حکومت طالبان مذاکرات عوام پیش رفت کے منتظر

مذاکرات کی کامیابی کا انحصار ہی اس بات پرہے کہ حساس قومی معاملات کے حوالے سے کھلے عام جتنی کم بحث ہو اتنا بہتر ہوگا۔

مذاکرات کی کامیابی کا انحصار ہی اس بات پر ہے کہ حساس قومی معاملات کے حوالے سے کھلے عام جتنی کم بحث کی جائے اتنا بہتر ہوگا۔ فوٹو : فائل

پاکستان بھر کے عوام کی نظریں اس وقت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں حکومت اور طالبان کے درمیان قیام امن کے لیے شروع کیے گئے مذاکراتی عمل پر لگی ہیں۔

وزیراعظم محمد نواز شریف نے جب شدت پسندی کی راہ پر چلنے والوں کے خلاف آپریشن کی بجائے امن مذاکرات کے آپشن کا اعلان کیا تو ملک بھر کی سیاسی قیادت، علمائے کرام، دانشوروں، سول سوسائٹی اور عوام کی اکثریت نے اسے مجموعی طور پر خوش آئند قرار دیا۔ حتیٰ کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور اپوزیشن کی دوسری بڑی پارٹی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسے حکومت پاکستان کا مستحسن فیصلہ قرار دیتے ہوئے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ البتہ سید خورشید شاہ کا ایک مطالبہ ضرور سامنے آیا کہ مذاکرات کے لیے ٹائم فریم دیا جائے۔ جبکہ سینٹ میں حزب اختلاف کے رہنما رضا ربانی کا بھی ایک مطالبہ سامنے آیا ہے کہ پارلیمنٹ کا ان کیمرہ مشترکہ سیشن بلا کر اراکین پارلیمنٹ کو مذاکرات کے حوالے سے اعتماد میں لیا جائے۔

دوسری جانب حکومتی اعلان کردہ مذاکراتی ٹیم کے ارکان کے نام سامنے آنے سے ہی حکومتی سنجیدگی عیاں ہو گئی تھی کہ قیام امن کے لیے معاملے کو سیاست سے الگ تھلگ رکھتے ہوئے حکومت نے ایسے افراد کو حکومتی مذاکراتی ٹیم میں شامل کیا جو اپنے اپنے شعبے میں عزت، وقار، متانت اور غیر جانبداری قابل رشک ریکارڈ کے حامل ہیں۔ معروف کالم نگار عرفان صدیقی چند روز قبل ہی وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے قومی امور بنائے گئے ہیں اور اب طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے انعقاد کی ذمہ داری ان کے سیاسی کیرئیر کی پہلی اور اہم ترین ذمہ داری ثابت ہو رہی ہے۔ گزشتہ دو روز میں ان مذاکرات کے حوالے سے سامنے آنے والے اتار چڑھاؤ کے دوران عرفان صدیقی نے ذمہ داری سے میڈیا کے سوالوں کے جوابات دیے اور دیگر اراکین کمیٹی میجر (ر) محمد عامر، رحیم اللہ یوسفزئی اور رستم شاہ مہمند نے بھی کمال مہارت اور ذمہ داری سے عمومی طور پر اپنے آپ کو میڈیا سے دور رکھا۔




مذاکرات کی کامیابی کا انحصار ہی اس بات پر ہے کہ حساس قومی معاملات کے حوالے سے کھلے عام جتنی کم بحث کی جائے اتنا بہتر ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف نے پیر کے روز لاہور میں سینئر صحافیوں سے ملاقات کے موقع پر جب یہ کہا جائے کہ میں نہیں چاہتا کہ میری کسی بات سے مذاکرات کے عمل کو نقصان پہنچے تو انہوں نے ایک قومی لیڈر اور منتخب وزیراعظم کے طور پر پوری قوم کو ایک رہنما اصول دے دیا کہ مذاکرات اہم ہیں۔ ہماری باتیں، تبصرے اور بیانات اہم نہیں۔ اب یہ بات مولانا سمیع الحق، مولانا عبدالعزیز اور ایسے دیگر افراد کو کون سمجھائے جو باقاعدہ مذاکرات شروع ہونے سے قبل ہی وہ باتیں کرنا شروع ہو گئے ہیں جو شاید مذاکرات کے آخری روز کی جانی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان سمیت متعدد رہنماؤں نے پہلے ہی مطالبہ کر دیا تھا کہ دونوں اطراف سے فائر بندی کے ساتھ ساتھ زبان بندی کا اعلان کیا جائے اور سختی سے اس پر کاربند رہا جائے۔ طالبان کی جانب سے اعلان کردہ کمیٹی میں مولانا سمیع الحق، مولانا عبدالعزیز اور پروفیسر ابراہیم خان تو اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے تیار ہیں مگر تحریک انصاف کے عمران خان اور جے یو آئی (ف) کے مولانا کفایت اللہ یہ اہم ذمہ داری نبھانے سے معذوری ظاہر کر چکے ہیں۔

مذاکرات کی اہمیت و افادیت جانتے بوجھتے ہوئے عمران خان شاید اس لیے اس عمل کا حصہ نہ بنے کہ ان کا نام طالبان کی اعلان کردہ کمیٹی میں شامل تھا اور وہ ان کی جانب سے مذاکرات میں شامل ہو کر اپنے اوپر کوئی ایسی چھاپ نہیں لگوانا چاہتے جو آگے چل کر ان کے سیاسی سفر میں ان کے لیے مشکلات پیدا کرے جبکہ مولانا فضل الرحمان کا اپنے نمائندہ مولانا کفایت اللہ کو طالبان کی اعلان کردہ کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے مذاکراتی عمل کا حصہ بننے سے روک لینے کی وجوہات مختلف ہیں۔ مولانا فضل الرحمان خصوصی اتحادی ہونے کی حیثیت سے حکومت سے جائز طور پر نالاں ہیں کہ مذاکراتی ٹیم کی تشکیل اور سارا عمل شروع کرنے کے فیصلے سے قبل انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا اور شاید وہ حکومتی اتحادی ہوتے ہوئے مخالف مذاکراتی ٹیم کی جانب سے مذاکرات کے عمل کا حصہ بننا نامناسب سمجھتے ہیں۔ البتہ قوم یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جب اہم قومی امور کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی ذمہ داری ہمارے سیاسی رہنماؤں کے کندھوں پر آن پڑتی ہے تو انہیں ممکنہ سیاسی فائدے یا نقصان سے قطع نظر آگے بڑھ کر فرض ادا کرنا چاہیے۔



ادھر منگل کے روز دونوں کمیٹیوں کی پہلی متوقع ملاقات سے قبل ہی اس وقت عارضی تعطل پیدا ہو گیا جب حکومتی مذاکراتی ٹیم نے اپنے اجلاس کے اختتام پر طالبان کی نامزد کردہ مذاکراتی ٹیم سے وضاحتیں طلب کر لیں۔ معلوم ہوا ہے کہ وضاحتیں زیادہ سنجیدہ نہیں، البتہ بات چیت کے عمل کے باقاعدہ آغاز سے قبل یہ جان لینا ضروری ہے کہ دونوں اطراف کی کمیٹیوں کے حتمی ارکان کون کون ہوں گے اور ان کا دائرہ اختیار کیا ہو گا۔ ادھر یہ وضاحتیں سامنے آنے کے فوراً بعد تحریک طالبان کے ترجمان کی جانب سے بلاتاخیر یہ وضاحت کر دینا بھی خوش آئند ہے کہ ہماری اعلان کردہ ٹیم کے باقی ماندہ تین ارکان ہی حکومتی مذاکراتی ٹیم سے بات چیت کے آغاز کا اختیار رکھتے ہیں۔ اسی تین رکنی ٹیم کو ہی طالبان کی جانب سے حتمی مذاکراتی ٹیم سمجھا جائے۔ مولانا سمیع الحق نے اس موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر کہا کہ حکومت اور طالبان کے درمیان قیام امن کی خاطر مذاکرات کے موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ایک عبادت اور اہم قومی ذمہ داری سمجھ کے کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ معمول کی رپورٹنگ سے ہٹ کر اور زیادہ ذمہ داری سے صحافی حضرات فرائض سرانجام دیں۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ میں اس بڑھاپے میں 3 گھنٹے کا سفر کرکے اسلام آباد اس لیے آیا ہوں کہ میں اسے قومی خدمت اور عبادت سمجھتا ہوں۔ انہوں نے حکومتی سنجیدگی کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہا کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم محض دو منٹ کے لیے ہی آ جاتی۔ پھر وضاحتوں کے جواب بھی دے دیے جاتے اور مذاکرات کا لائحہ عمل، طریقہ کار اور ٹائم فریم کے حوالے سے تفصیلات بھی طے کر لی جاتیں۔ مولانا سمیع الحق کی جذباتی پریس کانفرنس کے بعد توقع ہے کہ شام سے پہلے حکومتی مذاکراتی ٹیم کے کوآرڈینیٹر عرفان صدیقی بھی اپنے انتہائی مدلل اور دھیمے انداز میں بھرپور جواب دیں گے اور توقع ہے کہ 5 فروری کے یوم یکجہتی کشمیر کے بعد بلاتاخیر امن مذاکرات کا عمل شروع ہو جائے گا۔
Load Next Story