جاپان اور پاکستان

دراصل حزب ِ اقتدار اور اختلاف کے پاس صحت مند، تفریحی اور علمی موضوعات ان دنوں نا پید ہو چکے ہیں۔

h.sethi@hotmail.com

دو سال ہو چلے ہیںکہ خُدا کی ہزار ہا نعمتوں سے بھرپور زمین پر عذاب ِ الٰہی ایک وبا کی صورت میں اُترا ہوا ہے۔ وہ لوگ جو بظاہر آخرت اور یوم ِ حساب پر ایمان لانے کا دعویٰ رکھتے ہیں لیکن سمجھتے ہیں کہ حساب بعد از مرگ حاضری پر ہو گا۔

اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ اس دنیا میں وُہ خُدا کی بارگاہ سے غیرحاضر اور اس کی نظروں سے اوجھل ہیں لہٰذا وہ اپنی مرضی سے جیسے بھی چاہیں اپنے روزو شب گزار سکتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ صاحب ِ اقتدار یا پھر اعلیٰ منصب پر فائز شخص اپنے عروج کے دنوں میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتا لیکن وہی متکبر شخص جب بیماری اور کمزوری کے دنوں میں خود کو بے بس پاتا ہے اور اُسے موت کا فرشتہ نظر آنے لگتا ہے تو وہ توبہ کے دروازے کی طرف بے بسی سے دیکھتا اور گڑگڑاتے ہوئے ہر مظلوم سے معافی کا طالب بن کر خدا سے توبہ کا دروازہ کھولنے کے لیے گڑ گڑا تا پایا جاتا ہے۔

انسان تمام عمر ایک ہی کیفیت میں نہیں گزارتا ، کبھی وہ بیماری میں مبتلا ہوتا اور مال و دولت سے سرشار پایا جاتا اور کبھی فاقہ کشی کے دن گزارتے دیکھا جاتا اور کبھی دولت لٹانے میں دریغ نہیں کرتا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کوئی محفل برخواست ہونے پر لوگ پیدل، سائیکل یا تانگے ، رکشے پر بے فکری سے گھروں کو لوٹتے تھے، پھر ان کے وہ دن بھی آئے کہ وہ اپنے ڈرائیور کو فون کرتے کہ کار دروازے پر لے آئو۔

یہ اُتار چڑھائو ہی ہے جو انسان کو دوڑاتا، بھگاتا اور زندگی کی چکی چلائے جاتا ہے۔ دراصل عروج و زوال ہی ایک ایسی جبلت ہے جو انسان کو مسلسل آگے بڑھنے اور مصروف رکھنے کے لیے قدرت نے انسان کو عطا کررکھی ہے، جس کی موجودگی اسے سُستُ الوجود نہیں ہونے دیتی اور جہد مُسلسل ہی سے نئی نئی ایجادات وجود میں آتی رہتی ہیں ۔ کہنے والے نے تو یہاں تک کہا ہے کہ :۔

بے کار مباش کچھ کیا کر ٹانکے اُدھیڑ کر سیا کر


یہ دراصل کوئی سزا نہیں ایک طرح سے نعمت ہے جسے لوگوں نے مذاق کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ مصروفیت کیسی بھی ہو ایک نعمت ہے۔ آپ دنیا کے نقشے پر انگلی پھیر کر پرکھ لیں جہاں جہاں ہوش مند انسانی آبادیاں بے حد مصروف ملیں گی، وہ ترقی یافتہ ہوں گی اور جو علاقے سستُ الوجود اور کام چوروں کے ہوں گے وہ انھی نالائقوں کے ہونے کی وجہ سے پس ماندہ اور غربت زدگان کے ہوںگے۔

ہمارے اردگرد وہ گائوں، شہر اور ملک جہاں کے باسی محنت مشقت کرتے اور نئے سے نئے طریقوں سے زندگی کو بہتر کرنے کے لیے سوچ بچار کے علاوہ ایجادوں پر توجہ دیتے ہیں۔ وہ کچھ نہ کچھ نئی چیز دریافت کر کے اپنے لیے آسانیاں پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جب کہ سُستُ الوجود ترقی کے بجائے تنزلی کے گڑھوں میں گر جاتے ہیں۔ حالات ِ حاضرہ پر گفتگو کے دوران ملکی سیاست پر اظہار ِ خیال ہمارے ہاں مجبوری نہیں ٹھرک ہے۔

دراصل حزب ِ اقتدار اور اختلاف کے پاس صحت مند، تفریحی اور علمی موضوعات ان دنوں نا پید ہو چکے ہیں، یہ طبقہ عوام کی سوچ کو پراگندہ اور زنگ آلود کر رہاہے۔ ایک ریمارک اکثر سُننے میں آ رہا ہے کہ یہ ملک غریب اور پسماندہ ہے لیکن یہاں اُمراء بستے اور سیر و تفریح کے لیے یورپ ، امریکا جاتے ہیں۔ اگر کوئی ایمانداری سے سروے کرے تو رپورٹ کرے گا کہ یہاں غربت تو بے حد ہے لیکن کچے کے علاقوں سے نکل کر دیکھیں تو موٹر کاروں کی قطاریں دکھائی دیں گی اور غریب بھی نظر نہیں آئے گا کیونکہ وہ وہاں کا مکین نہیں ہو گا۔

تیس، چالیس سال پہلے جب گائوں کے دھوبی ، نائی ، لوہار، موچی، کمہار ، ترکھان، جولاہے، نیچ ذات اور کمی کمین سمجھے جاتے تھے، پھر تبدیلی آئی۔ جاگیر داری میں بھی کمی آئی اور یہ لوگ اپنے اپنے پیشوں میں ترقی کرگئے، اب یہ ڈرائی کلینر، بیوٹیشن، شُو مینو فیکچرر، آئرن مرچنٹ، ٹیکسٹائل اونر، وُڈ ماسٹر اور ڈیزائنر بن گئے لیکن یہ بہت تھوڑے ہیں جنھوں نے ایسی ترقی کی۔ آبادی پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے بہت بڑی تعداد نے صرف بچے پیدا کیے جانے کو ہی ترقی کا ذریعہ جانا جو انھیں غربت اور ناخواندگی کی طرف لے گیا۔

اب آپ خوشحال فیملی کے بچوں کی تعداد دیکھیں تو وہ دو یا تین ہو گی جب کہ کم آمدنی والے گھرانوں میں بچوں کی اوسط تعداد چھ، سات ہے ۔کالم آخری سطور تک پہنچا تھا کہ ریحان مرزا نے میسج بھیجا کہ ''جاپان ایٹم بم کا شکار ہو کر بھی کمال ترقی کر گیا جب کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن کر بھی نہ صرف مقروض ہو گیا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جاپان میں جھوٹے ، بے ایمان اور ہوس زر کا شکار لیڈرز نہیں ہیں''۔
Load Next Story