سی سی ٹی وی نصب کرنے کی تلاش
انسان کا اصلی مزاج مگر اس کی نفسیات میں مضمر ہوتا ہے اور مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی...
ISLAMABAD:
1975 میں جب میں اسلام آباد آیا تو اس شہر میں چوری، ڈکیتی اور دیگر سنگین جرائم کی کہانیاں بہت برسوں تک سننے کو نہیں ملیں۔ جرائم سے پاک ماحول کا عادی ہو جانے کی وجہ سے میں نے اپنی شادی تک گھر کے دروازوں اور کھڑکیوں کو سونے سے پہلے کبھی بند کرنے کا تردد ہی نہیں کیا۔ اس عادت کو اپنانے کے لیے بہت عرصہ لگا۔ پھر ایک بار جب ہمارا گھر بند تھا اور وہاں کوئی ملازم وغیرہ بھی موجود نہ تھا تو چوروں نے گھس کر اس کا صفایا کر دیا۔ 1992 میں ہوئی اس واردات کے بعد میں کچھ چوکنا ہو گیا۔ مگر خوف و ہیجان کا شکار ہر گز نہ ہوا۔ میرے اطمینان کے یہ دن اس پیر کی صبح سے ختم ہو گئے ہیں۔
اسلام آباد بھی اب جرائم سے ہرگز محفوظ نہیں۔ علی الصبح 6 بجے کے قریب کوئی نامعلوم شخص ہمارے باورچی خانے کی کھڑکی اور اس پر لگی جالی کو توڑ کر گھر کے اندر داخل ہو گیا۔ بظاہر اس نے بڑے اطمینان سے میرے گھر کی الماریوں اور میزوں کی خوب تلاشی لی۔ اسے کوئی نقدی اور زیور نہ ملا تو بالآخر اس نے مین بیڈ روم میں گھسنا چاہا۔ وہاں موجود کتے چوکنا ہو کر پریشانی میں مسلسل بھونکنا شروع ہو گئے اور چور گھبرا کر فرار ہو گیا۔ مختصراََ چوروں نے میرے گھر کا راستہ جان لیا ہے۔ اگلی بار شاید وہ میرے کتوں پر قابو پانے کی پوری تیاری کے ساتھ آئیں گے۔ اس دوران مجھے مشورہ ملا ہے تو اتنا کہ میں اپنے گھر کی دیواروں کو اور اونچا کر دوں۔ اپنی کھڑکیوں اور دروازوں کو مزید محفوظ و مضبوط بناؤں اور کم از کم چار مقامات پر CCTV بھی نصب کرواؤں۔ اپنی جان و مال کے خوف سے کہیں زیادہ یہ سب کچھ میں اپنی بیوی اور بچوں کو سیکیورٹی کا کچھ احساس دلانے کے لیے ہر صورت کروں گا۔ اسلام آباد سے وابستہ میرا سکون اور اطمینان مگر اب میرے دل و دماغ میں شاید کبھی واپس نہیں لوٹ سکے گا۔
شکیل انجم جیسے صحافی بھائیوں کی مدد سے اسلام آباد پولیس کے آئی جی سے لے کر متعلقہ تھانے کے چھوٹے اہلکاروں تک مجھے تسلی دینے کو ہمہ وقت سرگرم ہیں۔ بڑی محنت سے انھوں نے ایک کھڑکی کے شیشوں اور ایک دراز میں رکھے میرے ATM پر پائے گئے فنگر پرنٹس کو ڈھونڈ نکالا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ میرے گھر گھسنے والا 30 سال سے کم عمر کا ایک لمبا اور پتلا شخص ہے۔ وہ صرف F-8 کے علاقوں میں موجود گھروں کو نشانہ بناتا ہے۔ کھڑکی کے ذریعے صبح پانچ اور چھ بجے کے درمیان کسی گھر میں داخل ہوتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ہینگروں پر لٹکے کپڑوں، میزوں اور الماریوں کی درازوں سے اسے کچھ نقدی یا زیورات مل جائیں۔ بظاہر وہ گھر میں گھس کر اس کے مکینوں کو ڈرا دھمکا کر واردات کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ابھی تک یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ وہ کسی جرائم پیشہ گروہ کا حصہ نہیں۔ اکیلے واردات کرتا ہے۔ آج سے چند ماہ پہلے اس نے F-8/3 کی گلی نمبر 10 میں جا کر کچھ نقدی اٹھائی تھی۔ اس گھر میں CCTV نصب تھا مگر وہ چادر میں چھپے اس کے چہرے کو پوری طرح ریکارڈ نہیں کر سکا۔ دو ہفتے پہلے شاید یہی شخص F-8 کے ایک اور مکان میں بھی گھسا تھا۔ میرے دوستوں کی اکثریت اس بات پر کافی مطمئن ہے کہ میرے گھر میں در آنے والا شخص ہمیں کوئی شدید مالی اور جانی نقصان نہ پہنچا پایا۔ ان کا اطمینان قطعاََ ایک منطقی بات ہے۔
انسان کا اصلی مزاج مگر اس کی نفسیات میں مضمر ہوتا ہے اور مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی کہ میرے گھر سے تقریباََ خالی ہاتھ اور ایک حوالے سے گویا مایوس لوٹ جانے کے باوجود پیر کی صبح وہاں در آنے والے شخص نے میرے اور میرے بیوی بچوں کے دل و دماغ میں ایک شدید قسم کا خوف یقیناً پیدا کر دیا ہے۔ ہم سب خود کو اب Vulnerable سمجھنا شروع ہو چکے ہیں۔ میرے اندر بیٹھا ایک عادی مسخرا اس خوف اور احساسِ عدم تحفظ کو پھکڑ پن سے رفع کرنے میں بالکل ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ دل میں پیار کے جذبات شدت سے اُمڈ کر آ رہے ہیں تو اپنے کتوں کے لیے جنہوں نے شور کا طوفان کھڑا کر کے در آنے والے نامعلوم شخص کو حواس باختہ کر دیا۔ میں ان کا بڑا شکر گزار ہوں اور اس بات پر بار بار شرمندہ کہ کبھی کبھار میں کتے پالنے کی عادت سے تنگ کیوں آ جاتا ہوں۔ کاش کہ میرے کتے اخبار پڑھ سکتے اور میں اس کالم کے ذریعے اپنے شکر گزاری کے جذبات ریکارڈ پر لا سکتا۔ فی الحال تو فوری تلاش مجھے CCTV نصب کرنے والے کسی ماہر کی ہے جو مجھے تھوڑا بہت اطمینان فراہم کر سکے۔