امن وامان کاقیام اولین ترجیح
ملک کو درپیش چیلنجز میں بلاشبہ سب سے اہم معاملہ امن وامان کے قیام کا ہے
ملک کو درپیش چیلنجز میں بلاشبہ سب سے اہم معاملہ امن وامان کے قیام کا ہے جو قانون کی شفاف حکمرانی،سستے انصاف کی فوری فراہمی ، صوبوں میں گڈ گورننس اور کرپشن کے خاتمے کے لیے سرعت و چابکدستی سے کیے گئے آئینی اقدامات سے مشروط ہے ۔ تاہم آئیڈیل ازم سے قطع نظر اس وقت ضرورت جرائم ، پر تشدد کارروائیوں اور قتل وغارت کے رجحان کی فوری بیخ کنی کی ہے۔ فرانسیسی کہاوت ہے کہ بعض لوگ سستی کو بھی صبر کہتے ہیں، اس طرز عمل کا اب خاتمہ ہونا چاہیے، ملک حالت جنگ میں ہے، قومی سطح پرالرٹ رہنے میں کئی فائدے ہیں ، غلط فیصلوں اور قیام امن میں تساہل تباہی کا پیغام ہے۔اس میں شک نہیں کہ جمہوری عمل کو سب سے بڑا خطرہ مجرمانہ عناصر ، فرقہ واریت ، لینڈ مافیا اور اسٹریٹ کرائم سے ہے جن سے نمٹنے کے لیے پولیس، رینجرز،انٹیلی جنس ایجنسیوں ،اور لیویزکو اپنے ٖفرائض منصبی پوری تن دہی سے استعمال کرنا چاہئیں ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ قانون شکنی مزاج بن جائے اور ریاست کو ہمہ اقسام کے مجرمانہ عناصر کی سماج دشمن کارروائیوں سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا ہو تو پھر فوج اور ایف سی کو مدد کے لیے بلایا جاتا ہے،کیونکہ ملکی سلامتی اور شہریوں کی جان ومال کا تحفظ ہر جمہوری حکومت کا اولین فریضہ ہوتا ہے ۔ لیکن ملکی صورتحال کو دیکھتے ہوئے لگتا یوں ہے کہ کراچی سمیت دیگر شہروں میں امن وامان کے مسائل زیادہ گمبھیر ہوتے جارہے ہیں، اور اس ضمن میں کراچی بازی لے گیا ہے جس کے مردم آزار ماحول میں لاقانونیت کو گویا نئے پر لگ گئے ہیں ، ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری اور پولیس موبائلوں پر مسلسل حملوں نے منی پاکستان میں ہر شخص کو پریشان جب کہ امن وامان کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے ۔شہر مرگ انبوہ جشنے دارد کی تصویر بن گیا ہے۔ نادیدہ مسلح افراد کی فائرنگ سے دردانگیز ہلاکتوں نے اعصاب شل کردیے ہیں ، ہزاروں ملزمان ، مشتبہ افراد اور قانون شکن عناصر کی گرفتاری کے غیر معمولی اور بلند بانگ دعووں کے باوجود شہر قائد عملاً کرمنلز کے نرغے میں ہے، یہ المیہ ہے کہ دو کروڑ کے شہر کو دو سو بے چہرہ قاتلوں نے یرغمال بنا لیا ہے، کیسی دیدہ دلیری ہے کہ ہم وطنوں کے لیے ایک پر امن ، رزق بہ داماں اور بندہ پرور شہر کو آگ وخون اور موت و تباہی کے جہنم میں دھکیلا جارہا ہے ، قانون بے بس ہے ، ہر روز پولیس اور رینجرز پر ڈکیت،ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خور شب خون مارتے ہیں ۔کوئی بدنام مجرم پکڑا بھی نہیں جاتا۔ ایسی بربادی بھی یارب اس شہر کی خاکستر میں ہوگی یہ شاید کسی مکین نے سوچا بھی نہ تھا ۔ اس لیے اب کہ قانون کو حرکت میں آنا چاہیے، حالات بہتر ہوں گے مگر اس کے لیے وفاقی و صوبائی حکومت کو تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال کا جلد ادراک کرلینا چاہیے، منی پاکستان پر امن دشمن اپنی فیصلہ کن جنگ تھوپنا چاہتے ہیں اس خطرہ کا سدباب کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والوں کو ہر ممکن اسلحہ اور جدید ترین سہولتوں سے لیس کرنا وقت کی ضرورت ہے ۔
مذمتی بیانات اور رپورٹوں کی طلبی کا وقت نکل چکا۔ اب عملاً آہنی ہاتھ استعمال ہو ۔قانون شکن اس شہر کی آستینوں میں چھپے ہوئے ہیں، انٹیلی جنس ایجنسیاں کہاں ہیں؟ کئی علاقوں میں شہری محصور ہیں ۔ گزشتہ روز ابراہیم حیدری میں موٹر سائیکل سوار 3 سے زائد ملزمان کی تھانے کی پولیس موبائل پر اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں سب انسپکٹر سمیت 4 پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے، فائرنگ کے دیگر واقعات میں 6 افراد مارے گئے اور متعدد زخمی ہوگئے ، واضح رہے رواں سال کے دوران جاں بحق ہونے والے پولیس افسران و اہلکاروں کی تعداد 31 ہوگئی ۔ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات نے کہا کہ15 سال کا گند ہے جسے صاف کرنے میں ٹائم لگے گا تاہم ہمارے حوصلے بلند ہیں ۔ 2000بلٹ پروف جیکٹس کی منظوری ہوئی ہے اور اس ہفتے کے آخر تک 500 بلٹ پروف جیکٹس مل جائیں گی ۔ شاہد حیات کا کہنا تھا کہ مذکورہ واقعہ پولیس کارروائی کا رد عمل ہے۔ دریں اثنا وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے 4 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کی پر زور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واقعے کی آئی جی سندھ پولیس سے فوری رپورٹ طلب کرلی ہے اور اس مجرمانہ عمل کو فورسز کے خلاف گھناؤنی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد شہریوں میں بے چینی پیدا کرنا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں امن و امان کی اسٹرٹیجی اور جرائم کی روک تھام کا موثر میکنزم تیار کیا جائے تاکہ منی پاکستان سمیت پورے ملک میں جرائم پیشہ عناصر سے شہریوں کو نجات مل جائے ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ قانون شکنی مزاج بن جائے اور ریاست کو ہمہ اقسام کے مجرمانہ عناصر کی سماج دشمن کارروائیوں سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا ہو تو پھر فوج اور ایف سی کو مدد کے لیے بلایا جاتا ہے،کیونکہ ملکی سلامتی اور شہریوں کی جان ومال کا تحفظ ہر جمہوری حکومت کا اولین فریضہ ہوتا ہے ۔ لیکن ملکی صورتحال کو دیکھتے ہوئے لگتا یوں ہے کہ کراچی سمیت دیگر شہروں میں امن وامان کے مسائل زیادہ گمبھیر ہوتے جارہے ہیں، اور اس ضمن میں کراچی بازی لے گیا ہے جس کے مردم آزار ماحول میں لاقانونیت کو گویا نئے پر لگ گئے ہیں ، ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری اور پولیس موبائلوں پر مسلسل حملوں نے منی پاکستان میں ہر شخص کو پریشان جب کہ امن وامان کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے ۔شہر مرگ انبوہ جشنے دارد کی تصویر بن گیا ہے۔ نادیدہ مسلح افراد کی فائرنگ سے دردانگیز ہلاکتوں نے اعصاب شل کردیے ہیں ، ہزاروں ملزمان ، مشتبہ افراد اور قانون شکن عناصر کی گرفتاری کے غیر معمولی اور بلند بانگ دعووں کے باوجود شہر قائد عملاً کرمنلز کے نرغے میں ہے، یہ المیہ ہے کہ دو کروڑ کے شہر کو دو سو بے چہرہ قاتلوں نے یرغمال بنا لیا ہے، کیسی دیدہ دلیری ہے کہ ہم وطنوں کے لیے ایک پر امن ، رزق بہ داماں اور بندہ پرور شہر کو آگ وخون اور موت و تباہی کے جہنم میں دھکیلا جارہا ہے ، قانون بے بس ہے ، ہر روز پولیس اور رینجرز پر ڈکیت،ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خور شب خون مارتے ہیں ۔کوئی بدنام مجرم پکڑا بھی نہیں جاتا۔ ایسی بربادی بھی یارب اس شہر کی خاکستر میں ہوگی یہ شاید کسی مکین نے سوچا بھی نہ تھا ۔ اس لیے اب کہ قانون کو حرکت میں آنا چاہیے، حالات بہتر ہوں گے مگر اس کے لیے وفاقی و صوبائی حکومت کو تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال کا جلد ادراک کرلینا چاہیے، منی پاکستان پر امن دشمن اپنی فیصلہ کن جنگ تھوپنا چاہتے ہیں اس خطرہ کا سدباب کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والوں کو ہر ممکن اسلحہ اور جدید ترین سہولتوں سے لیس کرنا وقت کی ضرورت ہے ۔
مذمتی بیانات اور رپورٹوں کی طلبی کا وقت نکل چکا۔ اب عملاً آہنی ہاتھ استعمال ہو ۔قانون شکن اس شہر کی آستینوں میں چھپے ہوئے ہیں، انٹیلی جنس ایجنسیاں کہاں ہیں؟ کئی علاقوں میں شہری محصور ہیں ۔ گزشتہ روز ابراہیم حیدری میں موٹر سائیکل سوار 3 سے زائد ملزمان کی تھانے کی پولیس موبائل پر اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں سب انسپکٹر سمیت 4 پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے، فائرنگ کے دیگر واقعات میں 6 افراد مارے گئے اور متعدد زخمی ہوگئے ، واضح رہے رواں سال کے دوران جاں بحق ہونے والے پولیس افسران و اہلکاروں کی تعداد 31 ہوگئی ۔ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات نے کہا کہ15 سال کا گند ہے جسے صاف کرنے میں ٹائم لگے گا تاہم ہمارے حوصلے بلند ہیں ۔ 2000بلٹ پروف جیکٹس کی منظوری ہوئی ہے اور اس ہفتے کے آخر تک 500 بلٹ پروف جیکٹس مل جائیں گی ۔ شاہد حیات کا کہنا تھا کہ مذکورہ واقعہ پولیس کارروائی کا رد عمل ہے۔ دریں اثنا وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے 4 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کی پر زور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واقعے کی آئی جی سندھ پولیس سے فوری رپورٹ طلب کرلی ہے اور اس مجرمانہ عمل کو فورسز کے خلاف گھناؤنی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد شہریوں میں بے چینی پیدا کرنا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں امن و امان کی اسٹرٹیجی اور جرائم کی روک تھام کا موثر میکنزم تیار کیا جائے تاکہ منی پاکستان سمیت پورے ملک میں جرائم پیشہ عناصر سے شہریوں کو نجات مل جائے ۔