پستے عوام
شوکت ترین نے اچھا کیا اور سیاستدانوں کی طرح لگی لپٹی رکھے بغیر صاف کہہ دیا کہ مہنگائی کم نہیں ہوگی
ISLAMABAD:
اپوزیشن نے حسب سابق ایک بار پھر حکومت کی طرف سے مہنگی بجلی اور پٹرول پر اضافہ مسترد کر دیا۔ حکومتی فیصلوں کو عوام پر ظلم قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کے لیے کام کر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے بجلی کی قیمت میں اضافے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عوام کا جینا مشکل ہو چکا، حکومت کی عوام دشمن پالیسیاں چیلنج کریں گے حکومتی اضافہ مسترد کرتے ہیں۔ تنہا اپوزیشن کرنے والے جماعت اسلامی کے امیر نے بھی بجلی و پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ظلم قرار دے کر کہا کہ قوم پی ٹی آئی کو کٹہرے میں کھڑا کرے گی۔ وفاقی وزیروں نے حسب سابق پھر کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنی حکومتوں میں مہنگے معاہدے کیے جس کی وجہ سے حکومت کو قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ عوام پر ظلم نہیں کرنے دیں گے۔ روپے پر دباؤ عارضی ہے کسان کو محنت کا پورا معاوضہ دلائیں گے۔ بیت المال سندھ کے سربراہ و تحریک انصاف کے رہنما کو بھی مہنگائی کا احساس ہو گیا اور انھوں نے اپنی حکومت سے اپیل کی کہ پٹرول مزید مہنگا نہ کیا جائے کیونکہ پٹرول کی قیمت عوام کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہے۔
حکومت نے بجلی کی قیمت بڑھانے کے فوری بعد اپنے رہنما کی اپیل کے جواب میں پٹرول کی فی گیلن قیمت میں ساڑھے دس روپے اضافہ کرکے خود اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا جس کو حسب عادت اپوزیشن نے ایسے مسترد کردیا جیسے حکومت ان کے مسترد کر دینے سے اضافہ واپس لے لے گی۔ عمران خان وزیر اعظم بننے سے قبل پٹرولیم مصنوعات میں اضافے پر حکومت پر تنقید کرتے ہوئے جو کچھ کہا کرتے تھے وہ سب کچھ بھول چکے ہیں حالانکہ میڈیا انھیں تاریخ وار سب کچھ یاد دلاتا رہتا ہے اور عوام کو بھی سب کچھ یاد ہے بلکہ عوام کو اب یہ بھی پتا چل چکا ہے کہ ہر حکومت کا کام مہنگائی بڑھانا اور اپوزیشن کا کام حکومت کے ہر اقدام کو مسترد کرکے حکومت پر صرف تنقید کرنا رہ گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان پھنسے عوام کا کام مہنگائی پر مہنگائی برداشت کرنا رہ گیا ہے۔
حکومت تین سال بعد بھی مہنگائی کا ذمے دار سابقہ حکومتوں کو قرار دے کر اور اپوزیشن حکومت کے مہنگائی بڑھانے کے اقدام کو مسترد کرکے اپنا اپنا فرض ادا کر دیتی ہے اور مہنگائی کے مارے عوام میڈیا پر مہنگائی کا رونا رو کر اور حکومت کو کوس کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔
وزیر سے مشیر بننے والے شوکت ترین نے اچھا کیا اور سیاستدانوں کی طرح لگی لپٹی رکھے بغیر صاف کہہ دیا کہ مہنگائی کم نہیں ہوگی اور دنیا کو سمجھ نہیں آ رہا کہ مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی حکمران ہمارے وزیر اعظم کی طرح مہنگائی بڑھنے کا ذمے دار اپنی سابقہ حکومتوں کو قرار نہیں دے رہا اور یہ کام صرف پاکستان میں ہو رہا ہے۔ جہاں کی حکومت اپنے اقتدار کے سوا تین سال گزار کر بھی کہہ رہی ہے کہ مہنگائی کی ذمے دار پی پی اور (ن) لیگ کی حکومتیں رہی ہیں۔
عمران خان نے عوام سے اس وقت کی حکومتوں کے متعلق جو کچھ کہا تھا وہ تمام برائیاں تبدیلی حکومت میں نہ صرف آ چکی ہیں بلکہ ماضی کی حکومتوں سے بڑھ چکی ہیں جسے اپوزیشن حکومت کی نااہلی قرار دیتی آ رہی ہے اور حکومتی وزیر خوش ہیں کہ وزیر اعظم خوش نصیب ہیں کہ انھیں موجودہ نااہلوں پر مشتمل اپوزیشن ملی ہے اور ماضی میں اتنی نااہل اپوزیشن کسی بھی حکومت کو نہیں ملی، اس لحاظ سے تبدیلی حکومت واقعی خوش نصیب ہے ۔ شیخ رشید نے درست کہا کہ عمران خان خوش نصیب ہیں جنھیں ناکارہ اپوزیشن ملی جس کے انجن سے دھواں نکل رہا ہے۔
تین سال تبدیلی حکومت کے عتاب کا شکار رہنے والی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم میں متحد کیا تھا مگر دونوں 6ماہ ہی ساتھ چل سکے اور دونوں متحد ہوکر عوام کو حکومت کے خلاف متحرک کرنے کے بجائے لانگ مارچ تک نہ کرسکے کیونکہ پی پی کو اپنی سندھ حکومت بچانی تھی اور مسلم لیگ (ن) کو اپنی بڑی اپوزیشن برقرار رکھنی تھی اس لیے مولانا فضل الرحمن تنہا تو کچھ نہ کرسکے تھے۔ اسلام آباد پنجاب کی حدود میں گھرا ہے پنجاب میں پی پی برائے نام اور (ن) لیگ بڑی پارٹی ہے۔ رانا ثنا اللہ نے کہہ دیا ہے کہ ہم چاہتے تھے کہ عوام تبدیلی کا مزہ چکھ لیں جو عوام نے ضرورت سے زیادہ چکھ لیا ہے اس لیے اپوزیشن پھر لانگ مارچ کی باتیں کرکے عوام کو دھوکا دینے جا رہی ہے۔
تبدیلی حکومت کی نااہلیوں نے اپوزیشن کو حکومت کے خلاف کئی موقع فراہم کیے مگر اپوزیشن حکومت سے بھی بڑھ کر نااہل ثابت ہوئی ہے جس میں عوام کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر لانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے البتہ یہ کام بھی نااہل حکومت کی عوام دشمن پالیسیاں کر رہی ہیں اور دونوں نااہلوں کی پالیسیوں سے بے زار حکومت کی چیرہ دستیوں کا شکار عوام کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ کیا کریں، وہ پریشان ہو کر صرف آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور دونوں نااہلوں سے تنگ آ کر وقت گزار رہے ہیں کہ انھوں نے عمران خان کی باتوں میں آ کر تبدیلی کا بہت مزہ چکھ لیا۔
اپوزیشن نے حسب سابق ایک بار پھر حکومت کی طرف سے مہنگی بجلی اور پٹرول پر اضافہ مسترد کر دیا۔ حکومتی فیصلوں کو عوام پر ظلم قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کے لیے کام کر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے بجلی کی قیمت میں اضافے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عوام کا جینا مشکل ہو چکا، حکومت کی عوام دشمن پالیسیاں چیلنج کریں گے حکومتی اضافہ مسترد کرتے ہیں۔ تنہا اپوزیشن کرنے والے جماعت اسلامی کے امیر نے بھی بجلی و پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ظلم قرار دے کر کہا کہ قوم پی ٹی آئی کو کٹہرے میں کھڑا کرے گی۔ وفاقی وزیروں نے حسب سابق پھر کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنی حکومتوں میں مہنگے معاہدے کیے جس کی وجہ سے حکومت کو قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ عوام پر ظلم نہیں کرنے دیں گے۔ روپے پر دباؤ عارضی ہے کسان کو محنت کا پورا معاوضہ دلائیں گے۔ بیت المال سندھ کے سربراہ و تحریک انصاف کے رہنما کو بھی مہنگائی کا احساس ہو گیا اور انھوں نے اپنی حکومت سے اپیل کی کہ پٹرول مزید مہنگا نہ کیا جائے کیونکہ پٹرول کی قیمت عوام کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہے۔
حکومت نے بجلی کی قیمت بڑھانے کے فوری بعد اپنے رہنما کی اپیل کے جواب میں پٹرول کی فی گیلن قیمت میں ساڑھے دس روپے اضافہ کرکے خود اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا جس کو حسب عادت اپوزیشن نے ایسے مسترد کردیا جیسے حکومت ان کے مسترد کر دینے سے اضافہ واپس لے لے گی۔ عمران خان وزیر اعظم بننے سے قبل پٹرولیم مصنوعات میں اضافے پر حکومت پر تنقید کرتے ہوئے جو کچھ کہا کرتے تھے وہ سب کچھ بھول چکے ہیں حالانکہ میڈیا انھیں تاریخ وار سب کچھ یاد دلاتا رہتا ہے اور عوام کو بھی سب کچھ یاد ہے بلکہ عوام کو اب یہ بھی پتا چل چکا ہے کہ ہر حکومت کا کام مہنگائی بڑھانا اور اپوزیشن کا کام حکومت کے ہر اقدام کو مسترد کرکے حکومت پر صرف تنقید کرنا رہ گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان پھنسے عوام کا کام مہنگائی پر مہنگائی برداشت کرنا رہ گیا ہے۔
حکومت تین سال بعد بھی مہنگائی کا ذمے دار سابقہ حکومتوں کو قرار دے کر اور اپوزیشن حکومت کے مہنگائی بڑھانے کے اقدام کو مسترد کرکے اپنا اپنا فرض ادا کر دیتی ہے اور مہنگائی کے مارے عوام میڈیا پر مہنگائی کا رونا رو کر اور حکومت کو کوس کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔
وزیر سے مشیر بننے والے شوکت ترین نے اچھا کیا اور سیاستدانوں کی طرح لگی لپٹی رکھے بغیر صاف کہہ دیا کہ مہنگائی کم نہیں ہوگی اور دنیا کو سمجھ نہیں آ رہا کہ مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی حکمران ہمارے وزیر اعظم کی طرح مہنگائی بڑھنے کا ذمے دار اپنی سابقہ حکومتوں کو قرار نہیں دے رہا اور یہ کام صرف پاکستان میں ہو رہا ہے۔ جہاں کی حکومت اپنے اقتدار کے سوا تین سال گزار کر بھی کہہ رہی ہے کہ مہنگائی کی ذمے دار پی پی اور (ن) لیگ کی حکومتیں رہی ہیں۔
عمران خان نے عوام سے اس وقت کی حکومتوں کے متعلق جو کچھ کہا تھا وہ تمام برائیاں تبدیلی حکومت میں نہ صرف آ چکی ہیں بلکہ ماضی کی حکومتوں سے بڑھ چکی ہیں جسے اپوزیشن حکومت کی نااہلی قرار دیتی آ رہی ہے اور حکومتی وزیر خوش ہیں کہ وزیر اعظم خوش نصیب ہیں کہ انھیں موجودہ نااہلوں پر مشتمل اپوزیشن ملی ہے اور ماضی میں اتنی نااہل اپوزیشن کسی بھی حکومت کو نہیں ملی، اس لحاظ سے تبدیلی حکومت واقعی خوش نصیب ہے ۔ شیخ رشید نے درست کہا کہ عمران خان خوش نصیب ہیں جنھیں ناکارہ اپوزیشن ملی جس کے انجن سے دھواں نکل رہا ہے۔
تین سال تبدیلی حکومت کے عتاب کا شکار رہنے والی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم میں متحد کیا تھا مگر دونوں 6ماہ ہی ساتھ چل سکے اور دونوں متحد ہوکر عوام کو حکومت کے خلاف متحرک کرنے کے بجائے لانگ مارچ تک نہ کرسکے کیونکہ پی پی کو اپنی سندھ حکومت بچانی تھی اور مسلم لیگ (ن) کو اپنی بڑی اپوزیشن برقرار رکھنی تھی اس لیے مولانا فضل الرحمن تنہا تو کچھ نہ کرسکے تھے۔ اسلام آباد پنجاب کی حدود میں گھرا ہے پنجاب میں پی پی برائے نام اور (ن) لیگ بڑی پارٹی ہے۔ رانا ثنا اللہ نے کہہ دیا ہے کہ ہم چاہتے تھے کہ عوام تبدیلی کا مزہ چکھ لیں جو عوام نے ضرورت سے زیادہ چکھ لیا ہے اس لیے اپوزیشن پھر لانگ مارچ کی باتیں کرکے عوام کو دھوکا دینے جا رہی ہے۔
تبدیلی حکومت کی نااہلیوں نے اپوزیشن کو حکومت کے خلاف کئی موقع فراہم کیے مگر اپوزیشن حکومت سے بھی بڑھ کر نااہل ثابت ہوئی ہے جس میں عوام کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر لانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے البتہ یہ کام بھی نااہل حکومت کی عوام دشمن پالیسیاں کر رہی ہیں اور دونوں نااہلوں کی پالیسیوں سے بے زار حکومت کی چیرہ دستیوں کا شکار عوام کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ کیا کریں، وہ پریشان ہو کر صرف آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور دونوں نااہلوں سے تنگ آ کر وقت گزار رہے ہیں کہ انھوں نے عمران خان کی باتوں میں آ کر تبدیلی کا بہت مزہ چکھ لیا۔