ، ہر بشرکو اظہار رائے کی آزادی تھی، نہ چوری کا کھٹکا نہ اغوا کا ڈر تھا نہ قتل و غارت کا اندیشہ اور نہ ہی کسی لوٹ مار کا خوف۔

کراچی میں کے ایم سی کی لائٹوں کے بلب روشن رہتے تھے جن سے لائٹ سے محروم طلبہ میونسپلٹی کی روشنی میں پڑھتے لکھتے تھے ، جب کہ ہر سو چہل پہل اورکم آمدنی میں بھی شاداب چہرے ایک دوجے کے دکھ درد میں شریک تھے۔ بس سب انسان سے گفتگوکیا کرتے تھے ، اس میل جول اور محبت میں کسی بھی چیزکو درمیان میں حائل نہ ہونے دیتے تھے، قدرکا پیمانہ علم اور غور فکر پر متعین کیا جاتا تھا ، تنگ دستی میں بھی آسودگی کا زعم لیے ہر فرد شہر کو اپنا سمجھا کرتا تھا ، نہ دہلیز بڑھانے کا گمان تھا اور نہ ہی اپنے گھرکی باؤنڈری سے تجاوز کرنے کی سوچ تھی۔

شہرکی صفائی مشترکہ ذمے داری اور دکھ سانجھے ہوا کرتے تھے، مگر بھلا ہو جدید سرمایہ دارانہ قدروں کا کہ رشتے سکڑ کر چھ انچ کے موبائل میں آچکے ہیں ، شادی کے دعوت نامے واٹس ایپ کے محتاج کر دیے گئے ہیں اور اظہار رائے کو جدید دور میں بھی قرون وسطی کی پابندیوں کا نشان بنا دیا گیا ہے، اب تو فیس بک بھی آپ کے اظہار پر پابندی کا ہتھوڑا برسانے سے گریز پا نہیں ، فیس بک پر آئے دن احباب کی پوسٹس پابندیوں کا نشانہ بنتی رہتی ہے ، گو جدید دور میں اظہار کی آزاد حیثیت کی ترقی ہونی چاہیے مگر ہم ہیں کہ کبھی میر توکبھی مطیع کی آواز پر قدغن لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے ، حالانکہ ساز و آواز کے آہنگ ، عشق اور مشک کو روکائے نہیں رکتے۔ دیکھتے ہیں کہ کب تک مقتدرہ کی یہ خرمستیاں نڈھال ہوکرگرتی ہیں؟
Load Next Story