قرطاس سے کائنات تک
آج کل کسی نے کچھ ایسا فسوں پھونکا ہے کہ ہر طرف ان ہی کے تذکرے ہیں
آج کل کسی نے کچھ ایسا فسوں پھونکا ہے کہ ہر طرف ان ہی کے تذکرے ہیں لیکن مجھے ایک مختلف جادو کا تذکرہ کرنا ہے۔ یہ جادو ہے نکتوں اور دائروں کا جادو۔
کون سے نکتے اور دائرے؟ وہ نکتے اور دائرے جو عربی اور فارسی کا سفر طے کرتے ہوئے ہمارے یہاں تک پہنچے اور طویل، تاریخی، سماجی اور سیاسی عمل کے ذریعے ایک ایسی زبان کی تشکیل کا ذریعہ بن گئے جس نے نہ صرف برعظیم کے مسلمانوں کو ایک نئی شناخت عطا کی بلکہ انسان کے جسم وروح میں پنپنے والے جذبات واحساسات کے اظہار کے لیے ایک ایسا شان دار ذریعہ بھی فراہم کر دیا، جمالیات کی تاریخ میں جس کا ذکر سنہری حروف میں کیا جاتا ہے۔
ایک صاحب تھے پبلو پکاسو۔ اسے اتفاقات زمانہ کہیں یا کچھ اور، یہ صاحب اسپین کی مٹی سے اٹھے۔ اسپین وہ سرزمین ہے جہاں ایک عالم گیر تہذیب و ثقافت نے پرورش پائی اور اپنے بچپن سے عہد بلوغت میں داخل ہوئی۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے، تہذیبوں کا یہ خاموش سفر انسانوں کے رگ و پے میں سما کر ان کے خون کا حصہ بن جاتا ہے، انسان اگر پبلو پکاسو کی طرح تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہو تو پھر دنیا ہی بدل جاتی ہے۔
پبلو پکاسو کے تخلیقی سفر پر نگاہ ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے، وہ پر اسراریت اور تجریدیت سے ہوتے ہوئے روایت کی طرف آئے۔ وہ کتنے بڑے آرٹسٹ تھے، اس کا اندازہ ٹائم میگزین کے صد سالہ سروے سے ہوتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ سب سے بڑا آرٹسٹ کون ہے؟ اس سوال پر تو کوئی اختلاف ہی نہ تھا کہ پبلو پکاسو لیکن جواب کااگلا حصہ زیادہ حیران کن تھا، جواب میں دہندگان نے کہا کہ روئے زمین پر اس شخص سے بڑھ کر کوئی ایسا فن کار نہیں جسے اتنی شہرت ملی ہو اور اس قدر چاہا گیا ہو۔ اس شخص کی نگاہ جب اسلامی خطاطی پر پڑی تو وہ مبہوت ہو کر رہ گیا۔
وہ دیر تک ہمارے فن کی علامات یعنی نکتوں اور دائروں کو دیکھتا رہا پھر بے ساختہ کہہ اٹھا کہ آرٹ کی جو نزاکت، سادگی و پرکاری اور خلاقیت خطاطی میں ہے، فن کے کسی اور اظہار میں نہیں۔ پھر اس نے حسرت کے ساتھ کہا کہ مجھے اگر ایک اور زندگی ملے تو میں یہ ساری کی ساری اس فن کو سیکھنے اور سمجھنے میں گزار دوں۔خطاطی میں ایسا کیا جادو ہے جس نے مصوری کے اس بے تاج بادشاہ کو اس کے قدموں میں لا بٹھایا۔ یہ راز ہمارے عہد کے ایک نوجوان خطاط واصل شاہد نے اپنے فن اور تحقیق سے کھولا ہے۔
واصل شاہد نوجوان آدمی ہیں اور بہت پرعزم، اللہ نے انھیں بڑی خوبیوں سے نوازا ہے۔ ان کی شخصیت کی انفرادیت کو سمجھنے کے لیے خطاطی کی روایت اور اس کے سفر پر سرسری ایک نگاہ ڈالنی ضروری ہے۔ برعظیم پاک و ہند کے خطاطوں پر نگاہ ڈالی جائے یا ایران طوران کے ان مسلم خطاطوں پر جنھوں نے اپنے خون جگر سے اس فن کو سینچا، یہ سب بڑی برگزیدہ شخصیات تھیں۔ علم دین، علم دنیا، فلسفہ،سائنس حتی کہ شاعری میں بھی درک رکھتے تھے۔
یہ روایت ماضی قریب تک برقرار رہی، پاکستانی خطاطی کے سرتاج حافظ یوسف سدیدی، عبدالمجید پروین رقم، تاج الدین زریں رقم، یوسف دہلوی، خالد جاوید یوسفی اورخورشیدعالم گوہر رقم سمیت بہت سے دوسرے بزرگوں میں علم و حکمت کی اس روایت کا تسلسل ملتا ہے لیکن بعد کے زمانوں میں صورت حال مختلف ہو گئی، یہ فن روزگار کے ساتھ تو منسلک ہوا لیکن علم و فضل سے اس کا ناتا ٹوٹ گیا جو بعض اوقات خطاطی میں بھی غلطیوں کے شاہکار پیدا کر دیتا ہے جیسے نامزد کو نامرد وغیرہ لکھ کر پورے نفس مضمون کوایک نئے رنگ میں رنگ دینا، یہ سب اسی بے علمی کے شاخسانے ہیں۔
واصل شاہد اس ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔ وہ صرف خطاطی نہیں کرتے، خطاطی میں شاعری کرتے ہیں۔ ان کی اس شاعری کا ذکر بھی ہو گا لیکن اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس نوجوان نے خود کو خطاطی کے اساتذہ کی علمی روایت سے جوڑنے کی شعوری کوشش کی ہے اور اس فن کی تاریخ کو کھلے دل و دماغ سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ اس کے خفی گوشوں کے اسرار اور حکمتوں کو سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے۔
اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے تو یہ عین حقیقت ہے کہ واصل شاہد وہ پہلے خطاط ہیں جنھوں نے کائنات کی ترکیب و تخلیق کے تناسب کو سمجھ کر خطاطی کے ساتھ اس کے رشتے کو دریافت کیا ہے بلکہ انسانی زندگی کی تعمیر و تہذیب میں بھی اس کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ابھی بارہ ربیع الاول کے موقع پر اسلام آباد میں ان کی خطاطی کی نمائش بعنوان صلو علیہ و آلہ منعقد ہوئی۔ واصل خط ثلث میں خطاطی کرتے ہیں۔ ان کی خطاطی میں نکتوں اور دائروں کا ایک خاص قسم کا تناسب دیکھتے ہوئے ذہن میں چند سوالات پیدا ہوئے تو پتہ چلا کہ اس توازن کی سرحدیں قلم و قرطاس سے شروع ہو کر پوری کائنات تک وسیع ہو جاتی ہیں۔ واصل نے بتایا کہ یہ خط ثلث کے موجد ابن مقلہ تھے۔
جنھوں نے نہ جانتے ہوئے بھی آٹھ اور پانچ کے تناسب سے ان نکتوں اور دائروں کے اوزان و حدود مقرر کیے۔ اب دیکھیے کہ یہ تناسب کہاں کہاں پایا جاتا ہے، ہماری آنکھ، ناک، کان حتی کہ پورے جسم کا تناسب یہی ہے۔ حضور اکرمﷺ جس مقام پر محو استراحت ہیں، اس کاعرض بلد اور طول بلد یہی ہے، ستاروں اور اجرام فلکی کے درمیان فاصلے کا تناسب بھی یہی ہے، گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ پوری کائنات اسی تناسب پر استوار ہے۔ یہ تناسب ہی ہے جس سے اسے توانائی اور حسن میسر آیا۔ قدما میں چکبست تھے جو اس راز تک پہنچے، اقبال نے اس تصور کو اردو کا کیا خوب جامہ پہنایا ہے ؎
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا
یہ ہمارے اس ہونہار خطاط کا کمال ہے کہ اس نے تناسب کائنات کا پرتو خطاطی میں تلاش کر کے اس فن کو نئی جہت دی ہے۔ یہ تناسب ہماری سمجھ میں آ جائے تو پھر یہ بھی سمجھ میں آ جائے گا ہمارے خطاط اپنی عمومی زندگی میں اتنے نفیس اور ذاتی زندگی میں اتنے متقی کیوں ہوا کرتے تھے اور یہ کہ اہل حاجت ان سے رشد و ہدایت کی توقع کیوں کیا کرتے تھے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پبلو پکاسو جیسا عبقری اگر ہماری خطاطی کے حسن کا اسیر ہوا تو اس کاواحدسبب یہی تناسب رہا ہوگا۔ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بدصورتی اور بدتہذیبی کو خوبصورتی اور خوش تہذیبی سے بدلنا ہے تو تربیت کے جن بہت سے لوازم کی ضرورت ہوگی، ان میں ایک خطاطی بھی ہے جس کا ذوق اور شوق اس تناسب کو اپنے مقام پر لے آئے گا جس کے بگڑنے سے مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔ اس کا ایک سادہ سا ٹیسٹ ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ ہر متوازن آدمی مناظر فطرت اور تخلیقی فن پاروں سے محظوظ ہوتا ہے، ایسے لوگوں میں خطاطی سے لطف اندوز ہونے والے ہمیشہ اپنے ہم عصروں میں نمایاں اور زیادہ خلاقانہ صلاحیتیں رکھتے ہیں جیسے اپنے ہم عصروں میں مختار مسعود۔ ذوق کی یہی کیفیت ہے جو معاشرے کو خوبصورتی کے ایک ایسے دائرے میں داخل کر دیتی ہے جو پوری زندگی کو محیط ہو جاتا ہے۔ واصل شاہد کی خطاطی میں شاعری کی ایک صورت تو یہ ہے، دوسری صورت ان کے رنگوں کا انتخاب ہے، وہ سیاہ روشنائی میں سونے کی آمیزش کر کے خطاطی کرتے ہیں، فن کے اس علامتی اظہار میں شاعری بھی ہے، تصوف بھی ہے اور خوش ذوقی بھی۔ ان کی اسی خوش ذوقی کے شاندار مظاہر سے عید میلاد النبیﷺ کے موقعے پر اسلام آباد والے سرشار ہوئے، اللہ ہمارے اس نوجوان فن کار کے فن اور علم میں مزید گہرائی اور گیرائی پیدا فرمائے۔