میاں صاحب سے ملاقات ہو ہی گئی
میاں صاحب کو خدا نے مکمل اقتدار دیا ہے۔ ان کی کوئی سیاسی اپوزیشن ایسی نہیں جو ان کے اقتدار کے لیے فوری خطرہ ہو
دونوں ایک ہی شہر میں رہتے ہیں اور دونوں کا ایک ہی پیشے سے تعلق بھی ہے۔ ایک کا کام کچھ کہنا اور کہتے رہنا ہے تو دوسرے کا اسے آگے بیان کرنا اور کرتے رہنا ہے۔ دونوں اپنا اپنا کام نہ کریں تو یوں سمجھیں کہ جو کہا گیا وہ کسی دیوار نے سنا اور وہ اس دیوار سے ٹکرا کر گر گیا اور دم توڑ گیا۔ یہ پیشہ ہے سیاست اور صحافت کا دونوں بظاہر الگ الگ ہیں لیکن آپس میں قربت نہ رکھیں جڑ کر نہ رہیں تو پھر وہی ہوتا ہے جو ابھی بیان کیا ہے یعنی کسی دیوار سے ٹکریں مارنے والی بات۔ کل پرسوں یوں ہوا کہ 'برسوں' بعد ملاقات تو ہوئی لیکن مختصر سی ہوئی یعنی دل بھر کے نہ ہوئی ،کسی عاشق و معشوق والی ادھوری سی ملاقات جو کبھی پوری نہیں ہوتی، اب پھر نہ جانے کتنے مہینوں یا برسوں بعد ہو گی۔ یہ سیاستدان تھے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور صحافی تھے ہم سب ،کوئی پندرہ بیس یا کچھ زیادہ۔ یہ ایک غیر رسمی سی ملاقات تھی جو برادر عطا قاسمی کے سرکاری دفتر اور ان کے اہتمام میں صبح کے وقت منعقد ہوئی۔ ادھر ادھر کی بہت باتیں ہوئیں میاں صاحب اپنے تیسرے دور اقتدار میں مہینوں بعد ملے تھے۔
ہر صحافی نے قوم اور اپنے دل کی بات بیان کی اور میاں صاحب نے صفائی کے ساتھ سیاستدانوں کی لگی لپٹی رکھے بغیر جواب دیے۔ میرا اندازہ ہے آپ نے اخباروں میں تفصیلات پڑھ لی ہوں گی۔ میاں صاحب تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی جیسے ہم لوگوں سے بلاوجہ چھپ گئے جب کہ اس کی کوئی معقول وجہ نہ تھی۔ وہ بھاری بھر کم عوامی اتفاق رائے سے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں اس پر وہ جتنا فخر بھی کریں کم ہے اور خیال یہ ہے کہ بلکہ پختہ خیال ہے کہ اب پہلے کی طرح انھیں بیچ میں نہیں ٹوکا جائے گا وہ بھی آصف زرداری صاحب کی طرح اپنی پانچ سالہ آئینی میعاد پوری کریں گے۔ یہ بیچ میں ٹوکنے والے ہمارے ہاں فوجی ہوتے ہیں لیکن ہماری فوج اب مارشل لا لگاتے لگاتے تھک گئی ہے یا ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر پرویز مشرف نے اسے تھکا اور ڈرا دیا ہے۔ یہ اس کے سامنے ہے جو ایک اسپتال کے کمرے میں دبکا پڑا ہے۔ اس کا بلڈ پریشر چیک کیا جاتا ہے اور بار بار ٹمپریچر بھی لیا جاتا ہے یہ کسی بھی اسپتال کا معمول ہے جو اپنے مریض کی جسمانی اور قلبی حالت کا دھیان رکھتا ہے لیکن اس مریض کے دل کی نہیں اس کی تو ذہنی حالت زیادہ مخدوش ہے بہر حال طبی رپورٹیں جو بھی ہیں یہ مریض سب کے لیے عبرت ہے وہ کل تک سپہ سالار اعظم تھا آج خود پناہیں تلاش کرتا پھر رہا ہے جانا کہیں ہوتا ہے چلا کہیں جاتا ہے جو بھی ہے یہ سب عبرت کا مقام بھی ہے اور ایک سبق بھی ہے۔
دنیا کے وسائل کچھ بھی ہوں اور اسباب کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں لیکن مسبب الاسباب کوئی اور ہے اسی کی خوشنودی ہی اصل طاقت ہے آخری طاقت۔ ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں یعنی خدا پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اس کے واضح اور ابدی فیصلوں کو عملاً تسلیم نہیں کرتے مثلاً یہی صحت و بیماری کا اختیار اس نے اپنے پاس رکھا ہے علاج معالجے کی بھی اجازت ہے اور یہ اس کی ضمانت ہے کہ انسان کو بھی کچھ اختیارات منتقل اور ودیعت کر دیے گئے ہیں۔ بات تو میاں صاحب کی وزارت کی ہو رہی تھی کہ حالات و اسباب اس کے موافق ہیں وہ چلتی رہے گی اور عین ممکن ہے ان سے پھر بھی کبھی ملاقات بھی ہو جائے اسی وزارت عظمیٰ کے عہد میں لیکن ان کی سادگی حیاداری اور پیار تو ہر حال میں زندہ رہے گا یہ سب ان کی پیدائشی خوبی ہے۔ وہ سیاستدان ہیں مگر چالاک نہیں صاف دل اور صاف گو ہیں بے تکلف۔
اس ملاقات میں ملک کے تازہ حالات پر گفتگو ہوئی۔ طالبان سے مذاکرات تو سر فہرست تھے ہی دوسرے بعض معاملات بھی تھے۔ مہنگائی اور بدامنی جس کی وجہ سے ایک ہمہ گیر اشتعال پھیل چکا ہے۔ قتل ایک معمول بن گیا ہے چوری ڈاکے روزانہ کی خبر ہیں اور بھی بہت سی سماجی برائیاں ہمارے گلے پڑ گئی ہیں یہانتک کہ بچیوں کو بھی معاف نہیں کیا جا رہا میں نے اس بارے میں صرف اتنا عرض کیا کہ بدامنی پر قابو پانے کے لیے تو کسی قرض اور بیرونی امداد کی کی ضرورت نہیں۔ ہماری پولیس موجود ہے اسے سرگرم اور بیدار کرنا ہے۔ جب شرکاء محفل بولنے پر بے تاب ہوں اور یہ ان کا حق تھا تو بات ادھوری رہ جاتی ہے بس اس ضمن میں عدلیہ کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا تھا اور یہ جو سابقہ حکومت نے یورپ کی پیروی میں سزائے موت کو معطل کر دیا تو اس سے قاتل شیر اور بے خوف ہو گئے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بات بات پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ جان و مال کی حفاظت کسی جدید حکومت کا اولین فرض اور اس کے قیام کی بنیادی وجہ اور جواز ہے جو حکومت عوام کی جان و مال کی حفاظت نہیں کرتی وہ ملزم ٹھہرتی ہے اور بے مقصد بھی۔ دنیا کے وہ ممالک جن کو ہم مہذب کہتے ہیں وہ اس کے سوا کیا کرتے ہیں کہ عوام کی جان و مال اور ان کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس وصف میں جو حکومت جتنی کامیاب ہو وہ اتنی ہی مہذب اور شائستہ کہلاتی ہے۔
میاں صاحب کو خدا نے مکمل اقتدار دیا ہے۔ ان کی کوئی سیاسی اپوزیشن ایسی نہیں جو ان کے اقتدار کے لیے فوری خطرہ ہو۔ سول حکومتوں کے لیے جو ایک مستقل خطرہ ہمارے ہاں موجود رہتا ہے یعنی فوج وہ بھی لگتا ہے کہ ان کے لیے نہیں ہے۔ اب یہ میاں صاحب کا کام ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا نہ ہونے دیں جو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بن جائیں اور فوج حکومت کے لیے نہیں ان حالات پر قابو پانے کے لیے باہر آ جائے۔ غور و فکر کرنے والے کئی درد مند پاکستانیوں کے لیے بیرونی خطرے محسوس کیے جا رہے ہیں۔ مذاکرات کا عمل شروع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو پاکستانی ہیں وہ تو اس مذاکراتی عمل میں شریک ہوں گے لیکن جو باہر سے آئے ہیں ان کا مقصد تو اس ملک کا خاتمہ ہے۔ ہم ان کے لیے کتنی ہی سہولتیں پیدا کر دیں راستے کھول دیں ویزے عام کر دیں اسے وہ تعلقات کی کسی بہتری کے معنوں میں نہیں لیں گے بلکہ ان سے غلط فائدہ اٹھائیں گے۔ میاں صاحب پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔
میاں صاحب سے ملاقات کا موقع ملنے کا شکریہ کیا امید رکھیں کہ وہ یہ سلسلہ جاری رکھیں گے اور اس سلسلے کا جاری رکھنا اقتدار کے لیے بہت مفید ہے کیونکہ ہمارے صحافی پاکستان کے صحافی ہیں سوائے ان دو چار کے جو پاکستان کے علاوہ بھی کسی کے صحافی ہیں۔ بہر کیف ان کو ہم خود قابو کر لیں گے میاں صاحب ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رکھیں اس میں ان کو ایسے مشورے ملیں گے جو ان کے وزیر اور افسر انھیں نہیں دیا کرتے کیونکہ ہر ایک کا کوئی نہ کوئی محدود مقصد ہوتا ہے۔ پورے ملک کی نمایندگی کوئی صحافی کرتا ہے جس طرح میاں صاحب اس الیکشن کے بعد ملک بھر کی نمایندگی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور حفاظت بھی۔
ہر صحافی نے قوم اور اپنے دل کی بات بیان کی اور میاں صاحب نے صفائی کے ساتھ سیاستدانوں کی لگی لپٹی رکھے بغیر جواب دیے۔ میرا اندازہ ہے آپ نے اخباروں میں تفصیلات پڑھ لی ہوں گی۔ میاں صاحب تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی جیسے ہم لوگوں سے بلاوجہ چھپ گئے جب کہ اس کی کوئی معقول وجہ نہ تھی۔ وہ بھاری بھر کم عوامی اتفاق رائے سے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں اس پر وہ جتنا فخر بھی کریں کم ہے اور خیال یہ ہے کہ بلکہ پختہ خیال ہے کہ اب پہلے کی طرح انھیں بیچ میں نہیں ٹوکا جائے گا وہ بھی آصف زرداری صاحب کی طرح اپنی پانچ سالہ آئینی میعاد پوری کریں گے۔ یہ بیچ میں ٹوکنے والے ہمارے ہاں فوجی ہوتے ہیں لیکن ہماری فوج اب مارشل لا لگاتے لگاتے تھک گئی ہے یا ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر پرویز مشرف نے اسے تھکا اور ڈرا دیا ہے۔ یہ اس کے سامنے ہے جو ایک اسپتال کے کمرے میں دبکا پڑا ہے۔ اس کا بلڈ پریشر چیک کیا جاتا ہے اور بار بار ٹمپریچر بھی لیا جاتا ہے یہ کسی بھی اسپتال کا معمول ہے جو اپنے مریض کی جسمانی اور قلبی حالت کا دھیان رکھتا ہے لیکن اس مریض کے دل کی نہیں اس کی تو ذہنی حالت زیادہ مخدوش ہے بہر حال طبی رپورٹیں جو بھی ہیں یہ مریض سب کے لیے عبرت ہے وہ کل تک سپہ سالار اعظم تھا آج خود پناہیں تلاش کرتا پھر رہا ہے جانا کہیں ہوتا ہے چلا کہیں جاتا ہے جو بھی ہے یہ سب عبرت کا مقام بھی ہے اور ایک سبق بھی ہے۔
دنیا کے وسائل کچھ بھی ہوں اور اسباب کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں لیکن مسبب الاسباب کوئی اور ہے اسی کی خوشنودی ہی اصل طاقت ہے آخری طاقت۔ ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں یعنی خدا پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اس کے واضح اور ابدی فیصلوں کو عملاً تسلیم نہیں کرتے مثلاً یہی صحت و بیماری کا اختیار اس نے اپنے پاس رکھا ہے علاج معالجے کی بھی اجازت ہے اور یہ اس کی ضمانت ہے کہ انسان کو بھی کچھ اختیارات منتقل اور ودیعت کر دیے گئے ہیں۔ بات تو میاں صاحب کی وزارت کی ہو رہی تھی کہ حالات و اسباب اس کے موافق ہیں وہ چلتی رہے گی اور عین ممکن ہے ان سے پھر بھی کبھی ملاقات بھی ہو جائے اسی وزارت عظمیٰ کے عہد میں لیکن ان کی سادگی حیاداری اور پیار تو ہر حال میں زندہ رہے گا یہ سب ان کی پیدائشی خوبی ہے۔ وہ سیاستدان ہیں مگر چالاک نہیں صاف دل اور صاف گو ہیں بے تکلف۔
اس ملاقات میں ملک کے تازہ حالات پر گفتگو ہوئی۔ طالبان سے مذاکرات تو سر فہرست تھے ہی دوسرے بعض معاملات بھی تھے۔ مہنگائی اور بدامنی جس کی وجہ سے ایک ہمہ گیر اشتعال پھیل چکا ہے۔ قتل ایک معمول بن گیا ہے چوری ڈاکے روزانہ کی خبر ہیں اور بھی بہت سی سماجی برائیاں ہمارے گلے پڑ گئی ہیں یہانتک کہ بچیوں کو بھی معاف نہیں کیا جا رہا میں نے اس بارے میں صرف اتنا عرض کیا کہ بدامنی پر قابو پانے کے لیے تو کسی قرض اور بیرونی امداد کی کی ضرورت نہیں۔ ہماری پولیس موجود ہے اسے سرگرم اور بیدار کرنا ہے۔ جب شرکاء محفل بولنے پر بے تاب ہوں اور یہ ان کا حق تھا تو بات ادھوری رہ جاتی ہے بس اس ضمن میں عدلیہ کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا تھا اور یہ جو سابقہ حکومت نے یورپ کی پیروی میں سزائے موت کو معطل کر دیا تو اس سے قاتل شیر اور بے خوف ہو گئے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بات بات پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ جان و مال کی حفاظت کسی جدید حکومت کا اولین فرض اور اس کے قیام کی بنیادی وجہ اور جواز ہے جو حکومت عوام کی جان و مال کی حفاظت نہیں کرتی وہ ملزم ٹھہرتی ہے اور بے مقصد بھی۔ دنیا کے وہ ممالک جن کو ہم مہذب کہتے ہیں وہ اس کے سوا کیا کرتے ہیں کہ عوام کی جان و مال اور ان کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس وصف میں جو حکومت جتنی کامیاب ہو وہ اتنی ہی مہذب اور شائستہ کہلاتی ہے۔
میاں صاحب کو خدا نے مکمل اقتدار دیا ہے۔ ان کی کوئی سیاسی اپوزیشن ایسی نہیں جو ان کے اقتدار کے لیے فوری خطرہ ہو۔ سول حکومتوں کے لیے جو ایک مستقل خطرہ ہمارے ہاں موجود رہتا ہے یعنی فوج وہ بھی لگتا ہے کہ ان کے لیے نہیں ہے۔ اب یہ میاں صاحب کا کام ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا نہ ہونے دیں جو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بن جائیں اور فوج حکومت کے لیے نہیں ان حالات پر قابو پانے کے لیے باہر آ جائے۔ غور و فکر کرنے والے کئی درد مند پاکستانیوں کے لیے بیرونی خطرے محسوس کیے جا رہے ہیں۔ مذاکرات کا عمل شروع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو پاکستانی ہیں وہ تو اس مذاکراتی عمل میں شریک ہوں گے لیکن جو باہر سے آئے ہیں ان کا مقصد تو اس ملک کا خاتمہ ہے۔ ہم ان کے لیے کتنی ہی سہولتیں پیدا کر دیں راستے کھول دیں ویزے عام کر دیں اسے وہ تعلقات کی کسی بہتری کے معنوں میں نہیں لیں گے بلکہ ان سے غلط فائدہ اٹھائیں گے۔ میاں صاحب پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔
میاں صاحب سے ملاقات کا موقع ملنے کا شکریہ کیا امید رکھیں کہ وہ یہ سلسلہ جاری رکھیں گے اور اس سلسلے کا جاری رکھنا اقتدار کے لیے بہت مفید ہے کیونکہ ہمارے صحافی پاکستان کے صحافی ہیں سوائے ان دو چار کے جو پاکستان کے علاوہ بھی کسی کے صحافی ہیں۔ بہر کیف ان کو ہم خود قابو کر لیں گے میاں صاحب ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رکھیں اس میں ان کو ایسے مشورے ملیں گے جو ان کے وزیر اور افسر انھیں نہیں دیا کرتے کیونکہ ہر ایک کا کوئی نہ کوئی محدود مقصد ہوتا ہے۔ پورے ملک کی نمایندگی کوئی صحافی کرتا ہے جس طرح میاں صاحب اس الیکشن کے بعد ملک بھر کی نمایندگی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور حفاظت بھی۔