یومِ یک جہتی کشمیر بھارت کا بدترین جبر بھی تحریک حریت کا کچھ نہیں بگاڑ سکا

اہم بھارتی دانشور اعتراف کرتے ہیں کہ تحریک مزید توانا ہو رہی ہے


عبید اللہ عابد February 05, 2014
اہم بھارتی دانشور اعتراف کرتے ہیں کہ تحریک مزید توانا ہو رہی ہے۔ فوٹو : فائل

یہ 65 سالہ خاتون نبضہ بانو ہیں، جومقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے 85 کلومیٹر دور ایک گاؤں'سندبراری' میں اس جگہ کے پاس غم زدہ کھڑی ہے جہاں کچھ دن پہلے ان کا تین منزلہ مکان کھڑا تھا۔

وہ کہہ رہی تھیں کہ ان کے دوگھر پہلے ہی بھارتی فوج جلا چکی ہے اور دو باڑے بھی جہاں وہ اپنے مویشی باندھا کرتی تھیں۔ تاہم یہی دکھ نہیں، بلکہ اس سے بڑا دکھ یہ ہے کہ نبضہ کے تین بیٹے پہلے بھارتی فوج کے ہاتھوں لاپتہ ہوئے اور پھرقتل کردئیے گئے۔ ان کے غم میں وہ برسوں سے اتنا روئی کہ اب آنکھوں میں مزید آنسو باقی ہی نہیں بچے۔

گزشتہ چھ ماہ سے وہ اسی جگہ پر خیمہ لگاکر شب وروز بسرکرتی رہی ہیں حتیٰ کہ سخت سردی کے موسم میں بھی۔ خیمے میں نبضہ، ان کا شوہر، بہو، اس کے دو بچے، ایک دوسرے بیٹے کے بھی دوبچے رہتے ہیں۔ ہمسائے اور رشتہ دار ان کی مدد کرتے ہیں جبکہ یہ سارا خاندان انتہائی غربت میں زندگی گزار رہا ہے۔ شوہرلاس خان استھیما کے مرض میں مبتلاہے، اس کے علاج پر 15000 روپے ماہانہ خرچ ہوتے ہیں۔ اس کے علاج کے لئے کئی گائیں فروخت کردی گئی ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کی اکثریتی آبادی اسی غربت سے دوچار ہے۔ بھارت نے ایک طرف یہاں اپنا قبضہ جما رکھاہے تو دوسری طرف یہاں کے لوگوں کی زندگی بد سے بدترکرنے کے لئے تمام تراقدامات کر رہا ہے۔ اس کے باوجود بھارتی حکمرانوں نے اپنے عوام اور دنیا کو یقین دلانے کی پوری کوشش کررہا ہے کہ کشمیر میں علیحدگی کی تحریک ہمیشہ کے لئے کچل دی گئی ہے۔ سن 2001ء میں جب اس وقت کے پاکستانی فوجی حکمران جنرل پرویزمشرف اور بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان اور بعدازاں ستمبر 2004 من موہن سنگھ کے ساتھ امن مذاکرات ہوئے تھے اور اس کے بعدپاکستان کی طرف سے اعتمادسازی کی کوششیں ہوئیں تو بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ پاکستان اب مسئلہ کشمیر کا نام بھی نہیں لے سکے گا۔ یقیناً یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان نے مخصوص عالمی دباؤ کے نتیجے میں اعتمادسازی کے نام پر بھارت کا پیداکردہ تاثر ختم کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کو امداد فراہم کرتاہے۔



اعتماد سازی کے لیے جنرل پرویزمشرف کی تمام ترکوششوں کے باوجود بھارت کی طرف سے دعوے جاری رہے کہ پاکستانی آئی ایس آئی اب بھی کشمیری حریت پسندوں کی امداد کررہی ہے، اور ان دعووں کے درمیان ہی بھارت نے تحریک آزادی کشمیر کو ہمیشہ کے لئے کچل ڈالنے کا تاثر دینا شروع کردیا۔ یہ ایک مضحکہ خیز بات تھی کیونکہ یہ دعویٰ کسی فوجی یاسیاسی کامیابی کے بغیر ہی کیا جارہا تھا۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضہ کے مخالف عوام میں مقبول کشمیری سیاست دان بھی موجود تھے اور عسکریت پسند رہنما بھی۔ کہیں کوئی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا جس کی بنیاد پر دنیا بھارتی دعوؤں کوکوئی اہمیت دیتی۔

اگرکشمیری حریت پسندوں نے مخصوص عالمی ماحول کے پیش نظرکچھ عرصہ کے لئے خاموشی اختیار کی تھی، تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ کشمیری ہمت ہاربیٹھے تھے۔ اس کا ثبوت سن 2010ء میں ایک بار پھر بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہرے تھے جوماہ جون میں ایک کشمیری طفیل احمد مٹو کی ہلاکت پر شروع ہوئے تھے اور مہینوں تک جاری رہے، بھارتی سرکار پوری کوشش کے باوجود ان پر قابوپانے میں ناکام رہی۔ آنے والے مہینوں میں بھارت کے حمایت یافتہ وزیراعلیٰ مقبوضہ جموں وکشمیر عمرعبداللہ نے بھی اعتراف کیا کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں، یوں انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے خصوصی اختیارات میں کمی واقع نہ ہونے دی۔ یادرہے کہ ان دنوں بھارت کے بعض حلقے فوج کے اختیارات کم کرنے کا مطالبہ کررہے تھے تاکہ کشمیری عوام کے اضطراب کو کم کیا جاسکے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت کو، روز افزوں معاشی ترقی کے باوجود نہ صرف کشمیر بلکہ دیگر بہت سے علاقوں میں وسیع پیمانے پر علیحدگی پسند تحریکوں اور بغاوتوں کا سامنا ہے۔ اگرچہ بھارت کی طرف سے اب بھی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے حزب المجاہدین (سب سے بڑے عسکریت پسند گروپ) کا صفایا ہوچکا ہے۔ مثلاً اکتوبر2011ء میں 'ٹائمز آف انڈیا' میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی عسکری کارروائیوں کے اعداد و شمار کی بنیادپر دعویٰ کیا گیا کہ پورے مقبوضہ کشمیرمیں حزب المجاہدین کے محض دودرجن کمانڈر اورعسکریت پسند باقی بچے ہیں،یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ میڈیا میں شائع ہونے والی اس طرح کی رپورٹس بھارتی اسٹیبلشمنٹ ہی جاری کرتی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ حزب المجاہدین کی آہستہ آہستہ رونما ہونے والی موت ظاہرکرتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام مزاحمتی سوچ سے الگ ہوچکے ہیں۔

بھارت کسی خوش گمانی کا شکارہے کیونکہ ایک طرف آزادیِ کشمیر کی توانا تحریک ہے تو دوسری طرف ماؤنواز باغی (ماؤسٹ) اپنے غصب شدہ حقوق کی بحالی کے لیے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اسے اب سرکاری میڈیا نے خطرناک علاقہ ( Red Corridor) قرار دیدیا ہے۔ دراصل یہ مزاحمتیں اور یہ تحریکیں، بھارت میں بڑھتے ہوئے معاشرتی اور معاشی استحصال کا قدرتی و فطری ردعمل ہیں۔اور بھارت کے کسی فوجی حل کے نتیجے میں ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ اگرایک قوم کی اکثریت بھارتی پرچم تلے زندگی بسرنہیں کرناچاہتی تو اس کی حریت فکر کو کیسے کچلا جاسکتا ہے۔

اب بھارت میں دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا حامی ہوچکاہے۔ مثلاً معروف بھارتی ناول نگار اور تجزیہ نگار ارون دتی رائے بھی کہتی ہیں کہ بھارتی افواج کی طرف سے مسلسل دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ اْنھوں نے اْن عسکریت پسند جنگجوؤں کا خاتمہ کردیا ہے، جو 1990ء کے عشرے میں 'اچانک' سامنے آئے تھے۔ بھارتی عوام کو تقریباً قائل کر لیا گیا تھا کہ بھارتی افواج نے بندوق کی نوک پر 'امن' قائم کروا لیا ہے اور کشمیر میں معمول کی زندگی واپس لے آئے ہیں۔ اب کشمیری نوجوان کافی شاپس، ریڈیو اسٹیشن اور ٹی وی شوز کے ذریعے 'قومی ترقی' میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ یک طرفہ پروپیگنڈا اتنا مؤثر تھا کہ غیر جانب دار حلقے بھی یقین کر چلے تھے کہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے۔

ارودن دتی رائے مین بوکر پرائز (1997ء) اور سڈنی امن پرائز (2004ء) حاصل کرچکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اچانک ہم سب نے دیکھا کہ پچھلے مسلسل تین برسوں کے موسمِ گرما سے کشمیر کی گلی محلوں کی سطح پر ایک تحریک اْبھرتی ہے۔ اور پھر جو مناظر ہم کشمیر کے بازاروں کے چوراہوں میں دیکھتے ہیں، وہ مصر میں التحریر چوک کے مناظر سے بے حد مشابہ ہیں اور یہ مناظر اب بھی بار بار دہرائے جارہے ہیں۔ یہاں امن و سلامتی نافذ کرنے والے اداروں کے سورما نوجوانوں پر گولیاں برسا رہے ہیں اور پھر بھی آزادی کے جذبات تھمنے میں نہیں آرہے۔ سچ تو یہ ہے جدوجہدِ آزادی کشمیر سے وابستہ یہ تمام نوجوانوں کے گروہ اپنے اظہار کی شکل بدل بدل کر ہمارے سامنے اپنا مدعا بیان کررہے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں یہ کافی مشکل راستہ ہے جو نوجوان کشمیری نسل نے اختیار کیا ہے۔ انھوں نے مضبوط نوکرشاہی کے تمام پْرتشدد حربوں کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ یہ اْن کا عزم، استقلال اور صبر ہی ہے جس کی وجہ سے تمام تر جدیدترین اسرائیلی اور بھارتی اسلحہ رکھنے کے باوجود بھارتی افواج نہیں جانتیں کہ ان پتھر مارنے والوں سے کیسے نبٹا جائے، اور اس پْرامن مزاحمت کو کس طرح سرد کیا جائے؟''



ایک امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس عظیم بے بسی کے بعد، بھارتی قبضے کو اخلاقی جواز صرف بھارت نواز متعصب پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ یک طرفہ پروپیگنڈے پر مبنی شوروغل، ایک بڑے ڈیم (تالاب) کی طرح ہے لیکن اس اجارہ داری کو انٹرنیٹ (فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب) نے کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ اس لیے ہر روز نئی کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔ جدوجہد آزادیِ کشمیر کو اب کوئی نہیں ختم کرسکتا، کیونکہ کشمیریوں نے اپنے بارے میں خود لکھنا شروع کر دیا ہے۔ اس لیے اب ہمیں کشمیریوں کی کہانیاں سنانے کی ضرورت نہیں رہی، اور ویسے بھی ہم اْن کی اذیت ناک کہانیوں کو اپنے ذاتی تجربات کی حیثیت سے بیان نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہمیں کبھی، اْن کی طرح شناخت پریڈ میں بے عزت نہیں کیا گیا۔ ہمیں حقیقت جاننے کے لیے انسانی حقوق کی رپورٹس، اخبارات میں بیان کردہ ٹارچر سیلوں (عقوبت خانوں) کے احوال، جھوٹے مقدمات کی بنیاد پر گرفتاریوں کی تفصیلات کے مطالعے سے صورت حال سے آگاہی حاصل کرنا پڑتی ہے لیکن ہم اْن جیسا محسوس تو نہیں کرسکتے۔

میں ابھی تک اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہوں کہ آپ کس طرح محسوس کریں گے اگر کسی چیک پوسٹ پر آپ کو روکا جائے اور آپ کے سامنے آپ کے بوڑھے ماں باپ کو تھپڑ رسید کیے جائیں یا پھر آپ کے شوہرکو بے عزت کیا جائے۔ اس طرح کے واقعات تو قید میں ہوتے ہیں۔ مجھے تو کشمیر بھی دنیاکا سب سے بڑا جیل خانہ ہی لگتا ہے۔ کشمیری اگر اپنی روزمرہ زندگی کے معمولات کی یادداشتیں لکھیں تو پھر یہ ایک قیدی کی یادداشتیں جیسی ہوں گی۔ بھارتی فوج صرف زبانی بے عزتی پر اکتفا ہی نہیں کرتی۔ میں نے اکثر اس طرح کے الفاظ اْن کے منہ سے سنے ہیں: یہ لڑکا اس لیے مارا گیا کیونکہ ہم نے اسے رْکنے کے لیے کہا لیکن وہ نہیں رْکا''۔ ہرقسم کے تاثر اور ہمدردی سے خالی الفاظ... بس یہی اْس 15 یا16سال کے کشمیری نوجوان کی زندگی کی قیمت ہے!''

بھارت نوآبادیاتی استعماری ریاست کی طرح کام کر رہا ہے۔ آزادی سے قبل بھارتی شہریوں کو عراق اور دیگر دنیا کے حصوں میں تاج برطانیہ کے جھنڈے کے 'تحفظ' کی خاطر بھیجا جاتا تھا۔ اس لیے گمنام بھارتیوں کی قبریں پوری دنیامیں پھیلی ہوئی ہیں جو کہ استعمار کی خاطر جیتے اور مرتے تھے۔ خود 1857ء میں بھارت میں جنگِ آزادی کو بعض لوگ بغاوت کہتے ہیں اور بعض آزادی کی جدوجہد کہتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بعینہ یہی کچھ یہاں ہوا ہے۔ برطانیہ کے برعظیم پاک و ہند میں فوجی بہت زیادہ نہیں تھے لیکن1857ء میں سکھوں نے برطانیہ کی طرف سے دہلی کے قریب لڑائی لڑی تھی۔ یہی کچھ بھارت اب خود کر رہا ہے۔ اْس نے ناگالینڈ کے غریب عیسائیوں کو چھتیس گڑھ لڑنے کے لیے بھیجا اور چھتیس گڑھ والوں کو کشمیر بھیجا اور کشمیریوں کو اڑیسہ تعینات کیا گیا۔ اس کے علاوہ آج کل اخبارات، اور ٹی وی پر ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ کشمیریوں کو فوج اور پولیس میں بھرتی کیا جانا چاہیے۔

یہ ایک طرح سے بے عزتی ہے۔ اعلان کیا جاتا ہے کشمیریوں نے خاموشی سے compensation(زرتلافی) قبول کرلیاہے۔ گویا پہلے فوج کشمیریوں کا قتلِ عام کرے، اور پھر جرمانے کے طور پر اْن کے قریبی رشتہ داروں کو معمولی معاوضوں پر شورش زدہ علاقوں میں بھیج کر اپنے 'قومی مفادات' پورے کرے۔ یہ دوہرا ظلم ہے۔ یوں لگتا ہے سرکاری منصوبے کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہرسطح اور ہرقیمت پر زیادہ سے زیادہ کشمیریوں کو بے عزت کیا جائے، یعنی محض جسمانی تشدد اور قتل و غارت گری کے ذریعے ہی نہیں، بلکہ نفسیاتی طور پر اذیت پہنچا کر بھی۔

بھارت دعویٰ کرتاہے کہ وہ ایک فعال جمہوریت ہے تاہم اردون دتی رائے کشمیریوں سے ہونے والے سلوک کو یوں بتاتی ہیں:'' یہاں (کشمیر میں) زیادہ بڑے پیمانے پر پکڑدھکڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ سینکڑوں نوجوانوں کو پکڑا اور بغیر ٹھوس ثبوت کے جیل میں ڈالا جا رہا ہے، فیس بک کو بند کر دیا گیا ہے، پولیس موجود ہے جو لوگوں کو خوف زدہ کررہی ہے، املاک کو جلا رہی ہے۔ کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر گھروں میں داخل ہوجاتی ہے۔ ایسی جگہیں جہاں درجہ حرارت 30 سینٹی گریڈ سے کم ہوتا ہے وہاں آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ کشمیری زیادہ بدتر صورت حال کو بھگت رہے ہیں۔ جب متحرک جمہوریت کی بات کی جاتی ہے تو کشمیر میں متحرک فوجی قبضہ ضرور نظر آتا ہے۔

بھارت میں متحرک جمہوریت ہمیں دہلی، کیلاش یا گرین پارک میں تو نظر آتی ہے لیکن ڈانڈئی والا، منی پور، اڑیسہ، جھاڑکھنڈ، چھتیس گڑھ اور کشمیر میں ہرگز موجود نہیں ہے۔ مَیں بھارتی وزیراعظم سے ایک سوال کا جواب چاہتی ہوں۔ اگر چھتیس گڑھ کے دیہاتی، یا عام کشمیری کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے اور یہاں ناانصافی سے مراد یہ ہے کہ اْس کے خاندان کے چند افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے، یا جان و مال کی سلامتی کا تحفظ کرنے والے ادارے اْس کی بیٹی یا بہن یا بہو کے ساتھ زنا بالجبر کرتے ہیں، تو آخر اس متحرک جمہوریت میں ایساکون سا غیر جانب دار ادارہ ہے جہاں وہ جاکر حصولِ انصاف کے لیے درخواست دائر کرسکے اور انصاف حاصل کرسکے؟ ہے کوئی؟ یقیناکوئی نہیں، چنانچہ بات یہاں ختم ہوجاتی ہے''۔

امریکی صحافی ڈیوڈبریسمین نے کشمیرکا دورہ کیا اور تسلیم کیا:'' مقبوضہ کشمیر، فوجی کیمپوں، تفتیشی مراکز، جیلوں، مورچوں اور بنکرز سے اَٹا پڑا ہے جس کی وجہ سے یہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے، پوری دنیا میں سب سے زیادہ فوج رکھنے والا علاقہ بن گیا ہے۔ کشمیر میں ایک صحافی نے مجھے بتایا کہ پچھلے کئی برسوں سے اعلیٰ سطح کے اسرائیلی فوجی (بشمول اسرائیلی خفیہ اداروں کے سربراہان) کشمیر کا دورہ کرتے آرہے ہیں''۔

ارودن دتی رائے بھی کہتی ہیں کہ بھارتیوں کے کشمیری موقف میں دراڑیں پڑچکی ہیں اور یہ دراڑیں کشمیریوں کی پْرامن، بغیر اسلحے کے سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں اور زیادہ گہری اور وسیع ہوتی جائیں گی۔ عام پڑھے لکھے بھارتی اب کشمیریوں کی آواز سننے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ اب وہ عوام کو یہ کہہ کر بہلا نہیں سکتے کہ یہ جنگجو ہیں، دیکھو یہ اسلامسٹ ہیں اور یہ طالبان ہیں؟ بھارت میں اٹوٹ انگ والا طے شدہ موقف دم توڑ رہا ہے۔ اس لیے چھتیس گڑھ، اڑیسہ، جھاڑکھنڈ، کشمیر اور کسی حد تک منی پور میں بھارت نواز سرکاری حکومت اس امر سے باخبر ہے کہ بھارتی عوام کے کشمیر کے بارے میں قومی اتفاق رائے کو ٹھیس پہنچی ہے اور اس میں گہری دراڑ پڑچکی ہے''۔



وہ کہتی ہیں ''اُمید مجھے صرف عام لوگوں کی آنکھوں میں نظر آتی ہے۔ اب 2011ء ہے، احتجاج بڑھ چکا ہے۔ ریاست کا ظلم ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ ہزاروں مزاحمت کار جیلوں میں ہیں لیکن اْن کے جذبے اور تحریک کو دبایا نہیں جاسکا۔ آخر دنیا میں کسی اور جگہ یہ کب ہوا ہے کہ دنیا کے امیر ترین کارپوریٹ اداروں نے ریاست کے ساتھ مل کر عوام کو دبانے کی کوشش کی ہو لیکن وہ اس مقصد میں ناکام رہے ہوں اور تمام تر مزاحمتی گروہ آپس کے اختلافات اور اختلاف راے کے باوجود، ان طاقت وروں کو روکنے میں کامیاب رہے ہوں۔ یقیناًیہ اْن کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ اس لیے ہمیں مزاحمت کاروں کو سلام پیش کرنا چاہیے''۔

پینسٹھ برس گزرنے کے باوجود کشمیری قوم بھارتی حاکمیت کو تسلیم کرنے پر تیارنہیں، اس کا مطلب ہے کہ اگربھارت مزید پینسٹھ برس بھی یہی روش برقرار رکھے تاہم کشمیر اس کا نہیں ہوسکے گا۔ بھارت اور مغرب میں کشمیریوں کے حق میں رائے عامہ مزید ہموار ہوگی۔ کچھ عرصہ پہلے بھارت کے سیاسی منظرمیں ابھرنے والی تیسری سیاسی قوت 'عام آدمی پارٹی' کے سربراہ اروندکیجریوال نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کوریفرنڈم کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دینے کامطالبہ کیاتھا، انھوں نے مقبوضہ کشمیرمیں تعینات بھارتی فوج سے خصوصی اختیارات بھی واپس لینے کا مطالبہ کیاتھا۔ اگرچہ بھارتی انتہاپسندوں نے اس بیان پر ان کے دفتر پرحملہ کردیاتھا تاہم ان کا بیان ظاہرکرتاہے کہ بھارت میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق ایک نئی اور حقیقت پسندانہ سوچ بڑھ رہی ہے۔

دوسری طرف ایسے امریکیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے جو سمجھتے ہیں کہ کشمیرکامسئلہ حل کرنا امریکہ کے مفادمیں ہے، اسے حل کئے بغیر چارہ نہیں، اس کے بغیر پاکستان نارمل نہیں ہوپائے گا۔ اور یہ مسئلہ کشمیریوں کی مرضی کے بغیر حل کرنا ممکن ہی نہیں۔ بقول معروف آسٹریلوی تجزیہ نگار مصنف ڈاکٹر کرسٹوفرسنیڈن ''فیصلہ جموں وکشمیر کے عوام ہی کا چلے گا۔ چنانچہ انہیں فیصلہ کرنے دیناچاہئے۔

عالمی طاقتوں کا دوہرا معیار
امریکا سمیت مغربی طاقتیں مسئلہ کشمیر کی بابت دوہرا معیار اپناتی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے چلا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ 1975ء میں انڈونیشیا کے قبضے میں آنے والی ایک عیسائی ریاست مشرقی تیمور کو اسی صدی کے اندر اقوام متحدہ نے حق خودارادیت دلایا۔ اس قوم نے اکیسیویں صدی کا سورج ایک آزاد قوم کے طور پر دیکھا لیکن کشمیر کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ حالانکہ 65 برس پہلے اقوام متحدہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کر چکا ہے اور اس مسئلے کو استصواب رائے کے ذریعے حل کرنے کا کہہ چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکا اور عالمی طاقتوں کا کشمیر کے معاملے میں دوہرا معیارکیوں؟

اگر کشمیر ہاتھ سے جاتا ہے تو پھر افغانستان اور بھارت میں بہت کچھ چلا جائے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کشمیریوں کی درد بھری آہیں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لیے دنیا کے ممالک ایک ارب سے زائد آبادی کے حامل ملک بھارت کی پْرکشش منڈی کو کھو دیں اور اپنے سب سے بڑے گاہک کو ناراض یا غضبناک کر دیں۔ اس لیے کوئی بھی موجودہ استحصال پر مبنی صورتحال اور منظرنامے کو تبدیل نہیں کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا مغرب کو بھارت کی دو وجوہات سے ضرورت رہے گی۔ اول: بھارت ایک انتہائی وسیع اور بڑی منڈی ہے۔ دوم: بھارت کو عالمی طور پر اْبھرتی ہوئی طاقت چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی مغربی خواہش ہے۔ ان عوامل کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق انسانی حقوق کی پامالی کی تمام تر تفصیلات ایک طرف رکھتے ہوئے بھارت مغرب کا مستقل نوعیت کا اتحادی رہے گا، اور مسئلہ کشمیر کے لیے بھارت کو ناراض کرنا کبھی مغربی طاقتوں کی حکمت عملی نہیں بن سکتی۔

آزادی مانگنے کے جرم کی سزا
گزشتہ چوبیس برسوں کے دوران محض آزادی کا مطالبہ کرنے پر کشمیری قوم کو جس بدترین سلوک کا نشانہ بنایاگیا، اس کی ایک جھلک درج ذیل اعدادوشمار سے بخوبی ہوتی ہے۔ ان کا مطالعہ کرتے ہوئے خیال رکھاجائے کہ یہ مقبوضہ کشمیر کے صرف انہی لوگوں سے متعلق ہیں جو آزادی کا نعرہ بلند کرنے والے تھے۔ ان اعداد و شمار میں وہاں ہونے والے دیگر جرائم شامل نہیں ہیں۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق جنوری 1989ء سے 31 دسمبر 2013ء تک بھارتی فوج کے ہاتھوں 93,984 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان میں سے 7,014 زیرحراست قتل کئے گئے۔ 122,711 کو گرفتار کیا گیا، 105,996 کشمیریوں کی املاک کو نذر آتش کیا گیا، 22,776 خواتین کے شوہر قتل ہوئے۔ 107,466 بچے یتیم ہوئے۔10,086 خواتین کی بھارتی فوجیوں نے عصمت دری کی۔ صرف دسمبر 2013ء کے ایک ماہ کے دوران 9 افراد کو ہلاک کیاگیا، 87 کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا، نتیجتاً ان کی حالت خطرے سے دوچار ہوئی۔ 170 عام افراد کو گرفتار کیا گیا۔ پانچ کشمیریوں کے مکانات یا کاروباری مراکز کو نذر آتش کیا گیا۔ تین خواتین کو گینگ ریپ کا نشانہ بنناپڑا۔

سیاسی جدوجہد کاسفر
بھارتی قبضے اور ظلم وستم کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں آئے روز ہونے والے بڑے بڑے مظاہرے اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ کشمیری قوم بھارتی قبضے کو قبول کرنے پر تیارنہیں۔ کشمیری رہنما سیدعلی شاہ گیلانی کی قیادت میں26سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتوں کا اتحاد ' آل پارٹیزحریت کانفرنس' پوری طرح فعال ہے۔ سیدعلی شاہ گیلانی کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ یہ اتحاد مارچ 1993ء میں تشکیل پایا تھا۔اس میں عوامی ایکشن کمیٹی، اتحاد المسلمین، انجمن اوقاف جامعہ مسجد، انجمن تبلیغ الاسلام، امت اسلامی، اوقاف جامعہ مسجد، ایمپلائز اینڈ ورکرز کنفیڈریشن،ایمپلائز اینڈ ورکرز کنفیڈریشن(ارسوانی گروپ)، آل جموں اینڈکشمیر ایمپلائز کنفیڈریشن،جمعیت علمائے اسلام، جمعیت ہمدانیہ،جموں اینڈکشمیر پیپلزکانفرنس، جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ، جموں اینڈ کشمیر ہیومن رائٹس کمیٹی، جموں اینڈکشمیر پیپلز بیسک رائٹس پروٹیکشن کمیٹی، لبریشن کونسل،کشمیر بزم توحید، کشمیر بار ایسوسی ایشن، مسلم خواتین مرکز، مسلم کانفرنس، پالیٹیکل کانفرنس، تحریک حریت کشمیری، پیپلزلیگ،اسلامک سٹوڈنٹس لیگ، امام احمد رضا اسلامک مشن، صوت العالیہ اور جموں وکشمیر پیپلزفریڈم لیگ شامل ہیں۔

اس اتحاد کے مقابلے میں بھارت نوازجماعت حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کوحاصل عوامی تائید نہ ہونے کے برابرہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیشنل کانفرنس کے سربراہ اور وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر عمرعبداللہ کا اقتدار بھارت سے درآمدشدہ فوجی طاقت کے بل بوتے پر ہی قائم ہے۔ ان کے دور وزارت میں باربار ثابت ہوچکاہے کہ وہ کشمیری عوام میں غیرمعمولی طورپر غیرمقبول ہیں۔ مثلاً سن 2009ء میں جب شوپیاں میں انڈین پیراملٹری فورس کے جوانوں نے دوکشمیری لڑکیوں کو گینگ ریپ کرکے ہلاک کیاتو مقبوضہ کشمیر میں حالات قابوسے باہرہوگئے تھے،2013ء میںکشتواڑ کے علاقے میں بھی بھارت کے خلاف چلنے والی احتجاجی مہم کے دوران بھی وزیراعلیٰ بے بسی کی تصویربنے رہے۔ اکثربھارتی سیاست دان انھیں فارغ کرنے کے مطالبات کرتے رہتے ہیں۔

بھارت نوازوزیراعلیٰ عمرعبداللہ سمجھتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں جوکچھ بھی ہورہا ہے، اس کے ذمہ دار سیدعلی شاہ گیلانی ہیں۔ ان کی بات اس اعتبار سے درست ہے کہ کشمیری قوم میں اس وقت جو جذبہ آزادی ہے، وہ سیدعلی گیلانی ہی کا گرمایاہواہے۔ برطانوی اخبار انڈی پنڈنٹ نے گزشتہ برس اس سوال کاجواب تلاش کرنے کی کوشش کی تھی کہ آخری بھارتی حکومت 83 سالہ بوڑھے شخص سے کیوں خوفزدہ ہے؟ اخبار کا لکھنا تھا کہ سیدعلی گیلانی واحدکشمیری رہنما ہیں جنہوں نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے سوا کوئی دوسرا مطالبہ نہیں کیا۔ بھارت الزام عائد کرتا ہے کہ سید گیلانی کے عسکریت پسندوں سے روابط ہیں تاہم سید گیلانی کہتے ہیں کہ وہ عدم تشدد پر مبنی تحریک چلارہے ہیں۔ ان کی اپیل پر کشمیری عوام اپنی زندگی جام کردیتے ہیں۔ سیدگیلانی کہتے ہیں کہ ان کے پاس بس! یہی ہتھیار ہے۔ اور یہ سب کچھ سیدعلی گیلانی کی مقبولیت کا منہ بولتاثبوت ہے۔

بھارت کا موقف اور پاکستان کی پالیسی
کشمیر کی قابض ریاست بھارت ہمیشہ سے ایک ہی رٹ لگاتی چلی آرہی ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے۔ بھارت کے بقول 25 اکتوبر1947ء کو کشمیرکے مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھ کردیاتھا۔بھارت کا یہ موقف بالکل نرالاہے کیونکہ یہ تقسیم کے فارمولے کے بالکل برعکس ہے۔ ویسے بھی کسی قوم کی مرضی کے خلاف اس پر اپنی حکومت قائم کرنا تمام تر عالمی اور اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

پاکستان اول روز سے ہی مسئلہ کشمیر کے فطری حل پر زور دیتاہے۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت جس فارمولے کے تحت یہاں کے علاقے پاکستان یا بھارت کے ساتھ ملحق ہوئے تھے، اس کے مطابق کشمیر پاکستان کا حصہ بننا چاہئے تھا لیکن لارڈماؤنٹ بیٹن اور اس وقت کی بھارتی قیادت کی ملی بھگت سے کشمیر کو ایک تنازعہ کی شکل دیدی گئی۔ اس حق تلفی کے باوجود پاکستان کا موقف تھا اور ہے کہ کشمیریوں سے پوچھ لیاجائے کہ وہ کیاچاہتے ہیں، پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق یاپھر کوئی تیسرا آپشن۔ اقوام متحدہ نے بھی اسی فطری حل کو پسند کیا اوراستصواب رائے کے ذریعے کشمیریوں کی مرضی معلوم کرکے مسئلہ حل کرنے کو کہا۔ اسی بنیادپر سلامتی کونسل نے ایک قراردادبھی منظورکی لیکن بھارت نے اقوام متحدہ کے حل کو کبھی تسلیم کیا نہ ہی اقوام متحدہ نے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت محسوس کی۔ ویسا دباؤ جیسامشرقی تیمور کی آزادی کے لئے انڈونیشیا پر ڈالاگیاتھا۔

وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران عالمی ادارے کو اس کی ذمہ داریاں یاد کراتے ہوئے کہاتھا کہ وہ اپنی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقدامات کرے۔ انھوں نے کہا کہ کشمیریوں کی آواز نظراندازنہیں کی جاسکتی۔ پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتا ہے۔ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود مسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔اقوام متحدہ کو اس پر توجہ دیناہوگی۔ اسی حوالے سے چندروز پہلے قومی اسمبلی کی ایک خصوصی کمیٹی نے اقوام متحدہ کے حکام کے سامنے ایک میمورنڈم بھی پیش کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں