ملکی معیشت اور آئی ایم ایف
موجودہ حکومت کے پالیسی سازوں کو زرعی شعبے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے
آئی ایم ایف جائزہ مشن کے سربراہ جیفری فرینک نے حکومت پاکستان کی کوششوں کوسراہتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی معیشت درست سمت پرگامزن اوراقتصادی صورتحال تسلی بخش ہے جب کہ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ تمام اقتصادی اہداف حاصل کرلیے اور پہلی سہ ماہی کے دوران ملکی جی ڈی پی گروتھ پانچ فیصد رہی ہے۔ وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق پاکستان اورآئی ایم ایف جائزہ مشن کے درمیان دوسرے اقتصادی جائزہ کے حوالے سے دبئی میں مذاکرات جاری ہیں،اعلامیے میں بتایاگیا کہ آئی ایم ایف جائزہ مشن کو بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ کے دوران ایف بی آر نے 167ارب روپے کی ٹیکس وصولیاں کی ہیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں حاصل ہونے والی ٹیکس وصولیوں کے مقابلہ میں 26 فیصد زیادہ ہیں۔ پہلی سہ ماہی کے دوران جی ڈی پی میں پانچ فیصد اضافہ ہوا، وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے بتایاکہ آیندہ قومی اکاؤنٹس کے لیے بنیادی سال ہر دس سال بعد تبدیل ہوگا،اگلا بنیادی سال 2015 ہوگا۔
ملک کے موجودہ حالات کو سامنے رکھا جائے تو وزارت خزانہ کا اعلامیہ ملکی معیشت کی بہتری کی نوید ہے۔ عمومی خیال یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت زوال کا شکار ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات بیان کی جاتی رہی ہیں لیکن ان میں سے ایک اور سب سے بڑی وجہ یہ قرار دی جاتی ہے کہ ملک میں گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے جاری دہشت گردی ہے۔ اس صورت حال میں ملک میں ایسی فضا پیدا کر دی کہ جس سے معیشت میں نئی سرمایہ کاری کا عمل رک گیا۔ دوسری بڑی وجہ توانائی کا بحران ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ' گیس کی کمی اور پٹرولیم مصنوعات کی مہنگائی کے باعث معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہو گئیں۔ جو صنعتیں موجود بھی تھیں ان کی پیداواری لاگت بھی بڑھ گئی۔ بہت سے صنعتکاروں اور کارخانہ داروں نے اپنے بزنس تبدیل کر لیے۔ کچھ لوگ رئیل اسٹیٹ بزنس کی طرف چلے گئے اور کچھ لوگ پاکستان کے ارد گرد ان ممالک میں کاروبار کرنے لگے جہاں توانائی وافر اور سستی ہونے کے ساتھ ساتھ امن و امان بھی موجود تھا۔ یوں پاکستان میں معاشی سرگرمیاں سکڑنا شروع ہو گئیں۔ بیروز گاری میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہو گیا۔
کراچی میں امن و امان کی صورت حال نے بھی معاشی سرگرمیوں کو متاثر کیا۔ ایسے حالات میں آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کی جانب سے یہ کہناکہ پاکستانی معیشت درست سمت پرگامزن اوراقتصادی صورتحال تسلی بخش ہے' بڑی مثبت خبر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد جو معاشی اصلاحات کی ہیں یا جو معاشی ایجنڈا تیار کیا ہے 'اس پر عالمی مالیاتی ادارے کو اعتماد حاصل ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے مدد بھی فراہم کی ہے۔ اگر آئی ایم ایف پاکستانی معیشت پر اطمینان محسوس کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے بھی پاکستان پر اعتماد کر سکتے ہیں۔ اس وقت ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ گیس کی بھی کمی ہے تاہم یہ امر خوش آیند ہے کہ موجودہ حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے اور یہ کوششیں نظر بھی آ رہی ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ضرور موجود ہے لیکن اس کی شدت ماضی کی نسبت خاصی کم ہے۔ حکومت کی جانب سے جو منصوبے سامنے آ رہے ہیں 'اگر وہ ایک دو برس میں عملی جامہ پہن لیتے ہیں تو پھر کم از کم بجلی کے بحران پر خاصی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح حکومت توانائی کے متبادل ذرایع کی جانب بھی توجہ دے رہی ہے۔ ملک کا نجی شعبہ متبادل توانائی پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ اگر ملک کا نجی شعبہ اپنے ذرایع سے سولر اور دیگر بائیو گیس پر چلا جاتا ہے تو اس سے توانائی پیدا کرنے والے حکومتی اداروں پر دباؤ بہت حد تک کم ہو جائے گا اور گھریلو صارفین کے لیے بجلی اور گیس وافر ہو سکتی ہے۔
وزیراعظم میاں نواز شریف نے نوجوانوں کے لیے قرضہ اسکیم کا اجرا بھی کر رکھا ہے۔ صوبائی حکومتیں بھی اپنے طور پر مسلسل کام کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر خراب حالات کے باوجود ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ بہتری کی جانب جا رہی ہے۔ روٹین کا اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے لیکن مارکیٹ پر وہ صورت حال نہیں آئی جو 2008 میں آئی تھی۔ اسٹاک مارکیٹ بلند ترین شرح پر چل رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ کار وہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ یہ بڑے مثبت اشاریے ہیں۔ تعمیراتی شعبہ بھی بہتری کی جانب گامزن ہے۔ اگر وہ گھر بنا رہے ہیں اور حکومت سڑکیں پل اور ڈیم وغیرہ بنا رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بڑے پیمانے پر روز گار کے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں ۔
یہ ایسا شعبہ ہے جہاں غیر ہنر مند افراد کو بھی بڑی تعداد میں روز گار ملتا ہے۔ البتہ ملک کا زرعی شعبہ اس اعتبار سے ترقی نہیں کر رہا ہے جتنی کہ اسے کرنی چاہیے۔ موجودہ حکومت کے پالیسی سازوں کو زرعی شعبے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے اور اسے اپنی پہلی ترجیح میں رکھنا چاہیے۔ اگر زرعی شعبہ ترقی کرے تو پاکستان میں سبز انقلاب آ سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے کسانوں کو روایتی بیج کی طرف راغب کرنا چاہیے کیونکہ یہ بیج مفت حاصل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح روایتی یعنی آرگینک کھاد کی طرف توجہ دی جائے۔ اس طریقے سے زمین کی فرٹیلٹی میں اضافہ ہو گا اور فصلوں میں بیماریاں بھی کم ہوں گی۔ فصلوں کو لاحق ہونے والی بیماریوںکے خاتمے کے لیے بھی روایتی طریقے استعمال کیے جائیں۔اس طریقے سے حکومت اگر صنعتی اور زرعی شعبے میں توازن رکھ کر چلے تو پاکستان آنے والے چند برسوں میں خوراک میں بھی خود کفیل ہو گا اور یہاں خوشحالی بھی آئے گی۔
ملک کے موجودہ حالات کو سامنے رکھا جائے تو وزارت خزانہ کا اعلامیہ ملکی معیشت کی بہتری کی نوید ہے۔ عمومی خیال یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت زوال کا شکار ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات بیان کی جاتی رہی ہیں لیکن ان میں سے ایک اور سب سے بڑی وجہ یہ قرار دی جاتی ہے کہ ملک میں گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے جاری دہشت گردی ہے۔ اس صورت حال میں ملک میں ایسی فضا پیدا کر دی کہ جس سے معیشت میں نئی سرمایہ کاری کا عمل رک گیا۔ دوسری بڑی وجہ توانائی کا بحران ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ' گیس کی کمی اور پٹرولیم مصنوعات کی مہنگائی کے باعث معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہو گئیں۔ جو صنعتیں موجود بھی تھیں ان کی پیداواری لاگت بھی بڑھ گئی۔ بہت سے صنعتکاروں اور کارخانہ داروں نے اپنے بزنس تبدیل کر لیے۔ کچھ لوگ رئیل اسٹیٹ بزنس کی طرف چلے گئے اور کچھ لوگ پاکستان کے ارد گرد ان ممالک میں کاروبار کرنے لگے جہاں توانائی وافر اور سستی ہونے کے ساتھ ساتھ امن و امان بھی موجود تھا۔ یوں پاکستان میں معاشی سرگرمیاں سکڑنا شروع ہو گئیں۔ بیروز گاری میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہو گیا۔
کراچی میں امن و امان کی صورت حال نے بھی معاشی سرگرمیوں کو متاثر کیا۔ ایسے حالات میں آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کی جانب سے یہ کہناکہ پاکستانی معیشت درست سمت پرگامزن اوراقتصادی صورتحال تسلی بخش ہے' بڑی مثبت خبر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد جو معاشی اصلاحات کی ہیں یا جو معاشی ایجنڈا تیار کیا ہے 'اس پر عالمی مالیاتی ادارے کو اعتماد حاصل ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے مدد بھی فراہم کی ہے۔ اگر آئی ایم ایف پاکستانی معیشت پر اطمینان محسوس کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے بھی پاکستان پر اعتماد کر سکتے ہیں۔ اس وقت ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ گیس کی بھی کمی ہے تاہم یہ امر خوش آیند ہے کہ موجودہ حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے اور یہ کوششیں نظر بھی آ رہی ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ضرور موجود ہے لیکن اس کی شدت ماضی کی نسبت خاصی کم ہے۔ حکومت کی جانب سے جو منصوبے سامنے آ رہے ہیں 'اگر وہ ایک دو برس میں عملی جامہ پہن لیتے ہیں تو پھر کم از کم بجلی کے بحران پر خاصی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح حکومت توانائی کے متبادل ذرایع کی جانب بھی توجہ دے رہی ہے۔ ملک کا نجی شعبہ متبادل توانائی پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ اگر ملک کا نجی شعبہ اپنے ذرایع سے سولر اور دیگر بائیو گیس پر چلا جاتا ہے تو اس سے توانائی پیدا کرنے والے حکومتی اداروں پر دباؤ بہت حد تک کم ہو جائے گا اور گھریلو صارفین کے لیے بجلی اور گیس وافر ہو سکتی ہے۔
وزیراعظم میاں نواز شریف نے نوجوانوں کے لیے قرضہ اسکیم کا اجرا بھی کر رکھا ہے۔ صوبائی حکومتیں بھی اپنے طور پر مسلسل کام کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر خراب حالات کے باوجود ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ بہتری کی جانب جا رہی ہے۔ روٹین کا اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے لیکن مارکیٹ پر وہ صورت حال نہیں آئی جو 2008 میں آئی تھی۔ اسٹاک مارکیٹ بلند ترین شرح پر چل رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ کار وہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ یہ بڑے مثبت اشاریے ہیں۔ تعمیراتی شعبہ بھی بہتری کی جانب گامزن ہے۔ اگر وہ گھر بنا رہے ہیں اور حکومت سڑکیں پل اور ڈیم وغیرہ بنا رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بڑے پیمانے پر روز گار کے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں ۔
یہ ایسا شعبہ ہے جہاں غیر ہنر مند افراد کو بھی بڑی تعداد میں روز گار ملتا ہے۔ البتہ ملک کا زرعی شعبہ اس اعتبار سے ترقی نہیں کر رہا ہے جتنی کہ اسے کرنی چاہیے۔ موجودہ حکومت کے پالیسی سازوں کو زرعی شعبے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے اور اسے اپنی پہلی ترجیح میں رکھنا چاہیے۔ اگر زرعی شعبہ ترقی کرے تو پاکستان میں سبز انقلاب آ سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے کسانوں کو روایتی بیج کی طرف راغب کرنا چاہیے کیونکہ یہ بیج مفت حاصل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح روایتی یعنی آرگینک کھاد کی طرف توجہ دی جائے۔ اس طریقے سے زمین کی فرٹیلٹی میں اضافہ ہو گا اور فصلوں میں بیماریاں بھی کم ہوں گی۔ فصلوں کو لاحق ہونے والی بیماریوںکے خاتمے کے لیے بھی روایتی طریقے استعمال کیے جائیں۔اس طریقے سے حکومت اگر صنعتی اور زرعی شعبے میں توازن رکھ کر چلے تو پاکستان آنے والے چند برسوں میں خوراک میں بھی خود کفیل ہو گا اور یہاں خوشحالی بھی آئے گی۔